بیلینس شیٹ ۔ مکمل ناول

ڈنگ ڈونگ ڈنگ ڈونگ کوئی بہت بے صبری سے ڈور بیل بجا رہا تھا۔ کھنک نے جھنجھلا کر پاس بیٹھے چھو ٹے بھائی کو دیکھا جو حسب معمول کانوں میں ہیڈ فون لگائے لیپ ٹاپ میں کھویا ہوا تھا اور اس وقت گھر میں ان دونوں کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا اور ڈور بیل تھی کے متواتر بجے جارہی تھی۔ بادل نخواستہ کھنک کو دروازہ کھولنے جانا پڑا۔
”بہت معذرت ہمارے گھر کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہے۔“ کھنک نے دروازہ کھول کر سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھ کر کہا جو عام سے حلیے میں کندھے پر بیگ ڈالے کھڑی تھی اور دیکھنے میں پولیو ورکر لگ رہی تھی کیونکہ ہر مہینے پولیو ورکر ان کے گھر چھوٹے بچوں کی موجودگی کا سمجھ کر آجاتی تھی یہ ہی وجہ تھی کہ کھنک نے اس لڑکی کے بولنے سے پہلے ہی معذرت کرلی۔
”ارے یار پہچانا نہیں مجھے میں فاطمہ تمہاری کوچنگ فرینڈ۔“ اس لڑکی کے کہنے پر کھنک نے اس بار ذرا غور سے اس لڑکی کا چہرہ دیکھا ۔
”اوہ سوری فاطمہ آو ¿ اندر آو ¿۔ وہ دراصل پولیو ورکرز ہر مہینے آجاتی ہیں نہ تو اس لیے خیر تم سناو ¿ کیسی ہو اور تمہارا بی ۔کام کا رزلٹ کیسا آیا اور تم ذرا مجھے یہ تو بتاو ¿ اتنے عرصے سے کہاں غائب ہو؟ تمہارا نمبر بھی بند جارہا تھا۔ تمہارے گھر بھی دو تین بار گئی وہاں بھی تالا لگا ہوا تھا اور یہ تم نے اپنا حلیہ کیا بنایا ہوا ہے۔ انتہائی ماڈرن اور فیشن ایبل لڑکی ماسی لگ رہی ہے۔ سب خیر تو ہے کہیں شاہ رخ بھائی نے بے وفائی تو نہیں کردی تمہارے ساتھ جو تم لیلیٰ بنی گھوم رہی ہو ۔“ میں نے آخری جملہ شرارت سے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
”اللہ کا واسطہ ہے کھنک تھوڑی سانس لے لو ورنہ رک جائے گی ۔“ میرے ایک ہی سانس میں اتنے سوال کرنے پر میرے چھوٹے بھائی احمد نے مجھے چھیڑا اور ہاتھ کے اشارے سے فاطمہ کو سلام کیا ۔
”اپنی بکواس بند کرو اور ڈوب مرو اس لیپ ٹاپ میں گھر میں بھائی کے ہوتے ہوئے بہن دروازہ کھولنے جارہی ہے۔“ میں نے احمد کو شرم تو دلائی جیسے اس کے ہوتے ہوئے میں اکیلے جنگ جیت کر آرہی ہوں اور فاطمہ کو لے کر ڈرائنگ روم میں آگئی۔ ہم بہن بھائی کی نوک جھوک پر فاطمہ بھی بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنس دی اور میرے ساتھ والے صوفے پر ہی بیٹھ گئی۔
”کھنک میں تمہیں تمہارے سارے سوالات کے جوابات دوں گی۔ پہلے تم مجھے کھانا کھلاو ¿ صبح میں بغیر ناشتے کے گھر سے نکلی تھی اب میرا بھوک سے دم نکل رہا ہے۔“
”ٹھیک ہے تم فریش ہوجاو ¿ میں کھانا لے کر آتی ہوں۔“ جیسے ہی میں نے کھانا لگایا وہ انتہائی رغبت سے کھانے لگی۔ اس کو کھاتا دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ صبح سے نہیں، کئی دنوں سے بھوکی ہے۔ دیکھنے میں بھی وہ کافی کمزور اور پیلی نظر آرہی تھی۔



