بے غیرت — دلشاد نسیم

نبی بخش پنچایت لگا کر بیٹھا ہوا تھا۔ تابع دار، فرماں بردار کمیوں کے درمیان اونچا شملہ! وہ خود کو دنیا کا معزز ترین انسان سمجھ رہا ہو گا مگر اللہ کے سوا کسی کو بڑائی سجتی ہی کہاں ہے؟ اور جو ایسا سوچتا ہے۔ اللہ نے اس کے لیے خود سزا رکھ دی ہے۔ لاڈلا جو حلیے سے کمیوں کے بچوں سے بھی گیا گذرا لگ رہا تھا، نبی بخش کے اونچے سفید اجلے شملے کو داغ دار کرنے، اس کو جھکانے کے لیے کافی تھا۔ نبی بخش حشمت کے ساتھ لاڈلے کو دیکھ کر گرجا: ’’حشمت… اسے لے کر یہاں کیوں آئے ہو۔‘‘
’’ابا! مجھے اُس نے تھپڑ مارا ہے۔‘‘حشمت کی بہ جائے لاڈلا بولا۔
’’کس نے…؟‘‘ نبی بخش کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
’’عبدل نے‘‘ اس نے ہونٹ لٹکا کر روتے ہوئے کہا۔
نبی بخش کواس وقت درحقیقت عبداللہ پہ غصہ نہیں آیا تھا۔ غصہ اس کو لاڈلے پہ ہی آرہا تھا… مصنوعی رنگ برنگے مٹی سے میلے پھولوں کا سہرا اور ننگے پیروں والا لاڈلا۔ نبی بخش کی برداشت اس وقت بالکل ختم ہوگئی جب پنچائیت میں کچھ لوگوں نے سر نیچا کرکے مذاق اڑایا اور ہنسے۔ نبی بخش وہاں سے لاڈلے کو تقریباً گھسیٹتا ہوا حویلی لے گیا۔ نبی بخش کو حشمت پہ بھی غصہ تھا۔ کیا کہا تھا جو وہ لاڈلے کو پنچایت میں لانے کے بجائے گھر ہی لے جاتا… ادھر عبداللہ کی حالت بہت عجیب سی ہورہی تھی۔ اس نے دور سے دیکھا۔ نواز کھلے میدان میں بچوں کو پڑھا رہا تھا۔ عبداللہ کو آتا دیکھ کر پڑھاتے پڑھاتے نواز رک گیا اور عبداللہ فاصلے پہ کھڑا ہو گیا۔ نواز خود ہی چلتا ہوا عبداللہ کے پاس آگیا اور ملتجی سے انداز میں بولا:
’’آج بہت دیر سے آئے۔ خیر ہے ناں…؟‘‘
عبداللہ نے لمبا گہرا سانس لیا اور آنسو روک کر ضبط کے سارے پُل ایک لمحے میں تیار کیے اور بھرائی آواز اور کانپتے ہاتھ سے اپنے بستے سے کتاب نکالی۔
’’آپا نے کہا ہے کہ اب ان کو اور کوئی کتاب نہیں چاہیے۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘ نواز نے کتاب لیتے لیتے سینکڑوں وسوسوں کو پچھاڑ کر پوچھا۔
’’ان کی شادی ہونے والی ہے۔میرے چاچے کے بیٹے لاڈلے سے۔‘‘ عبداللہ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔
نواز پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ یہ تو اس سے صفیہ نے بھی ذکر کیا تھا مگر اتنی جلدی یہ سلسلہ چل پڑ ے گا، یہ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا۔
’’آج مجھ سے پڑھا نہیں جائے گا سر… میں…‘‘ اس سے آگے عبداللہ سے کچھ بولا نہ گیا۔
