”وہ اسی ہاسٹل میں ہے۔ اس کا باپ آرمی میں میجر تھا۔ وہ دو بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ اس کا گھر راولپنڈی میں ہے۔ ابھی وہ شادی شدہ نہیں ہے۔”
سعود ارتضیٰ نے اگلے روز شام کو اسے امید عالم کے بارے میں ساری تفصیلات فراہم کر دی تھیں۔ اس کے پاس امید کا راولپنڈی والے گھر کا ایڈریس اور فون نمبر بھی تھا۔
”مگر چوکیدار نے تو کہا تھا کہ وہ وہاں نہیں ہے۔” وہ سعود کی اطلاع پر کچھ حیران ہوا۔
”ہاں، چوکیدار نے جھوٹ بولا ہو گا۔ ہو سکتا ہے۔ جھوٹ بولنے کے لیے اسے امید نے ہی کہا ہو۔”
”پھر اب… اب کیا کرنا چاہیے ؟”
”میں کسی ذریعے سے اس کی فیملی سے رابطہ قائم کر کے تمہارا پرپوزل بھجوانے کی کوشش کرتا ہوں۔”
”تم یہ کام کس طرح کرو گے؟”
”یہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔” سعود نے اس سے کہا۔
*…*…*
وہ نہیں جانتا تھا کہ سعود امید کے گھر والوں سے رابطے کے لیے کس طرح کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس نے یہ معاملہ مکمل طور پر اسی پر چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ ہر روز رات کو ڈاکٹر خورشید کے پاس چلا جایا کرتا تھا۔ وہ اپنی زندگی میں بہت بڑے بڑے اسکالرز سے ملتا رہا تھا۔ ہارورڈ میں تعلیم کے دوران بھی اپنے کچھ پروفیسرز سے وہ بہت زیادہ متاثر تھا۔ مگر تیسری دنیا کے ایک چھوٹے سے ملک میں رہنے والایہ اسکالر اس کے لیے حیران کن تھا۔ وہ جامعہ الاذہر سے تعلیم یافتہ تھے اور اردو اور انگلش کے ساتھ ساتھ عربی بھی بہت روانی سے بولتے تھے مگر سب سے بڑا شاک اسے اس وقت لگا تھا جب ایک دن ان سے بات کرتے کرتے اس نے روانی میں ایک جملہ جرمن زبان میں کہا اور اس جملے کا جواب انہوں نے اتنی ہی شستہ جرمن میں دیا تھا۔
”جرمن؟” وہ حیرانی سے ان کا منہ دیکھنے لگا۔
”آپ کی طرح میں بھی کچھ زبانیں بول لیتا ہوں۔” ان کا اطمینان بر قرار تھا۔
اس دن کے بعد وہ اکثر ان سے جرمن میں ہی گفتگو کرتا تھا، کسی انسان کے علم کی حد کیا ہوتی ہے یا ہو سکتی ہے وہ یہ اندازہ لگانے سے قاصر تھا۔ ڈاکٹر خورشید کے پاس ہر چیز کے بارے میں معلومات تھیں اور صرف معلومات ہی نہیں تھیں یقین دلانے کے لیے ریفرینس اور قائل کرنے کے لیے دلائل بھی تھے۔ انہیں صرف اسلام کے بارے میں سیر حاصل معلومات نہیں تھیں بلکہ دنیا کے ہر چھوٹے بڑے مذہب کے بارے میں معلومات تھیں۔ اس کے ذہن میں اسلام کے بارے میں جتنی الجھنیں تھیں،وہ ایک ماہر weaver کی طرح ہر گرہ کھولتے جاتے تھے بعض دفعہ وہ ان کی باتوں پر لاجواب ہو جاتا تھا اور جب وہ ان کی تعریف کرتا تو وہ کہتے۔
”کوئی دلیل لاجواب نہیں کر سکتی جب تک دلیل میں طاقت نہ ہو میرا دین دلیل کا دین ہے۔ منطق کا دین ہے۔ سڑک پر بیٹھا ہوا ایک ان پڑھ مسلمان بھی اگر دین کا علم اور شعور رکھتا ہو تو وہ بھی کسی کو اسی طرح لا جواب کر دے گا۔ کیونکہ جس ذریعے سے ہم دلیل لیتے ہیں وہ قرآن ہے، خدا ہے، پیغمبر ہے، اسلام ہے پھر دلیل لا جواب کیوں نہیں کرے گی جب سارے ذرائع آسمانی ہوں تو ہم انسان جو زمین کی مخلوق ہیں وہ ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔”
