”ہاں تماش بین بھی جتنے زیادہ ہوں اتنا ہی مزہ آتا ہے۔”ریحان کہتے کہتے ہنس دیا۔
”سچ کہا تماش بین جتنے زیادہ تماشا اتنا ہی بڑا، پارٹی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔اچھا بعد میں بات کرتی ہوں،بائے۔”کنول نے بھی ہنس کر کہا اور فون بند کر دیا۔
٭…٭…٭
کنول شاپنگ کر کے لوٹی اور تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئی۔فیس بک ان باکس میں ڈھیروں میسج تھے،وہ میسج پڑھے بنا اسکرول ڈاؤن کرتی رہی۔مردوں کی فطری ذہنیت کا مظاہرہ پڑھنے میں اسے کوئی دل چسپی نہ تھی۔ایک میسج میں شہریار کا نام لکھا دیکھ کر وہ رکی اور میسج کھول کر پڑھنے لگی۔اس نے میسج پڑھا اور پھر زیر لب مسکرا دی اور جواب ٹائپ کرنے لگی۔
”تم کیوں پوچھ رہے ہو،میں واپس آؤں یا نہ آؤں تمہیں کیا؟”
”پتا نہیں یہ کیوں پوچھاکہ تم کب واپس آؤ گی،لیکن اگر تمہیں بُرا لگا تو معذرت خواہ ہوں۔”شہریارآن لائن تھا جب ہی اس کا فورا ً ریپلائی آ گیا۔
”نہیں نہیں بُرا تو نہیں لگا بس عجیب لگا۔”کنول نے جوابی میسج بھیجا۔
”عجیب کیوں؟”ہزاروں میل دور بیٹھے شہریار کا دل بے طرح دھڑکا۔اُسے لگا جیسے ایک ہارٹ بیٹ مِس ہوئی ہو۔”کیا بے وقوفی ہے ؟اب تم نوجوان نہیں ہو شہریار صاحب!خود کو سنبھالو۔” اس نے خود کو ڈانٹا۔
”پتا نہیں کیوں؟ کبھی کسی نے میری واپسی کا پوچھا نہیں اور نہ کوئی میرا منتظر رہا تو عجیب لگتاتھا۔کچھ راستے ایسے ہوتے ہیں جن پر آگے جا کر واپسی مشکل ہو جاتی ہے،نہ انسان خود آسکتا ہے اور نہ پیچھے سے کوئی پکارتا ہے۔”کنول نے میسج ٹائپ کیا اور اسے بھیج دیا۔
”بڑی گہری لڑکی ہو،بلکہ بڑی عجیب لڑکی ہو۔”شہریار نے اس کے فلسفے کے جواب میں میسج بھیجا۔
”دروازے پر دستک ہورہی ہے،میں دیکھتی ہوں کون ہے ،خدا حافظ۔پھر بات ہوگی۔”اس نے بات ختم کرنی مناسب سمجھی۔
٭…٭…٭
”چل مُنی جلدی جلدی ناشتہ کر اور برتن دھو کر جگہ پر رکھ۔”ماں نے منی کے آگے پراٹھارکھتے ہوئے کہا۔
”چھا اماں،بس یہ ناشتہ ختم کرلوں۔”منی نے نوالہ توڑتے ہوئے جواب دیا۔
”اورمُناتو اپنی دکان پر کب تک جائے گا نو بج گئے ہیں۔ تیرا باپ بھی شہر سے آنے ہی والا ہوگا،تجھے گھر میں دیکھے گا تو ناراض ہوگا۔”ماں نے منے کو ڈانٹتے ہوئے پوچھا۔
”جارہا ہوں اماں چائے تو پی لینے دے۔”منا جلدی جلدی نوالہ حلق میں ٹھونس رہا تھا۔
اتنے میں دروازہ زور زور سے بجایا۔مُنے نے دروازہ کھولا تو ایک لڑکا تیزی سے اندر آیااور فوزیہ کی ماں سے کہا۔
”چاچی شہر میں چاچا کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے،ابھی بھائی کریم کے پاس فون آیا تھا۔”
