ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۲ (آخری قسط)

ایمان کے والدین کے لیے اس کے مذہب کی تبدیلی ایک شاک تھا۔ یہودی یا عیسائی ہونے کی توقع رکھتے ہوئے وہ یہ کبھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ وہ مسلمان ہو جائے گا اور پھر مذہب کا انکشاف اس نے تقریباً پوری فیملی کے سامنے کر دیا تھا۔ پیٹرک کا خاص طور پر غم و غصے سے برا حال تھا۔ وہ اپنی فیملی کے سامنے بالکل بے وقعت ہو کر رہ گیا تھا۔ ایک اعلیٰ نسب یہودی کا بیٹا مسلمان ہو جائے تو پھر اس کے پاس باقی کیا بچتا ہے۔ اس کی فیملی نے اسے مجبور کیا تھا کہ وہ ایمان علی کو اسلام چھوڑنے پر آمادہ کرے یا پھر ایمان سے قطع تعلق کر لے پیٹرک اور سبل نے ایمان کو بری طرح مجبور کیا تھا۔ ڈرا کر، دھمکا کر جذباتی طور پر بلیک میل کر کے مگر وہ اپنی بات پر اڑا رہا پیٹرک کو اب احساس ہوا کہ اس نے انھیں اس طرح اچانک گھر کا تحفہ کیوں دیا تھا یقینا وہ یہی چاہتا تھا کہ جب وہ انھیں اپنے اسلام قبول کرنے کے بارے میں بتائے تو وہ کوئی اعتراض نہ کریں مگر یہ بات ان کے لیے قابل قبول نہیں تھی۔
جب ان دونوں کے بہت سمجھانے پر بھی وہ اپنی بات پر جما رہا تو پھر انھوں نے اس سے کہا کہ وہ اسلام چھوڑ دے یا پھر ہمیشہ کے لیے انھیں چھوڑ دے۔ ایمان علی نے انھیں اپنی بات سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ دونوں بھی اس کی طرح اپنی بات پر جمے ہوئے تھے۔ اسے اپنی فیملی کا ردِعمل دیکھ کر اپنے ماں باپ سے اسی بات کی توقع تھی۔ اپنے ماں باپ کے لیے گھر خریدتے ہوئے بھی وہ جانتا تھا کہ یہ تحفہ اس کی طرف سے اس کے والدین کے لیے آخری تحفہ ہو سکتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے لیے والدین سے الگ ہونا بہت تکلیف دہ تھا اور صرف اس کے لیے ہی نہیں اس کے والدین کے لیے بھی اکلوتی اولاد سے اس عمر میں اس طرح مکمل طور پر الگ ہو جانا بہت مشکل تھا مگر اس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا وہ خود کو پہلے سے اس کام کے لیے ذہنی طور پر آمادہ کر چکا تھا۔ مگر اس کے باوجود جرمنی سے امریکہ جاتے ہوئے اسے بہت زیادہ ڈپریشن تھا۔
امریکہ میں اس نے ان کمپنیز میں انٹرویوز دیے جہاں وہ پچھلے کچھ عرصے سے اپلائی کر رہا تھا، چند دن انٹرویوز میں مصروف رہنے کے بعد ایک شام وہ پیدل قریبی مارکیٹ جانے کے لیے نکلا اسے یہ اندازہ نہیں ہو پایا کہ اس کا تعاقب کیا جا رہا ہے، چند سیاہ فاموں نے یک دم اسے رستے میں روک لیا۔ گن پوائنٹ پر انھوں نے اس کی تمام جیبیں خالی کروا لیں۔ اس نے مزاحمت کی کوشش کی تو ان لوگوں نے اسے بری طرح پیٹا، ریوالور سے سر کے پچھلے حصے میں لگائی گئی ضربوں نے اسے ہوش و حواس سے محروم کر دیا۔ ایک ہفتہ کے بعد اسے جب ہوش آیا تو وہ ہاسپٹل میں تھا۔ اس کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس سے اس کی شناخت ہو سکتی اس لیے ڈاکٹرز اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے تھے مگر ہوش میں آنے کے بعد بھی وہ کئی دنوں تک رابطے کے لیے نمبر نہیں بتا سکا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ ذہنی طور پر نارمل ہونا شروع ہوا اور تب اس نے سوچا کہ امید کو اس حادثے کی اطلاع دینا بے کار ہوگا۔ وہ خوامخواہ پریشان ہو گی ہاسپٹل سے ڈسچارج ہونے کے بعد اس نے پاکستان فون کیا مگر اسے پتا چلا کہ امید راولپنڈی جا چکی ہے اس نے کچھ دن اور امریکہ میں گزارے اور اسی دوران دو کمپنیز سے اسے جاب کی آفر ہو گئی، وہ مطمئن ہو کر واپس پاکستان آ گیا۔
راولپنڈی میں امید کے رویے نے اسے حیران کیا اور آہستہ آہستہ یہ حیرانی پریشانی میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اس کے باہر جا کر رابطہ ختم کر دینے پر وہ پریشان اور ناراض ہوگی مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اس طرح کے رویے کا مظاہرہ کرے گی۔ وہ اسے بتانا چاہ رہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ مگر وہ کچھ سننے پر تیار ہی نہیں تھی۔





لاہور آنے کے بعد بھی اس کا رویہ تبدیل نہیں ہوا وہ لاہور پہنچ کر اپنے کچھ کام نپٹانے گھر سے باہر چلا گیا۔ جب وہ واپس آیا تو گیٹ پر بہت بار ہارن دینے کے باوجود بھی گیٹ نہیں کھلا، وہ کچھ پریشان ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ خود اتر کر چوکیدار کو آواز دیتا گیٹ یک دم کھل گیا۔ چوکیدار کے بجائے امید نے دروازہ کھولا تھا۔ اس کے استفسار پر اس نے کہا تھا کہ وہ کسی ایمرجنسی کی وجہ سے چلا گیا ہے، اس لیے گیٹ کھولنے کے لیے اسے آنا پڑا، گھر کے اندر جانے پر اس نے ملازم کو بھی وہاں نہیں پایا۔ امید نے اس سے کہا کہ وہ اسے بھیج چکی ہے۔ اسے امید کی حرکات کچھ عجیب لگی تھیں مگر اس نے زیادہ غور نہیں کیا۔ اندر بیڈ روم میں آ کر اس نے اپنے سارے گفٹس کمرے کے کارپٹ پر پھیلے ہوئے دیکھے اس کی رنجیدگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ اس نے کارپٹ پر سے تمام چیزیں اٹھائیں اور پھر انھیں ڈریسنگ روم میں رکھ دیا۔
وہ روز رات کو ریوالور چیک کر کے رکھا کرتا تھا۔ اس رات بھی اس نے اپنے معمول کے مطابق دراز میں سے ریوالور نکالنا چاہا مگر ریوالور وہاں نہیں تھا۔ باری باری اس نے اپنی تینوں درازدیکھے مگر ریوالور کہیں بھی نہیں تھا۔ اسے خیال آیا کہ ہو سکتا ہے امید نے ریوالور کہیں اور رکھا ہو مگر امید سے پوچھنے پر اس نے صاف انکار کر دیا۔ وہ اس کے انکار پر ہکا بکا رہ گیا۔ اگر ریوالور امید نے نہیں اٹھایا تھا تو پھر ریوالور کہاں جا سکتا تھا۔ اس کی تشویش میں یکایک اضافہ ہو گیا پھر اس نے یہ سوچ کر ہر جگہ ریوالور ڈھونڈنا شروع کیا کہ شاید وہ کہیں اور رکھ کر بھول گئی ہے۔ مگر تمام الماریاں دیکھنے کے بعد بھی اسے ریوالور نہیں ملا۔ اس کی پریشانی میں یہ سوچ کر اضافہ ہو رہا تھا کہ امید یہاں اس کی عدم موجودگی میں اکیلی تھی۔ اگر کچھ ہو جاتا اور اسے ریوالور کی ضرورت پڑتی تو پھر کیا ہوتا مگر امید اسے بالکل پریشان نظر نہیں آ رہی تھی وہ بالکل بے فکر تھی۔
