وجیتا اسکالر شپ پر وہاں آئی تھی اور یونیورسٹی کے ایک فنکشن میں ہی ڈینیل سے اس کی ملاقات ہوئی۔ دونوں کو ایک دوسرے میں دلچسپی محسوس ہوئی۔ ڈینیل اب کسی مشرقی لڑکی کے ساتھ ہی شادی کرنا چاہتا تھا اور وجیتا میں اسے وہ خوبیاں نظر آئی تھیں جو وہ اپنی بیوی میں دیکھنا چاہتا تھا۔ چند ہی ملاقاتوں کے بعد وہ وجیتا کو سبل سے ملوانے لے آیا تھا اور وجیتا سبل کو بھی پسند آئی۔ وہ جان چکی تھی کہ ڈینیل کس مقصد کے لیے وجیتا کو اس سے ملوانے لایا تھا اور اسے اس کے انتخاب پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔
وجیتا اب اکثر اس کے گھر آنے لگی تھی۔ ڈینیل نے اسے بھی باقاعدہ طور پر پرپوز نہیں کیا تھا لیکن وجیتا اپنے لیے اس کی پسندیدگی سے آگاہ تھی۔ جن دنوں وہ اسے پرپوز کرنے کا سوچ رہا تھا ان ہی دنوں پھر اسے ایک پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
یونیورسٹی میں سالانہ کھیلوں کا انعقاد کیا جا رہا تھا اور وجیتا نے سوئمنگ کے مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ وہ پریکٹس کے لیے یونیورسٹی کے سوئمنگ پول پر جایا کرتی تھی اور یہ بات شروع میں ڈینیل کے علم میں نہیں آئی۔ مقابلے سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے وجیتا نے بڑے فخریہ انداز میں اسے اس بات سے آگاہ کیا تھا اور ڈینیل ایک بار پھرشاکڈ رہ گیا تھا۔
”تم یہ کیسے کر سکتی ہو؟”
”کیا مطلب! کیوں نہیں کر سکتی ؟” وجیتا اس بات پر حیران ہوئی۔
”اتنے لوگوں کے سامنے سوئمنگ کا سٹیوم میں۔ نہیں وجیتا ! مجھے یہ پسند نہیں ہے۔” وہ کچھ برہم ہو گیا تھا کیونکہ اسے وجیتا سے ایسی کسی حرکت کی توقع نہیں تھی۔
”اس میں ناپسند کرنے والی کیا بات ہے۔یہ ایک کھیل ہے اور میں کھیل میں حصہ لے رہی ہوں اور پھر میں اس میں حصہ لینے والی واحد لڑکی نہیں ہوں۔”
”میں جانتا ہوں کہ یہ ایک کھیل ہے لیکن پھر بھی میں یہ کبھی نہیں چاہوں گا کہ تم اتنے لوگوں کے سامنے اس طرح جاؤ۔”
”ڈینیل تمہارے ساتھ کیا پرابلم ہے ؟” وہ کچھ حیرانی سے ہنسی۔ ”آخر اس سے کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟”
”وجیتا ! میں پسند نہیں کرتا کہ جس لڑکی سے میں شادی کا خواہشمند ہوں وہ اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہو۔” وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
وہ چند لمحے خاموش رہی۔ ”تم بعض باتوں میں بہت تنگ نظر ہو۔”
”ہاں ٹھیک ہے۔ تم ایسا کہہ سکتی ہو مگر مجھے کو ئی شرمندگی نہیں ہے۔ میری اپنی ویلیوز ہیں اور میں انہیں چھوڑ نہیں سکتا۔”
”تم اپنی ویلیوزمت چھوڑو مگر انہیں دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش مت کرو۔ بیسویں صدی میں تم عورت کے بارے میں اتنے قدامت پر ستانہ نظریات رکھتے ہو کہ مجھے خوف آنے لگتا ہے۔ بعض دفعہ تو تم مجھے ایک مسلم مرد کی طرح کٹر اور تنگ نظر لگتے ہو۔”
ڈینیل نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کی برہمی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔”تمہیں مجھ پر تبصرے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تم سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے تمہارا سوئمنگ کے کسی مقابلے میں حصہ لینا پسند نہیں ہے اس لیے تم حصہ مت لو۔”
