اسلام اس کے لیے کوئی نئی اور انوکھی چیز نہیں تھی۔ اس مذہب سے اس کا پہلا تعارف بہت بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ وہ مراکش میں پیدا ہوا تھا۔ ایک مسلم ملک میں۔ پھر جن جن ملکوں میں گیا۔ وہ بھی اسلامی تھے۔ اذان کی آواز پر اپنے کلاس فیلوز کی پیروی کرتے ہوئے وہ بھی خاموش ہو جایا کرتا تھا اور یہ عادت پندرہ سالوں میں بہت پختہ ہو گئی تھی۔ امریکہ میں ایک لمبے قیام کے بعد پاکستان آنے پر ایک بار پھر بے اختیار اذان کی آواز پر اسے اپنا بچپن یاد آجاتا تھا ایک بار پھر سے وہ اسی طرح احتراماً خاموش ہو جایا کرتا تھا جیسے بچپن میں اسکول میں ہوتا تھا۔ ایسی بہت سی دوسری یادیں اس کے بچپن کا حصہ تھیں جو کسی نہ کسی طرح اس کی عادات میں بھی شامل تھیں مگر اس وقت وہ یہ سب کچھ سوچے سمجھے بغیر کیا کرتا تھا۔
اسلام کے بارے میں پہلی بار اس نے تب سوچا تھا جب چھ سال کی عمر میں وہ اپنے والدین کے ساتھ ایک سال کے لیے لندن آیا تھا۔ یہیں پہلی بار اس نے اپنی ماں کے ساتھ چرچ میں ایک پادری کا وعظ سنا تھا جس میں وہ لبنان اور دنیا کے کچھ دوسرے علاقوں میں عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے کیے جانے والے مظالم کا ذکر کر رہا تھا۔ وہ ان مظالم کی کچھ اس طرح منظر کشی کر رہا تھا کہ چرچ کی بنچوں پر بیٹھی ہوئی کچھ عورتوں کی آنکھوں میں آنسو اور ہونٹوں پر سسکیاں آ گئی تھیں۔ ان میں سبل بھی شامل تھی۔
ڈینیل نے تب حیرانی سے ماں کو دیکھا تھا اور خود بھی اداس ہو گیا تھا۔
”مسلمان ایسا کیوں کرتے ہیں؟” اس دن چرچ سے باہر آتے ہوئے اپنی ماں کی انگلی پکڑے ہوئے اس نے اپنی ماں سے پوچھا۔
”یہ ان کا کلچر ہے… وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتے۔” اس کی ماں نے کہا تھا۔ وہ غور سے ماں کے جملے کو سوچتا رہا۔
”مگر اس طرح لوگوں کو مارنا بہت برا ہوتا ہے’ ہے نا؟” اس نے ماں سے پوچھا۔
”ہاں برا ہوتا ہے مگر مسلمانوں کو ان کی پروا نہیں ہوتی۔ وہ اور بھی بہت سے برے کام کرتے رہتے ہیں۔ میں تمہیں گھر چل کر بتاؤں گی۔” اس کی ماں نے اس سے کہا تھا۔
اس دن گھر جا کر سبل نے ایک کتاب کھولی تھی اور ڈینیل کو اسپین پر مسلمانوں کے قبضے اور مظالم کی تفصیلی داستان سنائی تھی۔ اگلے ایک ہفتے میں وہ صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کی زیادتیوں کے قصے بھی سن چکا تھا۔
ایک ہفتے بعد اس کے اسکول میں ایشیا کے مسلم ممالک میں عیسائی مشنریز اور مقامی عیسائی کمیونٹی کے لیے فنڈز اکٹھے کیے گئے تھے۔
”آپ لوگ ایک چاکلیٹ کی قیمت ہمیں دے سکتے ہیں۔ ایک دن ایک چاکلیٹ نہ کھا کر آپ بہت سے ایسے بچوں کی مدد کر سکتے ہیں جن کے پاس چاکلیٹ تو کیا کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔”