اس نے اسے اس کی لاپروائی کا احساس دلانے کی کوشش کی اور جواباً وہ اس سے جھگڑنے لگی۔ وہ اس کی باتیں سن کر حیران رہ گیا۔ وہ اسے جھوٹا، فراڈ اور گناہگار کہہ رہی تھی۔ وہ بے حد دل برداشتہ ہو گیا۔ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں واپس پاکستان آیا تھا صرف اس لیے تاکہ اب اس کی شناخت مسلمان کے طور پر ہو اس کے بچے کو یا امید کو کسی دقت کا سامنا کرنا نہ پڑے مگر وہ اب بھی اس کے ماضی کے حوالے سے طنز کر رہی تھی۔ اس وقت اس کا ذہن بس یہیں تک گیا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ یہ سب اسے کسی اور حوالے سے کہہ رہی ہے۔ اس کی باتوں کے ردِعمل میں وہ بھی خاموش نہیں رہ سکا شاید یہ جھگڑا اور طول پکڑتا مگر پھر وہ یہ سوچ کر خاموش ہو گیا کہ وہ جس حالت میں ہے، اس میں ذہنی طور پر کسی تکلیف سے گزرنا اس کے لیے اچھا نہیں ہوگا، نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے امید کو وضاحت پیش کی تھی۔
اس کی چھٹی حس یک دم اسے کسی خطرے سے آگاہ کرنے لگی تھی۔ ریوالور کا غائب ہونا، چوکیدار کا چلے جانا اور ملازم کا بھی وہاں نہ ہونا… یہ سب کچھ کوئی باقاعدہ پلاننگ بھی تو ہو سکتی تھی۔ اس نے فون کر کے ایک سیکیورٹی ایجنسی سے گارڈ منگوایا اور پھر انٹر کام پر ملازم کو بلا کر اس سے ریوالور کے بارے میں پوچھا۔ ملازم ریوالور کے بارے میں بے خبر تھا۔ ایمان کی پریشانی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا اس نے ملازم کو واپس بھیج دیا۔ گارڈ کے آنے کے بعد اس نے اندرونی دروازہ بند کرنے سے پہلے پورے گھر کو اچھی طرح چیک کیا کہیں بھی کوئی غیر معمولی چیز نہیں تھی۔
اچھی طرح دروازے لاک کرنے کے بعد اس نے کچن میں جا کر کچھ کھایا اور پھر اسٹڈی میں چلا گیا۔ کچھ دیر وہ پریشانی کے عالم میں وہاں بیٹھا رہا امید کا رویہ اس کے لیے بہت حوصلہ شکن تھا، اس نے اپنے ذہنی انتشار پر قابو پانے کے لیے قرآن پاک کا انگلش ترجمہ نکال کر پڑھنا شروع کر دیا۔ پندرہ بیس منٹ وہ اس کام میں مصروف رہا پھر وہ قرآن پاک واپس رکھنے کے لیے شیلف کی طرف آیا۔ قرآن پاک واپس رکھتے ہوئے اسے کونے میں پڑی ہوئی وہ کتابیں نظر آئیں جو باہر جانے سے کچھ دن پہلے ڈاکٹر خورشید نے اسے دی تھیں۔ اس نے ابھی تک ان کتابوں کو نہیں پڑھا تھا۔