”اور اگر میں ایسا نہ کروں تو ؟”
”تب پھر میں دوبارہ تم سے کبھی ملنا نہیں چاہوں گا۔”
وجیتا یکدم اشتعال میں آگئی۔ ”تمہیں پتا ہے ڈینیل ! تمہارا مسئلہ کیا ہے ؟ تمہارا مسئلہ یہ ہے کہ تم ابنا رمل ہو۔ تمہاری سوچ بیسویں صدی میں بھی بارہویں صدی کے مرد کی طرح ہے۔ مجھے حیرانی ہو رہی ہے کہ تم امریکہ میں کیا کر رہے ہو۔ تمہیں تو ان ممالک میں سے کسی ملک کے گھٹن زدہ ماحول میں ہونا چاہئے تھا جہاں تم نے اپنا بچپن گزارا۔ تمہارے ذہن پراپنی ماں اور ان ممالک کے کلچر کی اتنی گہری چھاپ ہے کہ تم ساری عمر اپنی بیوی کے لیے عذاب بنے رہو گے۔ تمہیں جس عورت کی تلاش ہے’ وہ تمہیں نہیں مل سکتی۔ آج کی عورت اپنی زندگی کے ہر پہلو میں اتنی مداخلت برداشت نہیں کر سکتی جتنی تم چاہتے ہو۔ اپنی ویلیوز کے اس پٹارے کے ساتھ تم اپنے لیے بھی مسائل کھڑے کر رہے ہو اوردوسروں کے لیے بھی۔ بہتر ہے کہ تم اپنی سوکالڈ ویلیوز میں تبدیلی لاؤ یا پھر امریکہ میں ایک بیوی کی تلاش چھوڑ دو۔ ہم وہ عورتیں نہیں ہیں جن کی گردنوں پر پیر رکھ کرتم انہیں اپنی مرضی سے زندگی گزارنے سے روک دو۔
ہر عورت تمہاری ماں کی طرح بے وقوف نہیں ہوتی جو اپنی اولاد کو ویلیوز کے انجکشن دے دے کر اسے زندگی میں کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑتی۔ جو شخص ایک عورت کو اتنی آزادی نہیں دے سکتا کہ وہ اپنی مرضی کا لباس پہن سکے وہ اسے گھر کے اندر رکھ کر کون سی زندگی دے گا۔ مجبوری اور بے بسی کی۔ تمہیں مجھ سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ تم مجھ سے دوبارہ نہیں ملو گے۔ میں خود دوبارہ تم سے ملنا نہیں چاہتی۔”
وہ اسے وہیں چھوڑ کر غصے کی حالت میں اٹھ کر چلی گئی۔
*…*…*
”ڈینیل ! تم بہت جذباتی ہو جاتے ہو۔” اس رات ڈینیل نے گھر واپس آکر سبل کو سب کچھ بتا دیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار سبل نے لڑکی کی غلطیاں گنوانے کے بجائے اس کے رویے پر اعتراض کیا تھا۔ وہ حیرانی سے ماں کا منہ دیکھتا رہ گیا۔
”اس کا سوئمنگ کے مقابلے میں حصہ لینا کوئی ایسی معیوب بات تو نہیں تھی۔”
”ممی ! یہ آپ کہہ رہی ہیں ؟”
”ہاں ! یہ میں کہہ رہی ہوں، وہ کم ازکم دوسری لڑکیوں سے بہتر ہے۔ اس کے بوائے فرینڈز نہیں ہیں۔ کچھ مشرقی روایات کا احترام بھی کرتی ہے مگر تم اگرچاہو کہ یہاں اس معاشرے میں تمہیں کو ئی ایسی لڑکی مل جائے جو بالکل ہی خامیوں سے پاک ہو تو یہ ممکن نہیں ہے۔ تمہیں تھوڑا بہت سمجھوتا تو کرنا ہی پڑے گا۔” سبل نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔
”میں سمجھوتا نہیں کر سکتا۔ کم از کم اس معاملے میں نہیں۔ میرا دماغ جس چیز کو قبول نہیں کرتا میں اس چیز کے ساتھ سمجھوتا کیسے کر سکتا ہوں؟”
”تم اس معاملے میں بہت زیادہ انتہا پسند ہوگئے ہو۔”
”ممی ! آپ جانتی ہیں میں غلط نہیں ہوں۔ جس طرح آپ نے میری پرورش کی ہے’ جن ویلیوز کے ساتھ مجھے پروان چڑھایا ہے وہ اب اگر میں چاہوں بھی تو اپنے ذہن سے جھٹک نہیں سکتا۔”