وہ ہاتھ کی پشت سے آنکھیں صاف کر کے واپس جانے لگا لیکن آگے جاکر رک گیا۔ یہ جانے بغیر کہ اس نے اپنے پیچھے کیا دھماکا کردیا ہے…





عبداللہ پلٹا، پہلے تو اس نے خشک حلق کو تھوک سے تر کیا، ہونٹوں پہ زبان پھیری… لمبے لمبے سانس لیے اور چھوٹے چھوٹے قدموں سے نواز کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اور بہت آزردگی سے ٹوٹے لہجے میں بولا:
’’سر! آپ میری آپا سے شادی کرلیں… وہ بہت اچھی ہے بہت۔‘‘ عبداللہ کا سر جھکا ہوا تھا اور ہاتھ جڑے ہوئے تھے۔
’’لاڈلا تو پاگل ہے… اور چاچا بہت ظالم۔ میری آپا کو یہ لوگ جان سے مار دیں گے۔‘‘ عبداللہ گڑگڑا کر اس سے التجا کر رہا تھا۔
عبداللہ نے ذرا سا سر اُٹھاکر دیکھا، نواز ابھی تک حق دق کھڑا تھا۔ وہ حیران بھی ہو رہا تھا اور خوش بھی۔ اسے تو یہ بات ہی بہت اچھی لگی کہ عبداللہ چھوٹا ہو کر بڑی بہن کی خوشیوں کے لیے کیسے تڑپ رہا ہے۔ عبداللہ نے فوراً نظریں چرا لیں۔ وہ سمجھا کہ اس کی بات پر نواز پریشان ہے۔ عبداللہ شرمندہ ہو گیا۔ آنکھیں اپنی ہتھیلی سے صاف کرتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
نواز کبھی ہاتھ میں تھمی کتاب کو دیکھتا تو کبھی عبداللہ کو مگر نواز خود اس کہانی کا سب سے بڑا کردار تھا۔ صفیہ، عبداللہ اور لاڈلے میں سے سب سے بڑا کردار جو کہانی کا رُخ موڑ سکتا تھا۔ اس کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا تھا۔ اسے ڈر تھا کہیں صفیہ نے ہتھیار نہ ڈال دیئے ہوں۔ وہ بے صبری سے کتاب کھولتا ہے۔ وہ جانتا تھا جو وہ چاہتی ہے اس نے کتاب میں لکھ بھیجا ہوگا۔ یہ کتاب ہی تو دونوں کے درمیان پل تھی۔ نواز نے کتاب کا خاکی کور اتارا اور صفیہ کا لکھا ہوا خط نکالا۔ خط کیا تھا، جدائی کا پیغام تھا۔ نواز کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا مگر وہ پڑھتا رہا۔
’’نواز تم تو ہمیشہ سے میرا خواب تھے اور میں یہ بھول گئی کہ خواب تو وہ کھلونا ہیں جس کے مقدر میں آنکھ کھلتے ہی ٹوٹ جانا لکھا ہے۔ اب مجھے کوئی کتاب نہ بھیجنا۔ میں پڑھ نہیں سکوں گی اور نہ ہی تمہارے لفظوں کی، جذبات کی حفاظت کرپاؤں گی… بس دعا کرنا میں تمہیں بھول سکوں۔‘‘
نواز کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا مگر اس نے فیصلہ کرلیا… ایک لمحے میں زندگی بھر کا فیصلہ ہوگیا۔ وہ رات بہت قیامت کی رات تھی، لاڈلا کئی بار اٹھا، اسے باپ کے تھپڑ نے باپ کے خلاف کردیا۔ وہ دیوانہ وار باپ کی گردن دبانے کے لیے نبی بخش کی طرف لپکتا رہا۔ پہلے عبداللہ پھر رہی سہی کسر نبی بخش نے پوری کر دی۔ لاڈلے کو زلیخاں کے سامنے جھٹکے سے پھینکا۔ لاڈلا اس تیزی سے باپ کے مقابل آکھڑا ہوا اور چیخا: ’’تو لے کے آئو ناں۔ میری دلہن۔‘‘