ڈینیل نے اسکول میں آنے والے اس فادر کی باتیں دوسرے بچوں کی طرح غور سے سنی تھیں اور پھر دوسرے بچوں کے ساتھ اپنی اس دن کی پاکٹ منی اپنے پاس رکھنے کے بجائے چیریٹی باکس میں ڈال دی۔ گھر آ کر اس نے اپنی ماں کو اپنا یہ کارنامہ بتایا تھا۔ سبل بے تحاشا خوش ہوئی۔
”ان بچوں کے پاس کھانے کے لیے کچھ کیوں نہیں ہے؟” اس نے رات کو بیٹھے بیٹھے سبل سے پوچھا تھا۔
”کیونکہ یہ لوگ مسلم ممالک میں رہ رہے ہیں۔ مسلم اپنے علاوہ تمام دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں۔ وہ وہاں کی مقامی عیسائی آبادی سے براسلوک کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں’ وہ لوگ کم تعداد میں ہیں’ اس لیے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے انہیں کوئی خوف نہیں ہے۔ یہ فنڈز اکٹھے ہونے کے بعد ان ملکوں میں بھیجے جائیں گے، وہاں ان بچوں کے لیے اسکول بنائے جائیں گے۔ ہاسٹل بنائے جائیں گے۔ ان کے کھانے اور رہنے پر خرچ کیے جائیں گے۔”
سبل نے اسے تفصیل سے بتایا تھا۔ جو ایک بات سبل نے اسے اس وقت نہیں بتائی اور جو اس واقعہ کے پندرہ سال بعد ایک آرٹیکل کے ذریعے اس کے علم میں آئی، وہ یہ تھی کہ یہ فنڈز عیسائیت کی تبلیغ کے لیے غریب مسلمانوں کو اپنے مذہب کی طرف راغب کرنے کے لیے’ ان کی بھاری مالی امداد کے لیے بھی استعمال کیے جاتے تھے۔
چھ سال کی عمر میں دوسرے بچوں کی مدد کرنے کے لیے اس نے باقاعدگی سے اپنی پاکٹ منی اسکول میں موجود چیریٹی باکس میں ڈالنا شروع کر دیا اور جس دن وہ ماں کے ساتھ چرچ جاتا اس دن وہ چرچ میں چیریٹی باکس میں روپے ڈالنا نہ بھولتا۔
“Muslims are wicked, brutal and treacherous” (مسلمان مکار’ وحشی اور دھوکے باز ہیں) یہودیوں کی ایک عبادت گاہ میں ١٩٦٧ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ایک یہودی مذہبی رہنما کا یہ وہ جملہ تھا جو اگلے کئی دن اس کے ذہن سے چپکا رہا۔ وہ پیٹرک کے ساتھ ہفتہ وار عبادت کے لیے گیا تھا اور وہاں بھی ریبائی مسلمانوں کے مظالم کے بارے میں بتاتے ہوئے یہودیوں سے فنڈز کی درخواست کر رہا تھا۔ ڈینیل نے اپنے باپ کو ایک چیک کاٹ کر ریبائی کی طرف بڑھاتے دیکھا تھا اور پھر اس نے بھی اپنی جیب میں موجود ایک پاؤنڈ نکال کر ریبائی کی طرف بڑھا دیا۔ ریبائی نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے قریب کر لیا تھا۔
”یہی بچے اسرائیل اور یہودیوں کا مستقبل ہوں گے۔” ریبائی نے اسے خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا۔ ڈینیل نے کچھ جھینپتے ہوئے اپنے باپ کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر اس وقت فخر اور چمک تھی پھر یہ بھی ایک روٹین بن گئی تھی۔ وہ جب بھی باپ کے ساتھ جاتا تو اپنی پاکٹ منی یہودیوں کے لیے وقف کر آتا۔ جب ماں کے ساتھ جاتا تو اپنی پاکٹ منی عیسائیوں کے لیے دے آتا۔