قرآن پاک رکھنے کے بعد اس نے ان میں سے ایک کتاب نکال لی اور کتاب نکالتے ہی اسے جیسے کرنٹ لگا، کتاب کے پیچھے شیلف پر ریوالور نظر آ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ریوالور کمرے سے اسٹڈی میں کیسے آ گیا۔ کتاب واپس رکھ کر اس نے ریوالور نکالا اور اس کا چیمبر چیک کیا۔ چیمبر میں پوری گولیاں تھیں جبکہ ریوالور کا سیفٹی کیچ ہٹا ہوا تھا۔ وہ ریوالور لے کر اسٹڈی ٹیبل کی طرف آ گیا۔ کرسی پر بیٹھ کر اس نے ریوالور میں سے ساری گولیاں نکال لیں۔ اس کے ذہن میں خیال آیا کہ شاید امید کسی دن رات کو یہاں اسٹڈی میں کچھ وقت گزارنے آئی ہو اور اس وقت وہ ریوالور بھی ساتھ لے آئی ہو۔ مگر ریوالور کو کتابوں کے پیچھے کس لیے چھپایا گیا۔ کیا امید نے اسے اٹھا کر وہاں رکھ دیا یا پھر ملازم نے اٹھا کر… مگر کیوں؟ اس کا ذہن ایک بار پھر الجھ گیا۔
ریوالور کی گولیاں نکال کر اس نے دراز میں رکھ دیں جبکہ ریوالور میز پر رکھ دیا۔ اس کا خیال تھا کہ نماز پڑھنے کے بعد وہ دوبارہ ریوالور کو لوڈ کر کے اپنی دراز میں رکھ دے گا۔
پھر وہ نماز پڑھنے میں مصروف ہو گیا، نماز پڑھنے کے دوران ہی اسے احساس ہوا کہ کمرے میں کوئی داخل ہوا۔ اسے حیرت ہوئی، اس کا خیال تھا امید اب تک سو چکی ہوگی۔ سلام پھیرنے کے بعد اس نے اس سے وہاں آنے کے بارے میں پوچھا، وہ اس سے کوئی بات کرنا چاہتی تھی اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ اب اس سے کون سی بات کرنا چاہتی تھی مگر اس نے امید سے انتظار کرنے کے لیے کہا۔
نماز پڑھنے کے بعد وہ کھڑا ہو کر پلٹا اور ساکت ہو گیا، اسٹڈی ٹیبل پر موجود ریوالور اب امید کے ہاتھوں میں تھا اور وہ اس کا نشانہ لیے کھڑی تھی۔ پھر اس نے اسے ٹریگر دباتے ہوئے دیکھا اور سب کچھ ایک جھماکے کے ساتھ اس کی سمجھ میں آ گیا تھا ریوالور وہاں کیوں آیا تھا کس لیے چھپایا گیا، چوکیدار کی عدم موجودگی، ملازم کو بھیجا جانا…
”میرے خدایا کیا یہ عورت جو میری بیوی اور میرے بچے کی ماں بننے والی ہے مجھے قتل کرنا چاہتی ہے… یہ عورت جس کے لیے میں سب کچھ چھوڑ آیا ہوں۔”
اس نے تکلیف سے سوچا۔ وہ جانتا تھا، ریوالور خالی تھا مگر اس کا دل چاہا کہ کاش وہ ریوالور خالی نہ کرتا… وہ اسے وہیں رہنے دیتا۔ سب کچھ آگ کی لپٹوں میں آ گیا تھا۔ رشتہ، اعتبار، اعتماد… اسے یاد آیا ڈاکٹر خورشید نے کہا تھا۔
”تم صحیح رستے پر قدم بڑھا چکے ہو… مسلمان ہو چکے ہو۔ اب تم آزمائشوں کے لیے تیار رہو، پچھلے ایک ماہ سے وہ ایسی ہی آزمائشوں سے گزر رہا تھا اور ہر بار وہ فخر سے سوچتا تھا کہ آزمائش نے اسے سرنگوں نہیں کیا مگر اب اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ آزمائشوں کے بھی درجے ہوتے ہیں وہ جن آزمائشوں سے گزرا تھا وہ ابتدائی نوعیت کی تھیں مگر اب اس کے سامنے جو آزمائشیں آن کھڑی ہوئی تھیں، وہ اس کے لیے بہت سخت ثابت ہوں گی۔