ماں یہ خبر سنتے ہی پریشان ہوگئی اوردل پر ہاتھ رکھتے ہوئے گھبرا کر بولی۔”ہائے اللہ میں مر گئی، فوزیہ کے ابا تجھے کیا ہوگیا۔جا منا بھاگ کر بھائی رحیم کو بتا، شہر جانے کی کرے وہ، چل جلدی جا ۔”
منا رحیم کو بتانے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا،ادھر ماں پریشانی سے زمین پر ہی بیٹھ گئی اور اپنے سہاگ کی سلامتی کی دعا مانگنے لگی۔
٭…٭…٭
”دیکھیں جی ہمیں بتاتے ہوئے بہت دکھ ہورہا ہے کہ ان کی ٹانگ بُری طرح کچلی گئی ہے اور آپریشن کے سوا کوئی چارہ نہیں،باقی ابتدائی دیکھ بھال تو ہم نے کرلی ہے۔”ڈاکٹر نے رحیم کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”کیامطلب ڈاکٹر صاحب؟” رحیم نے حیرانی سے پوچھا،اس کے حواس اس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔
”مطلب یہ کہ فوری انتظام کریں آپریشن کا۔” ڈاکٹر نے کندھے اچکا کر کہا۔
” مگرڈاکٹر صاحب کتنا خرچہ ہو جائے گا؟”رحیم نے پریشانی سے پوچھا۔
”آپ کو کم از کم ڈیڑھ لاکھ روپے کا انتظام کرنا پڑے گا۔”ڈاکٹر نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
”ڈیڑھ لاکھ روپے۔” رحیم نے ماں کی طرف دیکھا اور پریشان لہجے میں بُڑبُڑایا۔
”جی اور یہ کام دو تین دن کے اندر ہی ہونا ضروری ہے،ورنہ زخم خراب ہو سکتا ہے۔”ڈاکٹر نے رحیم کو سمجھایا۔
”جی ڈاکٹر صاحب۔”رحیم نے کہا اورسب کی طرف دیکھتا ہوا باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
”پتر رحیم!ڈاکٹر تو کہہ گیا ہے آپریشن کا،دو تین دن میں پیسا لا کہیں سے۔” رحیم تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو ماں نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
”ڈیڑھ لاکھ روپے کس سے مانگوں؟میرا تو اپنا گذارا پورا نہیں ہوتا۔ابا سے کہا تھا گھر بیچ کر کچھ پیسے دے دے تاکہ میں بھی کوئی دکان ڈال لوں۔”رحیم نے شدید رکھائی سے کہا۔
”اب یہ وقت ایسی باتوں کا نہیں،تیرا باپ اس حالت میں پڑا ہے اور تو گھر بیچنے کی بات کررہا ہے۔”ماں نے شدید غصہ کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں تو اماں اور کیا کہوں میری بات مان لی ہوتی تو اس وقت اتنی پریشانی نہ ہوتی،اب کہاں سے لاؤں میں، تو بھی نا بس… میں جتنا کر سکا کردوں گا۔”رحیم نے بے پروائی سے کہا اور باہر نکل گیا۔
ماں اس کی شکل دیکھتی رہ گئی ،بیٹے کی بات سُن کر آنکھوں میں آنسو آگئے۔منی نے ماں کو اس حالت میں دیکھا تو آگے بڑھ کر گلے لگا لیا۔اس نے ماں کے آنسو پونچھے اور اسے دلاسا دیا۔
”اماں نہ رو،اللہ کوئی نہ کوئی انتظام کرلے گا۔”
