”کس بات کا شکریہ؟”وہ حیران تھا۔
”میں تھوڑی دیر پہلے جتنی پریشان تھی اب نہیں ہوں۔”کنول نے بشاشت سے کہا۔
”اور میں بھی جتنا پہلے دکھی تھااب نہیں ہوں۔”شہریار نے بھی ہنستے ہوئے کہا۔
”وہ تو ظاہر ہے میری جیسی عورت سے گپ لگاؤ گے تو دکھ بھول جاؤ گے۔”کنول نے ایک ادا سے کہا۔
”میرے جیسے آدمی کے لیے عورت تک رسائی کوئی مشکل نہیں، تم اب تک مجھے سمجھی ہی نہیں۔” شہریار یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
”ابھی ہماری ملاقاتیں ہی کتنی ہوئی ہیں۔”کنول نے کندھے اچکائے۔
”لیکن اتنی ملاقاتوں کے بعد میں تو تمہیں سمجھ گیا۔”شہریار نے کہا۔
”تمہاری سوچ ہے،مجھ جیسی عورت کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔”کنول نے فوراً جواب دیا۔
”بہت سی عورتیں خود کو مشکل بنالیتی ہیں،دنیا پر یہ ظاہر کرتی ہیں کہ پتھر جیسی ہیںلیکن جس نے سمجھنا ہوتا ہے وہ منٹوں میں سمجھ لیتے ہیں۔”شہریار نے کہا۔
”اچھا بڑا دعویٰ کررہے ہو۔”کنول نے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔دونوں کافی دیر ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہے،کافی منگوا کر پی اورکافی کا کپ ختم ہوتے ہی شہریار نے ٹائم دیکھا۔چار بج رہے تھے،وہ کھڑا ہو گیا۔
”چلو چھوڑو ساری باتوں کو، چلو آؤ میں تمہیں ڈراپ کردوں۔”شہریار نے کہا اوراُٹھتے ہوئے چابیاں جیب میں ڈال لیں۔
تھوڑی دیر بعد اس کی کار ریحان کے اپارٹمنٹ کے نیچے آکر رُکی ۔کچھ دیردونوںگاڑی میں ہی بیٹھے باتیں کرتے رہے۔شہریار نے اپارٹمنٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
” تو یہ ہے تمہارا اپارٹمنٹ؟”
” میرا کوئی گھر نہیں، میں ایک دوست کے ساتھ شیئرنگ پر ہوں۔”کنول نے بے پروائی سے جواب دیا۔
” پھر جن کو پیسے بھیجے تھے وہ کون ہیں؟”شہریار نے فوراً سوال کیا۔
”دور پرے کے کچھ رشتے دار ہیں۔”وہ جان چھڑانے والے انداز میں بولی۔
” ماں باپ؟ بہن بھائی؟”شہریار نے ایک اور سوال کیا تو اس نے تلخی سے جواب دیا۔ ”کوئی نہیں ہے میرا۔”
”اچھا یہ بتاؤ تمہارا اصل نام کیا ہے؟” شہریار نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔
” بدقسمت!”کنول نے طنزیہ انداز میں خود پر ہنس کر کہا۔
”کوئی ماں باپ ایسا نام نہیں رکھ سکتے،شاید تم بتانا نہیں چاہتی۔” شہریار نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔
” خیر میں کبھی کسی سے کچھ نہیں چھپاتی۔میرا اصل نام فوزیہ عظیم ہے۔ اچھا نام نہیں ہے نا؟” فوزیہ نے بے پروائی سے کہا اور اس سے سوال کر ڈالا۔
” نہیں بہت اچھا ہے،بالکل تمہاری طرح۔”شہریار نے مسکرا کر کہا۔
” اوہ فلرٹ؟” کنول نے فوراً ایک ادا سے کہا۔
”نہیں میں دل سے کہہ رہا ہوں،فلرٹ قطعاًنہیں کررہا۔”شہریار نے اسے یقین دلانا چاہا تو وہ اس کی طرف دیکھ کر رہ گئی۔
