”پھر انہیں کہیں کہ ہمارے ساتھ دبئی چلیں،ایک بڑا طائفہ جارہا ہے۔پھر مستقبل میں ہم انہیں کوئی ایڈ وغیرہ دینے کا بھی سوچیں گے۔”گوہر نے اپنے ہونٹوں پر ایک خبیثانہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔
”جی بالکل،میں کہوں گا اسے۔” گوہر نے جواب دیا۔
”ویسے تو کافی لڑکیاں ہیں میرے پاس،لیکن اُن کے علاوہ بھی چاہیے ہوں گی،سمجھ رہے ہیں نا آپ؟”عظیم مکروہ ہنسی ہنسا۔
”جی جی،بالکل سمجھ گیا آپ کی بات،فکر ہی نہ کریں۔”گوہر نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
”بس ابھی فون کرکے بک کریں انہیں،اس سے پہلے کوئی اور اُچک کر لے جائے۔”عظیم نے اصرار کیا۔
”ہم پکّاکام کرتے ہیں،ہماری چیز کوئی نہیں اچکتا عظیم صاحب،آپ بے فکر رہیے۔میں ابھی فون کرتا ہوں کنول کو۔”گوہر نے یہ کہا اور فون بند کردیا۔
٭…٭…٭
” مُنی پیسے مل گئے تھے؟”کنول نے منی سے فون پر پوچھا۔
”جی باجی مل گئے تھے، لیکن ابا بہت ناراض تھا۔” منی نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا۔
”کیوں؟”کنول حیران رہ گئی۔
”وہ کہتا ہے کہ میں بیٹی کی کمائی نہیں کھاؤں گا اور اس نے پیسے بھی اٹھا کر پھینک دیے تھے۔” منی نے پریشانی سے کہا۔
” پھر؟”کنول نے فوراً پوچھا۔
”اماں نے اٹھا کر رکھ لیے کہ میری بیٹی نے بھیجے ہیں میں اس کی قدر کروں گی۔باجی تو فکر مت کر وہ چھوٹے کی فیس بھی اس میں سے دے گی اور بہت سے گھر کے دوسرے کام بھی ہو جائیں گے۔” منی نے جواب دیا۔
”مُنی ابا اور کیا کہہ رہا تھا؟”کنول نے پوچھا۔
”ابا کہہ رہا تھا کہ پتا نہیں کیسی کمائی کے پیسے ہیں جو اس نے بھیجے ہیں۔”منی نے دکھی لہجے میں کہا۔
”مُنی تو نے بتایا نہیں میں بوتیک میں کام کرتی ہوں؟”کنول نے حیرانی سے کہا۔
”وہ کہتا ہے کپڑے سینے کی کمائی اتنی نہیں ہوتی،میں نہیں مانتا کہ شہر میں رہ کر اپنا گذارا بھی کررہی ہے اور ہمیں بھی بھیج رہی ہے۔باجی وہ بہت ناراض تھا۔” منی نے لگی لپٹی رکھے بغیر باپ کی تمام باتیں بتا دیں۔
” اچھا!تو مُنے کو بہت ساپیار دینا اور اماں سے کہنا فکر نہ کریں یہ ان کی بیٹی کی محنت کی کمائی ہے۔میں مزید پیسے بھی بھیجوں گی۔”اس کے لہجے میں بہت یاسیت تھی۔
”باجی وہ تجھے بہت یاد کرتی ہے۔کہتی ہے جب سے فوزیہ گئی گھر سے برکت چلی گئی۔”منی نے پیار سے کہا۔
” برکت بھی لوٹ آئے گی ،میں بہت محنت کررہی ہوں۔ تو فکر نہ کر خوش رہ۔”کنول نے چھوٹی بہن کو دلاسا دیا۔اس نے گھر کی چند دوسری باتیں کر کے فون بند کر دیا۔
٭…٭…٭
