بس کا دروازہ — نوید اکبر

بس رُک گئی۔ شائد کوئی سٹاپ تھا۔ پاس ہی گلبرگ مین مارکیٹ میں سموسے بک رہے تھے۔ اس بس سٹاپ پر سوٹوں، سینڈلوں اور کالج بیگوں کے درمیان گھرا ایک مجذوب بھکاری بُرے حالوں میں سب کے سامنے منہ کھولے، بغیر آواز نکالے ہاتھ پھیلاتا جاتا تھا۔ اُس کے منہ سے تھوک کی ایک لکیر بہ رہی تھی۔ پھٹی شلوار قمیص پر اِکّا دُکّا خون کی چھینٹیں تھیں۔ سر کے بال بہت چھوٹے تھے اور صحت سے موٹاپے کا شائبہ ہوتا تھا۔ ایک طرف پاگل سا صحت مند بھکاری بس پہ چڑھنے والی بھیڑ کے اندر بل کھا رہا تھا اور دوسری طرف سموسوں کی کڑھائی کے پاس گلی کی بلی۔




بس کا پہیہ گھوما اور مجذوب بھکاری پریشان اور کنفیوز سا اس کی پہلی سیڑھی پہ چڑھ گیا۔ بس کے خود کار دروازے بند ہو گئے۔ بھکاری کا خاموش منہ ابھی تک کُھلا ہوا تھا، اُس کی کھلی ہوئی ہتھیلی کی طرح جو لوگ غربت کی وجہ سے دس روپے کی روحانی کتاب خرید کر زندگی میں مذہبی انقلاب برپا کرنے سے محروم ہو گئے تھے اُن کو اُن کے ضمیر نے ملامت کیا۔ ایک ایک دو دو روپے کے سکّے کھلی ہتھیلی کا وزن ہلکا کرنے لگے۔ ابھی تو بس مین مارکیٹ کے اشارے تک بھی نہ پہنچی تھی کہ بھکاری کی ہتھیلی بند ہو گئی۔ اُس کی نظر کھڑکی سے باہر پڑی۔ باہر ایک عورت پھٹے ہوئے کپڑے پہنے ہاتھ ہلا کر مجذوب کو اشارے کر رہی تھی۔ شائد وہ وارننگ تھی۔ شاید مجذوب غلط بس میں بیٹھ گیا تھا یا شاید بس میں بیٹھنا ہی ایک غلطی تھی۔
لاہور میں بسوں کے خود کار دروازے صرف بس سٹاپوں پر کھلتے ہیں اور اس بس کے دروازے تو ابھی چند گھڑی پہلے ہی بند ہوئے تھے۔ مجذوب کے منہ سے ہلکی سی آواز نکلی: “مجھے۔۔۔ نکال دو۔”
بس کے کان بند تھے۔ وہ چلتی رہی۔ بھیڑ میں پھنسی یہ آواز تھوڑی بلند ہوئی۔
“اوئے۔۔۔ مجھے اُتار دو۔”
بس کے دوسرے مسافر اس کی ایسی حالت پر پریشان ہو گئے۔ کال سینٹر جانے والے سوٹ ٹائی والے نوجوان نے اونچی آواز دی: “بس روکو۔”
گھر کو جانے والا ایک بوڑھا کلرک پکارا۔۔۔ “او پگلے پھنس گیا ہے۔۔۔ اسے نکالو۔”
