’’یہ نہیں ہو سکتا۔ آج آپا سے پوچھوں گا…‘‘وہ پریشان ہو گیا۔
’’ضرور پوچھنا… پر دیکھ تیرا بھی تو کوئی فرض بنتا ہے ناں۔ تو اس کا باپ جیسا بھائی ہے…‘‘
رخشی کب اتنی سیانی ہوئی، عبداللہ کو کیا اندازہ ہوتا۔ اسے تو یاد ہے کہ وہ اور رخشی ساتھ ساتھ لکن میٹی کھیلا کرتے تھے۔ چور سپاہی… کوکلا چھپاکی… اس کی جانے بلا کہ رخشی اس سے آپا کی زندگی کی بات کرے گی۔ وہ رخشی کا لاکھ احسان مند ہوتا مگر دل سے پریشان ہوگیا تھا۔
’’اس بیاہ کے دو فائدے ہیں عبداللہ…‘‘ عبداللہ رخشی کی کاجل لگی بڑی سیاہ آنکھوں میں تشویش کے لاکھوں جگنو ہراساں دیکھ رہا تھا۔
’’ابا کو لاڈلے بھائی کا گھر نہیں بسانا، اس کی دیکھ بھال کے لیے مفت کی لونڈی چاہیے۔ دوسرے تیرے ابا کی کئی سو مربع زمین میرے ابا کو مل جائے گی…‘‘
عبداللہ نے ندی کے کنارے شور مچاتی لہروں کو پریشان ہوکر دیکھا اور زیرلب بولا: ’’میرے تو دماغ میں یہ بات کبھی آئی ہی نہیں۔‘‘
’’کیوں کہ تو بہت سادہ ہے عبداللہ، بہت سادہ!‘‘
اور سادہ سا عبداللہ رخشی کا غلام ہو گیا۔ اس کا جی چاہا رخشی کا ہاتھ پکڑ کر سینے سے لگا لے اور کہے رخشی جیسی دل کی پیاری اور سمجھ دار کی مجھ جیسے سادہ عبداللہ کو بہت ضرورت ہے مگر وہ خاموش رہا لیکن رات جب صفیہ اپنی سہیلی چھیمی کی شادی کے لیے تیار ہورہی تھی وہ چپ نہ رہ سکا۔ عبداللہ چوری چوری صفیہ کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے کاجل لگا کر اپنی پلکیں جھپکیں، گلابی سستی سی ہلکے گلابی رنگ کی لپ اسٹک لگا کر ہونٹوں کو آپس میں ملا کر لپ اسٹک کو یک ساں کیا اور جب بالیاں پہن کر پلٹی تو عبداللہ بے ساختہ بول دیا:
’’آپا میں سوچتا ہوں اب تیری بھی شادی کردوں…‘‘
صفیہ پہلے حیران ہوئی پھر ہنسی، اور پھر ہنستی چلی گئی۔ اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے۔ عبداللہ برا مان گیا۔
’’میں نے مذاق نہیں کیا۔‘‘ اس نے بسورے منہ سے کہا۔
’’لڑکا دیکھ لیاکیا…؟‘‘ صفیہ نے ہنستے ہوئے پوچھا:
’’وہ بھی مل جائے گا، پر میں تجھے لاڈلے بھائی کے ساتھ بیاہنے نہیں دوں گا۔‘‘ اس نے اٹل لہجے میں کہا۔
صفیہ کی ہنسی کو بریک لگ جاتے ہیں۔ خاموش سی ہو جاتی ہے۔ آہستہ سے کہتی ہے:
’’چل دیر ہورہی ہے۔ چھیمی بتا رہی تھی ملک صاحب وقت کے بہت پابند ہیں۔‘‘ اس نے چھیمی کے ابا کے بارے میں بتایا۔
٭…٭…٭
چھیمی کی بارات کب آئی، صفیہ کو پتا نہیں چلا۔ ویسے بھی یہ شادی تو بس ایک بہانہ تھی۔ اسے تو نواز سے ملنا تھا۔ گائوں کے اکلوتے ہائی سکول کا ٹیچر دسویں جماعت کا استاد، بڑا نام اور ٹھاٹھ تھی اس کی۔
چھیمی کے کچے کوٹھے کی چھت پر مٹیالی دیوار کے سائے میں کھڑی صفیہ، نواز کے کندھے پر سر رکھ کر سسک پڑی۔