نبی بخش سے برداشت نہ ہوا، اس نے زناٹے دار تھپڑ لاڈلے کے منہ پر رسید کر دیا۔ لاڈلا بپھر گیا۔ نبی بخش جانے لگا تو لاڈلے نے اس کی گردن دبوچ لی۔ سب حیران رہ گئے۔ فرید نے پہرہ سخت کردیا اور خیراں بھی جاگتی رہی۔ ڈاکٹر کو بلاکر لاڈلے کو نیند کا انجکشن لگوا دیا گیا۔
انجکشن کی چبھن تو کیا ہوگی جو لاڈلے نے سہی، اصل تکلیف تو زلیخاں سہ رہی تھی۔ اپنے خواب گاہ میں جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے کے چکر کاٹتا نبی بخش سہ رہا تھا۔
صفیہ عشا کی نماز پڑھ کر اللہ سے دکھ سکھ کررہی تھی۔
’’بھلا کوئی خود سے کسی کی محبت ڈال سکتا ہے دل میں۔ تو جانتا ہے ناں یہ بھی تیری رضا اور عطا ہے۔ تو چاہے تو پتھر موم کردے… میرا دل بھی موم ہوگیا۔ تیری نظرِ عنایت… تو پھر تیری نظرِ عنایت جرم کیسے ہو گئی۔ مجھے نواز کو اپنی زندگی سے نکالنے کا حکم نامہ کیوں ملا ہے؟ میرے پاس تو سوائے عبداللہ اور نواز کے کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے اللہ تُو تو سب کچھ جانتا ہے۔‘‘
صفیہ کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہ رہے تھے۔ عبداللہ چارپائی پر بیٹھا صفیہ کو نماز اور طویل دعا کے درمیان مسلسل روتا دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کاش میں چھوٹا بھائی نہ ہوتا آپا کا بڑا بھائی ہوتا تو دیکھتا کہ کوئی ایسا کیسے فیصلہ کرتا ہے۔ اب بھی اس سے جو بن پڑا تھا اس نے کیا… تب ہی دروازے پر ہونے والی دستک نے عبداللہ کو چونکا دیا اور بارگاِ الٰہی میں ہاتھ بلند کیے صفیہ کا دل بھی زور سے دھڑکا… وہ نہیں جانتی تھی کہ قبولیت کی گھڑی میں اس نے اللہ سے محبت مانگ لی ہے۔ دروازے پر نواز کھڑا تھا۔ نواز مسلسل دائیں بائیں دیکھ رہا تھا اور عبداللہ کے دروازہ کھولتے ہی بولا:
’’فوراً اٹھو! نکلو ہم ابھی یہ جگہ چھوڑ رہے ہیں۔ جلدی کرو۔‘‘
صفیہ اور عبداللہ نے ایک دوسرے کو دیکھا مگر نواز بہت جلدی میں تھا۔
’’شہر کو جانے والی ٹرین کی ٹکٹ لے لی ہے میں نے، دو گھنٹے میں ٹرین چل پڑے گی۔ سٹیشن کا راستہ آدھے گھنٹے کا ہے مگر ہمیں وہاں جلدی پہنچنا ہے۔‘‘
صفیہ اور عبداللہ ناسمجھی کی کیفیت ہی میں تھے۔ عبداللہ کمرے سے صفیہ کی چادر لے آیا۔ صفیہ نے سیاہ چادر اپنے اردگرد اچھی طرح لپیٹی اور وہ تینوں گھر سے باہر نکل آئے صفیہ عبداللہ کا ہاتھ تھامے ہوئی تھی۔ عبداللہ ساتھ چل رہا تھا مگر خود صفیہ عبداللہ اور نواز کے درمیان ایسے تھی جیسے ہوا میں اڑ رہی ہو تینوں کے سائے ایک ساتھ قدم اٹھا رہے تھے مگر یک بہ یک جھاڑیوں میں سر سراہٹ سی ہوئی، خاموشی کی آواز میں دوسری آواز ملی تو تینوں کے چہرے سفید پڑ گئے۔ قیامت کی ٹھنڈ میں پسینہ آگیا۔ ان تینوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ اور مضبوطی سے پکڑ لیے لیکن جھاڑیوں سے آگ کا شعلہ لپکا بندوق کی گولی نواز کی ٹانگ میں پیوست ہوگئی۔ نواز گرگیا… جھاڑیوں میں آخری سرسراہٹ ہوئی اور فضا میں موت کا سناٹا چھاگیا۔ صفیہ غم سے نڈھال ہوکر گر گئی۔ عبداللہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اس صورتِ حال سے کیسے نکلے؟
’’اب کیا کریں آپا…؟‘‘ عبداللہ حواس باختہ آپا سے مخاطب ہوا۔
’’تم دونوں چلے جاؤ یہ ٹکٹ ہیں۔‘‘ نواز نے درد کو ضبط کرکے اپنی قمیص کی جیب سے ٹکٹ نکال کر نواز کو دیے۔
’’میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔‘‘صفیہ روتے ہوئے بولی۔
’’تمہیں جانا ہے تم کو… میری قسم یہاں سے بھاگ جائو۔‘‘ نواز ہاتھوں سے اپنی ٹانگ مضبوطی سے پکڑے کہہ رہا تھا۔
نواز کی آنکھیں بند ہورہی تھیں، عبداللہ نے آپا کو دیکھا۔
صفیہ نے انکار میں سر ہلایا۔
’’اچھے بھائی ہو نا؟ تم چاہتے ہو نا کہ آپا کی شادی لاڈلے سے نہ ہو تو لے جاؤ اس کو۔ جان بچا لو اپنی بھی اور اس کی بھی… اب تم دونوں کو چودھری زندہ نہیں چھوڑے گا۔‘‘نواز نے عبداللہ کا ٹھنڈا یخ ہاتھ پکڑ کرالتجا کی۔
عبداللہ کی آنکھوں میں ممکنہ موت کا خوف لہرا گیا۔ چہرہ زرد ہو گیا۔
’’جاؤ… صفیہ…جائو۔‘‘ نواز کی آواز کم زور پڑ گئی۔
صفیہ سکتے میں آگئی۔ اس کی نظر نواز کے بہتے ہوئے خون پر تھی۔ وہ خود کو گناہ گار سمجھ رہی تھی کہ اس کی وجہ سے اس کی محبت کی وجہ سے… نواز اس حال تک پہنچ گیا… اس سے آگے وہ سوچنا، سمجھنا چاہ ہی نہیں رہی تھی مگر سچ تو یہ تھا کہ اب نواز نہیں بچے گا۔ خون بے حساب بہ رہا تھا۔ رات کے اندھیرے میں کسی کا اس کی مدد کو آنا ناممکن تھا۔ صفیہ نے اس کو ایسے دیکھا جیسے میت کا آخری دیدار کرتے ہیں۔ پھر کبھی نہ دیکھ سکنے والی الوداعی نظر…
نواز کے حواسوں نے تکلیف کی اذیت سہنے سے انکار کردیا اور وہ آہستہ آہستہ بے ہوشی میں جارہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا… اور اچھا ہوا، ورنہ وہ کیسے دیکھتا؟ کیسے سہتا… کہ اس کی پیاری پاکیزہ اور باحیا صفیہ کو اس کے چچا… اس کے ہونے والے سسر نے بھری پنچایت میں نواز کے نام کی گالی دے کر غلیظ تہمت لگا دی ہے۔
وہ کیسے دیکھتا کہ معصوم عبداللہ جو اپنی آپا کو قدرت کا صحیفہ سمجھتا تھا، اس کا سر جھکا دے گی۔
٭…٭…٭