”جس طرح کی لڑکی تم اس مغربی معاشرے میں رہ کر بیوی کے طور پر پانا چاہتے ہو وہ تمہیں نہیں مل سکتی۔” سبل نے صاف گوئی سے کہا۔
”تو ٹھیک ہے کسی ایسی لڑکی کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے جس کا عمل میری ویلیوز سے میچ نہ کرتا ہو’ میں تنہا زندگی گزار ناپسند کروں گا۔” سبل حیرانی سے اس کا منہ دیکھتی رہ گئی۔
”ڈینیل ! تمہارا دماغ ٹھیک ہے ؟”
”ہاں! بالکل ٹھیک ہے۔ میں اب یہ میچ میکنگ کرتے کرتے تنگ آگیا ہوں۔ لڑکیاں ٹھیک کہتی ہیں کہ میں بہت قدامت پرست اور متعصب ہوں مگر میں ان دونوں چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں ساری عمر ایسا ہی رہوں گا۔ میں کسی ایسی عورت کو اپنی زندگی میں لانے کے لیے تیار نہیں جس کا جسم ایک پبلک پراپرٹی بن چکا ہو جس کے بوائے فرینڈز ہوں۔ جو سوئمنگ کاسٹیوم پہن کر لوگوں سے داد وصول کرے۔ جومیرے سامنے کسی دوسرے مرد کے ساتھ بے تکلفی کے مظاہرے کرے۔ اب اس کے لیے کوئی مجھے قدامت پرست کہے یا متعصب یا تنگ نظر’ مجھے پروا نہیں ہے ایسی عورت کو گھر میں رکھ کر کڑھنے سے بہتر ہے کہ بندہ آزاد رہے۔”
”اتنی انتہا پسندی انسان کو کہیں نہیں لے جاتی۔”
”میں انتہا پسند نہیں ہوں ممی! کیادنیا میں ایسی عورتیں نہیں پائی جاتیں۔ آپ بھی تو ہیں مجھے آپ جیسی عورت کی تلاش ہے۔ آپ بھی تو مغربی ہیں’ ماڈرن ہیں’ پڑھی لکھی ہیں’ مگر پھر بھی آپ کے پاس وہ ویلیوز ہیں جو ایک عورت کو عورت بناتی ہیں’ پھر ہم لوگ مسلم ممالک میں رہے ہیں۔ وہاں بھی تو عورتیں ہیں’ ساری عورتیں نہ سہی مگر اکثریت تو انہی ویلیوز کی مالک ہے جن کی میں بات کر رہا ہوں۔ پھر آپ کو یہ کیوں لگ رہا ہے کہ کسی ایسی چیز کا مطالبہ کر رہا ہوں جو دنیا میں ہے ہی نہیں۔” وہ پہلی بار ماں سے بحث کر رہا تھا۔
”ڈینیل! میری بات اور تھی۔ میرے ماں باپ کیتھولک تھے آزاد خیال نہیں تھے خاص ماحول میں میری پرورش ہوئی۔ اس لیے مجھے کبھی بھی عورت کی اتنی آزادی اور بے باکی پسند نہیں آئی۔ خوش قسمتی سے تمہارے والد سے شادی ہوئی اور وہ بھی ان ہی خیالات کے مالک تھے اس لیے میرے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوا لیکن اگر پیٹرک بہت زیادہ آزاد خیال ہوتے تو پھر مجھے بھی ویسا ہی ہونا پڑتا۔ پھر زندگی زیادہ تر وہاں گزری جہاں بہت زیادہ بے باکی لوگوں کی نظروں میں خامی ہوتی ہے خوبی نہیں۔ اس لیے تم میری مثال نہ دو۔ جہاں تک مسلم عورتوں کا تعلق ہے تو وہ اور ماحول سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان پر بہت سی پابندیاں ہوتی ہیں۔ کچھ معاشرتی’ کچھ خاندانی اور کچھ مذہبی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ نہیں کر پاتیں۔ یا یہ سمجھ لو کہ ان کی روایات انہیں اجازت نہیں دیتیں۔ ہمارے اور ان کے مذہب اور کلچر میں بہت فرق ہوتا ہے اس لیے تم ان کی مثال بھی مت دو۔ تم اس معاشرے کی بات کرو جہاں تم رہ رہے ہو’ جہاں کی عورت سے تمہیں شادی کرنی ہے۔” سبل نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”مجھے یہ معاشرہ پسند نہیں ہے اور یہ بات آپ اچھی طرح جانتی ہیں اور نہ ہی مجھے اس معاشرے کی کسی نمائندہ عورت سے شادی کرنی ہے۔”
