ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

اور اب وہ ایک ایسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا تھا سوائے نام کے۔ ” اگر یہ لڑکی بھی ان ہی لڑکیوں جیسی ہوئی جنہیں میں آج تک مسترد کرتا رہا ہوں تو پھر کیا میں اسے بھی چھوڑدوں گا؟”
اس نے خود سے پوچھا تھا اور جواب دینے کی ہمت اپنے اندر نہیں پائی۔”میں اسے نہیں چھوڑ سکتا۔ میں اس کے ماضی سے کوئی دلچسپی نہیں رکھوں گا اور اپنے حال کو ویسا بنایا جا سکتا ہے جیسا میں چاہتا ہوں۔ جب میں اسے زندگی میں سب کچھ دوں گا تو کیا وہ میرے لیے پار سائی اختیار نہیں کر سکے گی۔” اس نے سوچا۔ ”وہ کر لے گی کیونکہ وہ مشرقی عورت ہے اور شاید مسلمان بھی۔”
پچھلے پینتیس سالوں سے جس مسئلے کو وہ ٹالتا رہا تھا، اب وہ اس کے سامنے اس طرح آ گیا تھا کہ وہ آنکھیں چرا کے آگے نہیں جا سکتا تھا۔
”کیا میں ایک مسلمان عورت سے شادی کے لیے اسلام قبول کر سکتا ہوں؟”
اس نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔ اس کے اندر خاموشی کا ایک طویل وقفہ تھا۔
”ہاں، میں کر سکتا ہوں۔” بالآخر جواب آیا تھا۔
”اگر وہ لڑکی مجھے مل جائے تو میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔” فیصلہ بہت آسان ہو گیا تھا۔
اگلے دن ایک بار پھر فاسٹ فوڈ آوٹ لیٹ پر گیا تھا، وہ آج بھی نہیں تھی۔ رات کو وہ سعود کے پاس پہنچ گیا۔
”ٹھیک ہے، تم نے فیصلہ کر لیا کہ تم اس لڑکی کے لیے مذہب تبدیل کر لو گے… اچھا فرض کرو، کچھ عرصہ کے بعد تم دونوں کی شادی ناکام ہو جاتی ہے اور تم اسے طلاق دے دیتے ہو پھر تم کیا کرو گے؟ کیا اسلام چھوڑ دو گے؟” اس کے پاس ڈینیل کے لیے ایک اور مشکل سوال تھا۔
”شادی ناکام ہونے سے مذہب کی تبدیلی کا کیا تعلق ہے؟”
”بہت گہرا تعلق ہے، تم مذہب سے متاثر ہو کر اسلام قبول نہیں کر رہے۔ صرف ایک عورت سے شادی کی خاطر ایسا کر رہے ہو، ظاہر ہے اگر وہ عورت تمہارے پاس نہ رہی تو پھر تمہارے مسلمان رہنے کا بھی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ بہت معذرت کے ساتھ کہوں گا لیکن سچ یہی ہے کہ تم جیسا شخص جس کی زندگی میں کبھی مذہب رہا ہی نہیں اس کے لیے کسی مذہب میں داخل ہونے سے زیادہ آسان کام نکلنا ہے۔”
وہ سعود کا چہرہ دیکھتا رہا ”میرے ذہن میں اس بارے میں کوئی الجھن نہیں ہے، ٹھیک ہے، میں ایک عورت کے لیے اسلام قبول کر رہا ہوں اور میرا خیال ہے یہ مذہب مجھے ایک بہتر انسان بنائے گا لیکن ایک عورت کو چھوڑنے پر میں یہ مذہب چھوڑنے کا کوئی خیال نہیں رکھتا۔ شادی ایک معاشرتی معاملہ ہے مگر مذہب کا تعلق عقائد سے ہوتا ہے۔”
”پھر تم یہ بات تسلیم کرو کہ بعض معاشرتی معاملات ہمارے عقائد پر اثرانداز ہوتے ہیں۔”
”کم از کم میں اپنے معاشرتی معاملات کو عقائد پر اثر انداز ہونے نہیں دوں گا۔”