اس میوزک شوکی ویڈیو سوشل میڈیا پرراتوں رات وائرل ہوچکی تھی۔ سوشل میڈیا کے ہر پیج ،ہر گروپ میں اسی کا تذکرہ تھا۔کنول لیپ ٹاپ کھولے لوگوں کے تبصرے پڑھ رہی تھی۔ بعض لوگوں نے اس کا مذاق اڑایاتھا تو کچھ لوگوں نے ججز پر تنقید کرتے ہوئے اس کے ساتھ ہم دردی کا مظاہرہ بھی کیا تھا۔
وہ جیسے جیسے لوگوں کے تبصرے پڑھ رہی تھی اس کا چہرہ غصے سے لال ہورہا تھا۔آخر کاراس نے غصے میں اکر لیپ ٹاپ زور سے بند کر دیااور فیصلہ کر لیا کہ وہ خاموش نہیں بیٹھے گی۔
٭…٭…٭
اگلی صبح وہ ناشتہ کررہی تھی کہ گوہر کا فون آگیا۔
”بھئی واہ بڑی توپ چیز بن گئی ہو؟”گوہر نے اسے مکھن لگایا۔
”کام کی بات کرو۔”کنول نے رکھائی سے کہا۔
”ارے واہ اسٹار بنتے ہی بڑا ایٹی ٹیوڈ آگیا ہے۔”گوہر نے ناراض ہوتے ہوئے کہا۔
”کون سٹار؟ میں تو ابھی upgrade ہونے والی پوزیشن میں ہوں۔لوگ ایک بار بات کرکے دوبارہ میرے لیے نہیں کرتے یہی کہا تھا نہ تم نے۔”کنول نے طنزیہ انداز میں اس کی کہی ہوئی بات اُسے لوٹائی۔
”ارے وقت وقت کی بات ہے،آج تو اتنے فون آگئے تمہارے لیے،میں تو خود حیران ہوں۔”گوہر نے ڈھیٹ بنتے ہوئے کہا۔
”اچھا زہے نصیب!ہماری جیسی ماڈلز کی بھی قسمت کُھلی۔”کنول نے ایک دفعہ پھر طنز کیا۔
”کل کیا کررہی ہو؟چکر لگاؤ آفس میں۔” گوہر نے بات بدلتے ہوئے کہا۔
”ابھی میں بہت مصروف ہوں،جب فری ہو جاؤں گی تو چکر لگاؤں گی۔”کنول نے رکھائی سے جواب دیا۔
”ارے واہ ہماری بلی ہمیں ہی میاؤں۔”گوہر نے ہنستے ہوئے طنز کیا۔
”ارے کہہ تو رہی ہوں ٹائم نکال کر آتی ہوں۔” کنول نے تھوڑا سنبھل کر کہا۔
”وہ تو آنا ہی پڑے گا،کام جو لینا ہے۔” گوہر نے بے پروائی سے کہا۔
”کیا سمجھتے ہو تم اگر کام نہیں دو گے تو مجھے کام نہیں ملے گا؟”کنول کے لہجے میں طنز تھا۔
”زیادہ نخرے دکھانے کی ضرورت نہیں ہے،تمہارا ہمارے ساتھ ایگریمنٹ ہے،ہمارے علاوہ تم کسی اور کے ساتھ کام نہیں کرسکتیں۔یاد رکھو!” گوہر نے غصے سے کہا۔
” جانتی ہوں،لیکن تم بھی جان لو کہ تم نے کوئی غلام نہیں خریدا۔مجھے بھی اپنی مرضی سے کام کرنے کی عادت ہے۔” کنول نے یہ کہا اور غصے سے فون بند کردیا۔
”ہمیں بھی پر کترنے آتے ہیں کنول! زیادہ اونچا مت اڑو، دیکھ لیں گے تمہیں بھی۔”گوہر بُڑبُڑایا۔
٭…٭…٭
رات کے وقت کنول اپنے کمرے میں ریحان کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ دونوں لیپ ٹاپ پر کنول کے آڈیشن کی ویڈیوز کے نیچے آئے تبصرے پڑھ تھے۔
”دیکھا ریحان تم نے،ان ججز نے کتنا غلط کیا میرے ساتھ اور لوگ کیسی کیسی باتیں کررہے ہیں۔”کنول نے دکھ سے کہا۔