عورتوں کے حصّے سے اک عورت نے آواز دی۔۔ “انسانیت نام کی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔”
بس کا کنڈیکٹر بھیڑ چیرتے ہوئے پیچھے کی طرف آیا اور کلرک سے مخاطب ہوا۔” او صوفی صاحب! بس صرف سٹاپ پہ رکتی ہے۔ پہلے روکو تو چالان ہو جاتا ہے۔ مالکوں کو کون جواب دے گا۔ چالان کے پیسے تم دو گے؟”
سب خاموش ہوگئے۔ انصاف اور حق بانٹنے والے فرشتے کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ پاس ایک پرائمری کا استاد راڈ سے ٹنگا تھا۔ فرشتے نے چٹکی کاٹی۔ “یار یہ ظلم ہے۔”
بس کے دوسرے کونے سے جواب آیا:”ان لوگوں نے غریب کا جینا حرام کر دیا ہے۔” کوئی تیسرا بولا:”خدا کا خوف تو ختم ہی ہو گیا ہے دنیا سے۔”
ایک درمیانی عمر کا شخص جو شاید بیوی کی چوں چوں، بچوں کی شادی ، گھر کے خرچے ، دوستوں رشتے داروں کے زبردستی کے مخلص مشوروں سے بے حال تھا اُٹھ کھڑا ہوا اور چھت پیٹنے لگا۔ “بس روک اوئے۔۔۔ بے شرم انسان۔”
بس کا کنڈیکٹر اس غیر اخلاقی فقرے کو ہضم کر سکا ۔ وہ ہضم بھی کیسے کرتا۔ اس کے رشتے دار ہارورڈ میں تھوڑی پڑھتے تھے۔اُس کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی اسی لیے مسٹریس بھی زیادہ تھی۔ اُسے محسوس ہوتا تھا کہ اُس کی زندگی میں دخل دینا ہر انسان کا بنیادی حق ہے سوائے اُس کے۔ تنخواہ کب کی رُکی ہوئی تھی اور جون کا بجٹ آگیا تھا۔ جوتے کے تلوئوں میں سوراخ تھا، جس سے تکلیف ہوتی تھی لیکن نئے جوتوں پر حکومت نے کل ہی ٹیکس لگا یاتھا۔ ٹیکس تو خیر صابن پر بھی لگا تھا لیکن اُسے چھوڑیں،ابھی تو تلووں کی تکلیف کی فکر تھی۔ یہ دماغ کو چھو رہی تھی۔ ویسے بھی غریبوں کا نہانا اتنا ضروری نہیں جتنا ان لیڈروں کے سوئس اکاونٹ اور off shore کمپنیاں، لیکن الزام دے تو بندہ کسے دے۔ اُسے خود موقع ملے تو وہ خود ضائع کرے؟ قبر کا عذاب جائے بھاڑ میں۔ زندگی سکون میں گزرنی چاہئے۔ آخر اُسے ہاتھ کی صفائی کا کوئی موقع کیوں نہیں ملتا؟ ان سب کے خاص پَر لگے ہوئے ہیں؟