کنول کار سے اتری۔شہریار کی طر ف دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور اپنے اپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئی۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر لباس تبدیل کیا اور پھروہ بستر پر آلیٹی اور شہریار کے ساتھ گزرا وقت یاد کرکے خود بہ خودمسکرانے لگی۔
کچھ لوگوں کے ساتھ گزرا ہوا وقت اور یادیں بھی آپ کو اکیلے میں مسکرانے پر مجبور کر دیتی ہیں لیکن ایسے لوگ ہماری زندگی میںبس چند ایک ہی ہوتے ہیں۔بے نام سے رشتوں میں بندھے مگرخونی رشتوں سے بڑھ کر یہ لوگ ساری عمر آپ کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کا باعث بنتے ہیں اور شاید فوزیہ بھی یہ یقین کرنا چاہ رہی تھی کہ شہریار اس کی زندگی میں آنے والا ایک ایسا ہی بے نام مگرکسی خونی رشتے سے بڑھ کررشتہ تھا۔
٭…٭…٭
شہریار نے گھر پہنچ کرچابیاں میز پر رکھیں،اس کی آہٹ سن کر اس کے انتظار میں جاگتی حلیمہ بھی پاس آگئیں۔
” مجھے معلوم تھا کہ آج تم گھر نہیں بیٹھو گے۔”حلیمہ نے پریشانی سے کہا۔
” بس ماما آپ جانتی ہیں۔ آج کے دن گھر جیسے پھاڑ کھانے کو دوڑتا ہے۔” شہریار نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔
حلیمہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولیں۔” دیکھو بیٹا خود کو سنبھالو۔جانے والے واپس نہیں آتے۔ہمیں نئے راستوں کو چُننا پڑتا ہے۔”
”یہ سب بہت مشکل ہے ماما بہت مشکل،لیکن کوشش کررہا ہوں میں۔” شہریار نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔
”مشکلوں میں ہی آسانیاں ہیں۔بس انتظار اور صبر کا دامن تھام کے رکھو۔”حلیمہ نے اس کا حوصلہ بڑھایا۔
”وہی تو تھاما ہوا ہے ماما،ورنہ کب کا مرگیا ہوتا۔”شہریار نے دکھی لہجے میں کہا تو حلیمہ یہ بات سن کر دہل گئیں اور اس کا ماتھا چومنے لگیں۔”اللہ نہ کرے۔میری جان میری عمر بھی تجھے لگ جائے۔ایسی باتیں کرکے میرا دل کیوں جلاتے ہو۔”
”میں خود راکھ ہوچکا ہوں ماما،میں کیا کسی کو جلاؤں گا۔” بہت تھکا تھکا سا انداز تھا،ٹوٹا ہوا لہجہ جو حلیمہ کو مزید دکھی کر گیا۔
”اچھا کافی پیو گئے؟”حلیمہ نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
”نہیں!ابھی پی کر آرہا ہوں، آپ آرام کریں جا کر۔”
”اچھا چلوتم بھی جاؤ کمرے میں۔آرام کر لو،کچھ دیر بعد ہی صبح ہونے والی ہے۔”حلیمہ نے اسے ہدایت دی اور اپنے کمرے کا رخ کر لیا۔شہریار اپنے کمرے میں بستر پر لیٹ کر فوزیہ کے خیالوں میں کھو گیا۔