”تو نے دیکھا مُنی کیسا جواب دے کر گیا ہے،جس باپ نے اتنا بڑا کیا بیٹیوں سے زیادہ بیٹے کا خیال رکھا آج وہی اس پر بوجھ ہوگیا۔”ماں کے لہجے میں شکوہ تھا۔
”اماں چھوڑ بھائی کو میں باجی کو فون کرتی ہوں وہ ضرور کچھ نہ کچھ کردے گی۔”منی نے موبائل ہاتھ میں پکڑااور نمبر ملانے لگی۔
”ہاں تو کر فوزیہ کو فون لیکن باپ اور بھائی کو پتا نہ چلے کہ تو نے اس سے پیسوں کاکہا ہے۔”فوزیہ کا نام سن کر ماں کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی۔
منی نے جلدی جلدی فون ملایا،دوسری طرف سے فون بند جارہا تھا۔اس نے کئی بار فون ملا کر دیکھا مگر ہر دفعہ ایک ہی ریکارڈنگ سننے کو ملی۔
”اماں باجی کا فون بند جارہا ہے۔”بار بار فون ملانے کے بعد منی نے ماں کی طرف دیکھا اور پریشانی سے کہا۔ماں کی آنکھوں میں چمکتے امید کے دیے بجھنے لگے،اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور اداس لہجے میں بولی۔
”چل چھوڑ دے ابھی۔اللہ انتظام کردے گا، میں سوچتی ہوں کچھ۔بیٹے نے تو جواب دے دیا۔”
٭…٭…٭
کنول اگلے دن پاکستانی پہنچی ،ریحان اسے گرم جوشی سے ملا۔فریش ہونے کے بعداس نے ریحان کے سامنے سارا سامان کھول کر رکھ دیا۔وہ اپنے گھر والوں کے لیے طرح طرح کے گفٹ لائی تھی۔ایک گفٹ اس نے ریحان کی طرف بڑھا دیا۔
” اُف میرا پسندیدہ پرفیوم…لیکن؟”ریحان پرفیوم دیکھ کر خوشی سے بولا۔
”لیکن کیا؟” کنو ل نے حیرانی سے پوچھا۔
”یہ تو بہت مہنگا ہے۔”ریحان نے اسے پرفیوم پر لکھی قیمت دکھاتے ہوئے کہا۔
”تو کیا ہوا؟ دوستی میں پیسوں کا حساب رکھنے والے لوگ کمینے ہوتے ہیں۔میں شاید بہت بری ہوں لیکن کمینی نہیں۔”کنول نے کندھے اچکا کر کہا۔
”تو بہت کھری ہے کنول۔”ریحان نے اسے ستائشی نظروں سے دیکھا۔
”ہاں اسی لیے توناکام ہوں۔” کنول کے لہجے میں تلخی تھی۔
”کہاں ناکام ہو،دیکھو یہ سب آج پا تو لیا ہے تم نے۔”ریحان نے گفٹس کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”یہ وہ کامیابی تو نہیں جس کی میں نے چاہ کی تھی۔”کنول کی تلخی برقرار تھی اور لہجے میں بے چینی تھی۔
”پھر کیا ہے؟”ریحان نے حیرانی سے پوچھا۔
”پتا نہیں مگر ان سب سے سکون نہیں ملتا۔”کنول نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
”خیر دکھاؤ اور سب کے لیے کیاکیا لائی ہو؟”ریحان نے بات بدل دی تو وہ گھر والوں کے لیے لائے ہوئے گفٹ ایک ایک کرکے اسے دکھانے لگی۔
٭…٭…٭
شہریار اپنے آفس میںبیٹھا فیس بک استعمال کر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر کنول کے اسٹیٹس اپ ڈیٹ پر پڑی۔اسے معلوم ہو گیا کہ کنول پاکستان آچکی ہے،اس لیے فوراً موبائل پر اس کا نمبر ملانے لگا۔
”ہیلو!”