’’لعنت ایسے خوابوں پر جو چار دن میں آنکھوں میں نہ رہ سکیں۔‘‘
’’میں خوابوں کو نہیں مانتا صفو… میں تعبیر دوں گا۔ دیکھنا ہر خواب کی تعبیر۔‘‘ نواز نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’سنا ہے چاچا میری شادی اپنے پگلے سے کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ صفیہ گلوگیر لہجے میں بولی۔
’’چاہنے دو…‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔
’’وہ چوہدری تو ہے ہی… میرا چاچا بھی ہے۔‘
’’ہونے دو۔‘‘ نواز کا سکون اسے بلائے دیتا تھا۔
اس نے بہ دستور سکون سے کہا تو صفیہ الجھ پڑی۔
’’اسے اتنا آسان نہ سمجھو…‘‘ صفیہ نے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا۔
’’تم میرے ساتھ ہو نا۔‘‘ نواز نے اس کے دونوں ہاتھوں کی کلائیوں کو تھام کر پوچھا۔
صفیہ نے جواب میں جس طرح نواز کو دیکھا، نواز کو سارے جواب مل گئے۔
’’بس اب جا پریشان مت ہونا سمجھی؟‘‘ اس نے مدبّرانہ انداز میں صفیہ سے کہا اور یک دم اس کی کلائی کو اوپر کرکے کہنے لگا:
’’تم نے پھر چوڑیاں نہیں پہنیں…؟‘‘
’’میری چغلی کرتی ہیں۔ میرے آنے کی خبر دے دیتی ہیں۔؟ اس لیے…‘‘ صفیہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
نواز ہنس دیا۔ دل کش، دل نواز ہنسی، صفیہ کے دل کو گدگدانے والی پیاری ہنسی۔ نواز کے سفید شلوار قمیص کا لشکارا رات میں چانن کر رہا تھا۔ صفیہ اندھیرے میں بھی نواز کو آنکھ بھر کے نہ دیکھ سکی۔ سرجھکا کر بولی:
’’میری بات کو ہنسی میں نہ ٹال…‘‘ نواز کے جواب سے پہلے عبداللہ آگیا اور وہ نواز کو جواب طلب نظروں سے دیکھتی عبداللہ کے ساتھ چل پڑی۔ مگر اس رات کی سیاہی نے دکھ کا سورج چڑھا دیا۔ راستے بھر عبداللہ کا ہاتھ پکڑ کر واپس آنے والی صفیہ نے سوچا بھی نہیں تھا کہ واپس جانے تک اس کی تقدیر کا فیصلہ ہوچکا ہوگا۔
گھر کا دروازہ کھُلا ہوا تھا۔ صفیہ اور عبداللہ حیران تھے کہ دروازہ کس نے کھولا ہوگا۔ عبداللہ ڈرگیا، صفیہ بڑی تھی، بہادری اس کے حصے میں آئی۔ اس نے عبداللہ کو خود سے ایک قدم پیچھے رکھ کر پہلے خود گھر کی دہلیز پہ قدم رکھا۔ سامنے صحن میں پیلے رنگ کی روشنی میں اس نے اپنی موت دیکھ لی۔ چاچے نبی بخش نے صفیہ کے پیچھے آنے والے عبداللہ کو گھسیٹا اور زور دار تھپڑ عبداللہ کے معصوم چہرے پہ جڑا اور نفرت سے گرجا:
’’بے غیرت! بہن کو دشمنوں کے ہاں لیے پھرتا ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں غیض و غضب بلا کا تھا۔
عبداللہ لڑکھڑا کے زمین پر گرا، صفیہ بے ساختہ اس پہ جھکی اور نبی بخش کی طرف منہ کرکے گڑگڑا کر بولی: ’’چاچا اس کو چھوڑ دے، چھیمی میری سہیلی تھی میں اس کو لے کرگئی تھی۔‘‘