وہ ان کی باتوں پر جتنا غور کرتا، اتنا ہی اس کا ذہن صاف ہوتا جاتا۔
”دو قسم کی زمین ہوتی ہے، ایک وہ جو بنجر ہوتی ہے، کسی بھی موسم کی بارش وہاں کتنا ہی پانی کیوں نہ بر سا دے، اس زمین کو بنجر ہی رہنا ہے وہاں ہریالی نہیں ہو سکتی ۔ دوسری زمین زرخیز ہوتی ہے۔ پانی کا ہلکا سا چھینٹا بھی وہاں ہر یالی لے آئے گا مگر ضرورت صرف ہریالی کی تو نہیں ہوتی ۔ اس ہریالی کی ضروررت ہوتی ہے جس سے کوئی فائدہ حاصل ہو ورنہ ہریالی میں تو زہریلی جڑی بوٹیاں اور کانٹے دار جھاڑیاں بھی شامل ہوتی ہیں توجہ اور احتیاط نہ کی جائے تو زرخیز زمین پر یہ دونوں چیزیں بہت افراط میں آجاتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ صرف پانی نہ دیا جائے، زمین کی زرخیزی کو اچھے طریقے سے استعمال بھی کیا جائے آپ کو بھی اللہ نے ایسا ہی زرخیز دماغ اور روح دی۔ اب آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنے آپ کو ایسی نقصان دہ جڑی بوٹیوں اور کانٹے دار جھاڑیوں سے بچائیں۔اس ہریالی کی حفاظت کریں جو آپ کی زندگی کو ایک نئی سمت دے رہی ہے اور آپ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے آپ کر لیں گے۔”
وہ اتنے یقین سے کہتے کہ اسے حیرانی ہونے لگتی، اس ایمان اس اعتماد اور اس یقین پر جو انہیں اس پر تھا۔ وہ ان کے پاس آنے والا واحد نو مسلم غیر ملکی نہیں تھا۔
انہوں نے اسے دوسرے بہت سے نو مسلموں سے بھی ملوایا تھا جو اس کی طرح اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے پاس رہنمائی کے لیے آیا کرتے تھے۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کی زندگی آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہی ہے۔ مذہب کا نہ ہونا اور مذہب کا ہونا دو مختلف تجربات ہیں اور مذہب کے ہونے کا تجربہ نہ ہونے کے تجربے سے زیادہ بامعنی، پر لطف اور بامقصد تھا۔
”میں نے کبھی زندگی میں مذہب کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی، خدا پر یقین ضرور رکھتا تھا اور یہ بھی سمجھتا تھا کہ سارے مذاہب اللہ ہی کی طرف سے ہیں مگر خود میں کبھی بھی کسی مذہب سے اتنا متاثر یا سحر زدہ نہیں ہوا کہ مذہب قبول کر لیتا اور دراصل اس سے میری زندگی میں کوئی خاص فرق بھی نہیں پڑا۔ میں بہت اچھی زندگی گزار رہا تھا مجھے کبھی کسی کامیابی کے حصول کے لیے مذہب کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں پڑی نہ ہی اللہ کو پکارنا پڑا، آپ خود سوچیں اس صورت اور ان حالات میں مذہب ایک ضرورت تو نہیں رہتی بس ایک اختیاری چیز بن جاتی ہے۔ جس کے ہونے یا نہ ہونے سے زندگی میں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا۔”
وہ الجھے ہوئے انداز میں ان سے کہتا اور وہ پر سکون انداز میں مسکراتے ہوئے اس کی بات سنتے رہتے۔