کیا تھا اس لڑکی میں ۔سب لوگ اسے کتنا برا کہتے ہیں۔کیسی بے باک حرکتیں کرتی ہے لیکن مجھے اپنے دل کے اتنے قریب کیوں لگتی ہے؟ محبت ایک mythہے یہ کرنے سے نہیں ہوتی۔ بس کبھی کبھار جسے اس کی خواہش نہ ہو اچانک وارد ہوتی ہے اور کبھی کبھی ایسے شخص پر آپ کا دل کھنچنے لگتا ہے جسے دنیا برا کہہ رہی ہو،گالیاں دے رہی ہو لیکن آپ اس کی تمام برائیاں ایک طرف رکھ کر اسی کے خیالوں میں گم،اسی کے بارے میں سوچے اپنی دل کی دنیا اس کے خیالوں کے ساتھ بسابیٹھتے ہیں۔ بیوی اور بیٹی کے بعد وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کسی سے اچانک اتنی محبت ہو جائے گی لیکن ہو گئی،کیوں کہ امر ربی ہے اس کے کُن کا محتاج،روز ِالست میں ایک دوسرے سے محبت والے یہاں بھی ایک دوسرے کو ڈھونڈ لیتے ہیں۔شہریار نے کنول کی محبت ڈھونڈی یا کنول کو شہریار کی محبت ملی،بات ایک ہی تھی۔دونوں ایک ساتھ ایک دوسرے کے لیے سوچ رہے تھے۔یہ کوئی کم اعزاز نہ تھا۔محبت ہر دل کے لیے نہیں ہوتی۔دونوں ایک ساتھ ایک دوسرے کے لیے تڑپ رہے تھے اور یہ دنیاوی جذبہ نہ تھا۔
٭…٭…٭
اگلے دن کنول پیکنگ کررہی تھی کہ ریحان اس کے پاس آگیا۔
”اوہ تو فیصلہ کرلیا جانے کا۔”ریحان اس کے دبئی جانے پر خوش تھا۔
”ہاں کرنا ہی پڑا۔”کنول نے ٹھہر ٹھہر کر جواب دیا۔
”تم نے بہت اچھا فیصلہ کیا ہے،فائدے میں رہو گی۔”ریحان نے اسے شاباش دیتے ہوئے کہا۔
”رات بہت کنفیوزڈ تھی، فیصلہ کر ہی نہیں پارہی تھی لیکن پھرہوگیا۔”و ہ اپنا میک اپ کٹ بیگ میں رکھتے ہوئے عجیب سے انداز میں مسکرائی۔
”آخر کار کچھ فیصلے انسان کر ہی لیتا ہے۔”ریحان نے اسے سمجھایا اوراس کے پاس ہی بیٹھ کر شرٹ کی تہ لگانے لگا۔” تم دیکھنا ایک دن اسی طرح صحیح فیصلوں سے تم ایک بڑی اسٹار بن جاؤ گی۔ آج جو کچھ ہو، کل کوئی پوچھے گا بھی نہیں کہ بیک گراؤنڈ کیا تھا۔ جس کی جیب میں پیسہ ہو اس سے کوئی سوال کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔”
”سوال کرنا تو لوگوں کی عادت ہے وہ ہر حالت میں سوال کریں گے،پیسا ہونا یا نہ ہونا کیسا سوا ل ہے؟”کنول نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
” آج جواُلٹے سیدھے سوال کرکے تمہیںبے عزت کرتے ہیں ،کل وہی تمہارا احترام کریں گے۔”ریحان نے کہا اور شرٹ جھاڑ کر ہینگر سے اتاری اورتہ لگا کر بیگ میں رکھ دی۔
”پتا نہیں کل کیا ہوگا،مجھے تو بس آج کی فکر ہے۔ اپنا آج اچھا کر لوں اور کل اپنے بیٹے کو اپنے پاس لے آؤں ،اسی طرح آج اچھا ہوگا تو کل خود بہ خود اچھا ہو جائے گا۔”کنول کے انداز میں فکرمندی تھی۔
”واہ اب آئی نا تمہیں سمجھ زندگی کی۔”ریحان نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”اچھا یہ بتاؤ تمہارے لیے کیا لاؤں دبئی سے۔”کنول نے پو چھا۔
”تم خوش رہو بس میرے لیے یہی کافی ہے۔”ریحان مسکرا د یا۔
”چلو میں خود دیکھ لوں گی،تم مجھے ایک کپ کافی پلا دو۔”کنو ل نے کہا اور ریحان ‘ابھی لایا’ کہہ کر چٹکی بجاتا ہوا باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