”اچھا بابا دیتی ہوں تمہارے سارے سوالات کے جوابات۔“ مجھے اپنی جانب دیکھتے ہوئے حسب عادت فاطمہ نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور آنکھ مار کر مجھ سے کہا۔ وہ ایسی ہی تھی مست مگن ٹائپ کی۔ اسے اس چیز سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ لوگ کیا کہیں گے جس لڑکی کو بی۔کام کے دو سالوں میں کبھی بیلنس شیٹ کا بیلنس نہ آیا ہو جس نے اسٹیٹس کو پورے سال یہ کہہ کر لفٹ نہ کرائی ہو کہ اس میں ساری کہانی فارمولوں کی ہی تو ہے اسے لاسٹ ٹائم پر رٹا لگا لوں گی اور رہی بات تھیوری کی تو اس سے تو شبی فاطمہ کا ہمیشہ سے ہی چھتیس کا آکڑا رہا ہے۔ باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔ بس یہ سمجھ لیں کے فیل ہوتے ہوتے بچی ہوں اور انگلش لینگوئج کی کلاسز میں نے بیچ میں اس لیے چھوڑ دی تھیں کہ جناب میری شادی ہوگئی ہے شاہ رخ سے اور جہاں تک بات ہے موبائل نمبر کی تو میرے پاس اب کوئی موبائل نہیں ہے اور گھر پر میرے اس لیے تالا لگا ہوا ہے کہ مما، پاپا سعودیہ شفٹ ہوگئے ہیں۔ میری شادی کے فوراً بعد ایک بہن اسلام آباد میں ہوتی ہے۔ ایک سعودیہ میں ہوتی ہے۔ اس کی شادی میرے چچا کے بیٹے سے ہوئی ہے۔ تمہیں تو پتا ہے میری پوری ددھیال سعودیہ میں ہے۔“ اپنی بات پوری کرکے وہ مجھے ایسے دیکھنے لگی جیسے کہہ رہی ہو بس یا کچھ اور۔
” کیا تمہاری شادی ہوگئی اور تم نے بلانا تو دور کی بات بتایا تک نہیں ۔“ میں نے مصنوعی خفگی سے اسے گھورا۔
”میں نے کورٹ میرج کی ہے میری شادی میں فیملی بھی شریک نہیں ہوئی ہے۔ بقول میرے گھر والوں کے میں شاہ رخ کی محبت نہیں ضرورت ہوں جس دن مجھ سے وابستہ اس کی سب ضروریات پوری ہوجائیں گی وہ اس دن مجھے چھوڑ دے گا ۔“ یہ کہتے ہوئے میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں گو مگو کی سی کیفیت تھی۔
”تم خوش تو ہو نا ؟ شاہ رخ بھائی تمہارا خیال تو رکھتے ہیں نا؟“ گو کہ فاطمہ کی ظاہری کیفیت اس کے حالت کی بھرپور عکاسی کررہی تھی۔ پھر بھی نہ جانے کیوں میں نے ایک آس سے پوچھا۔
”ہاں یار! میں بہت خوش ہوں۔ شاہ رخ میرا بہت خیال رکھتا ہے۔ آخر اس کی بچپن کی محبت ہوں میں ۔“ فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”لیکن تمہاری حالت سے کہیں سے نہیں لگتا کے تم سہاگن ہو۔ عجیب بدحال سی لگ رہی ہو۔“ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔
”بس کچھ دنوں کی بات ہے شاہ رخ کا سی۔ اے ہوجائے تو پھر تم دیکھنا میرے ٹھاٹ باٹ۔“ فاطمہ کے لہجے میں شاہ رخ کی محبت کا غرور بول رہا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں اسے ڈھیروں دعائیں دے ڈالیں۔
”مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی فاطمہ تمہاری منگنی تو بہت دھوم دھام سے ہوئی تھی جس میں پورا خاندان شامل تھا تمہارا پھر اچانک ایسا کیا ہوا کے تمہیں کورٹ میرج کرنا پڑگئی؟“ مجھے اس کی کورٹ میرج والی بات کچھ ہضم نہ ہوئی تو اپنی الجھن سلجھانے کے لیے پوچھ ہی لیا۔
”میرے گھر والوں کو اس کی نیت پر شک تھا کہ وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا۔ بقول ان کے منگنی کے دس سالوں میں شاہ رخ سر سے پاو ¿ں تک بدل چکا ہے۔ یہ وہ والا شاہ رخ نہیں رہا ہے جس سے ان لوگوں نے میری منگنی کی تھی، جبکہ آنٹی لوگ اس شادی کے اس لیے خلاف تھے کیونکہ شاہ رخ کچھ کماتا نہیں تھا اور وہ لوگ شاہ رخ کے ساتھ ساتھ اس کے بیوی بچوں کو نہیں پالنا چاہتے تھے اور میں اپنی دس سالہ محبت کو چھوڑ نہیں سکتی تھی۔ بس یہ ہی وجہ تھی کورٹ میرج کرنے کی۔“ اس کی باتوں سے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس شاہ رخ ہی اس کے لیے پوری دنیا ہے جو اسے مل گیا۔
