اسٹڈی کا دروازہ بند ہو گیا تھا۔ بند دروازے نے اس کے اندر بہت سے دروازے کھول دیے تھے جن سے نظر آنے والے راستے اور منظر اس کے لیے ناآشنا نہیں تھے۔ اس نے آہستہ آہستہ اپنا سر اٹھا لیا تھا۔ دھندلی آنکھوں سے دیکھی جانے والی شے ہمیشہ دھندلی نظر آتی ہے۔ شیلف سے ٹیک لگائے لگائے وہ نیچے کارپٹ پر بیٹھ گئی۔ اپنے ہاتھوں کی ہتھیلی کو اپنے سامنے پھیلا کر اس نے اپنی تقدیر کو بوجھنے کی کوشش کی، کچھ تلاش کرنے میں ناکام رہنے کے بعد وہ شیلف سے سر ٹکا کر بیٹھ گئی۔
”ہر رات زندگی میں اندھیرا نہیں لاتی۔ بعض راتیں چاندنی راتیں ہوتی ہیں ان راتوں میں روشنی ہی نہیں ہوتی، سکون بھی ہوتا ہے۔”
بہت سال پہلے اپنے باپ کی کہی ہوئی ایک بات اسے یاد آئی تھی۔
”ہر آسمانی مذہب انسان کو آزماتا ضرور ہے مگر اسلام تو انسان کو اور ہی طرح سے آزماتا ہے یہ ایسی آزمائشیں سامنے لے آتا ہے جو بندے کو کندن بنا دیتی ہیں یا پھر راکھ کا ڈھیر…” وہ کچھ دیر پہلے اس کے کہے گئے لفظوں کو یاد کر رہی تھی۔ ”اور میری زندگی میں بھی میرا دین چھ سال پہلے ایسی ہی ایک آزمائش لے آیا… اور اس آزمائش نے مجھے کیا بنایا… کندن؟ یا راکھ کا ڈھیر…؟”
اس کا دل بھر آیا…
مجھے ایمان اور محبت میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا تھا، میں نے ایمان کا انتخاب کیا اور اس کے بعد میں آج تک پچھتاوے کا شکار رہی… میں تو پیدائشی مسلمان تھی۔ میرا عقیدہ اور میرا ایمان کسی کمزوری کا شکار نہیں تھا پھر بھی صراطِ مستقیم پر اٹھنے والے پہلے قدم کو میں انگاروں پر چلنے کے مترادف سمجھتی رہی چھ سال پہلے ایمان اور محبت میں سے کیے جانے والے جس انتخاب کے لیے میں کئی ہفتے واہموں اور سوچوں کے طوفان سے گزرتی رہی، وہی انتخاب ایمان علی نامی اس شخص نے چند منٹوں کے اندر میرے سامنے کھڑے ہو کر کسی رنج، پچھتاوے یا کشمکش کے بغیر کر لیا اور یہ وہ شخص ہے جو میرے دین میں صرف دو سال پہلے آیا ہے۔ میں نے بھی ایمان کے لیے محبت کو چھوڑا تھا مگر جس بے رحمی کے ساتھ یہ شخص چھوڑ کر گیا ہے۔ اس طرح نہیں… کیا اس کا ایمان مجھ سے زیادہ مضبوط ہے یا پھر… ایمان صرف اسی کے پاس ہے؟ اور… اور میں… میں کون ہوں؟ کیا ہوں…؟ محبت کے سراب میں گرفتار ایک بے وقوف لڑکی۔
”تمہیں پتا ہے امید! اس شخص نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟ اس نے تمہارے اندر بے یقینی کا ایک بیج بویا اور تم نے اس بیج کو سینچ کر درخت بنا دیا۔ اب بے یقینی اور بداعتمادی کا یہ درخت اتنا تناور ہو چکا ہے کہ تم چاہو بھی تو اسے کاٹ نہیں سکتیں۔”
”ہاں ایسا ہی تھا ایمان علی!” اس نے اعتراف کیا۔ ”میں اس درخت کو کاٹ نہیں سکتی مگر میں اسے جڑ سے اکھاڑ سکتی ہوں۔”
”مجھے محبت کے وجود پر یقین نہیں تھا شاید… شاید اس لیے مجھے محبت ہو گئی اور اس محبت نے مجھے یقین اور ایمان دیا۔” اس کے کانوں میں ایمان کی آواز گونج رہی تھی۔ ”تم نے ہمیشہ محبت کے وجود پر یقین کیا محبت تمہیں بھی ہوئی مگر تمہاری محبت نے تمہیں یہ دونوں چیزیں نہیں دیں۔”
”میری محبت نے مجھ سے ایمان اور یقین چھین لیا۔”