کنول شہریار کو پہچان چکی تھی مگر اس کے باوجوداس نے انجان بن کر پوچھا۔”ہیلو کون؟”
”شہریار بات کررہا ہوں۔”شہریار نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
آپ!آپ کو کیسے پتا کہ میں واپس آگئی ہوں؟”کنول نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”آپ کاآفیشل پیج جوائن کر رکھا ہے وہاں سے پتا چل گیا بس۔”شہریار پرسکون انداز میں بولا۔
”تو کیا آپ ہمیشہ فیس بک پر ہی رہتے ہیں؟”کنول کے لہجے میں تھوڑا سا طنز تھا۔
”پہلے کبھی کبھار رہتا تھا لیکن اب کسی وجہ سے رہنا پڑتا ہے۔”شہریار نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
” اب کیوں رہنا پڑتا ہے؟”کنول سب سمجھ رہی تھی لیکن محض اس کیفیت سے مزہ لینے کی خاطر پوچھا۔
”کسی کی خبر رکھنے کے لیے۔”شہریار بھی اسی انداز میں بولا۔
”اچھا کون ہے وہ؟”کنول کو آنکھ مچولی جیسی ان باتوں میں مزہ آ رہا تھا۔
”مل کر بتاتا ہوں۔”شہریار بھی اس کے من چاہے جواب دے رہا تھا۔
”ہوں !پھراب تو ملنا ہی پڑے گا۔”کنول نے کچھ توقف کرکے کہا۔
”بتائیں کب مل رہی ہیں؟”شہریار نے سوال کیا۔
”آپ کے لیے کچھ گفٹ لائی ہوں،وہ بھی دینا ہے۔”کنول نے کہا۔
”میرے لیے گفٹ؟مگر کیوں؟”شہریار نے حیرانی سے پوچھا۔
”خوش قسمت سمجھیں خود کو،میں تو گفٹ لیتی ہوں سب سے اور آپ کے لیے لائی ہوں۔” کنول نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
”ویسے پوچھ سکتا ہوں کہ کیا لائی ہیں آپ؟” شہریار بات کو طول دینا چاہ رہا تھا۔
”یہ مت پوچھیں۔”کنول اسے سرپرائز دینا چاہتی تھی۔
”چلیں مل کر بتا دیجئے گا۔” شہریار مسکرا اُٹھا۔
اسی اثنا میں ریحان کنول کے پاس آ کھڑا ہوا اور اس کی باتیں بہت غور سے سننے لگا۔
”میرے پاس بھی آپ کو دینے کے لیے کچھ ہے۔”شہریار نے کنول کے اندا ز میں ہی کہا۔
”چلیں پھر اس ویک اینڈ پر ملتے ہیں،اسی ریسٹورنٹ میں۔ میں ایک دن پہلے آپ کو میسج کردوں گی ،بائے۔”کنول نے کہا اور فون بند کر دیا۔
فون بند ہوا تو ریحان نے اس سے پوچھا۔
”کون تھا ؟کوئی فین؟”
”اللہ نہ کرے۔”کنول نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
”تو کوئی دوست تھا؟”ریحان نے پھر پوچھا۔
”نہ فین نہ دوست،بس تھا کوئی۔”کنول نے اسے ٹالنا چاہا۔
”پھر بھی کوئی تو رشتہ ہوگا۔” ریحان نے اصرار کیا۔
”ریحان!کچھ رشتے بے نام ہوتے ہیں،کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی بہت کچھ ہوتے ہیں۔سمجھ ہی نہیں آتا کہ وہ ہماری زندگی میں کیوں ہیں؟ نہ چاہتے ہوئے بھی ہم انہیں اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔”کنول نے اپنائیت بھرے لہجے میں کہا۔اس کی آنکھوں کے سامنے شہریار کا عکس جھلملا رہا تھا۔
”اوہ ہو!بڑا فلسفہ بول رہی ہو۔”ریحان ہنس دیا۔
”ہاں یہ فلسفہ زندگی نے سکھایا ہے۔” کنول نے دکھ سے کہا اوراس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔”کبھی کبھی شدید تکلیف میںسگے خون کے رشتے بہت دور اور تم جیسے بے نام رشتے بہت پاس محسوس ہوتے ہیں۔”ریحان اس کا دکھ سمجھ سکتا تھا۔وہ جانتا تھا کہ اندر ہی اندر اپنوں کے بے اعتنائی اسے گُھن کی طرح چاٹ رہی ہے،لیکن بھلا وہ اس سلسلے میں کیا کر سکتا تھا۔
٭…٭…٭