”میں اس معاملے میں تم سے بحث نہیں کروں گا، ٹھیک ہے ایک فیصلہ اگر تم نے کیا ہے تو میں یہی چاہوں گا کہ خدا تمہیں استقامت اور ثابت قدمی عطا فرمائے۔” سعود نے بحث ختم کرتے ہوئے کہا۔
اگلی شام وہ سعود کے ساتھ وہاں گیا تھا اور ہال میں داخل ہوتے ہی اس کے چہرے پر ایک چمک نمو دار ہوئی تھی اس نے بے اختیار سعود کا بازو پکڑ لیا۔
”وہ واپس آ گئی ہے۔” سعود نے کچھ حیرت کے ساتھ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھے، چند لمحوں میں ہی اس کے چہرے کی اداسی اور بے چینی ختم ہو گئی تھی۔ سعود نے کاؤنٹر کی طرف دیکھا۔ وہاں بہت سی لڑکیاں نظر آ رہی تھیں۔ ڈینیل اسے اپنے ساتھ لیے ایک لڑکی طرف بڑھ گیا۔ اس نے سر اٹھا کر ڈینیل کو اپنی طرف آتے دیکھا اور مسکرائی۔ ڈینیل نے آرڈر نوٹ کروانے کے بجائے بے تابی سے اس سے پوچھا۔





”آپ ایک ہفتہ سے کہاں تھیں؟” اس لڑکی کے چہرے پر مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں وہ ڈینیل اور سعود کا چہرہ دیکھتی رہی۔ سعود نے بر وقت مداخلت کی اور آرڈر نوٹ کروانا شروع کر دیا۔ وہ وہاں سے چلی گئی تھی۔
”ڈینیل ! خود پر قابو رکھو، تمہاری اس کے ساتھ اتنی جان پہچان نہیں ہے کہ تم اس کے یہاں نہ ہونے کے بارے میں اس طرح پوچھنے لگو۔”
سعود نے اسے کچھ سرزنش کی۔ دس منٹ کے بعد وہ دوبارہ ٹرے کے ساتھ نمودار ہوئی۔ اس بار اس لڑکی نے ڈینیل کی طرف دیکھنے کی کوشش کی تھی نہ ہی وہ مسکرائی تھی۔ خاموشی کے ساتھ اس نے آرڈر سرو کیا اور پیچھے ہٹ گئی۔ وہ دونوں اپنی ٹرے اٹھا کر ایک قریبی ٹیبل پر پہنچ گئے۔
”تویہ امید عالم ہے؟”
”ہاں!” ڈینیل نے دور کاؤنٹر پر اس پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے، میں اس کے بارے میں اتا پتا کرنے کی کوشش کروں گا۔ مگر کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم اسے شادی کا پرپوزل دو۔کم از کم اس کا ردِعمل تو معلوم ہو سکے گا۔” سعود نے اسے مشورہ دیا تھا۔
‘شادی کا پر پوزل؟ ٹھیک ہے، میں اسے آج پر پوز کر دوں گا۔”
وہ اب بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ سعود کو ڈینیل کی بے اختیاری پر حیرت ہو رہی تھی۔ وہ بہت سنجیدہ اور ریزرو قسم کا آدمی تھا۔ کسی لڑکی کے بارے میں اس طرح کا والہانہ انداز سعود کے لیے نیا تھا۔ اس وقت سعود کو یوں لگ رہا تھا جیسے ڈینیل پوری طرح سحر زدہ ہے۔ اس نے ایک لمحے کے لیے بھی بات کرتے ہوئے اس لڑکی سے نظریں نہیں ہٹائی تھیں یوں جیسے اسے خوف ہو کہ وہ دوبارہ گم ہو جائے گی۔
سعود آدھ گھنٹہ اور بیٹھا تھا پھر اُٹھ کر چلا گیا تھا جبکہ ڈینیل وہیں بیٹھا رہا تھا رات کو اس وقت سے پہلے جب وہ چلی جایا کرتی تھی وہ اٹھ کر اس کی طرف آیا تھا۔ اس بار اس لڑکی نے کچھ الجھن بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
”امید! کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟”