”چھوڑو یار غصہ مت کرو،تم بھی جواب دو اس کا کہ تمہارے ساتھ ایسا کیوں کیاججز نے،خاموش نہ بیٹھو۔یہاں چُپ کی زبان کوئی نہیں سمجھتا، جواب دینا پڑتا ہے۔”ریحان نے اسے سمجھایا۔
”ہاں خاموش تو نہیں بیٹھوں گی،جواب تو دوں گی ججز کو۔ان کے ساتھ تو میں وہ کروں گی کہ ساری عمر یاد رکھیں گے۔”کنول نے غصے سے کہا ۔ریحان اُٹھ کر باہر چلا گیا۔اس نے موبائل اُٹھایا اور اپنی لائیوویڈیو بنانے لگی۔
” میں سب جانتی ہوں تم سب نے میرے ساتھ یہ گیم کیوں کھیلا۔سارا ریٹنگ کا چکر ہے،لیکن ریٹنگ کے لیے کسی کے دل سے کھیلنا کوئی اچھی بات نہیں۔ تم لوگوں نے جو مجھ سمیت دوسرےparticipants کے ساتھ کیا، میں بہت جلد دنیا کو بتا دوں گی کہ کنول بلوچ قطعاً ایسی نہیں۔تم لوگ خود کو ججز اور mentor کہتے ہو۔ارے تم تو اس مقام پر بیٹھنے کے لائق بھی نہیں جو مقام تم کو قدرت کی طرف سے ملا وہ تم سب نے کھو دیا۔برانڈ کے سفارشی ٹٹو کو سلیکٹ کرکے تم نے ثابت کردیا کہ میوزک کے کتنے بڑے خیرخواہ ہو،لیکن میں کنول بلوچ آج تم سب کو چیلنج دیتی ہوں کہ ایک دن میں گانا گا کر دکھاؤں گی۔اس کے لیے آپ جیسے ججز کی ضرورت نہیں مجھے۔”
اپنے دل کی بھڑاس نکال کر اس نے ویڈیو اپ لوڈ کر دی ۔تھوڑی دیر میں ہی اس کی ویڈیو پر ہزاروں لائیکس اور تبصرے آگئے۔
٭…٭…٭
شہریار کی ماں ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی لیپ ٹاپ پر کنول کا آڈیشن دیکھ رہی تھی کہ شہریار بھی وہیں آگیا۔
”کیا ماما آپ بھی ہر وقت فیس بک پر ہی لگی رہتی ہیں۔” شہریار نے ماں کو مصروف دیکھ کر منہ بنایا تو ماں نے اسے پاس بلا لیا۔
”ادھر آؤ شہریار،دیکھو ذرا کتنی زیادتی کی ہے اس لڑکی کے ساتھ ان شو والوں نے،بہت بدتمیزی کی ہے ۔”
” کیا ہوا؟”شہریار نے فوراً پوچھا۔
”یہ ایک بڑے چینل کامیوزک مقابلہ تھاجس کے آڈیشن میں اس لڑکی کو بہت بے عزت کیا ہے ان لوگوں نے، ہر شخص کی عزت نفس ہوتی ہے۔ پہلے اس کا مذاق اُڑانے والی ویڈیو بنائی پھر آڈیشن کے نام پر بے عزت کیا۔”حلیمہ نے تاسف سے کہا۔
”ماما سب چلتا ہے،یہ ریٹنگ کا گیم ہے بس۔ریٹنگ کے لیے یہ لڑکی خود ہی اپنا مذاق اڑوا رہی ہوگی۔”شہریار نے ٹیبل پر پڑے ڈرائی فروٹ اُٹھاتے ہوئے بے پروائی سے جواب دیا۔
”کیا واقعی ایسا بھی ہوتا ہے؟”حلیمہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”ماماایسے پروگرامز اکثر plannedہوتے ہیں۔ پہلے سے بتا دیا جاتا ہے کہ یوں کرنا ہے آپ نے۔”شہریار نے اطمینان سے جواب دیا۔