دوسری صبح مُنی نے ہسپتال کے کاریڈور میں بیٹھے بیٹھے ایک دفعہ پھرفوزیہ کو فون کرنے کا سوچا اور اس کا نمبر ملانے لگی۔کنول نے پہلی ہی گھنٹی پر کال ریسیو کر لی۔ ”ارے مُنی کیسی ہے تو؟ بہت یاد کیا میں نے تجھے۔ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی تجھے فون کرنے کا۔”کنول نے اشتیاق سے کہا۔
”باجی میں تو تجھے دو دن سے فون کررہی ہوں تیرا فون ہی بند جا رہا تھا۔”منی کی آوازمیں لرزش تھی۔
”خیریت ہے تو اتنی پریشان کیوں ہے مُنی؟”فوزیہ اس کے لہجے سے پریشان ہو گئی تھی۔
”باجی ابا کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔”منی نے کہا اور رونے لگی۔
”اوہ کب؟” ایکسیڈنٹ کا سن کر کنول کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
”دو دن ہو گئے، ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ اگر آج پیسوں کا انتظام نہ ہوا تو ابا کی ٹانگ کاٹ دیں گے۔” منی ابھی بھی رو رہی تھی۔
فوزیہ نے یہ سب سن کر اپنا سر تھا م لیا۔منی پھر کچھ بول رہی تھی۔”باجی میں نے تجھے بہت فون کیے مگر تیرا فون بند تھا۔”
کنول اسے دبئی کا بتانے لگی تھی پھر اچانک جواب دیتے دیتے رک گئی۔”ہاں میں بس… ” اس نے سوچا کہ ابھی دبئی کا نہیں بتانا چاہیے۔پھر منی سے پوچھا۔”کیا کہا ڈاکٹر نے؟کتنے پیسے چاہئیں؟”
”آپریشن کے لیے یہی کوئی ڈیڑھ لاکھ روپے چاہئیں۔باجی ہو جائے گا نا ابا کا آپریشن؟”
”ہاں ہاں مُنی تو فکر نہ میں بس تھوڑی دیر میں آتی ہوں،کس ہسپتال میں ہے ابا؟”کنول نے بہن کو تسلی دیتے ہوئے پوچھا۔
٭…٭…٭
منی سے بات کرنے کے بعد کنول نے ریحان کو اپنے ابا کے حادثے کا بتایا۔ریحان بھی پریشان ہو گیا۔کنول بنا وقت ضائع کیے ہسپتال پہنچی۔سارا رستہ اسے اپنا گاؤں،گھر اور گھر والے یاد آتے رہے۔ہسپتال پہنچ کر وہ ریسپشن پر گئی اور اپنے ابا کے متعلق معلومات دریافت کیں۔ریسپشنسٹ نے اسے جنرل وارڈ میں جانے کا کہا۔
جب وہ جنرل وارڈ میں پہنچی تو وہاں ایک بیڈ پر اس کا باپ لیٹا ہوا تھا۔اس کی ماں،اباکو کچھ کھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔وہ اندر داخل ہوئی تو ماں اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اتنے میں باپ کی نظر اس پر پڑی تو اس نے ایک نفرت بھری نگاہ اس کے وجود پر ڈالی اور منہ پھیر لیا۔ وہ روتے روتے آہستہ آہستہ باپ کی طرف بڑھی اورآگے بڑھ کر باپ کے پیروں پر ہاتھ رکھ دیا۔
”ابا مجھے معاف کردے۔”کنول بلک اُٹھی۔
”فوزیہ کی ماں اس سے کہہ یہ یہاں سے چلی جائے۔” باپ نے غصے اور نفرت سے کہا اور اس کے ہاتھ جھٹک دیے۔
”تو کیوں آئی ہے فوزیہ؟”ماں نے پوچھا۔
”اماں ابا کا یہ حال…”کنول سے بات مکمل نہ ہوئی۔
”تیرے بعد ہم سب کا حال اجڑ گیا فوزیہ۔”ماں بہت دکھ سے بولی۔
”اماں ابا سے کہہ دے ایک بار مجھے معاف کردے صرف ایک بار، مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی۔”وہ زار و زار رو رہی تھی باپ بھی یک ٹک اس کو دیکھ رہا تھا۔باپ تھا،دل پگھل رہا تھا بیٹی کے رونے پر۔ ماں بھی رو رہی تھی۔مُنی بھی آکر اُس کے گلے لگ گئی اور پھر چوں کہ ماں باپ کے دل پتھر کے نہیں ہوتے اس لیے اس لمحے سب کے دل موم بن کر پگھل گئے۔سب نے اسے معاف کر دیا۔
٭…٭…٭
روہی راوے روہیں رلیس نس گیا کرہوں قطار
ڈینہ ڈکھاندا ڈونگر ڈسدا رات غماں دی غار
سانون آیا روہی وٹھڑی بار تھئی گلزار
دار مدار فرید ہے دلنوں ڈکھڑے تار و تار