”ہاں تم نے ٹھیک کہا، میری محبت مجھے ایمان سے دور لے گئی، تمہاری محبت تمہیں ایمان کے پاس لے آئی فرق صرف اس میں نہیں ہوتا جس سے محبت کرتے ہیں۔ فرق اس میں بھی ہوتا ہے جو محبت کرتا ہے، میں نے محبت کر کے صرف کھویا، تم نے محبت کر کے صرف پایا… میں کیا کوئی بھی تمہیں اور تمہارے ایمان کو کسی کسوٹی پر پرکھنے کی جرأت نہیں کر سکتا اور میری خوش قسمتی یہ ہے کہ ایسے شخص کو خدا نے میرا مقدر بنایا اور میں… میں آنکھیں بند کیے دلدل میں اس ہاتھ کو تلاش کرتی رہی جو مجھے بھی دلدل کے اندر کھینچ لینا چاہتا تھا۔
اور آج اتنے سالوں کے بعد پہلی بار میں تمہاری قید سے آزاد ہو گئی ہوں جہاں زیب پہلی بار مجھے تمہارے چہرے پر لگی ہوئی وہ سیاہی نظر آنے لگی ہے جسے تم میرے چہرے پر محبت کے نام پر مل دینا چاہتے تھے۔
پہلی بار مجھے احساس ہو رہا ہے کہ تب تمہاری طرف بڑھایا جانے والا قدم مجھے کہاں لے جا سکتا تھا۔
پہلی بار مجھے خوف محسوس ہو رہا ہے کہ محبت کے اس بھنور سے اپنے پیروں کو آزاد کرنے پر خوشی کے بجائے ہونے والا پچھتاوا آج تک کس طرح میرے پورے وجود کو بھنور بنائے ہوئے تھا۔
اور آج تم میرے سامنے ایسی غلاظت بن گئے ہو جس میں پاؤں نہ رکھنے پر ہونے والی شرمندگی میرے لیے ہمیشہ تکلیف دہ رہے گی، مجھے خدا نے ایمان علی کے دل کے تخت پر بٹھایا تمہارے پیروں کی دھول بنا کر روندا نہیں۔
میں نے چھ سال پہلے تمہیں چھوڑ کر کوئی غلطی نہیں کی، آج پہلی بار میں خدا کا شکر ادا کر رہی ہوں کہ چھ سال پہلے میں تمہارے ساتھ نہیں گئی۔
میں خوش ہوں جہاں زیب میں تم جیسی غلاظت سے بچ گئی، میرے پاس وہ ہے جو کسی دوسرے کے پاس نہیں… میرے پاس ایمان کی محبت ہے۔”
اس کی آنکھوں کی دھند چھٹنے لگی تھی۔
اگر وقت ایک بار پھر پیچھے چلا جائے تو اس بار ایمان اور محبت میں سے انتخاب کرتے ہوئے میں ایمان علی جیسی بے رحمی کے ساتھ فیصلہ کروں گی۔ اتنی ہی استقامت… اتنی ہی ثابت قدمی اور اتنی ہی جلدی اور میں چاہتی ہوں جہاں زیب! زندگی میں ایک بار تم دوبارہ میرے سامنے آؤ۔ تب میں تم پر تھوک دوں گی اور کہوں گی کہ میرے لیے میرا اللہ کافی ہے۔ وہ جو بدترین چیزوں کے بدلے ہمیں بہترین چیزیں عطا کرتا ہے… اور تب… تب تم سوچنا۔
کیا مذہب کبھی آؤٹ ڈیٹڈ ہو سکتا ہے؟
کیا کوئی چیز ایمان کی جگہ لے سکتی ہے؟
کیا کوئی اپنی خواہشات کو شریعت پر ترجیح دے سکتا ہے کیا زندگی صرف نفس کی اطاعت کے بل پر گزاری جا سکتی ہے؟
کیا کبھی کوئی تاریکی کو روشنی اور روشنی کو تاریکی کہہ سکتا ہے؟
اور پھر اگر ہر سوال کا جواب نفی میں آئے تو تم پاتال میں گرے ہوئے اپنے وجود کو وہیں دفن کر دینا تاکہ یہ دوبارہ کسی کے سامنے ترغیب بن کر آئے نہ کسی کو پاتال میں کھینچنے کی کوشش کرے۔”
وہ آہستہ آہستہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اپنے دونوں ہاتھوں سے اس نے اپنے گالوں اور آنکھوں کو رگڑا۔ اسٹڈی کا دروازہ کھول کر وہ باہر آ گئی۔ پورے گھر میں تاریکی تھی۔ اسٹڈی کے علاوہ صرف ایک جگہ روشنی تھی اور وہ جگہ کچن تھی وہ جان گئی تھی، وہ کہاں موجود تھا۔ کچن میں جانے کے بجائے وہ بیڈ روم میں چلی گئی۔ ڈریسنگ میں جا کر اس نے فرسٹ ایڈ کا سامان نکالا اور دھیمے قدموں کے ساتھ وہ کچن کی طرف آئی اور کچن کے دروازے میں رک گئی۔