شہریار اپنے آفس میں کام میں مصروف تھا کہ اچانک اسے فوزیہ کا خیال آیا۔اس نے موبائل اُٹھایا اور نمبر ملا دیا لیکن فوزیہ کا نمبر بند جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے سوچا کہ اسے میسج بھیج دیتا ہوں، جب فری ہو گی پڑھ لے گی۔ا س نے میسج ٹائپ کیا اور فوزیہ کو بھیج دیا اور پھر ریپلائی کا انتظار کرنے لگی۔
٭…٭…٭
”سمجھ نہیں آرہا کیا کروں؟”فوزیہ کا باپ گھر میں داخل ہوا اور پریشانی سے فوزیہ کی ماں سے کہا۔
”اللہ خیر کیا ہوا؟”ماں نے پریشانی سے پوچھا۔
”یہ دوسرا مہینہ چڑھ گیا ہے،دکان کا کرایہ نہیں دے پایا۔ آج تو دکان کے مالک نے پھر آ جانا ہے۔سب کے سامنے بے عزتی کرکے رکھ دیتا ہے۔”باپ کے لہجے میں بے بسی تھی۔
”تو تو سنتا ہی کیوں ہے؟ جواب کیوں نہیں دیتا؟”ماں نے غصے سے کہا۔
”کیا کروں؟جواب دے کر اور بے عزتی کراؤں؟کم بخت رحیم بھی تھوڑا بہت دیتا تھا تو گھر کا خرچہ چل جاتا۔اب تو بالکل سمجھ نہیں آرہا کہ کرایا کہاں سے دوں۔”باپ نے کہا اور پریشانی سے ہاتھ ملنے لگا۔
”سن فوزیہ کے ابا ایک بات کہوں، اگر برا نہ مانے؟”ماں نے کچھ سوچ کر کہا۔
”ہاں بول!”باپ نے سر اُٹھا کر جواب دیا۔
”وہ جو فوزیہ نے پیسے بھیجے تھے…” ماں نے ڈرتے ڈرتے بات شروع کی تو باپ نے غصے سے بات کا ٹ دی اور بولا۔”نہ نام لے اس کا۔”
”دیکھ ٹھنڈے دماغ سے سوچ۔ وہ تیری بیٹی ہے تو نے بڑا کیا ہے اسے، تیرا حق تو ہے نا؟”ماں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”پتا نہیں کیسا پیسا ہے؟”باپ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
”ارے نہیں،مُنی بتا رہی تھی کہ وہ کیا ہوتا ہے بوتیک ،وہاں کام کرتی ہے فوزیہ۔اچھا کماتی ہے تو ہمیں بھیجے ہیں نا۔ دیکھ میری بات مان جا،اگر دکان بند ہوگئی تو اگلے دن کا رزق بھی چلا جائے گا۔ تو سارے پیسے رکھ اور کرایا دے۔”ماں نے بیٹی کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا۔
منی نے بیچ میں لقمہ دیا۔”لیکن اماں باجی نے کہا تھامُنے کی فیس… ”
ماں نے اس کی بات کاٹ دی اور بولی”او!اس نے کیا پڑھنا ہے، اُسے کسی کام پر ڈالیں گے۔ اُسے پڑھا کر پیسہ ہی ضائع ہوگا۔”
”لیکن ابا!باجی اُسے پڑھانا چاہتی تھی۔”منی نے باپ کی طرف دیکھ کر کہا۔
” سارا دن آوارہ گردی کرتا ہے،میں نے بات کرلی ہے،شیخ صاحب کی دکان پر لے جاؤں گا صبح۔نائی کا کام تو اس نے سیکھنا نہیں عزت گھٹتی ہے۔”باپ نے غصے سے کہا۔
”ہاں بول کیا کہتا ہے؟لے آؤں پیسے کرائے کے واسطے؟”ماں نے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
”چل توکہہ رہی ہے تو دے دیتا ہوں لیکن بیٹی کی کمائی کھانا اچھی بات نہیں۔”باپ نے ہتھیار ڈال دیے۔
”ادھار کرلے، جب تیرے پاس ہوں بیٹی کو واپس کر دینا۔”ماں نے مسکرا کر کہا اور پیسے لینے اندر چلی گئی۔امام بخش سوچ میں پڑ گیا تھا لیکن اس کے سوا کوئی اور چار ہ بھی تو نہ تھا۔