”پھر کیا کرو گے تم ؟”
”کچھ بھی نہیں۔ جس طرح زندگی گزار رہا ہوں’ گزارتا رہوں گا۔”
”شادی کے بغیر؟”
”ہاں شادی کے بغیر۔”
”بہت مشکل ہو گا تمہارے لیے۔”
”شادی کرکے میرے لیے زیادہ مشکل ہو جائے گی۔”
سبل نے پہلی بار اسے اس طرح ضد کرتے دیکھا تھا۔
اور وہ اپنی ضد پر قائم رہا تھا۔ سبل اور پیٹرک کی کوششوں کے باوجود اس نے وجیتا سے تعلقات بحال کیے تھے نہ ہی کسی اور لڑکی سے روابط بڑھانے کی کوشش کی۔ ایم بی اے کرنے کے بعد اسے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب مل گئی تھی اور وہ لندن چلا گیا۔ ایک سال لندن رہنے کے بعد اس کی پوسٹنگ پاکستان میں ہوئی تھی اور وہ بخوشی یہاں آ گیا۔ نو عمری کے زمانے میں وہ ماں باپ کے ساتھ ہندوستان میں رہ چکا تھا اور اس زمانے میں وہ پاکستان کے بارے میں بھی تھوڑی بہت واقفیت رکھنے لگا تھا۔ پھر امریکہ میں دورانِ تعلیم بھی اس کے کچھ کلاس فیلوز پاکستان سے تعلق رکھتے تھے اس لیے اسے پاکستان کے بارے میں کافی معلومات تھیں اور وہ ذہنی طور پر کسی کشمکش کا شکار بھی نہیں تھا۔
*…*…*
پاکستان آکر اس کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا۔ کچھ عرصہ اسے نئی جگہ آکر ایڈجسٹمنٹ کے مسائل پیش آئے’ مگر ایک سال کے اندر اندر وہ مکمل طور پرایڈجسٹ ہو گیا تھا۔ نہ صرف وہ وہاں ایڈجسٹ ہو گیا بلکہ وہاں کی زندگی کو انجوائے بھی کرنے لگا تھا۔
دو سال اس نے کمپنی کے کراچی آفس میں کام کیا۔ پھر وہاں سے وہ لاہور آگیا۔ ایک بار پھر وہ نئے سرے سے اردو زبان پردسترس حاصل کرنے لگا تھا۔ یہاں آکر اس کا حلقہ احباب محدود ہی رہا تھا۔ لاہور آفس میں اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک جرمن لڑکی سے اس کی تھوڑی بہت دوستی تھی اور اکثر ویک اینڈپر وہ اس کے ساتھ سیرو تفریح کے لیے چلا جاتا۔ چھیٹوں میں وہ واپس امریکہ چلا جاتا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ وقت گزارتا۔
پیٹرک کو معدے کا کینسر ہو گیا تھا اور ایک سال تک وہ شدید بیمار رہا۔ اس بیماری کے دوران ہی اس نے اپنی جاب سے ریٹائر منٹ لے لی۔ کچھ عرصے تک سبل اور وہ امریکہ میں ہی رہے لیکن پھر پیٹرک واپس جرمنی چلا گیا کیونکہ وہ وہاں اپنی فیملی کے پاس رہنا چاہتا تھا۔ ان دونوں کے بے حد ا صرار کے باوجود ڈینیل شادی سے ہمیشہ کتراتا ہی رہا تھا۔ وہ ہر بار انہیں کوئی نہ کوئی عذر کرکے ٹالتا رہا اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا۔ یہاں تک کہ اسے پاکستان میں رہتے ہوئے آٹھ سال ہو گئے۔
زندگی کی ایک سیٹ روٹین تھی۔ وہ شام تک آفس میں ہوتا۔ ا س کے بعد کہیں نہ کہیں گھومنے نکل جاتا۔ کبھی کسی پارٹی یا ڈنر پر چلا جاتا اور کبھی فلم دیکھنے کے لیے۔ رات دس گیارہ بجے وہ گھر آتا۔ خبریں سنتا’ کوئی کتاب پڑھتا اور سو جاتا۔ اس کے لیے زندگی جیسے بالکل مکمل تھی جس میں نہ کسی چیز کی کمی تھی اور نہ کسی چیز کی ضرورت مگر بعض دفعہ زندگی میں کوئی تبدیلی آنی ہوتی ہے، کوئی ایسی تبدیلی جو انسان کی پوری زندگی کارخ بدل دیتی ہے اورایک ایسی تبدیلی اس کی زندگی میں بھی آنے والی تھی۔
