بیلینس شیٹ ۔ مکمل ناول

فاطمہ دونوں ہاتھوں سے اپنے منہ سے نکلنے والی چیخوں کو روک رہی تھی۔ اس دوران میرے لیے یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہوگیا تھا فاطمہ زیادہ شدت سے رو رہی ہے یا بارش زیادہ شدید ہے۔ ایسا لگ رہا
تھا جیسے آسمان بھی فاطمہ کے دکھ پر زاروقطار رو رہا ہے
”اور جب مجھے ہوش آیا تو ایک بہت بری خبر میری منتظر تھی نہ صرف یہ کہ میرا بچہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی مرگیا تھا بلکہ میں ہمیشہ کے لیے بانجھ ہوگئی تھی۔ پے در پے اتنے سارے صدمات میرے نروس بریک ڈاو ¿ن کا سبب بن گئے تھے۔“ فاطمہ ابھی بھی باقاعدہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ بارش اب تھم چکی تھی اور آسمان بھی کافی حد تک صاف دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے چاہا کے فاطمہ کو لے کر نیچے چلی جاو ¿ں لیکن فاطمہ اس وقت میری کوئی بات سننے پر تیار ہی نہیں تھی۔ آج وہ صرف اپنے دکھ سنانے آئی تھی ۔
”جب میں ہوش میں آئی تو مجھے اپنے اردگرد وہ لوگ دکھائی دیے جنہیں میں نے چھوڑ دیا تھا جن کا میں نے دل دکھایا تھا۔ میرے اپنے میرے خون کے رشتے میرے ماں باپ میری جنت میری شفقت میری چھوٹی بہنیں جن لوگوں کی محبت ،لاڈ، مان کو لات مار کر ایک ایسے شخص کے ساتھ چلی گئی جس نے شروع سے آخر تک صرف مجھے استعمال کیا اور میں بے وقوف عقل سے پیدل استعمال ہوتی رہی۔ وہ کہتا تھا اسے مجھ سے محبت ہے اسے میری ضرورت ہے اگر میں نے اسے چھوڑ دیا تو وہ مرجائے گا جس کی محبت کے خاطر میں نے اپنی دنیا چھوڑ دی اپنا آپ بھلا دیا اور اس نے ہی مجھے چھوڑ دیا۔ اس کے چھوڑنے کا اتنا دکھ نہیں تھا مجھے جتنا اس کے دھتکارنے اس کے ذلیل کرنے کا ہوا تھا۔ اس کے لگائے ہوئے الزامات نے مجھے میری ہی نظروں میں گرادیا تھا۔ ایسا تو ہونا ہی تھا میرے ساتھ نافرمانی کی تھی میں نے اپنے رب کی اپنے والدین کی جس رب نے مجھے خوبصورتی عطا کی۔ میں نے اسی کی نافرمانی کی اس کے دیے ہوئے حسن کو مزید دوآتشہ بناکر غیر مردوں کی نظروں کا مرکز بن گئی تھی۔ رب نے پردے کا حکم دیا اور میں اس کی حکم عدولی کرتی گئی اور اپنے آپ کو ماڈرن بنانے کے چکر میں خود کو نمائش بنالیا تو یہ سب کچھ تو ہونا ہی تھا، لیکن اس میں سارا میرا قصور نہیں ہے۔ میری ماں بھی اس میں برابر کی شریک ہے جس نے مجھے کبھی نہیں روکا وہ خود ماڈرن دکھنے کے لیے بولڈ ڈریسنگ کرتی تھی تو مجھے کیسے روکتی۔“ فاطمہ زارو قطار رو رہی تھی۔ اس کی آہیں اس کی سسکیاں مستقل جاری تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ سالوں سے چھپائے اپنے دل کے غبار کو آج میرے سامنے نکال کر ہمیشہ کے لیے ہلکی ہوجانا چاہتی ہے۔



