بیلینس شیٹ ۔ مکمل ناول

”کہاں کھو گئی کھنک کچھ پوچھ رہی ہوں تم سے۔“ فاطمہ نے مجھے سوچوں میں گم دیکھ کر کہا اور لاو ¿نج میں رکھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔
”فاطمہ! ساری باتیں چھوڑو مجھے صرف اتنا بتاو ¿ تم میں اتنا بڑا چینج کیسے آگیا تم ایسی تو نہ تھی؟“ بالآخر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور میں نے فاطمہ سے پوچھ ہی لیا۔
”بس یار یہ سب اللہ کے فیصلے ہیں جسے چاہے عرش سے اٹھا کر فرش پر پٹخ دے اور جسے چاہے فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھادے ۔“ فاطمہ نے ہلکی سی مسکراہٹ سے مجھے میری بات کا جواب دیا۔
”یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے“
فاطمہ نے کلام پڑھتے ہوئے مجھے دیکھا اور کھانے کے لوازمات سے بھری ٹرالی میرے نزدیک کرکے میرے لیے کھانے کی چیزیں پلیٹ میں نکالنے لگی۔
”یار بس زیادہ مت نکالو۔ آج سن ڈے تھا اس لیے دیر سے ناشتا کیا ہے بالکل بھی بھوک نہیں ہے اور ویسے بھی سن ڈے کو علی ہمیں باہر ڈنر کرواتے ہیں۔ اس لیے پیٹ میں ڈنر کی بھی تو گنجائش رکھنی ہے۔“ یہ کہتے ہوئے میں نے ایک چکن چیز بال اور ہاف گلاس کولڈ ڈرنک لی۔ علی اور بچوں کے ذکر پر مجھے بے ساختہ فاطمہ کی فیملی کا خیال آیا۔
”اور شاہ رخ خان بھائی کیسے ہیں؟ اور کتنے بچے ہیں تمہارے ؟“ میں نے جان بوجھ کر شاہ رخ کو شاہ رخ خان کہا۔ کوچنگ میں ہم سب فرینڈز فاطمہ کے منگیتر کو شاہ رخ خان کہہ کر پکارتے تو فاطمہ چڑ جاتی تھی اور باقاعدہ چیئر پر کھڑے ہوکر غصے سے سرخ چہرہ لیے تپ کر کہتی۔” خبردار! جو کسی نے شاہ رخ کو شاہ رخ خان کہا۔ میرا شاہ رخ تو کئی گنا زیادہ ہینڈسم ہے شاہ رخ خان سے۔“ اور ہم سب دوستیں اس کی دیوانگی پر ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر رہ جاتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بی۔ کام کے فائنل ایگزامز کے بعد میں اور فاطمہ انگلش لینگوئج کی پروفیشنل کلاسز لے رہی تھیں۔ ان دنوں فاطمہ بہت زیادہ اپ سیٹ رہا کرتی تھی۔ بیٹھے بیٹھے رونے لگتی تھی اس کی بات شاہ رخ سے شروع ہو کر شاہ رخ پر ہی ختم ہوتی تھی جس سے مجھے اتنا اندازہ ہوگیا تھا کہ شاہ رخ ابھی سی۔ اے کر رہا ہے اور ساتھ میں جاب بھی کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہ فاطمہ کو پہلے جیسا ٹائم نہیں دے پارہا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ بہت زیادہ ٹچی ہوگئی ہے اور بات بات پر رونے لگتی ہے۔ ایک بار ہم لوگ سینٹر سے باہر کھڑے سڑک پر اپنی مطلوبہ بس کا انتظار کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک جمعدارنی روڈ پر جھاڑو لگاتی ہوئی ہمارے پاس سے گزری تو بے ساختہ فاطمہ کے الفاظ میرے کانوں سے ٹکرائے۔