وہ ہر روز لنچ آفس میں کرنے کے بجائے ایک قریبی فاسٹ فوڈ آوٹ لیٹ پر چلا جاتا تھا۔ اس دن بھی وہ اپنی روٹین کے مطابق اسی فاسٹ فوڈ آوٹ لیٹ پر گیا تھا۔ کاؤنٹر پر جا کر اس نے اپنا مطلوبہ برگر مانگا تھا اور پھر کاؤنٹر پر کہنیاں ٹکا کر سرسری نظروں سے آرڈرز بھگتاتی ہوئی لڑکیوں اور لڑکوں کی سرگرمیاں دیکھتا رہا جو کاؤنٹر کے دوسری طرف بہت مصروف نظر آرہے تھے۔ اور تب ہی اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی تھی۔ وہ لڑکی خوبصورت تھی۔ وہ مسکراتے ہوئے کاؤنٹر پر کھڑے ایک دوسرے جوڑے کا آرڈر نوٹ کر رہی تھی اور پھر وہ کاؤنٹر کے پیچھے موجود دروازے میںغائب ہو گئی تھی۔ ڈینیل کی نظریں اس دروازے پر جمی رہیں۔ وہ لاشعوری طور پر جیسے اسی لڑکی کا منتظر تھا۔ وہ چند منٹوں کے بعد دوبارہ نمودار ہوئی۔ وہ ایک بار پھر اس کے چہرے کو دیکھنے لگا تھا۔ وہ کاؤنٹر کے پار کھڑے کسی دوسرے آدمی سے کچھ کہہ رہی تھی۔ ڈینیل کوشش کے باوجود اس کے چہرے سے اپنی نظریں نہیں ہٹا پایا۔ ا س کا دل بے اختیار چاہا کہ اس کا آرڈر وہ سر و کرے۔ شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی۔ کیونکہ وہ لڑکی دوبارہ غائب ہو گئی تھی اور اس باروہ جب واپس آئی تو سیدھا ڈینیل کی طرف ہی آئی تھی۔ ڈینیل کا دل بے اختیار دھڑکا تھا۔ ہاتھوں میں پکڑی ہوئی ٹرے لاکر اس نے ڈینیل کے سامنے کاؤنٹر پر رکھ دی اور مسکرائی، ڈینیل نے کچھ کہے بغیرٹرے اٹھالی۔
کاؤنٹر سے کچھ فاصلے پر پڑی ہوئی میز پر بیٹھ کر اس نے ایک بار پھر نظریں اس لڑکی پر جمادی تھیں۔ بہت عرصے کے بعد اس دن اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس لڑکی کی آنکھیں پینٹ کرے۔ لمبی پلکوں والی سیاہ’ سادہ ‘شفاف مگر اداس آنکھیں۔ بھیگی ہوئی پلکیں اور بھاری پپوٹے اور اس پر وہ مسکراہٹ جس کے ساتھ وہ آرڈر لے اور سرو کر رہی تھی۔ اس کی ماں بہت اچھی پینٹنگ کرتی تھی اور ڈینیل میں بھی فطری طور پر یہ صلاحیت تھی کہ وہ چیزوں کو بہت اچھی طرح اسکیچ کر لیا کرتا تھا۔ اس دن بھی وہ فوری طور پر اس لڑکی کی طرف متوجہ کرنے والی چیز اس کی آنکھیں ہی تھیں اورا س کا دل چاہا تھا کہ وہ وہیں بیٹھ کر ان آنکھوں کو پینٹ کرے۔ ا س نے اپنی خواہش پوری کی تھی۔ پینٹنگ توممکن نہیں تھی مگر تیز رفتاری سے لنچ ختم کرتے ہوئے اس نے اپنے والٹ سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکالا اور اس وزیٹنگ کارڈ کے پیچھے قلم سے اس نے اس لڑکی کی آنکھوں کی اسکیچنگ کی تھی۔
لنچ کر کے وہ وہاں سے اٹھ گیا تھا مگر اس دن وہاں سے واپس آنے کے بعد بھی اس کی آنکھوں میں اس کا چہرہ گردش کرتا رہا تھا۔
”اتنی اداسی کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔ مالی مجبوری؟” وہ سوچتا رہا۔ رات کو بھی وہ دیر تک اس وزیٹنگ کارڈ کو دیکھتا رہا۔ اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اسکیچ کو اچھی طرح سے نہیں بنا پایا۔