ڈائننگ ٹیبل کے اوپر لٹکنے والے لیمپ کی روشنی میں ڈائننگ ٹیبل کی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ایمان کے علاوہ ہر چیز دھندلی نظر آ رہی تھی اس کا وجود اس روشنی میں بے حس و حرکت نظر آ رہا تھا، اور اس کے چہرے پر پڑنے والی روشنی چہرے پر موجود ہر تاثر کو واضح کر رہی تھی۔
تھکن… افسردگی… بے چینی… اضطراب… اور… امید… وہاں کیا تھا؟ وہاں کیا نہیں تھا؟
اس نے ”ایمان” کو مجسم حالت میں دیکھا تھا۔ اسے رشک آیا تھا۔ وہ خوش قسمت تھا۔ اسے حسد ہوا وہ ”منتخب” لوگوں میں سے تھا اسے فخر ہوا، یہ خوش قسمت منتخب شخص اس کے مقدر میں تھا۔
وہ بے اختیار آگے بڑھ آئی۔ وہ آنکھیں بند کیے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ ایمان علی کو اپنے چہرے پر ہاتھ کے لمس کا احساس ہوا، چند لمحوں کے لیے اس کا جسم تن گیا پھر جیسے سکون اور سرشاری کی ایک لہر اس کے وجود میں دوڑ گئی۔ اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ وہ بڑی نرمی اور ملائمت سے اس کا زخم صاف کر رہی تھی۔ اس کی کنپٹی سے نیچے بہنے والے خون کو روئی کے ساتھ گردن تک صاف کر رہی تھی۔ اب وہ زخم پر موجود بال کاٹ رہی تھی۔
ایمان ایک دم ہی جیسے بہت پرُسکون ہو گیا تھا۔ سر میں ہونے والی تکلیف ختم ہو گئی تھی۔ ہر تکلیف ختم ہو گئی تھی۔ اس کے ہاتھوں کے لمس میں جادو تھا۔ وہ اس کی بینڈیج کر چکی تھی مگر اب بھی اسی طرح اس کے سر پر ہاتھ رکھے پاس کھڑی تھی۔
چند لمحے اور گزرے پھر اس نے اپنے گال پر پانی کے چند قطرے گرتے محسوس کیے۔ اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ وہ جانتا تھا یہ پانی نہیں تھا۔ آنسو تھے… اپنے آنسو کسی دوسرے کے گال پر بہنے لگیں تو کیا ہوتا ہے۔ وہ سوچ رہا تھا۔
”کیا یہ پھر…؟ مگر کیوں؟ اور اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟” پھر اسے یاد آیا ڈاکٹر خورشید نے کہا تھا۔
”ہمارا ہر عمل اللہ کے لیے ہونا چاہیے۔ ہماری دوستی، ہماری دشمنی… ہماری محبت… ہماری نفرت… اپنے لیے کچھ نہیں ہونا چاہیے۔”
”اور میں اگر اللہ کے لیے اس کی ساری غلطیاں معاف کر دوں اسے ایک بار پھر یقین اور ایمان کی زمین پر پیر جمانے کا موقع دوں تو…؟ اگر اللہ نے زندگی میں اسے اس کے ایک عمل کے لیے اسے اتنی چیزوں سے نواز دیا ہے تو کیا میں ایک بار پھر اسے اپنی محبت کے طور…” اس نے سوچا تھا۔
اس نے اپنے دل کو ٹٹولا، اسے حیرت نہیں ہوئی، اس کے دل میں اب بھی وہی عورت تھی اور وہیں تھی جہاں پہلے دن کھڑی ہوئی تھی۔ وہ مسکرایا۔
”ہاں، یہ معافی ہم دونوں کی آزمائش ختم کر سکتی ہے۔ یہ چند لمحوں کا ایثار اور اعلیٰ ظرفی بہت سے رشتوں کو مضبوط بنا سکتی ہے اور پھر اب… اب جب ہم زندگی میں ایک نئے رشتے سے آشنا ہونے والے ہیں یہ ضروری ہے کہ میں اس پر مہربانی کروں، ایک پارسا عورت اتنے کی مستحق ہوتی ہے کہ اس کی زیادہ غلطیوں کو معاف کر دیا جائے۔
”کیا امید کی آنکھوں میں آنسو آ سکتے ہیں؟” آنکھیں اسی طرح بند کیے اس نے مدھم آواز میں پوچھا۔
”ایمان کے لیے آ سکتے ہیں۔” اس نے بھی اسی طرح سرگوشی میں کہا۔
”اور ”محبت” کے لیے؟” امید نے اسے کہتے سنا۔