”آپ کی خوشی قسمتی یہ ہے کہ اللہ نے آپ کو ہمیشہ ہی صراطِ مستقیم پر رکھا مگر کسی آزمائش میں نہیں ڈالا اس لیے آپ نے یہ سوچ لیا کہ مذہب کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ صرف تمام مذاہب کا احترام کرنے اور اللہ کے وجود کو مان لینے سے کام چل جائے گا۔ آپ کو آزمائش میں نہیں ڈالا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو آزمائش میں کبھی بھی ڈالا نہیں جائے گا۔ مذہب کی اہمیت کا اصل اندازہ تو اسی وقت ہوتا ہے جب آپ آزمائش میں ہوں۔ آزمائش بالکل دلدل کی طرح ہوتی ہے اس میں سے انسان صرف اپنے بل بوتے پر نہیں نکل سکتا۔ کوئی رسی چاہیے ہوتی ہے، کسی کا ہاتھ درکار ہوتا ہے اور اس وقت وہ رسی اور ہاتھ مذہب ہوتا ہے۔ رسی اور ہاتھ نہیں ہوگا تو آپ دلدل کے اندر جتنے زیادہ ہاتھ پاؤں ماریں گے ، اتنا ہی جلدی ڈوبیں گے۔ پانی میں ڈوبنے والا شخص زندہ نہیں تومرنے کے بعد باہر آجاتا ہے مگر دلدل جس شخص کو نگلنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، اسے دوبارہ ظاہر نہیں کرتی لیکن جو شخص ایک بار ہاتھ اور رسی کے ذریعے دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے وہ اگلی کسی دلدل سے نہیں ڈرتا ۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ شور مچائے گا چلائے گا تو ہاتھ اور رسی بالآخر آجائیں گے۔ اب سوچیے اپنی خوش قسمتی پر کہ آپ ان لوگوں کی قطار میں شامل ہو گئے ہیں جو دلدل میں گرنے پرہاتھ اوررسی کو پکار سکتے ہیں اور ان کے آنے کی توقع بھی کریں گے۔” ہر بار ان کے گھر سے آتے ہوئے وہ بہت پر جوش ہوتا۔
*…*…*
سعود نے اپنی فیملی کے ذریعے ایمان کا پرپوزل امید کے گھر بھجوایا تھا ان لوگوں نے چند دن سوچنے کے لیے لیے اور اس کے بعد انہوں نے انکار کر دیا۔ سعود نے چند بار اور کوشش کی مگر اس کا نتیجہ بھی یہی رہا تھا۔ اس نے ایمان کو اس کے بارے میں بتا دیا وہ مضطرب ہو گیا۔
”کیا تم کچھ اور نہیں کر سکتے؟” اس نے ایک بار پھر سعود سے پوچھا۔
”میں کچھ اور لوگوں کے ذریعے ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ اب دیکھو کیا ہوتا ہے۔”سعود کچھ زیادہ پر امید نظر نہیں آرہا تھا۔ ایمان علی کی بے چینی اور پریشانی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ روز ڈاکٹر خورشید کے پاس جا رہا تھا اور اس کی افسردگی زیادہ دیر ان سے چھپی نہیں رہی تھی۔ انہوں نے اس سے وجہ پوچھی تھی اور ان کے اصرار پر اس نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔ اس کی ساری باتیں سن کر وہ مسکرائے۔
”امید عالم سے کتنی محبت ہے آپ کو؟”
وہ ان کے سوال پر کچھ جھینپ گیا۔”یہ میں نہیں جانتا مگر۔”
ڈاکٹر خورشید نے اس کی بات کاٹ دی۔”مگر محبت ضرور کرتے ہیں۔” انہوں نے اس کا ادھورا فقرہ مکمل کر دیا۔ وہ خاموش رہا۔