شاید مسلمانوں کے خلاف اس کی یہ برین واشنگ ناپسندیدگی سے نفرت میں بدل جاتی اگر وہ دوبارہ اپنے والدین کے ساتھ مصر نہ چلا جاتا اور پھر اگلے بہت سے سال وہاں نہ گزارتا جہاں اس کے ٹیچرز اور کلاس فیلوز کی ایک بڑی تعداد مسلمان تھی اور وہ اتنے ہی مہربان اور محبت کرنے والے تھے جتنے اس کے دوسرے ٹیچرز اور کلاس فیلوز تھے۔ انہیں کمپنی کی طرف سے جو گھر دیا گیا تھا۔ وہ ایک مسلمان بیوہ کی ملکیت تھا جو خود اسی گھر کی انیکسی میں رہتی تھی۔ مگر اپنی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اس نے اپنے گھر کو کرائے پر دے دیا تھا۔ حامدہ اسد الزہیر نامی یہ عورت ترکی سے تعلق رکھتی تھی جو اپنے شوہر سے شادی کے بعد وہاں آئی تھی اور سبل کے اس سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ وہ بے اولاد تھی اور ڈینیل سے بہت محبت کرتی تھی۔ اگر کبھی ڈینیل کو گھر پر چھوڑنے کی ضرورت پیش آتی تو سبل حامدہ کے پاس ہی چھوڑا کرتی تھی اور حامدہ اس کی بہت اچھی طرح سے دیکھ بھال کیا کرتی تھی۔ ڈینیل اسے ہمیشہ سر سے پاؤں تک ایک سفید چادر میں لپٹا دیکھا کرتا تھا اور وہ زیادہ تر قرآن کی تلاوت کرتی رہتی تھی۔ جب سبل ڈینیل کو اس کے پاس چھوڑ جاتی تب بھی اس سے کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اور اسے کسی سر گرمی میں لگا کر وہ خود ایک بار پھر قرآن کی تلاوت کرنے لگتی تھی۔ اور یہیں ڈینیل اور اس عورت کے درمیان ایک مخصوص بے تکلفی پیدا ہونے لگی۔ وہ شروع میں کچھ جھجکتا رہا مگر پھر آہستہ آہستہ اس عورت سے مسلمانوں کے بارے میں اپنے ذہن میں بٹھائے گئے تمام خدشات کا اظہار کرتا رہا۔ حامدہ اسد الزہیر اس کی بعض باتوں پر مسکراتی اور بعض پر قہقہہ لگا کر ہنس دیتی۔ پھر تلاوت کرتے کرتے وہ اسے کسی آیت کا انگلش ترجمہ سناتی۔
”ہمارا خدا اور پیغمبرۖ اس طرح کی باتیں کہتے ہیں اور ہم اس طرح کی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔” وہ ہر بار یہی کہتی۔ تم نے ان زیادتیوں کے بارے میں سنا ہے جو مسلمانوں نے دوسروں پر کی ہیں مگر جو مسلمانوں پر کی گئی ہیں وہ تم نہیں جانتے۔ فلسطین میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔” اسے تفصیل سے بتانے لگتی۔”ترکی میں اتحادیوں نے جو سارے عیسائی ملک تھے کیا کیا۔” وہ پہلی جنگِ عظیم کی تفصیل بتانے لگتی۔ ”برصغیر میں مسلمانوں کے ساتھ برٹش نے کیا کیا۔”
آٹھ سال کی عمر میں وہ الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ حامدہ اسد الزہیر کی باتیں سنتا اور پریشان ہو جاتا۔