”نہیں جیسے یہ بچی دکھی ہے اور پریشان ہو کر رو رہی ہے لگتا تو نہیں planned pre-ہے،دیکھو۔”حلیمہ نے لیپ ٹاپ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔شہریار نے اسکرین پر نظر ڈالی اور چونک گیا۔اسکرین پہ وہی لڑکی تھی جس کے پیسے گم ہو گئے تھے اور شہریار نے اس کی مدد کی تھی۔
٭…٭…٭
عابد اپنے کمرے میں ٹی وی دیکھ تھا کہ روبی اس کے لیے چائے لے کر آئی۔ وہ کچھ روٹھی روٹھی سی لگ رہی تھی۔عابد نے اس پر ایک نظر ڈالی اور دوبارہ ٹی وی دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اسے ٹی وی کی آواز بڑھانے کا کہا۔
”کھانا کھائے گا؟”روبی نے پوچھا۔
” نہیں بھوک نہیںہے۔”عابد نے کندھے اچکا کر کہا۔
”تو آج پھر دیر سے آیا ہے۔”روبی نے شکوہ کیا۔
”کام زیادہ تھا۔”عابد نے ٹی وی پر نظریں جمائے جواب دیا۔
”اماں کو تو کہتا کہ کام نہیں چل رہا اور تو خود دیر تک دکان پر رہتا ہے۔” روبی نے طنز کیا۔
”او! کمانے کے لیے ہڈیاں توڑنی پڑتی ہیں۔صبح سے کھڑے کھڑے دم نکل گیا ٹانگوں کا اور تو کہہ رہی ہے کہ…”عابد اس پر چیخا۔
”ارے میں نے تو ایسے ہی پوچھ لیا، ناراض کیوں ہورہا ہے۔”روبی اس کے غصے سے ڈر گئی تھی۔
”ناراض کیوں نہ ہوں،تو بات ہی ایسی کرتی ہے۔”عابد بولا۔
”کیا تو چاہتا ہے کہ میں تجھ سے کوئی بات ہی نہ کروں۔”روبی نے بہت مان سے کہا۔
”ہاں ہاں میری ماں!میں یہی چاہتا ہوں، جا باہر جا مجھے ٹی وی دیکھنے دے۔”عابد نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
”عابد تو کتنا بدل گیاہے؟”روبی نے دکھ سے کہا۔
”او جا زیادہ باتیں مت کر دماغ مت کھا میرا ۔”عابد پھر غصے سے بولا۔
”جارہی ہوں۔”روبی آنکھوں میں آنسو لیے وہاں سے چلی گئی۔
اتنے میں ٹی وی پراسی میوزک شو کا آڈیشن آنے لگا۔وہاںفوزیہ جیسی ایک لڑکی کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔”اوہ یہ تو بالکل فوزیہ کی طرح لگ رہی ہے، لیکن یہ وہ کیسے ہوسکتی ہے۔پر ہو بھی سکتی ہے وہ یہی سب تو چاہتی تھی۔اوہ یار کیا توپ چیز بن گئی ہے، مگر ہوسکتا ہے وہ نہ ہو، یہ لڑکی تو انگریزی بھی بول رہی ہے۔” عابد فوزیہ کو ٹی وی پر دیکھ کر بُڑبُڑا رہا تھا۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ فوزیہ اتناآگے بھی جا سکتی ہے۔
٭…٭…٭
کنول اپنے کمرے میں نیند میں گم تھی کہ اس کا موبائل بجنے لگا۔ اس نے نمبر دیکھا اور فون اٹھایا۔
”ہاںبول منی خیر تو ہے تونے اس وقت کیسے فون کیا؟” کنول اس وقت منی کا فون آنے پر پریشان تھی۔