’’یہ اس کو تو دشمن سجن کی پہچان ہونی چاہیے ناں۔‘‘ نبی بخش نے عبداللہ کو ٹھڈا مارا۔
’’دشمن کی پہچان کرنے کے ابھی قابل نہیں ہے یہ چھوٹا ہے بہت، معاف کر دے اس کو اللہ رسول کا واسطہ۔‘‘ صفیہ عبداللہ کو چھوڑ کر نبی بخش کے آگے ہاتھ جوڑ دیتی ہے۔
نبی بخش نے احسان جمایا۔
’’آج تو معاف کررہا ہوں پر آج کے بعد کوئی ملکوں کی گلی میں بھی گیا تو بھون کے رکھ دوں گا… تم دونوں کی پہچان نبی بخش سے ہے، تو نے میری حویلی کی عزت بننا ہے اور عبداللہ نے داماد…‘‘
اس نے گرج کر کہا تو صفیہ کی حالت مرنے والی ہوگئی۔
’’سن عبداللہ… غیرت مند عزت بے عزتی پہ جان دے دیتے ہیں۔‘‘
اس نے جاتے جاتے قہر آلود نظروں سے دونوں کو دیکھا۔ عبداللہ اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ صفیہ سہارا دیتی ہے کہ نبی بخش پھر پلٹتا ہے صفیہ سہم کر عبداللہ کے سامنے آجاتی ہے۔
’’اس اقدار سادگی سے نکاح کرکے لے جائیں گے تمہیں۔‘‘
نبی بخش نے صفیہ سے کہا اور سخت نظروں سے عبداللہ کو دیکھا:
’’اور…تم کو بھی۔‘‘
نبی بخش نے بند دروازے کو پائوں کی ٹھوکر سے کھولا اور چلا گیا۔
صفیہ نے سہمے ہوئے عبداللہ کو گلے سے لگا لیا۔
٭…٭…٭
رات کا وقت تھا۔ چوکی دار کی سیٹی کی آواز جھینگروں کی آواز کے ساتھ آرہی تھی۔ عبداللہ آسمان کو دیکھے جارہا تھا جیسے اللہ سے شکوہ کررہا ہو۔ اس کے ذہن میں بہت سے سوال تھے۔ اس سمجھ میں نہیں آرہا تھا پہلے کون سا کرے یک دم بولا۔
’’آپا دیکھنے میں تو ملک لوگ بھلے لگتے ہیں۔ ان کے چاچے سے کیا دشمنی ہوگی بھلا؟‘‘
صفیہ کسی اور سوچ میں گم تھی۔ اسے تو جگمگ کرتے، اندھیرے میں روشنی کا سکون دینے والے نواز کے چھن جانے کا خوف کھائے جارہا تھا۔ یوں بولی جیسے لفظوں سے آشنائی نہ ہو۔ میکانکی کا سا انداز… جیسے جواب دینا فرض ہو۔ جیسے کبھی کبھی وہ نماز پڑھتی تھی، رکوع، سجدہ، تشہد یا آیات ادا کرتیں تھیں۔ دماغ اپنے کام پہ لگا رہتا۔ بالکل ایسے ہی وہ کہے جا رہی تھی۔
’’کہتے ہیں ملکوں نے ہماری پھوپھو کا رشتہ مانگا تھا، انکار پر فساد ہوگیا۔ کوئی کہتا ہے زمینوں کا جھگڑا اٹھا۔ ایسا جھگڑا جس کا خمیازہ نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے… جیسے ہم بھگت رہے ہیں… تم بھگتو گے۔
صفیہ نے عبداللہ کے گالوں کو پیار سے چھوا جہاں چاچے نبی بخش نے تھپڑ مارا تھا۔ صفیہ نے دل گرفتہ سی ہوکر عبداللہ کا ماتھا چوم لیا۔
اس رات کی صبح بہت مشکل سے ہوئی۔ عبداللہ مدرسے جانے کے لیے تیار ہوچکا تو صفیہ نے توے پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔ آنکھوں میں اب لکڑی کے جلنے کا کسیلا دھواں تھا کہ حلق تک کڑوا ہو گیا تھا۔