”مسلمان ویسے نہیں ہوتے جیسا تم سمجھتے ہو۔ ہمارا اپنا مذہب ہے’ خاص کلچر ہے’ مختلف روایات ہیں اگر ہم ان کے مطابق زندگی گزارتے ہیں تو اس میں کیا غلط ہے۔ تم لوگ بھی تو یہی کرتے ہو۔ میرا مطلب ہے کہ تمہاری ممی اور ڈیڈی…یہودی اور عیسائی… ہم اعتراض نہیں کرتے’ ہم مداخلت نہیں کرتے’ ہم دوسروں کی آزادی کا احترام کرتے ہیں اور حقوق کا بھی’ پھر ہماری آزادی اور حقوق کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا؟”
حامدہ اسد الزہیر ہمیشہ اس سے اس طرح بات کرتی تھی جیسے وہ آٹھ نو سال کا بچہ نہیں بلکہ اٹھارہ انیس سال کا ایک نوجوان ہو اور ڈینیل کو یہ بات اچھی لگتی تھی۔ وہ ہر بات اسے بتانے کے بعد اس کی رائے لیتی تھی اور اسے مجبوراً اپنی پسندیا نا پسندیدگی سے اسے آگاہ کرنا پڑتا تھا۔
دو سال مصر کے قیام نے لندن کے ایک سال کے قیام کے نتیجے میں اس کے ذہن میں جنم لینے والے تعصب کو صاف کر دیا تھا۔ وہ ہر چیز کو قدرے زیادہ غیر جانبدار ہو کر سوچنے لگا تھا۔
اگلے کچھ سالوں نے جو اس نے مسلمان ملکوں میں گزارے تھے مذہب کے بارے میں اس کے تعصب کو دوبارہ ابھرنے نہیں دیا۔ اس کی جو چند دوستیاں تھیں وہ مسلمان لڑکیوں سے ہی تھیں ان روایات اور اس کے اپنے گھر کی روایات میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ اس کے دوستوں کی بہنیں اگر اس کے سامنے پردہ کرتیں یا نہ آتیں، تب بھی اسے یہ بات پہلے کی طرح بری نہیں لگتی تھی بلکہ اچھی لگتی تھی اسے وہ لڑکیاں اپنی ہی ماں کی ایک extention لگتی تھیں۔ اس کی اپنی ماں بھی اسکرٹ یا ٹراؤزر پہننے کے باوجود اپنے جسم کو بہت اچھے طریقے سے ڈھانپ کر رکھتی تھی۔ اس نے اپنے دوستوں کی ماؤں کو بھی اس طرح دوسروں کی مدد کرتے دیکھا تھا جس طرح خود اس کی ماں کرتی تھی۔
پندرہ سال کی عمر میں واپس امریکہ جاتے ہوئے وہ خود بھی ان اسلامی روایات کا اتنا عادی ہو چکا تھا کہ اس کے لیے امریکہ میں نظر آنے والی آزادی ایک شاک کی طرح تھی۔ پردے میں چھپی رہنے والی عورتوں سے بے لباس رہنے والی عورتوں کا موازنہ کرتے ہوئے وہ شدید کشمکش کا شکار تھا، کون بہتر تھیں؟ کون بد تر تھیں؟ اس کے ذہن میں ایک با حیا اور با پردہ مسلم عورت کا تصور کچھ اتنی سختی سے نقش ہو گیا کہ مسلم ممالک میں خاص طور پر مصر اور اردن میں نظر آنے والی بے پردہ یا بے باک قسم کی عورتوں کو یا تو وہ مسلم نہیں سمجھتا تھا یا پھر یہ سوچتا تھا کہ ان کا تعلق کسی اچھے خاندان سے نہیں۔