”باجی ایک بات تو بتاکل ایک گانے کا پروگرام دیکھا تھا،اس میں گانے والی لڑکی بالکل تیرے جیسی تھی۔میری اور مُنے کی شرط لگ گئی کہ وہ تو نہیں ہے۔”منی نے کہا۔
”ارے نہیں نہیں مُنی،میں کہاں کوئی اور ہوگا۔ایسے پروگرامز میں جاسکتی ہوںبھلا،وہاں تو بڑی سفارش کی ضرورت ہوتی ہے۔اتنے بڑے پروگرامز میں میں کیسے جاسکتی ہوں۔” وہ مسلسل بولے جارہی تھی دوسری جانب منی بالکل خاموشی سے اس کی بات سن رہی تھی لیکن اس کے چہرے پر دُکھ بھی تھا۔
”ہاں باجی میں بھی وہی سوچ رہی تھی اس لڑکی نے کپڑے بھی بہت چھچھورے پہن رکھے تھے، فضول سی حرکتیں کررہی تھی۔مجھے تو بہت تپ چڑھ رہی تھی۔میں نے منے سے یہی کہا کہ میری باجی ایسی نہیں ہوسکتی،باجی تو سن رہی ہے نا۔”منی کو لگا شاید فون بند ہو گیا تھا۔
” آہاں، سُن رہی ہوں۔چل مُنی اب فون بند کر پھر بات کروں گی۔رات بہت ہوگئی ہے تو بھی جاکر سو جا۔” کنول نے کہا اور کال بند کر دی۔
٭…٭…٭
”کنول تمہارے لیے ایک کام نکالا ہے اگر وقت ہے تو کرو گی؟”گوہر نے کنول سے فون پر پوچھا۔
”کیسا کام ہے؟”کنول نے سوال کیا۔
”دبئی جانا ہے ایک طائفے کے ساتھ؟پیسہ کافی ہے اس میں۔”گوہر نے جواب دیا۔
”تھوڑا سوچنے دو،ویسے کتنا پیسہ ملے گا؟”کنول نے کہا۔
”اتنا ہے کہ تمہارے بہت سے خواب پورے ہو جائیں گے۔”گوہر نے اسے لالچ دیتے ہوئے کہا۔
”اچھا، سوچتی ہوںپھر جواب دیتی ہوں۔”کنول نے کہا۔
”دیکھو سوچنے میں وقت ضائع مت کرنا… مجھے جلد جواب چاہیے۔”گوہر نے اسے سمجھایا۔
”ارے بابا کہہ دیا تھوڑا ٹائم دو بتاتی ہو۔”کنول اب غصے سے بولی تو گوہر نے فوراً فون بند کر دیا۔
٭…٭…٭
کنول اپنے صوفے پر نیم درا زناخن فائل کررہی تھی اور ساتھ ساتھ ٹی وی پر چلنے والا ایک میوزک شو بھی دیکھ رہی تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔اس نے ٹی وی کی آواز کم کی اور فون ریسیو کیا۔فون ایک چینل سے فون تھا۔
” ہیلوکنول بلوچ بات کررہی ہیں؟”فون کے دوسری طرف مرد نے مہذب لہجے میں دریافت کیا۔
”جی کنول بلوچ بول رہی ہوں…جی آپ کون؟”کنول نے حیرانی سے جواب دیا۔
”جی میں ایک چینل سے بات کررہا ہوں۔دراصل آپ کی میوزک شوآڈیشن والی ویڈیو دیکھی اور ہم چاہ رہے تھے کہ آپ کی رائے بھی لی جائے اس بارے میں۔”مرد نے ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں کہا۔
”اس کی وضاحت کے لیے میں نے فیس بک پیج پر اپنی ویڈیو اپ لوڈ کردی ہے،آپ وہاں سے دیکھ لیں کہ میرا جواب کیا ہے،مجھے جو کہنا تھا میں اس ویڈیو میں کہہ چکی ہوں۔”کنول نے رکھائی سے کہا۔