اس نے لڑکی کو پتھر کے بت کی طرح ساکت ہوتے دیکھا۔ چند لمحے وہ سانس رو کے اسی طرح کھڑی رہی پھر وہ بڑی تیزی سے کاؤنٹر کے پیچھے دروازے سے غائب ہو گئی۔ ڈینیل کچھ دیر اس کا انتظار کر تا رہا مگر وہ دوبارہ نمو دار نہیں ہوئی۔ وہ کچھ بے چین اور مایوس ہو کر باہر اپنی گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ معمول کے مطابق باہر ریسٹورنٹ کی گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی۔ ڈینیل نے ہمیشہ کی طرح گاڑی کا تعاقب ہاسٹل تک کیا۔ پھر واپس گھر آ گیا۔ گھر آنے کے بعد اس نے فون پر سعود کو اس کے رد عمل کے بارے میں بتایا۔
”اچھا ٹھیک ہے، اب میں اس کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تم پریشان مت ہو۔” سعود نے اسے تسلی دے کر فون بند کر دیا۔
اگلے دن وہ اپنے معمول کے مطابق آفس سے فارغ ہونے کے بعد دوبارہ وہیں گیا تھا اور یہ دیکھ کر بے چین ہو گیا کہ وہ ایک بار پھر کاؤنٹر پر نظر نہیں آ رہی تھی۔
”امید عالم’ انہوں نے کل جاب چھوڑ دی۔” اس کے پیروں تلے سے جیسے کسی نے زمین کھینچ لی تھی پتا نہیں کیوں اسے یہ محسوس ہوا تھا کہ اس نے اسی کی وجہ سے جاب چھوڑی تھی۔ وہ چند لمحے کچھ کہے بغیر کاؤنٹر پر کھڑا رہا پھر باہر نکل آیا اور باہر نکلتے ہی وہ سیدھا اس ہاسٹل گیا تھا جہاں وہ رہتی تھی۔ چوکیدار سے اس نے امید کے بارے میں پوچھا اور چوکیدار نے قدرے سرد لہجے میں اس سے کہا۔
”وہ کل ہاسٹل چھوڑ کر جا چکی ہیں۔”
”کہاں چلی گئیں؟” اس کی جیسے جان پر بن آئی تھی۔
”یہ ہمیں نہیں پتا۔” چوکیدار نے سرد مہری سے جواب دیتے ہوئے گیٹ بند کر لیا۔ وہ پتا نہیں کتنی دیر سن ذہن کے ساتھ گیٹ کے باہر کھڑا رہا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ اسے کس طرح اور کہاں ڈھونڈے پھر پتا نہیں کس خیال کے تحت اس نے ایک بار پھر گیٹ بجایا ۔ چوکیدار باہر نکلا۔
”کیا امید عالم مسلمان ہیں؟” چوکیدار نے کچھ حیرانی کے ساتھ اس کے سوال پر اسے دیکھا۔
”ہاں وہ مسلمان ہیں۔” وہ اپنی گاڑی کی طرف پلٹ آیا۔
وہ نہیں جانتا، وہ کون سے علاقے کی کون سی مسجد تھی اسے صرف یہ یاد تھا کہ کئی گھنٹے سڑک پر بے مقصد گاڑی چلانے کے بعد اس نے ایک بہت بڑی مسجد دیکھی اور اس نے وہاں گاڑی روک دی۔ مسجد کے اندر جا کر اس نے امام سے ملاقات کی تھی اور اپنے آنے کا مقصد بتایا، امام مسجد بہت دیر حیرانی سے اسے دیکھتے رہے پھر انہوں نے مسجد میں اس وقت موجود چند لوگوں کو ڈینیل ایڈگر کے آنے کی وجہ بتائی تھی۔ ڈینیل نے ان سب کے چہرے پر بھی اتنی ہی حیرانی دیکھی۔ وہ بڑے صبر سے ان سب کو کچھ فاصلے پر ایک دوسرے سے باتیں کرتا دیکھتا رہا چند منٹوں بعد وہ بالآخر اس کی طرف آئے اور گرم جوشی کے ساتھ اس سے ہاتھ ملایا۔
ایک گھنٹے کے بعد ڈینیل ایڈگر ایمان علی کی صورت میں اس مسجد کے ہال میں کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ انہی کی پیروی میں نماز ادا کر رہا تھا۔ دعا مانگتے ہوئے امام کی دعا ختم ہو جانے کے بعد اس نے ایک دعا اور مانگی تھی اور اس کے بعد آمین کہا تھا۔