”اب نہیں…” وہ کیا پوچھ رہا تھا، وہ جانتی تھی۔ وہ خاموش رہا۔ اس کے چہرے پر نظر جمائے وہ ہر نقش کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ ڈائننگ ٹیبل کے سامنے کھلی کھڑکی سے تیز ہوا کا ایک جھونکا اندر آیا۔ ڈائننگ ٹیبل کے اوپر لٹکنے والا آرائشی لیمپ فضا میں لہرانے لگا۔
وہ اس کے چہرے پر لہراتی تیز اور مدھم ہوتی ہوئی روشنی کو دیکھنے لگی۔ لیمپ آہستہ آہستہ جھول رہا تھا۔ خاموشی اور روشنی عجیب سے رقص میں مگن تھیں۔ وہ اس کے بالوں میں سے آہستہ آہستہ ہاتھ اس کے ماتھے پر لے آئی پھر ہاتھ کی ہتھیلی سے اس نے ایمان کی آنکھیں ڈھک دیں، ایمان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری یوں جیسے وہ اس کے ہاتھ کی حرکت سے محظوظ ہوا ہو، وہ اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے۔ چہرہ دیکھتی رہی یوں جیسے اس کی آنکھوں کو روشنی کے لہراتے سایوں سے بچانا چاہتی ہو۔ جیسے سکون دینا چاہتی ہو، وہ گہرے سانس لیتا ہوا بے حد پرُسکون نظر آ رہا تھا۔
تیز ہوا کے کچھ اور جھونکے اندر آئے، اس نے ہوا میں گرد محسوس کر لی تھی۔ آندھی آ رہی تھی۔ اس بار اس نے ہر کھڑکی، ہر دروازہ بند کرنا تھا اس بار وہ کسی بھی چیز کو آلودہ ہونے نہیں دینا چاہتی تھی۔ اپنے اردگرد موجود ہر چیز اسے یک دم جیسے بہت قیمتی لگنے لگی تھی۔ وہ ہاتھ ہٹا کر بہت تیزی سے کھڑکی کی طرف گئی۔ ایمان نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ وہ کھڑکی بند کر رہی تھی۔ ہوا میں یک دم شدت اور تیزی آ گئی۔ اسے دقت ہو رہی تھی، ایمان بے اختیار اٹھ کر اس کی طرف گیا۔ کھڑکی کا پٹ کھینچ کر ایک جھٹکے کے ساتھ اس نے کھڑکی بند کر دی۔ باہر لان میں سے اٹھنے والا ہوا کا ایک بگولا اپنے ساتھ لیے ہوئے پتوں اور مٹی کے ساتھ کھڑکی کے شیشوں سے ٹکرایا۔ مٹی اندر نہیں آ سکی، کھڑکی کے شیشوں سے مٹی اور پتے ٹکراتے ہوئے نیچے گر رہے تھے۔
امید نم آنکھوں کے ساتھ مسکراتے ہوئے سحرزدہ سی کھڑکی سے ٹکرانے والے پتوں اور مٹی کو دیکھ رہی تھی وہ یک دم خود کو بہت محفوظ محسوس کرنے لگی تھی۔
”باہر سے آنے والی گندگی اندر نہیں آ سکی… اس بار کوئی آلودگی اندر آ ہی نہیں سکتی۔ اس بار ”ایمان” اور ”امید” ایک ساتھ کھڑے ہیں۔” اس نے مسکراتے ہوئے سوچا ایمان برق رفتاری سے کچن کی دوسری کھڑکیاں بند کر رہا تھا۔ اس نے پلٹ کر اسے دیکھا اور وہیں کھڑی رہی۔
”مجھے یہ موسم پسند نہیں ہے، اتنی مٹی، ہر وقت کا طوفان… اب پھر صبح سارا گھر صاف کرنا پڑے گا۔”
”سارا دن ضائع کرے گا صابر… میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ یہ کھڑکیاں کیسے کھلی رہنے دیں۔ پتا نہیں کس کس کمرے کی کھلی ہوں گی اور پتا نہیں کہاں کہاں سے مٹی اندر آ رہی ہوگی۔” وہ اب بولتے ہوئے کچن سے نکل رہا تھا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ اس کے پیچھے کچن سے نکلتے ہوئے اس نے سوچا۔
”ایمان کے شیشے پر کتنی ہی گرد اور مٹی کیوں نہ ہو۔ اسے صاف کیا جا سکتا ہے بس صرف ایک ہاتھ پھیرنا پڑتا ہے اور شیشے میں سے عکس نظر آنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر ہر ہاتھ کے ساتھ عکس پہلے سے زیادہ صاف اور چمکدار ہوتا جاتا ہے… اور وہ ہاتھ اس محبت کا ہوتا ہے جو ایمان سے ہوتی ہے۔”
*…ختم شد…*