”پتا ہے کھنک یہ جو مائیں ہوتی ہیں نا یہ اولاد کی درسگاہیں ہوتی ہیں۔ خاص کر بیٹیوں کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھانے والی انہیں سرد گرم سے بچانے والی مجھے یاد نہیں کہ کبھی میری ماں نے مجھ سے یہ کہا ہو کہ دوپٹا سر پر لو یا صحیح سے پھیلا کر اوڑھو۔ گھر میں کوئی مہمان مرد آیا ہے تو اس کے سامنے اپنا حلیہ صحیح کرکے جاو ¿۔ انہوں نے کبھی خود اس چیز کی پروا نہیں کی تو وہ مجھے کیا بتاتی۔“ فاطمہ کے دل میں اپنی ماں کے لیے ڈھیروں شکوے شکایتیں تھیں۔ بارش تقریباً تھم چکی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ فاطمہ کے آنسو بھی ۔
”تیرہ، چودہ سال کی عمر میں لڑکیوں پر بہت روپ آتا ہے اور میں تو تھی بھی خوبصورت اور اس پر میرا بننا سنورنا مجھے ایک انوکھا روپ بخشتا تھا اور یہ ہی وہ عمر ہوتی ہے جب لڑکیاں اپنی آنکھوں میں مستقبل کے سنہرے خواب بننے لگتی ہیں۔ یہ خواہش شدت اختیار کرجاتی ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا ہو جو صرف ہمارے لیے بنا ہو جو صرف ہمیں چاہے اور یہ ہی وہ وقت ہوتا ہے جب گھات لگائے شکاری شکار کر جاتے ہیں اور کچی عمر کی لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ یہ محبت ہے جن لڑکیوں کی مائیں اپنی کچی عمر کی بیٹیوں کی بظاہر دوست بن کر ان پر کڑی نظر رکھتی ہیں۔ ان کی بیٹیاں ان شکاریوں سے بچ کر وقت آنے پر اپنے اصل شہزادوں کے ساتھ بیاہ دی جاتی ہیں اور جن کی مائیں بے پروا ہوتی ہیں ان کی بیٹیوں کا وہ ہی حال ہوتا ہے جو میرا ہوا ۔میری پھپھو جب بھی سعودیہ سے آتی ہمارے گھر ہی قیام کرتی تھیں۔ بہت ہی دین دار خاتون تھیں اور یہی وجہ تھی کہ ان کی بیٹے بیٹیاں سب لائق فائق اور اپنی اپنی ازدواجی زندگیوں میں خوش و خرم تھے۔ ایک چھوٹا بیٹا راحیل تھا جو امریکہ کی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا اس کے باوجود اس نے اپنے ماں باپ کی تربیت پر آنچ نہیں آنے دی تھی۔ پھپھو اکثر مما سے کہتی تھیں فوزیہ جب عورت ماں بنتی ہے نا تو اسی پل وہ اپنی نیند، بے پروائی،بے خبری،غیرذمہ داری،لاابالی پن اور اپنی خواہشات کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ دیتی ہے۔ خاص طور پر بیٹیوں کی مائیں تو ہر وقت الرٹ رہتی ہیں۔ تم کیسی ماں ہو، تمہاری بڑی بیٹی اپنا سارا وقت اپنی خالہ کے گھر گزارتی ہے اور دونوں چھوٹیوں کے اپنے مشغلے ہیں۔ تمہیں مارکیٹوں اور پالرز سے فرصت نہیں ملتی۔ اپنی بیٹیوں کے لیے وقت نکالو انہیں ٹٹولو وہ اس وقت جس عمر میں ہیں اس عمر میں بہت کچھ دل و دماغ میں پکتا ہے۔ 15 سے 25 سال کی عمر میں بچوں میں صرف فزیکل چینجز نہیں آتیں بلکہ ان کی باڈی میں نئے ہارمونز پیدا ہوتے ہیں جو ان کے اندر جنسی خواہشات ( Sexual Desires) بیدار کرنے لگتے ہیں اور اس وقت رومانوی ناول، فلمیں، ڈرامے انٹرنیٹ کا کھلم کھلا استعمال،مخالف جنس کے ساتھ دوستانہ تعلقات ان کے جذبات کو مزید بھڑکادیتے ہیں اور جب یہ جذبات بھڑک جاتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے، ان کی تسکین کے لیے بچے بے چین ہوجاتے ہیں اور جب کوئی حلال راستہ نہیں ملتا تو وہ حرام راستے پر چل پڑتے ہیں جو کہ ان کی صحت برباد کرکے ان کو گناہگار کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتا۔ اسی لیے اس عمر کے بچوں پر ماں باپ کڑی نظر رکھتے ہیں۔ تم بھی ان پر کڑی نظر رکھو، اتنی چھوٹی عمر میں انہیں پرسنل موبائل مت دو۔ کھوج لگاو ¿ کے وہ اس وقت کس ذہنی کیفیت سے گزر رہی ہیں لیکن افسوس مما نے کبھی ان کی بات کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں الٹا ان کی باتوں کو دقیانوسی باتیں کہا کرتی تھیں۔“ فاطمہ کے لہجے میں عجیب سا دکھ بول رہا تھا جیسے کوئی اپنی زندگی کی جمع پونجی اپنی نادانی سے گنوا بیٹھا ہو۔