”کھنک اگر کوئی مجھ سے یہ کہے کہ اس جمعدارنی کی جگہ تم یہاں جھاڑو لگاو ¿ تو تمہیں اتنے پیسے ملیں گے تو میں بغیر کسی توقف کے جھاڑو لگادوں گی ۔“ فاطمہ کی بات پر میں نے حیرانی سے اسے دیکھا کیونکہ فاطمہ کا اچھی کھاتی پیتی فیملی سے تعلق تھا۔ پھر اس طرح کی باتیں چہ معنی دارد اتنے میں ہمارے روٹ کی بس آگئی اور ہم اس میں بیٹھ گئے۔ بس میں بیٹھنے کے بعد میرے پوچھنے پر فاطمہ نے بتایا کے شاہ رخ کے مالی حالات بہت خراب ہیں جس کی وجہ سے اسٹڈی کے دوران اسے دو دو نوکریاں کرنا پڑ رہی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ سی اے پاس نہیں کرپارہا اور ہماری شادی اس کے سی اے کرنے کے بعد ہوگی۔
”میں نے صرف شاہ رخ کے لیے ٹیوشن پڑھانا شروع کیاہے تاکہ اس کی مالی مدد کرسکوں۔ ہر مہینے ٹیوشن سے کمائی ہوئی ساری رقم میں اسے دے دیتی ہوں۔ میں اس سے زیادہ اس کے لیے کچھ نہیں کر پارہی۔ میرے شاہ رخ کو میری ضرورت ہے۔“ یہ کہہ کر وہ دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا کر رونے لگی۔ اس کے اس طرح رونے پر آس پاس کے لوگ ہماری طرف متوجہ ہوگئے۔ وہ ایسی ہی تھی اپنے آس پاس کے ماحول سے بے خبر اسے اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اسے مستقل روتا دیکھ کر میں نے سائیڈ پر بس رکوائی اور رکشا کر کے پہلے اسے ڈراپ کیا پھر اپنے گھر آکر خاصی دیر تک امی سے اس کے بارے میں باتیں کرتی رہی۔ میری ساری باتیں سننے کے بعد امی نے صرف اتنا کہا۔ ” مرد کے پاس عورت کو دینے کے لیے کچھ ہو یا نہ ہو لیکن اس کے پاس غیرت اور عزت ضرور ہونی چاہیے عورت کو دینے کے لیے۔ محبت کے بغیر گزارا ہوجاتا ہے، لیکن بے عزتی اور بے غیرت مرد کے ساتھ گزارا کرنا انتہائی مشکل ہے۔ تمہاری باتوں سے لگتا ہے کہ شاہ رخ بے غیرت مرد ہے اور بے غیرت مرد سے وفا کی امید رکھنا نادانی کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ اس بچی کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور اسے ہدایت دے آمین!“ یہ کہہ کر امی عصر کی نماز پڑھنے چلی گئیں اور میں فاطمہ کے لیے مزید پریشان ہوگئی۔
”کھنک ان سے ملو یہ میری بیٹی زینب ہیں۔“ فاطمہ کی آواز پر میں نے ماضی کی کھڑکی کو بند کیا اور حال میں واپس آگئی جہاں فاطمہ دس بارہ سال کی گہری سانولی رنگت لیکن پرکشش نقوش والی بچی سے مجھے ملوارہی تھی۔ مجھے محسوس ہوا جیسے وہ شاہ رخ کے بارے میں بات کرنے سے گریز کر رہی ہے یہ چیز میرے لیے کافی حیران کن تھی۔ دوسری طرف زینب کو دیکھ کر میری حیرانی میں مزید اضافہ ہوگیا کیونکہ شاہ رخ اور فاطمہ دونوں خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے۔ شاہ رخ کیونکہ فاطمہ کا خالہ زاد تھا اور فاطمہ کی چھوٹی بہن کی شادی پر میں نے اس کے پورے خاندان کو دیکھا تھا۔ سب ہی پریوں کے دیس کے باسی لگ رہے تھے تو پھر یہ زینب کس پر چلی گئی۔
”کھنک کیسی لگی میری بیٹی تمہیں۔ یہ بہت ذہین ہے نہ صرف تعلیم کے میدان میں بلکہ کھیل کود میں بھی ہمیشہ اوّل ہی آتی ہے ۔“فاطمہ کی آواز پر میں ایک بار پھر اپنی سوچوں کی دنیا سے باہر آگئی۔ بیٹی کے لیے فاطمہ کے لہجے میں بے تحاشا محبت بول رہی تھی۔ یوں ہی اِدھر اُدھر کی باتوں میں وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور علی مجھے لینے آگئے۔ فاطمہ اور زینب مجھے دروازے تک چھوڑنے آئیں تو لاو ¿نج سے باہر نکلتے وقت میری نظر بائیں جانب پڑی جہاں لکڑی کا بہت خوبصورت فریم دیوار پر آویزاں تھا جو دیکھنے میں بالکل کسی درخت جیسا تھا اور اس کی ہر شاخ پر فیملی ممبرز کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ انہیں تصاویر میں ایک تصویر ایسی تھی جس نے لمحہ بھر کے لیے مجھے دم بخود کردیا۔ اس تصویر میں ایک طرف فاطمہ کھڑی تھی اور ایک طرف زینب سے ملتا جلتا تقریباً چالیس سال کا ایک مرد کھڑا تھا جبکہ زینب ان دونوں کے درمیان کھڑی شرارتی نظروں سے فاطمہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ یہ ایک مکمل فیملی پکچر تھی جس نے مجھے منٹ کے ہزارویں حصے میں یہ سمجھادیا تھا کہ فاطمہ شاہ رخ کے ذکر کو نظر انداز کیوں کر رہی تھی۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

مالک اور نوکر

Read Next

اسرار

2 Comments

  • Simply wish to say your article is as astonishing.
    The clearness in your post is simply cool and i can assume
    you are an expert on this subject. Well with your
    permission allow me to grab your feed to keep up to date with forthcoming post.

    Thanks a million and please carry on the rewarding work.

  • My brother suggested I might like this blog. He was entirely right.
    This post actually made my day. You can not imagine simply how much time
    I had spent for this information! Thanks!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!