”لیکن اگر اتنی بڑی اسٹار کا ایک چھوٹا سا انٹرویو بھی ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے۔باقی آپ کی مرضی ہے،لوگ تو ٹی وی پر آنے کے لیے بہت کچھ کرتے ہیں۔”مرد نے خبیثانہ اندازمیں کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ آپ کل آجائیں میں دے دیتی ہوں انٹرویو ،لیکن زیادہ ٹائم نہیں دوں گی۔”کنول نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ok doneکل آٹھ بجے میں اور میری ٹیم آپ کے پاس آجائیں گے، تیار رہیے گا۔”مرد نے کہا اور فون بند کر دیا۔
٭…٭…٭
اگلے دن ٹی وی چینل کے نمائندے کنول کا انٹرویو کرنے اس کے گھر پہنچ گئے۔
”جی مس کنول، آپ کتنے عرصے سے اس فیلڈ میں ہیں؟”رپورٹر نے سوال کیا۔
”جی مجھے کچھ عرصہ ہی ہوا ہے ابھی۔”کنول نے سنبھل سنبھل کر جواب دیا۔
”اس سے پہلے کیا کرتی تھیں؟” دوسرے رپورٹر نے سوال کیا۔
”جی میرے فادر ایئرفورس میں ہوتے تھے،میں نےs A levelکیا ہے۔ میرا بھائی ایک ڈاکٹر ہے میری مدر بھی ڈاکٹر ہیں۔”کنول نے رٹا رٹایا جواب دیا۔
”لیکن کیا اب آپ اتنے بڑے فلیٹ میں اکیلی رہتی ہیں کوئی نظر نہیں آرہا۔”پہلے رپورٹر نے کہا۔
”آپ میرا انٹرویو لینے آئے ہیں یا میری فیملی کاجو سوال کرنا ہے میرے بارے میں کریں۔”کنول نے غصے سے کہا۔
”آپ ناراض کیوں ہورہی ہیں؟انٹرویوز میں تو ہر طرح کے سوال وجواب ہوتے ہیں اور فیملی کے متعلق سوالات بھی ہوتے ہیںْجواب دینے میں کوئی حرج تو نہیں۔”دوسرا رپورٹر خبیثانہ انداز میں بولا۔
”اچھا خیر چھوڑ یں،یہ بتائیں گانے کا شوق کیسے ہوا آپ کو؟”پہلے رپورٹر نے صورت ِ حال بگڑتے دیکھی تو سوال کیا۔
”جی شوق تو بچپن سے تھا لیکن اس پروگرام میں مجھے لگا کہ میرا فن اُبھر کر سامنے آئے گا۔”کنول نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے جواب دیا۔
”فن تو ابھر کر سامنے آیا ہی ہے۔”دوسرے رپورٹر نے اس کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے طنز کیا۔
”کیا مطلب؟”کنول نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے غصے سے پوچھا۔
”مطلب ججز نے سوائے گانے کے آپ کے سارے فنون کی قدردانی کی۔ وہ آپ کے کپڑوں اور میک اپ کی تعریف کررہے تھے۔ویسے مجھے بتائیں آپ نے اپنامیک اپ واقعی خود کیا تھا؟”پہلے رپورٹر نے مزہ لینے کے انداز میں سوال پوچھا۔
”جی آپ کو کوئی اعتراض ہے؟”کنول کا غصہ اس کی طنزیہ گفت گو کے بعد بڑھ رہا تھا۔
” نہیں ہمیں بھلاکیا اعتراض ہوسکتا ہے،خیر مس کنول یہ بتائیں آگے کیا ارادہ ہے؟مطلب اس زیادتی کے بعد؟” دوسرے رپورٹر نے اس کے غصے کو دیکھتے ہوئے سوال بدلا۔