اسلام کے بارے میں ایک نئی بحث کا سامنا اسے تب کرنا پڑا جب سترہ سال کی عمر میں اس کے اسکول میں آنے والی ایک مسلم لڑکی کو صرف اسکارف پہننے کی وجہ سے اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ اس کے لیے’ یہ بات ایک جھٹکے کی طرح تھی۔ صرف اسکارف لینے پر اسکول آنے سے روک دینا؟ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اس ایشو پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کس طرح کرے۔ وہ خود مسلمان ممالک میں لڑکیوں کو اسکارف لیے اسکول میں آتے دیکھ چکا تھا اور اس کے لیے یہ ایک معمولی بات تھی مگر اب یہ معمولی بات نہیں رہی تھی۔ اس لڑکی کے والدین نے لڑکی کا اسکارف اتروا نے کے بجائے عدالت میں مقدمہ کر دیا تھا اور اخبارات دھڑا دھڑاس بارے میں اپنے خیالات اور رائے کا اظہار کر رہے تھے۔
چند ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ ہو گیا تھا۔ عدالت نے اسکول کی انتظامیہ کا فیصلہ بر قرار رکھا تھا۔ وہ لڑکی اسی وقت اسکول آسکتی تھی جب وہ اسکارف کے بغیر آتی اور وہ لڑکی اسکول نہیں آئی۔ اس نے کسی دوسرے سکول میں ایڈمیشن لے لیا جہاں وہ اسکارف کے ساتھ جا سکتی تھی۔ اخبارات نے اسکول کی انتظامیہ اور عدالت پر دادو تحسین کے ڈونگرے بر سا دیے تھے۔ جنہوں نے مسلمانوں کی طرف سے مذہبی تعصب پھیلانے کی کوشش کو ناکام کر دیا تھا۔
”اگر جج یہودی’ ملک عیسائی ہو اور اپیل کرنے والا مسلمان ہو تو پھر ایسے ہی فیصلے کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔”
اس نے اگلے دن کیفے ٹیریا میں اپنے ایک پاکستانی کلاس فیلو کے منہ سے طنزیہ انداز میں یہ بات سنی تھی۔
”اس اسکول میں ایک لڑکی ٹاپ لیس پہن کر آجائے گی’ کوئی مذہبی تعصب نہیں پھیلے گا مگر اگر ایک مسلمان لڑکی سر ڈھانپ کر آئے گی تو قیامت آ جائے گی’ ہمارے دین کی امتیازی صفت حیا ہے اور ہماری عورتوں کے اسکارف میں انہیں یہ صفت نظر آنے لگتی ہے’ اسکارف ختم کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے دین پر غالب آ گئے۔ یہ ہماری شناخت سے خوف کھاتے ہیں’ چاہے وہ ہماری عورتوں کے لباس میں نظر آئے یا مردوں کی داڑھیوں میں۔”
ڈینیل چپ چاپ اس کی باتیں سنتا رہا تھا۔ اس کے اپنے دل میں بھی ایک خلش تھی۔ صرف لباس کی بنیاد پر کسی کو اس طرح اسکول سے نکال دینا کیا آزادی ، مساوات اور ‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں تھی۔ وہ اگلے کئی دن سوچتا رہا پھر رفتہ رفتہ یہ بات اس کے ذہن سے نکل گئی۔
یونیورسٹی میں ایم بی اے کرنے کے دوران ایک بار جب سبل اور پیٹرک نے اس سے اپنے مذہب کے بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کے لیے کہا تو کھانے کی میز پر اس نے کچھ مذاق کے انداز میں ان سے کہا۔
”آپ دونوں فکر مت کریں۔ مرتے وقت میں اس طرح لامذہب نہیں ہوں گا کہ آپ کو میری آخری رسومات میں دشواری ہو کہ کس عقیدے کے مطابق میری آخری رسومات ادا کی جائیں۔ یہودی نہیں تو عیسائی ہو جاؤں گا۔ عیسائی بھی نہیں تو بد ھسٹ یا پھر چلیں مسلم ہو جاؤں گا۔”
