بیلینس شیٹ ۔ مکمل ناول

”جب میں تمہارے گھر آئی تھی میں دو دن کی بھوکی تھی۔ شاہ رخ دو دن سے اپنے ماں باپ کے گھر تھا کیونکہ شادی کے وقت شاہ رخ نے یہ شرط رکھی تھی کہ جب تک اس کا سی ۔اے مکمل نہیں ہوجاتا میں جاب کروں گی اور وہ صرف پڑھے گا تاکہ مستقبل میں ہم دونوں میاں بیوی خوشگوار زندگی گزاریں اور میں عقل کی اندھی اس کے عشق میں اتنا ڈوب چکی تھی کہ اپنے ماں باپ کے بے حد سمجھانے کے باوجود شاہ رخ سے کورٹ میرج کرلی اور اپنا سارا زیور اسے تھمادیا۔ زیور سے حاصل ہونے والی رقم سے شاہ رخ نے ایک کمرے کا پورشن کرائے پر لے لیا اور گھر کا ایڈوانس اور گھر کا ضروری سامان خریدنے میں سارے پیسے خرچ کردیے۔ اب گھر کے دوسرے اخراجات اور پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے میرے لیے جاب ناگزیر تھی، لیکن میری تنخواہ مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی تھی اور مہینے کے آخر میں جب فاقوں کی نوبت آتی تو شاہ رخ اپنے گھر چلا جاتا تھا کیونکہ اس سے بھوک برداشت نہیں ہوتی تھی اور خالی پیٹ وہ پڑھ نہیں سکتا تھا اور ہمارے بہتر مستقبل کے لیے اس کا پڑھنا بہت ضروری تھا۔“ فاطمہ نے تلخی سے مسکراتے ہوئے کہا ۔
”اور میں اس کے عشق میں ایسی گرفتار تھی کہ مجھے کبھی اس میں کوئی برائی نظر ہی نہیں آئی۔ یہ وہ وقت تھا جب میں گھر میں اکیلی بھوکی پیاسی بیٹھی اپنے اور شاہ رخ کے بہتر مستقبل کے سہانے خواب بنتی رہتی تھی۔ ماں باپ بہنیں سب نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ مالک مکان اچھی خاتون تھی اور میری حالت سے بہت اچھے سے واقف بھی تھی۔ ایک وہ ہی تھی جن سے میں اپنے دل کی ہر بات کرلیا کرتی تھی۔ خاص طور پر جب میں فاقے سے ہوتی تھی تو وہ مجھے کھانا بھیج دیا کرتی تھی لیکن وہ دو دن سے اپنے بھائی کے گھر گئی ہوئی تھی ان کی بھاوج کی طبیعت خراب تھی ایک تو پریگننسی اور دوسری طرف دو دن کا فاقہ میری حالت غیر کر رہا تھا۔ میں نے سوچا گھر میں فاقے سے مرنے سے بہتر ہے کہ میں کوئی پارٹ ٹائم جاب ڈھونڈ لوں تاکہ اپنے اور آنے والے بچے کو ان فاقوں سے بچا سکوں۔ بس یہ ہی سوچ کر میں تمہارے گھر کے نزدیک بنے ہوئے اسکول میں پارٹ ٹائم کوچنگ کی جاب کے لیے آئی تھی تو مجھے اچانک تمہارا خیال آگیا اور میں تمہارے گھر آگئی۔ جب میں بھوکے ندیدوں کی طرح تمہارے گھر کھانا کھا رہی تھی، مجھے اس وقت تمہاری آنکھوں میں الجھن دکھائی دی تھی لیکن اس وقت جو حالت تھی وہ میں تمہیں بتا نہیں سکتی تھی ورنہ تم بھی شاہ رخ کو برا بھلا کہتی جیسے سارا زمانہ کہتا تھا اور مجھے شاہ رخ کی برائی برداشت نہیں تھی۔“ اس دوران فاطمہ مستقل روتی جارہی تھی۔ میں نے اسے درمیان میں ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا۔ اچھا تھا کہ وہ اپنے دل کا ہر دکھ آج آنسوو ¿ں کے ساتھ بہادے ۔
”میں تمہارے گھر سے اپنے گھر بہت خو شی خوشی واپس آئی تھی ایک تو اتنے عرصے بعد کسی اپنے سے ملاقات پھر پیٹ بھر کر کھانا، پریگننسی، پارٹ ٹائم جاب کا مل جانا ان سب نے مجھے ایک دم سے فریش کردیا تھا۔ گھر پہنچی تو شاہ رخ کو اپنا منتظر پایا جو میرے لیے بڑا حیران کن تھا کیونکہ آج یکم نہیں تھی اور مجھے تنخواہ یکم پر ملتی تھی اور شاہ رخ ہمیشہ یکم کے بعد ہی آتا تھا۔ جب اسے یقین ہوجاتا تھا کہ راشن آگیا ہوگا، کرایہ ادا ہوچکا ہوگا اور بل بھر دیے گئے ہوں گے۔“ فاطمہ کے منہ سے الفاظ نہیں دکھ اور اذیت ٹپک رہی تھی اس دوران ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو گئی۔ میں نے وہاں سے اٹھنا چاہا تو فاطمہ نے مجھے ہاتھ پکڑ کر دوبارہ اپنے پاس بیٹھا لیا۔
”کب سے انتظار کر رہا ہوں کہاں تھیں تم ٹائم نہیں ہے میرے پاس مجھے کہیں جلدی پہنچنا ہے۔“ شاہ رخ نے مجھے گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر جس لہجے میں مجھ سے بات کی اس نے مجھے ٹھٹکا دیا تھا۔ میری چھٹی حس میں کسی انہونی کے ہونے کا الارم زور زور سے بجنے لگا تھا۔