پنچایت کا ہر بندہ منہ کھولے، آنکھیں پھاڑے سر سے پیر تک چادر اوڑھے بے حیا صفیہ کو گھور رہا تھا اور بے غیرت بھائی پر لعنتیں بھیج رہا تھا جو اپنی بہن کو اس کے عاشق کے ساتھ خود بھگا رہا تھا۔
چوہدری نبی بخش نے حلق کی پوری طاقت کے ساتھ چیخ کر کہا:
’’حشمت! پستول دے اس بے غیرت کے ہاتھ میں۔‘‘
حشمت نے حکم کی تعمیل میں پستول آگے بڑھا دیا مگر عبداللہ کو ہاتھ بڑھانے اور پستول پکڑنے میں کئی صدیاں لگ گئیں۔
’’عبداللہ آج اگر تو نے خاندان کی کالک کو اسی کے خون سے صاف نہ کیا تو کل سارا گاؤں مجھ پر تھو تھو کرے گا۔ میرا داماد تیرے جیسا گھٹیا اور ذلیل نہیں ہوسکتا، نہ ہی میری بہو۔ میری حویلی کی عزت اتنی گھٹیا ہو سکتی ہے؟ چھی، چھی توبہ… توبہ! جان سے مار دو اس کو ورنہ میرا اپنا نشانہ بہت پکا ہے۔ یہ تو بھی جانتا ہے۔‘‘ نبی بخش کہے جا رہا تھا اور عبداللہ یک ٹک پستول کو دیکھ رہا تھا۔
پنچایت میں اتنی خاموشی تھی کہ سب کو اپنے اپنے دل دھڑکنے کی آواز صاف سن رہے تھے۔
عبداللہ نے بہن کو دیکھا، بہن کچھ اور سوچ رہی تھی۔ اس کو تو چاچے کی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔
’’جانے نواز کا کیا ہوا ہو گا۔ ہائے وہ کیوں بھگانے لے آیا ہمیں؟ اس کو معلوم تو تھا۔‘‘
چوہدری نبی بخش اپنے حکم کی تعمیل میں اتنی تاخیر کیسے برداشت کرتا۔ غضب ناک انداز میں اٹھا اور عبداللہ کے ہاتھ سے پستول پکڑ کر صفیہ کے سامنے تان لی۔ تب کہیں جا کر صفیہ کو ہوش آیا۔ عبداللہ تڑپ کر پستول کی نالی اور صفیہ کے درمیان آکھڑا ہوا اور گڑگڑا کر بولا:
’’چاچا آپا کو جان سے ہی مارنا ہے ناں…؟ تو اسے مجھ پر چھوڑ دے۔‘‘ صفیہ چپ ہی رہی۔ عبداللہ نے صفیہ کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ جیسے اس کو محفوظ کرنا چاہتا ہو۔
’’ہم تم پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔‘‘ نبی بخش دونوں کو خونی نظروں سے دیکھ کر بولا۔
’’چاچا میں… پستول سے نہیں مار سکتا۔ میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ نشانہ بھی نہیں لگے گا۔‘‘ اس نے اپنے کپکپاتے ہاتھ نبی بخش کے سامنے کیے صفیہ کو عبداللہ پر بہت پیار آیا اس نے بڑھ کر عبداللہ کے ہاتھ چوم لیے۔
’’میں آپا کو دیکھتا رہا تو کبھی نہیں مار سکوں گا، اندھیرا ہونے دیں، بس پھر پانی میں پھینک دوں گا۔ آپا تڑپتی رہے گی تب بھی میں دیکھ تو نہیں سکوں گا ناں، وعدہ۔ میں آپا کو نہر میں دھکا دے دوں گا۔‘‘




Loading

Read Previous

حاضری — کنیز نور علی

Read Next

آبِ حیات — قسط نمبر ۶ (حاصل و محصول)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!