”اچھا یار! اب میں چلتی ہوں بہت شکریہ اتنا مزے کا کھانا کھلانے کے لیے۔“ اس نے دوپٹے کو ہمیشہ کی طرح بے پروائی سے گلے میں ڈالا اور بیگ شولڈر پر سیٹ کر کے کھڑی ہوگئی۔
”ارے ارے ایسی بھی کیا جلدی ہے جانے کی۔ اپنا کوئی کونٹیکٹ نمبر یا گھر کا ایڈریس تو دیتی جاو ¿۔ میری شادی ہے اس مہینے کی اٹھارہ کوکارڈ کیسے پہنچاو ¿ں گی تم تک۔“ اس کے اس طرح اچانک اٹھ جانے پر میں نے بوکھلا کر کہا۔
پریشان مت ہو، اب تو میرا آنا جانا لگا ہی رہے گا تمہارے گھر۔ تمہارے گھر کے سامنے والی اسٹریٹ پر لائن سے جو اسکول بنے ہوئے ہیں اس میں سے ایک اسکول میں مجھے جاب مل گئی ہے اور رہی بات شادی کی اس میں تو میں لازمی شریک ہوں گی تم میرا کارڈ سنبھال کر رکھنا۔ کسی دن اسکول سے واپسی پر میں خود لے جاو ¿ں گی کارڈ۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے مجھے گلے لگا کر میرے گال پر بوسا دیا اور اللہ حافظ کہہ کر دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔
”کن سوچوں میں گم ہو چلی گئی تمہاری دوست۔“ مجھے دروازے پر گم صم دیکھ کر احمد نے میرے چہرے کے سامنے ہاتھ کرکے چٹکی بجائی تو میں نے اُسے گھور کر دیکھا اور ڈرائنگ روم سمیٹنے لگی۔ ٹیبل کے اوپر سے کھانے کے برتن اٹھاتے وقت میری نظر ایک سفید رنگ کے لفافے پر پڑی جو کسی کلینک کا لگ رہا تھا۔ اس لفافے کے اوپر مسز شاہ رخ بہت واضح لکھا ہوا تھا۔ لفافہ شاید بے دھیانی میں اس کے بیگ سے گرگیا تھا۔ میں نے کسی انجانے خوف سے گھبرا کر جلدی سے لفافہ کھولا تو اس میں موجود رپورٹ نے مجھے نہ صرف حیران کیا بلکہ پریشان بھی ہوگئی۔ اس رپورٹ کے مطابق فاطمہ تین ماہ کی حاملہ تھی۔ اس حالت میں تو اسے آرام اور اچھی خوراک کی ضرورت تھی اور وہ اس حال میں مئی کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں بغیر ناشتا کیے جاب کے لیے ماری ماری پھر رہی تھی۔
”اور کیسی رہی ملاقات ؟ تمہاری دوست تو بہت امیر ہے ۔“فاطمہ کے گھر سے مجھے پک کرتے ہوئے علی نے شرارت سے کہا۔
”میری جب سے فاطمہ سے دوستی ہوئی ہے میں اس کی زندگی کے اتار چڑھاو ¿ پر مستقل حیران ہی ہورہی ہوں اور آج کی ملاقات نے مجھے مزید حیرت میں ڈال دیا ہے۔“ گاڑی میں بیٹھ کر سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے میں نے علی سے کہا۔

Loading

Read Previous

مالک اور نوکر

Read Next

اسرار

2 Comments

  • Simply wish to say your article is as astonishing.
    The clearness in your post is simply cool and i can assume
    you are an expert on this subject. Well with your
    permission allow me to grab your feed to keep up to date with forthcoming post.

    Thanks a million and please carry on the rewarding work.

  • My brother suggested I might like this blog. He was entirely right.
    This post actually made my day. You can not imagine simply how much time
    I had spent for this information! Thanks!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!