وہ ٹرائفل پر نظریں جمائے کہہ رہا تھا۔ ڈائننگ ٹیبل پر اچانک خاموشی چھا گئی۔ ڈینیل نے کچھ حیران ہو کر ٹرائفل کھاتے کھاتے سر اٹھا کر ماں باپ کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں بے حس و حرکت کسی شاک کے عالم میں اسے دیکھ رہے تھے۔
”کیا ہوا؟” وہ ٹرائفل کھاتے کھاتے رک گیا۔
”تم نے مسلمان ہونے کے بارے میں سوچا بھی کیسے؟” سبل نے سرد آواز میں کہا تھا۔
”میں نے سوچا نہیں صرف مذاق کے طور پر کہہ رہا ہوں۔” اس نے وضاحت کی۔
”اتنی اہمیت کیسے دے دی تم نے اس مذہب کو کہ مذاق کے طور پر بھی اسے قبول کرنے کا ذکر کرو۔” اس بار پیٹرک نے درشت لہجے میں کہا۔
”کوئی مذہب اختیار کر لو بد ھسٹ ہو جاؤ، ہندو ہو جاؤ، پارسی ہو جاؤ ہم قبول کر لیں گے مگر مسلمان ہونے کے بارے میں سوچنا بھی مت، میں یہودی ہوں اور میں کسی ایسی اولاد کو نہیں اپنا سکتا جو مسلمان ہو۔” پیٹرک کا ایسا کرخت اور درشت لہجہ اس نے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔
”نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ میں نے بس مذاق میں ایک بات کی تھی اور بس آپ بھول جائیں اس بات کو۔” اس نے بات کا موضوع بدل دیا تھا۔
مگر اس رات اسے یہ حیرانی ضرور ہوئی تھی کہ اس کے ماں باپ اسلام کے اتنے خلاف کیوں ہیں۔ دوسرے کسی بھی مذہب کو اختیار کرنے پر انہیں اعتراض نہیں مگر اسلام کے اختیار کرنے پر وہ قطع تعلق کرنے پر تیار ہیں حالانکہ اس کا خیال تھا کہ اس کے ماں باپ میں مذہبی تعصب نہیں ہے ”آخراسلام سے یہ لوگ خوفزدہ کیوں ہیں؟۔” وہ سوچتا رہا’ ”مجھے مطالعہ کرنا چاہیے اسلامک ہسٹری میں عیسائیوں اور یہودیوں کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں تو پھر اسلام کے بارے میں بھی مجھے کچھ بنیادی معلومات ضرور رکھنی چاہیے۔” اس نے اس رات طے کیا تھا اور یہی تجسس تھا جس نے اسے اسلام کا مطالعہ کرنے پر مجبور کیا تھا۔ چھ ماہ اسلام کی تاریخ اور قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنے کے بعد اس کا ذہن مذہب کے انتخاب کے بارے میں کچھ اور کش مکش کا شکار ہو گیا تھا۔ ”بہر حال یہ تو طے ہے کہ میں جب بھی اپنے لیے ایک مذہب کا انتخاب کروں گا تو پھر صرف عیسائیت یا یہودیت نہیں میں اسلام کے بارے میں بھی غور کروں گا۔” ان چھ ماہ کے بعد یہ اس کا فیصلہ تھا۔
کیتھی کے ساتھ دوستی کے اختتام پر ہونے والے جھگڑے میں اس کے کہے گئے الفاظ نے اسے ایک بار پھر اس مذہب کی طرف متوجہ کیا تھا۔
”میرے بجائے کسی جاہل، پردے میں چھپی ہوئی مسلم عورت سے شادی کرو جو ساری عمر تمہاری انگلی پکڑ کر چلتی رہے اور تمہارے علاوہ کسی دوسرے مرد کا منہ دیکھنے کی جرات نہ کرے۔”