وہاں سے واپس گھر آ کر اس نے سعودار تضیٰ کو فون کر کے سب کچھ بتا دیا تھا۔
”ڈینیل نہیں ایمان علی، میں جو کام کرنا چاہتا تھا۔ وہ کر چکا ہوں۔ جلد کیا ہے یا دیر سے اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم مجھے بتا دو کہ امید کو ڈھونڈنے کے سلسلے میں تم میری کیا مدد کر سکتے ہو۔ اس کے علاوہ میں ایسے کسی عالم سے بھی ملنا چاہتا ہوں جو مجھے کچھ رہنمائی فراہم کر سکے۔”
سعود کو اس کے لہجے میں موجود سکون اور اطمینان نے حیران کیا۔
اگلے دن دونوں کی ملاقات ایمان کے آفس میں ہوئی تھی۔ سعود نے اسے گلے لگا کر مبارکباد دی۔
”میں ابھی کسی پر اپنی مذہب کی تبدیلی کا انکشاف نہیں چاہتا۔ توقع رکھتا ہوں کہ تم اس بات کا خیال رکھو گے۔” اس نے بات کا آغاز کرتے ہوئے سعود کو ہدایت دی۔
”ٹھیک ہے، تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک امید کا تعلق ہے تو کل تک تمہیں اس کے بارے میں پتا چل جائے گا۔ آج شام کو میرے ساتھ چلنا،میں تمہیں ایک اسکالر سے ملواؤں گا۔” سعود نے اٹھنے سے پہلے کہا تھا۔
شام کو وہ سعود کے ساتھ اس اسکالر کے پاس گیا تھا جس کا سعود نے ذکر کیا تھا۔ ایک نسبتاً غیر معروف علاقے میں ایک چھوٹے سے مگر بہت عمدگی سے بنے ہوئے گھر میں وہ ایک دراز قامت، سانولی رنگت کے باریش آدمی سے ملا تھا جس نے مصافحہ کرنے کے بعد اس کو گلے لگایا تھا۔ وہ اسے اندر اپنے ڈرائنگ روم میں لے گیا تھا جہاں کی سب سے نمایاں اور خاص بات وہاں کی سادگی اور کتابوں کی تعداد تھی۔ ان کے اندر بیٹھتے ہی ایک ملازم ایک ٹرے میں کھانے پینے کی کچھ چیزیں لے آیا تھا۔
ایمان اپنی نظریں اپنے سامنے بیٹھے ہوئے اس شخص پر جمائے رہا جس کا نام ڈاکٹر خورشید اصغر تھا جبکہ وہ شخص بڑے پر سکون انداز میں ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ملازم کو میز پر چیزیں سجاتے دیکھ کر ہدایات دیتا رہا۔ اس شخص کے انداز میں کوئی خاص ٹھہراؤ اور تمکنت تھی جس نے ایمان کو متاثر کیا تھا۔ ملازم کے جانے کے بعد چائے پیتے ہوئے اسی پر سکون انداز میں اس نے ایمان علی کو مخاطب کیا۔
”مجھے شرمندگی ہے کہ آپ کے سامنے بہت زیادہ چیزیں پیش نہیں کر سکا۔” اس کی بات پر ایمان کچھ شرمندہ ہو گیا۔
”آپ نے پہلے ہی بہت تکلف کیا ہے، اتنے اہتمام کی ضرورت نہیں تھی چائے کا ایک کپ ہی کافی ہوتا۔”
”یہ اہتمام اس شخص کے لیے نہیں ہے جو مجھ سے کچھ سیکھنے آیا ہے، یہ اہتمام اس شخص کے لیے ہے جس سے میں کچھ سیکھنے والا ہوں۔”
ایمان چائے پیتے پیتے رک گیا۔ اس کی بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی کچھ الجھی ہوئی نظروں سے اس نے ساتھ بیٹھے سعود کو دیکھا جو بڑی بے نیازی سے چائے پینے میں مصروف تھا۔