٭…٭…٭
اگلے دن امام بخش منے کو مکینک کی دکان پر لے آیااور مُنے کا ہاتھ پکڑ کر شیخ صاحب کے آگے کردیا۔
”لو جی شیخ صاحب! تسی حکم کیتا سی تے بچہ حاضر ، ہور حکم؟”امام بخش نے لجاجت سے کہا۔
”او یہ تو تیرا بچہ ہے۔”شیخ صاحب نے حیرانی سے کہا ۔
”ہاں تو کیا ہوا؟ساڈا بچہ بھی تہاڈا بچہ ہی ہے۔”امام بخش نے جواب دیا۔
”مگر نائی کا بیٹا مکینک کیسے بنے گا؟”شیخ صاحب نے تعجب سے پوچھا۔
”بن کیسے نہیں سکتا؟اُسے نائی بننا بُرا لگتا ہے میں نے بہت کوشش کی اپنا کام سکھانے کی لیکن یہ نہ مانا ،اب مکینک بننے پر خوشی خوشی راضی ہے۔ اب آپ ایک احسان کرو،اسے پکاّ پکاّ رکھ لو۔ غلطی پر معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔بس اسے طاق کر دے اس کام میں۔”امام بخش نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”ارے نہیں امام بخش بھائی، تو فکر مت کر۔چند مہینوں میں ہی یہ بہت کام سیکھ لے گا۔”شیخ صاحب نے اسے تسلی دی۔
”بس بھائی اب میرے گھر کی دال روٹی اسی کے کام پر چل سکتی ہے۔”امام بخش دکھی انداز میں بولا۔
”او امام بخش!اللہ سے مدد مانگ، فکر نہ کر۔” شیخ صاحب نے کہا۔امام بخش نے مُنے کی کمر تھپتھپائی۔منے کو شیخ صاحب کے حوالے کر کے گھر کی راہ لی۔
٭…٭…٭
کنول دبئی پہنچ چکی تھی اور اب ایک اپارٹمنٹ کے پچیسویں فلور پر موجود فلیٹ کی کھڑکی میں کھڑی باہر دیکھ رہی تھی۔باہر روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ باہر کا منظر اتنی اونچائی سے بہت بھلا معلوم ہو رہا تھا۔وہ ان روشنیوں میں گم بڑبڑانے لگی۔
”ہمارے خاندان میں کبھی کوئی عورت تو کیا مرد بھی دبئی نہیں آیا۔ کیا خوب صورت جگہ ہے۔میں پہلی لڑکی ہوں جو یہاں آئی۔ اماں ابا، شریکوں اور گاؤں والوں کو پتا چلے تو… ہاں توپھر کیا ؟چل جائے پتا۔اب پتا لگ بھی گیا تو کیا ہوگا، لیکن کیا جو میں کررہی ہوں وہ سب ٹھیک ہے؟ غلط بھی کیا ہے ہم جیسی عورتیں ہی تو یہ سب کرتی ہیں کیا بُرا ہے۔”اسے اچانک کچھ یاد آیا۔”ویڈیو… ہاں ویڈیواپ لوڈ کردوں فینز کے لیے۔”اس نے فوراً موبائل اٹھایا اور اس کا کیمرہ آن کرکے پورا کمرہ دکھایا۔” فینزیہ دیکھیں…شان دار کمرہ… یہ ہے رنگین روشیوں کا شہر دبئی…”
اس کے ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے دس منٹ بعد ہی بے شمار لائکس اور کمنٹس بھی آ گئے۔
٭…٭…٭
شہریار نے اپنے کمرے میں بیٹھ کر فیس بک پر وہ ساری ویڈیو دیکھی۔کنول نے بہت خوش ہوکر ویڈیو بنا ئی تھی جس میں اس نے ایک نہایت نامناسب سا لباس پہن رکھا تھا۔شہریار نے تھوڑی دیر سوچا پھر فیس بک پر ہی اسے میسج کر دیا۔
”مجھے معلوم نہ تھا کہ تم دبئی چلی گئی ہو۔ میں تو تمہیں پاکستان ہی میں ڈھونڈ رہا تھا۔ واپس کب آؤ گی؟ انتظار کررہا ہوں!”