وہ کیتھی کے کہے گئے جملے پر کئی دن مشتعل ہو کر سوچتا رہا کہ مسلم عورت واقعی کیتھی جیسی عورتوں سے بہتر ہوتی ہے، کم از کم وہ پاک باز تو ہوتی ہے، اس میں وفا داری اور حیا تو ہوتی ہے۔ وہ اپنی نمائش کروانے کا شوق نہیں رکھتی۔ جو مذہب اپنے پیرو کاروں میں یہ خوبیاں پیدا کرے وہ اس مذہب سے بہتر ہے جو اپنے پیرو کاروں میں یہ خصوصیات پیدا نہ کر سکے۔ کیتھی نے اسے مسلم عورت سے شادی کا طعنہ اس لیے دیا تھا کیونکہ مغرب میں مسلم عورت ایک پسماندہ ، ان پڑھ، مجبور، لاچار مخلوق کے طور پر پیش کی جاتی تھی اور ایسی مخلوق کسی بھی اچھے مرد کے قابل نہیں سمجھی جاتی۔ مگر ڈینیل کو یہ بات طنز لگنے کے بجائے ایک نئی راہ دکھانے لگی تھی۔ وہ راہ جو ا سے مشرقی عورتوں کی طرف متوجہ کر گئی۔
پھر وجیتا کے منہ سے کہے گئے الفاظ اسے ایک بار پھر بے چین کر گئے تھے۔
”بعض دفعہ تم مجھے ایک مسلم مرد کی طرح تنگ نظر اور کٹر لگتے ہو۔” اسے اس وقت اس تبصرے پر غصہ آیا تھا۔ اگر میں اپنی بیوی کا کسی دوسرے کے سامنے برہنہ ہونا پسند نہیں کرتا تو اس میں تنگ نظری اور کٹر ہونا کہاں سے آجاتا ہے۔ جو چیز قیمتی ہو اور اس کی قدر کی جائے تو اسے کوئی بھی گلی میں نہیں رکھتا … اگر مسلمان مرد بھی اپنی عورت کے بارے میں ایسے خیالات رکھتا ہے تو ٹھیک کرتا ہے۔ کیا ایسی باتوں کی وجہ سے مغرب نے مسلمانوں پر تنگ نظری، تعصب اور کٹرپن کے ٹھپے لگائے ہوئے ہیں۔” اس رات بھی وہ بہت دیر تک یہی سب کچھ سوچنے پر مجبور تھا۔
جاب ملنے کے بعد وہ پاکستان آ گیا تھا۔ مگر یہاں بھی جس سوسائٹی میں وہ موو کرتا تھا، زیادہ تر لڑکیاں ایسی ہی تھیں۔ وہ پارٹیز میں ایوننگ گاؤنز میں ملبوس لڑکیوں کو ہاتھ میں شراب کے گلاس لیے مردوں کے ساتھ بے تکلفی کے مظاہرے کرتے دیکھتا اور حیران ہوتا، کیا واقعی اب مسلم ممالک میں بھی ویسی عورتیں نہیں ملتیں یہی stuff ملتا ہے جو کسی بھی ترغیب کے سامنے نہیں آ سکتا چاہے وہ ترغیب دولت کی صورت میں ہو، شہرت کی صورت میں ہوا سٹیٹس کی صورت میں ہو یا پھر کسی مرد کی صورت میں ہو۔ وہ مایوسی سے سوچتا اور شادی سے کچھ اور متنفر ہو جاتا۔
”اگر ایسی ہی کسی عورت کو زندگی کا ساتھی بنانا تھا تو اپنے معاشرے کی عورت کیوں نہیں پھر یہاں شادی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔” وہ کچھ بے دلی سے سوچتا۔ آہستہ آہستہ وہ اپنے کام میں اتنا مصروف ہو گیا تھا کہ اس نے پارٹیزمیں لڑکیوں کو اس نظر سے دیکھنا ہی ختم کر دیا۔ وہ ہر ایک کے ساتھ رسمی علیک سلیک کرتا اور رابطہ ختم کر دیتا۔ اس کی یہ روٹین لاہور آنے کے بعد بھی ایسے ہی رہی تھی۔
*…*…*