”آپ نے مجھے بتایا تھا کہ آپ نے ان کے حصول کے لیے دعا کرتے ہوئے اللہ سے کہا تھاکہ اگر آپ کی محبت میں اخلاص ہے تو وہ آپ کو مل جائے’ اب آپ دعا کریں اگر اس عورت سے شادی آپ کے لیے بہتر ہو تو وہ آپ کوملے ورنہ صرف محبت کے حصول کی دعا نہ کریں اور پھر آپ مطمئن ہو جائیں۔ اللہ آپ کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ بنا دے گا۔”
”مگر میں تو امید کے بغیر نہیں رہ سکتا۔” ”ایمان کے بغیر نہیں رہا جا سکتا اور آپ کے پاس ایمان ہے۔” ان کا جواب اتنا ہی بے ساختہ تھا۔
”آپ سمجھ نہیں پا رہے۔ میں’ وہ میرے لیے میری سمجھ میں نہیں آرہا’ میں آپ سے اپنی بات کیسے کہوں۔” وہ الجھ گیا تھا۔
”تو مت کہیے اگر بات کہنے کے لیے لفظ نہ مل رہے ہوں تو اپنی اس بات یا جذبے پر ایک بار پھر سے غور ضرور کرنا چاہیے۔”
وہ ان کا منہ دیکھ کر رہ گیا۔ ”وہ میری زندگی کا حصہ بن چکی ہے’ اس کے بغیر میں اپنی زندگی کا تصور نہیں کر سکتا۔”
”انسان صرف خدا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ باقی ہر چیز کے بغیر رہا جا سکتا ہے چاہے بہت تھوڑی دیرکے لیے ہی سہی۔”
وہ قائل نہیں ہوا تھا مگر سر جھکا کر خاموش رہا۔
”جب تک انسان کو پانی نہیں ملتا’ اسے یونہی لگتا ہے کہ وہ پیاس سے مر جائے گا مگر پانی کا گھونٹ بھرتے ہی وہ دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے پھر اسے یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ پیاس سے مر سکتا تھا۔” اس نے سر اٹھا کر ڈاکٹر خورشید کو دیکھا۔
”مگر لوگ پیاس سے مر بھی جاتے ہیں۔”
”نہیں’ پیاس سے نہیں مرتے۔ مرتے تو وہ اپنے وقت پہ ہیں اور اسی طرح جس طرح خدا چاہتا ہے مگر دنیا میں اتنی چیزیں ہماری پیاس بن جاتی ہیں کہ پھر ہمیں زندہ رہتے ہوئے بھی باربار موت کے تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔”
”تو کیا میں اس سے محبت نہ کروں؟”
”آپ محبت ضرور کریں مگر محبت کے حصول کی اتنی خواہش نہ کریں۔ آپ کے مقدر میں جو چیز ہو گی وہ آپ کو مل جائے گی’ مگر کسی چیز کو خواہش بن کر ‘ کائی بن کر اپنے وجود پر پھیلنے مت دیں ورنہ یہ سب سے پہلے ایمان کو نگلے گی۔ آپ اس عورت کے حصول کے لیے دعا کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ اب صبر کر لیں اور معاملات اللہ پر چھوڑ دیں۔ پریشان ہونے’ راتوں کو جاگنے اور سرابوں کے پیچھے بھاگنے سے کسی چیز کو مقدر نہیں بنایا جا سکتا۔”
اس رات وہ ان کی باتوں پر غور کرتا رہا تھا۔
”مگر امید کے بغیر میں نہیں رہ سکتا۔” سونے سے پہلے اس نے جیسے تھک ہار کر سوچا تھا۔
ایک ماہ اسی طرح گزر گیا تھا۔ سعود ہرروز اس سے یہی کہتا تھا کہ وہ کوشش کر رہا ہے۔ وہ اپنی اداسی اور افسردگی سے نجات نہیں پا رہا تھا۔ ڈاکٹر خورشید کے پاس جاکر اسے کچھ سکون مل جاتا۔ گھر واپس آنے کے بعد اس کے بارے میں سوچتا رہتا۔
اس دن بھی وہ ڈاکٹر خورشید کے پاس گیا ہوا تھا۔ ان سے باتیں کرتے کرتے آدھا گھنٹہ گزر گیا پھر انہوں نے اپنی رسٹ واچ پرنظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”آج آپ سے کسی کو ملوانا چاہتا ہوں۔ اس بات کا مجھے یقین ہے کہ آنے والے سے مل کر آپ بہت خوش ہوں گے۔”