٭…٭…٭
ریحان نے اپنے موبائل پر دبئی کا نمبر دیکھا تومُسکرااُٹھا۔اس نے ریموٹ سے ٹی وی کی آوازکم کی اور کال ریسیو کر لی۔
”آہا… دبئی کوئن کو ہمارا خیال آہی گیا۔ہم تو سمجھے تھے بے بی وہاں کی روشنیوں میں تمہاری آنکھیں چندھیا گئی ہوں گی۔”
”دوستوں کو آنکھوں سے نہیں،دل سے دیکھا جاتا ہے اور سچادل کبھی جھوٹی روشنیوں سے نہیں چندھیاتا۔”کنول نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”واہ بھئی واہ!راتوں رات ڈائیلاگز بولنے بھی آگئے،کس کی صحبت مل گئی؟”ریحان نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
”اچھاخیر چھوڑو فضول باتیں،شاپنگ پر نکل رہی تھی تو سوچا تم سے پوچھ لوں کہ تمہارے لیے کیا لاؤں؟”کنول نے کہا۔
”میں نے پہلے بھی منع کیا تھا مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں،میں تو خود دبئی آتا جاتا رہتا ہوں۔”ریحان نے منع کردیا۔
”ہاں جانتی ہوں مجھ سے زیادہ امیر ہو لیکن میں چاہتی ہوں کہ میں سب کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور لوں،پلیز تم بھی کچھ بتا دو۔”کنول نے اصرار کیا۔
”اچھا چلو پھر جو تمہاری مرضی ہو لے آنا،لیکن دیکھو زیادہ مہنگا نہ ہو۔وہاں بہت مہنگی مہنگی چیزیں ملتی ہیں، اپنے حق حلال کے پیسے ضائع مت کرنا۔”ریحان نے ہار ماننے والے انداز میں کہا اور اسے نصیحت بھی کی تو وہ زوردار قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔
”کیا ہوا؟” ریحان حیران ہوگیا۔
”کچھ نہیں تمہاری حق حلال والی بات پر ہنسی آگئی۔”
”ہاں تو کیا غلط کہا میں نے؟”وہ بھی اپنی بات پر بہ ضد تھا۔
”چلو چھوڑوجو چیزیں محبت کرنے والوں کے لیے لی جاتی ہیں،ان کی قیمت نہیں قدر دیکھی جاتی ہے۔”کنول نے پھر فلسفہ جھاڑا تو ریحان تعجب سے بولا۔”اُف کنول تم بہت فلسفہ بولنے لگی ہو،میں کہہ رہا ہوں نا پیسہ مت ضائع کرنا۔”
”یہ پیسہ اگر ضائع بھی کردوں گی تو اور کمالوں گی۔ایسی ”حق حلال”کمائی جتنی جلدی آتی ہے اتنی جلدی چلی بھی جاتی ہے۔نہ اس کے آنے کی خوشی نہ اس کے جانے کا غم۔”کنول نے ”حق حلال”پر زور ڈالتے ہوئے بے پروائی سے کہا پھر بولی۔”تم ٹھیک کہتے تھے،اس طرح کا پیسہ کمانا کوئی مسئلہ نہیں۔”
”اب سمجھیں میں یہ سب کیوں کہتا تھا۔دیکھو تم راتوں رات ہی میں سٹار بن گئیں،گانا گا کر بھی اتنی مشہور نہ ہو پاتی۔”ریحان نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”لیکن یہ کیسی مشہوری ہے۔”کنول نے تلخی سے پوچھا۔
”دیکھو آج تمہارے فین پیج پر سینتالیس ہزارسے زیادہ فینز ہیں۔”ریحان نے جواب دیا۔
”وہ فینز نہیں تماش بین ہیں۔”اس کے لہجے میں طنز چھپا ہوا تھا۔