”کیا ہوا سب خیریت تو ہے؟ میں نے اپنے دماغ میں بجنے والا خطرے کے الارم کو نظر انداز کرکے شاہ رخ سے پوچھا اور اس کے برابر جاکر بیٹھ گئی۔
”امی ابو نے میری شادی طے کردی ہے انعم (شاہ رخ کی چھوٹی بہن )کی دوست صالحہ سے میں آج اپنا سامان لینے آیا ہوں، آج سے ہمارے راستے علیحدہ علیحدہ ہیں۔ تم بھی اپنا کوئی بندوبست کرلو۔ یہ طلاق کے کاغذات ہیں، میں نے تمہیں طلاق دے دی ہے۔ تمہارے لیے بہتر یہ ہی ہوگا کہ تم خالہ خالو کے پاس سعودیہ چلی جاو ¿ ۔“
کیا تقدیر نے چنوائے تھے اسی لیے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
اس وقت مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے صور اسرافیل پھونکا جارہا ہے جیسے قیامت آگئی ہو۔ زمین میرے پاو ¿ں سے نکل گئی ہو۔ آسمان اوپر آگرا ہو۔
”آئی ایم پریگننٹ۔“ میں بولنا تو بہت کچھ چاہ رہی تھی لیکن میرے منہ سے نکلنے والے یہ الفاظ نہ صرف مجھے حیران کر گئے بلکہ میری پاکدامنی کو بھی داغ دار کرگئے۔ اگلے ہی پل شاہ رخ کا ہاتھ مجھ پر اٹھا اور اٹھتا ہی چلا گیا۔ اس نے مجھ پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کر دی۔ میں تڑپتی رہی، چیختی رہی، چلاتی رہی لیکن اس نے میری ایک نہ سنی۔ اس پر تو جیسے بھوت سوار ہوگیا تھا غیرت کا۔ وہ اپنی ہی اولاد کو جو ابھی اس دنیا میں بھی نہیں آئی تھی انتہائی گھٹیا اور غلیظ القابات سے نواز رہا تھا۔
”میں جانتا تھا تجھ جیسی عورت جو کسی غیر مرد کے لیے اپنے ماں باپ کی عزت داو ¿ پر لگا سکتی ہے، جو نکاح کے بغیر دس سال تک صرف منگنی کے نام پر میرے ساتھ وقت گزارسکتی ہے اس کے لیے شوہر کی موجودگی میں کسی غیر مرد کے ساتھ منہ کالا کرنا کون سی بڑی بات ہے۔“ اس کے الفاظ تھے یا کوئی پگھلا ہوا سیسہ جو میرے کانوں میں اتر کر مجھے اندر تک جلا کر بھسم کر رہا تھا۔
”تجھے پتا ہے میرے ماں باپ نے مجھے کیوں منع کیا تھا تجھ سے شادی کرنے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ تو آوارہ ہے۔ تیرے جسم پر جو کپڑے ہوتے ہیں نا وہ تجھے ڈھانپتے نہیں بلکہ اور نمایاں کرتے ہیں اور جو تو میری دیوانی بنی پھرتی تھی نا وہ عشق نہیں ہوس تھی۔ تیری یہ وجہ ہے تجھے طلاق دینے کی تو آوارہ ہے اور شادی صالحہ جیسی شریف لڑکیوں سے کی جاتی ہے جو مرد کی آنے والی نسلوں کی امین ہوتی ہے، تجھ جیسی لڑکیاں صرف ٹائم پاس کے لیے ہوتی ہیں۔ تجھ سے اپنا دوپٹا سنبھلتا نہیں، میری نسلیں سنبھالے گی ہونہہ اسی لیے نہیں کررہا تھا تجھ سے شادی تو ہی جونک کی طرح چمٹ گئی تھی، مجھ سے اسی لیے میں نے شادی کے لیے ایسی شرائط رکھی تھیں کہ تو چھوڑدے مجھے لیکن افسوس تو نے پھر بھی جان نہ چھوڑی میری۔“ شاہ رخ کے لفظوں کی تکلیف اتنی زیادہ تھی کہ اس نے میری قوت گویائی چھین لی تھی۔ بس مجھے اتنا یاد ہے کہ گھرسے نکلنے سے پہلے اس نے پوری قوت سے میرے پیٹ پر لات ماری تھی اور مجھے گندی غلیظ گالیاں بکتا ہوا گھر سے باہر چلا گیا تکلیف کی شدت سے میں اپنے ہوش کھو بیٹھی تھی۔
اپنا ہی تھا قصور کے ساحل میں گھر گئے
ایک موج تھی جسے کنارہ سمجھ لیا

Loading

Read Previous

مالک اور نوکر

Read Next

اسرار

2 Comments

  • Simply wish to say your article is as astonishing.
    The clearness in your post is simply cool and i can assume
    you are an expert on this subject. Well with your
    permission allow me to grab your feed to keep up to date with forthcoming post.

    Thanks a million and please carry on the rewarding work.

  • My brother suggested I might like this blog. He was entirely right.
    This post actually made my day. You can not imagine simply how much time
    I had spent for this information! Thanks!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!