اس نے بھی دو سال پہلے ایک ایسی ہی پارٹی کے نمائندے کو ووٹ دیا تھا جو آج لندن میں علاج کروا رہا تھا۔ رشتے میں اسی کی برادری کا تھا۔ برادری کی عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں، لیکن یہ تلووں کی تکلیف۔۔۔؟ کبھی کبھی وہ سوچتا کہ حکومت ان چیزوں پرٹیکس کیوں لگاتی ہے؟ سزا کے لئے؟ لیکن سزا دینا تو اللہ کا کام ہے۔ اللہ اپنا کام کر رہا تھا۔ بندے اپنے کام بھول جاتے ہیں، اللہ نہیں۔
وہ بھی اُسی چکی میں پس رہا تھا جس میں باقی سارے۔ اُس کے صبر کا پیمانہ بھی وقفے وقفے سے چھلک جاتا۔ اُس نے بھی ہر پرائی چیز میں دخل اندازی شروع کر دی تھی۔
وہ اس شخص سے اُلجھ پڑا۔ لڑائی شروع ہو گئی۔ ایک کنڈیکٹر بہ مقابلہ سو مسافر۔ مین مارکیٹ سے باہر نکلنے والا ٹریفک سگنل بند ہو گیا۔ ہاتھا پائی کے امکانات روشن ہونے لگے۔ گالی گلوچ کے پتھر برس پڑے۔
امن کا فرشتہ پچھلی سیٹ پہ خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔ شور سے ڈسٹرب ہو کر اُٹھا۔ ڈرائیور نے موقع کو غنیمت جانا اور چپکے سے بٹن دبا دیا۔ دروازہ کھل گیا۔
ایک شخص نے بھیڑ میں گھرے مجذوب کو صلاح دی: “جلدی باہر نکل۔”
آپس میں اُلجھے لوگ اُس کے لئے راستہ بنانے لگے۔ اتنے میں اشارہ کھل گیا۔ ٹائر گھومے اور دروازہ بند ہونے لگا۔ بھیڑ کو چیرتے ہوئے پگلا دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ دروازہ مکمل طور پر بند ہو گیا۔
“اوئے مسافردا پیر پھنس گیا ای۔۔۔ بوا کھول!!!”
مجذوب کے منہ سے رال ٹپکنا بند ہو گئی۔ اُس کے چہرے سے دیوانگی کا خول جھڑ گیا۔ اُس کی آنکھوں کی پتلیاں کھِل اُٹھیں اور بند مٹھیاں بس کی چھت کو زور زور سے پیٹنے لگیں۔ دماغ کی بتی جلی اور زبان کھل گئی۔ “بوا کھول! مسافر دا پیر پھنس گیا ای۔۔۔ بوا کھول!”
ہر طرف اُس کے چھت پٹنے کا شور۔۔۔ایسے جیسے جون کی دھوپ پٹ رہی ہو۔ جیسے تیسری دنیا کے تیسرے درجے کے سوال پٹ رہے ہوں۔ جیسے دعاوں کی بیسٹ سیلر کے منافع کا کسی نے مذاق اُڑایا ہو۔ جیسے سب جواب سر پیٹ کر بیٹھ گئے ہوں۔ جیسے عقل پٹ رہی ہو۔
“اوئے، خون آ ریا ای پیر توں۔۔ بوا کھول۔”
ڈرائیور بوکھلا گیا۔ بوا کھل گیا۔
بوا بند ہوتے ساتھ ہی بس میںمکمل سناٹا۔ سپاٹ چہرے ایک دوسرے کی آنکھوں میںحقیقت اور خواب کا فرق ڈھونڈ رہے تھے۔ کیا ابھی ابھی ایک شیطان کسی بہروپیے کے بھیس میں بس میں داخل ہوا تھا اور ان سب کٹھ پتلیوں کی ڈور کھینچ گیا تھا؟ کیا کوئی ابھی ابھی ان سب کے یقین پر ہنس کر گیا تھا۔۔۔ یا پھر معاملہ کچھ اور تھا۔ رزق کے فرشتے جو ان بس کے دروازوں کو regulate کرتے تھے، آج پھرحسبِ توفیق اور حسبِ معمول اس بہروپئے کو بھی عطا کر گئے تھے۔
خاموش بس میں سب سے پہلی آواز ایک چھے سالہ بچی کی تھی، جو سب سے آخری لیکن سب سے لمبی سیٹ پر اپنے باپ کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔ ہنس پڑی۔
خالی بس میں ننھی سی ہنسی۔ ساتھ بیٹھا شعور کا رزق بانٹنے والا فرشتہ بچی کو گد گدی کر رہا تھا۔ مسافر نہ چاہتے ہوئے بھی مُسکرا پڑے۔ کچھ اپنی بے وقوفی پہ تو کچھ پگلے کی اعلیٰperformance پر۔
بس میں جگہ جگہ سے ہنسی کے فوارے پھوٹ پڑے۔ آج مزاح کا فرشتہ اچھے موڈ میں تھا۔




Loading

Read Previous

ڈگریاں — ثناء سعید

Read Next

دوسراہٹ — لبنیٰ طاہر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!