”سعود صاحب سے پتا چلا کہ آپ ایک عورت کے لیے ڈینیل ایڈگر سے ایمان علی بن گئے ہیں۔ ہمیں اس عورت کو دیکھنے کا اشتیاق ہے جس کے لیے آپ ایمان علی بن گئے ۔ سچ پوچھیے تو بہت کم عورتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے لیے کوئی ایمان علی بننے کی خواہش کرے۔” ایمان علی اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔
”کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کس رستے کا انتخاب کر لیا ہے؟” اس نے ایک دم ایمان علی سے پوچھا۔
”نہیں۔”
اس شخص کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آ گئی۔
”میں اتنا جانتا ہوں کہ اپنے سامنے موجود تین رستوں میں سے میں نے سب سے بہتر رستے کا انتخاب کیا ہے، اب وہ راستہ کہاں جائے گا یہی جاننے میں آپ کے پاس آیا ہوں۔”
”یہ آزمائش کا راستہ ہے … آزمائش جانتے ہیں آپ؟” ایمان نے نفی میں سر ہلا دیا۔ ”ہاں آپ کو اس لیے علم نہیں ہو گا کیونکہ آپ ساری زندگی مذہب کے دائرہ سے باہر رہے ہیں۔ مگر ابھی کچھ عرصہ کے بعد آپ کا سامنا آزمائش سے بھی ہو گا۔ اسی وقت یہ فیصلہ ہو سکے گا کہ دین کے لیے آپ میں کتنی استقامت ہے۔ آپ ہر روز اسی وقت میرے پاس آ جایا کریں۔ میں کوشش کروں گا کہ دین کے بارے میں آپ کی واقفیت بڑھا سکوں، دین سے عشق تو اللہ ہی بڑھائے گا۔”
انہوں نے بڑے عجیب سے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
وہ تقریباً دو گھنٹے ان کے پاس بیٹھا رہا۔ انہوں نے اسے بہت سی بنیادی اور ضروری باتوں سے آگاہ کیا تھا۔ جانے سے پہلے انہوں نے اسے کچھ کتابیں مطالعہ کے لیے دیں۔ وہ ان کے پاس سے واپس آتے ہوئے بہت مطمئن تھا۔ رات کو سونے سے پہلے اسے اپنی پچھلی رات کو نماز کے دوران کی جانے والی دعا یاد آئی تھی۔
”ہر شخص کو کسی نہ کسی چیز کی طلب ہی مذہب کی طرف لے کر آتی ہے مجھے ایک عورت کی طلب اس طرف لے آئی ہے اور اب جب میرے پاس ایمان ہے تو میں اسی ایمان کا سہارا لے کر تم سے دعا کرتا ہوں کہ مسلمان کی حیثیت سے میری پہلی دعا قبول فرماؤ۔ اگر میری محبت میں اخلاص ہے تو وہ لڑکی مجھے مل جائے۔ میں زندگی میں پہلی بار تم سے کچھ مانگ رہا ہوں اس سے پہلے مجھے کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی مگر اب اس طرح ایک مسلمان کے طور پر تمہارے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے مجھے یہ یقین ہے کہ میں ٹھکرایا نہیں جاؤں گا۔ میری دعا قبول کی جائے گی۔ مجھے اس چیز سے نواز دیا جائے گا جس کی مجھے خواہش ہے۔”
ایمان علی نے آنکھیں بند کر کے اپنے الفاظ یاد کیے تھے اور پھر آنکھیں کھول دیں۔ ”ہاں مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے مل جائے گی کم از کم اب ضرور مل جائے گی۔” اس نے دوسری بار سونے کے لیے آنکھیں بند کرتے ہوئے سوچا۔
*…*…*




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Read Next

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!