”وہ میرے شباب کے دن تھے۔ جب میری چودھویں سالگرہ پر مجھ پر پریوں جیسا روپ آیا تھا۔ بہت ساری نگاہوں میں میرے لیے پسندیدگی واضح نظر آرہی تھی۔ جب شاہ رخ نے میرے نزدیک آکر مجھے ایک خوبصورت سی پیکنگ میں لپٹا ہوا چھوٹا سا ڈبا پکڑاتے ہوئے مجھے برتھ ڈے وش کیا۔ اس وقت میں اپنی دوستوں کے ساتھ کھڑی تھی۔ میری دوستوں کی طرف سے معنی خیز جملوں کی بوچھاڑ پر میں نے گھبرا کر جلدی سے گفٹ کھول دیا بس گفٹ کا کھولنا تھا کہ دوستوں نے معنی خیز سیٹیاں بجانا شروع کردیں۔ شاہ رخ نے گفٹ ہی ایسا دیا تھا کہ ایک پل کے لیے میں بھی مبہوت رہ گئی۔ وہ ایک بہت خوبصورت نازک سا کانچ کا بنا ہوا تاج محل تھا جس میں دھیمے میوزک میں ایک گڑیا گڈے کا کپل جو آہستہ آہستہ ڈانس کرتا ہوا تاج محل میں گول گول گھوم رہا تھا اس کے ساتھ ایک کارڈ بھی تھا جس پر لکھے گئے الفاظ پڑھ کر میرا دل کسی اور لے پر ہی دھڑکنے لگا (دنیا کی سب سے حسین شہزادی کے لیے دنیا کے سب سے حسین شہزادے کی طرف سے محبت بھرا پہلا حسین تحفہ اپنی محبت کے لیے )بس پھر مجھے کسی چیز کا ہوش ہی نہیں رہا۔ ہماری محبت کی داستان سے پورا خاندان واقف تھا۔ میری ننھیال والوں کے لیے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن میرے ددھیال والوں کے اعتراضات پر بند باندھنے کے لیے پندرہ سال کی عمر میں میری شاہ رخ سے بہت دھوم دھام سے منگنی کردی گئی اور اس منگنی نے مجھے ہر طرح کا لائسنس دے دیا۔ شاپنگ، گھومنا پھرنا ڈنر فیملی گیٹ ٹو گیدر ہر جگہ میں اور شاہ رخ ساتھ ہوتے اور شاہ رخ سارا خرچہ میرے کھاتے میں یہ کہہ کر ڈال دیتا کہ یار، میں تو اسٹوڈنٹ ہوں اور مجھے تو پاکٹ منی بھی نہیں ملتی۔ چھوٹے موٹے ٹیوشن سے اپنا پڑھائی کا خرچ نکالتا ہوں۔ تم تو پرنسس ہو اپنے پاپا کی ہر وقت تمہارے پرس میں پیسے موجود ہوتے ہیں، ابھی تم خرچ کر لو پھر ساری زندگی مجھے ہی خرچ کرنا ہے، تم پر اور میں بے وقوف ہمیشہ اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آجاتی تھی۔“ فاطمہ کے انداز سے ایسا لگ رہا تھا کہ گئے دنوں کی حماقتوں پر وہ ماتم کر رہی ہے۔
”یہ لو پانی پی لو۔“ میں نیچے سے ٹھنڈے پانی کی بوتل اور گلاس لے آئی کیونکہ فاطمہ تو نیچے جانے پر تیار ہی نہیں تھی۔ میں نے بھی زیادہ اصرار نہیں کیا۔ اس کی اس وقت جو حال تھی اس حالت میں اس کا میرے ساس سسر کے سامنے جانا مناسب نہیں تھا۔ امی ابو کو ناشتا دے کر میں دوبارہ اوپر آگئی جب تک فاطمہ پوری بوتل پانی کی پی چکی تھی۔ اس کی حالت سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ صدیوں کی پیاسی ہو۔

Loading

Read Previous

مالک اور نوکر

Read Next

اسرار

2 Comments

  • Simply wish to say your article is as astonishing.
    The clearness in your post is simply cool and i can assume
    you are an expert on this subject. Well with your
    permission allow me to grab your feed to keep up to date with forthcoming post.

    Thanks a million and please carry on the rewarding work.

  • My brother suggested I might like this blog. He was entirely right.
    This post actually made my day. You can not imagine simply how much time
    I had spent for this information! Thanks!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!