’’اپنے ماسٹر صاحب سے کہنا۔ اب مجھے کوئی اور کتاب پڑھنے کے لیے نہ دیں۔‘‘
’’وہ کتاب پڑھ لی جو ماسٹر صاحب نے پہلے دی تھی۔‘‘ عبداللہ نے پراٹھے کا نوالہ توڑ کر عام سے لہجے میں پوچھا۔
صفیہ نے پراٹھا چنگیر میں رکھا اور بولی: ’’تیرے بستے میں رکھ دی ہے۔ ان سے کہنا آپا کہہ رہی تھی اُن کتابوں کو کیا پڑھنا، جن کو پڑھ کے میرے بھائی کو مار کھانی پڑے۔ جس کا کوئی انجام ہی نہ ہو۔‘‘ عبداللہ کی سمجھ میں بات تو نہ آئی مگر وہ پریشان ہوکر اٹھ گیا۔
بستہ ہاتھ میں لے کر مدرسے کی طرف جاتے جاتے جانے کیوں ایک ایک بات فلم کے منظر کی طرح اس کے ذہن میں چلنے لگی۔ چاچے کا مارنا، رخشی کا کہنا… تب ہی اس نے بہت سے بچوں کا شور سنا۔
عبداللہ چلتے چلتے رک گیا۔ مٹی کا طوفان تھا کہ چہرے تک واضح نہیں تھے۔ شور قریب آگیا۔ عبداللہ دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ لاڈلا مصنوعی کاغذ کا سہرا سر پر سجائے محلّے کے بچوں کے آگے تھا اور ایک کمی کے گلے میں رسی ڈال کر اس کو گھوڑا بنایا ہوا تھا۔ لاڈلا اونچا اونچا بول رہا تھا۔
’’میں دلہا بن گیا… دلہن کو لینے جائیں گے… بتائو میری دلہن کا نام کیا ہے…؟
’’صفیہ…‘‘ سب بچوں نے یک زبان ہو کر کہا۔
عبداللہ کا سارا خون چہرے پہ آگیا۔ اس نے آگے بڑھ کر لاڈلے کا راستہ روک لیا۔ ابھی تو رات چاچے کی مار کا زخم بھی تازہ تھا کہ یہ نیا درد لاڈلے کی شکل میں راستہ روکے کھڑا تھا۔ عبداللہ نے غصے کی حالت میں لاڈلے کو زناٹے دار تھپڑ مارا اور اسے گھور کر بولا:
’’میری بہن کا نام لیا تو جان سے مار دوں گا۔‘‘
’’وہ میری دلہن ہے۔‘‘ لاڈلا پوری آواز سے چیخا…
’’وہ میری آپا ہے۔‘‘ عبداللہ نے لاڈلے کو ایک اور تھپڑ مارا۔
’’وہ میری دلہن ہے۔ ابا کہتا ہے اماں کہتی ہے۔‘‘ لاڈلا ضدی انداز میں بولا۔
عبداللہ نے مٹھی بھر ریت اٹھائی اور لاڈلے کی طرف اچھال دی۔ لاڈلا جو اسے پوری آنکھیں کھول کر گھور رہا تھا۔ عبداللہ کے اچانک اقدام پر دفاع بھی نہ کر سکا۔ مٹھی نے اس کا چہرہ بگاڑ دیا اور اس کی آنکھوں میں ریت نے مرچیں بھر دیں۔ عبداللہ تو انتقامی کارروائی کے بعد چلا گیا۔
لاڈلا وہیں منہ بسور کر پورا منہ کھول کے رونا شروع ہو گیا۔
’’ابا! میری دلہن لا کے دو مجھے۔ یہ مینا کہتا ہے صفیہ میری دلہن نہیں ہے۔‘‘ اپنی طرف سے اس نے عبداللہ کو کمینہ کہہ کر بھڑاس نکالی…
حشمت جو حویلی سے خاص کھانے کا اہتمام کرنے کے لیے کہنے گیا تھا، اسی جگہ سے گذرا جہاں لاڈلا دھول مٹی ہوا رو رہا تھا۔ حشمت اس کا ہاتھ پکڑ کر ڈیرے پر لے آیا۔