ان کے چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ اگلے دس منٹ کے بعد گیٹ پر کال بیل ہوئی اور پھر ملازم جس لڑکی کو لے کر کمرے میں داخل ہوا’ اسے دیکھ کر وہ بے اختیار کھڑا ہو گیا تھا۔
امید نے ایک نظر اس پر ڈالی تھی اور پھر ڈاکٹر خورشید کی طرف متوجہ ہو گئی جو اس کا استقبال کر رہے تھے۔ ایمان کو اپنے دل کی دھڑکن باہر تک سنائی دے رہی تھی۔ وہ اب دوسرے صوفہ پر بیٹھ چکی تھی۔
”تعارف کی کوئی ضرورت نہیں ہے” ڈاکٹر خورشید کمرے سے جا چکے تھے۔
وہ دونوں اب کمرے میں اکیلے تھے۔ بات کا آغاز امید نے کیا۔
”آپ مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتے ہیں؟” اس کے سوال اور انداز میں برہمی تھی۔
”کیونکہ مجھے آپ سے محبت ہے۔”
”یہ ایک بہت ہی بے ہودہ اورفضول جواب ہے۔” وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
”نہ آپ میرے ملک سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی آپ میرے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔”
اس نے بات کرتے ہوئے خود ہی اپنے جملے میں تصحیح کی۔”صرف ایک لڑکی سے شادی کے لیے مذہب تبدیل کرناکسی بھی شخص کو بہت ناقابلِ اعتبار بنادیتا ہے اور ایسے شخص سے شادی بہت مشکل کام ہے۔”
”میں نے مذہب تبدیل نہیں کیا۔مذہب اختیار کیا ہے۔ اس سے پہلے میں کسی بھی مذہب کا پیروکار نہیں تھا۔”
”جو بھی ہے لیکن میں مسلمان ہوں اورایک ایسے شخص سے شادی کرلینا جسے اسلام قبول کیے چار دن ہوئے ہوں، بہت مشکل کام ہے۔ میں زندگی میں رسک نہیں لیا کرتی اورپھر ایک ایسے شخص کے لیے جسے میں جانتی نہیں ہوں جس کا کوئی اتا پتا نہیں ہے اس کے ساتھ شادی کیسے ہو سکتی ہے۔”
وہ بڑے صبر سے اس کی باتیں سنتا رہا۔
”اور شاید انسان ساری باتوں کو اگنور کر دے مگر مذہب’ مذہب کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔”
”میں آپ کے مذہب سے ہی تعلق رکھتا ہوں۔”
”مگر آپ پیدائشی مسلمان نہیں ہیں۔ آپ کے ماں باپ مسلمان نہیں ہیں۔”
”مگر میں مسلمان ہو چکا ہوں۔”
”کتنے دن کے لیے ؟”
ایمان کو اس کے لفظوں پرپہلی بارتکلیف ہوئی ”آپ کو میری نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے۔”
”شادی ہر انسان اپنی مرضی سے کرنا چاہتا ہے’ کسی کو اس حد تک تنگ کر دیا جائے کہ وہ … ویسے بھی آپ … میں آپ کے بارے میں کچھ فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوں۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”اگر آپ کے پاس مجھ سے بہتر شخص کا آپشن ہو تو آپ اس سے شادی کر لیں لیکن اگر مجھ سے بہتر نہیں ہے تو پھر مجھ سے شادی کرنے میں کیا حرج ہے؟ میں پچھلے آٹھ سال سے پاکستان میں ہوں۔ آپ چاہیں گی تو آئندہ بھی یہیں رہوں گا۔”
”مگر میں یہ نہیں جانتی کہ آپ دل سے اس مذہب کو اختیار کررہے ہیں یا یہ صرف ایک دکھاوا ہے۔”