اس نے امید کی آنکھوں میں پہلے کبھی اپنے لیے اتنی نفرت نہیں دیکھی اس نے اس کی زبان پر اپنے لیے اتنا زہر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اس نے اسے خود پر ریوالور پھینکتے دیکھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ عورت مجھے اتنی تکلیف دے سکتی ہے جسے میں نے کبھی سخت ہاتھ بھی نہیں لگایا اس نے اس پر الزامات کی بارش کر دی تھی۔ وہ چلا رہی تھی وہ سنتا رہا شاید وہ اسی طرح سنتا رہتا اگر وہ اسے ایمان علی کے بجائے ڈینیل ایڈگر نہ کہتی، اسے اس وقت امید کی زبان سے اپنا پرانا نام ایک گالی کی طرح لگا، وہ برداشت نہیں کر سکا، صرف اس ایک نام کے لیے وہ پچھلے ایک ماہ سے کیا کیا برداشت کر رہا تھا اس نے اپنے ماں باپ چھوڑے۔ اس نے اپنا شاندار کیریئر چھوڑ دیا۔ ایک اچھا مسلمان، ایسی چیزوں پر استقامت اور ثابت قدمی دکھاتا ہے میں بھی یہی دکھاؤں گا، پیدائشی مسلمان نہ سہی مگر میں مسلمان ہوں اور مجھے بھی تکلیف اور آزمائش میں صبر سے کام لینا چاہیے وہ سوچتا رہا اور اب ایک بار پھر اسے اس کے پرانے نام سے پکارا جا رہا تھا اس کے ایمان پر شک کیا جا رہا تھا۔
وہ اسے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا صرف ایک شخص کسی کی پوری شخصیت کو اس طرح مسخ کر سکتا ہے اس طرح توڑ پھوڑ سکتا ہے کہ وہ شخص دوبارہ زندگی میں کوئی رشتہ قائم کر کے بھی بے اعتمادی اور بے یقینی کا اس طرح شکار رہے کہ ہر لمحے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے پیروں کے نیچے سے بھی زمین کھینچتا رہے اس نے سوچا تھا اگر اس کی زندگی میں جہاں زیب نہ آیا ہوتا تو کیا یہ پھر بھی ایسی ہوتی۔ وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ وہ اس کا یقین چاہتا تھا مگر اس دن اسے احساس ہو رہا تھا کہ شاید یہ ممکن ہی نہیں ہے وہ ساری عمر اسے اسی طرح ایمان کی کسوٹی پر پرکھتی رہے گی۔وہ اب کم از کم یہ نہیں چاہتا تھا کہ اسے بار بار اس کے سامنے اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دینا پڑے۔ یہ بہت تکلیف دہ کام تھا اس وقت اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے اس نے سوچا۔ ”اگر کسی شخص کو ابھی بھی اس بات پر یقین نہیں ہے کہ میں مسلمان ہوں یا نہیں تو مجھے کیا کرنا چاہیے۔ کیا اس کے ساتھ بار بار اذیت سے دوچار ہونے کے لیے رہنا چاہیے یا پھر ایک بار اذیت سے گزرتے ہوئے اس سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہیے…”
”ہاں شاید مجھے اس سے الگ ہی ہو جانا چاہیے ورنہ کبھی نہ کبھی اس کی بے یقینی میرے ایمان کو ختم کر دے گی۔ میری استقامت اور ثابت قدمی کو ہلا دے گی۔ پھر میں کیا کروں گا۔” اس نے سوچا، وہ عورت اسے ایمان تک لائی تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسی کی وجہ سے وہ ایمان کھو دیتا اسے ایک بار پھر فیصلہ کرنے میں چند منٹ لگے تھے۔ اس نے امید کو اختیار دے دیا تھا کہ اس بار وہ انتخاب کر لے۔
وہ اسٹڈی سے نکل کر کچن میں آ گیا، اس کے وجود پر اترتی تھکن اسے مضمحل کر رہی تھی۔ وہ ڈائننگ ٹیبل پر آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا کچھ وقت گزرا تھا پھر اس نے کچن میں اپنے قریب ایک آہٹ سنی اور…
*…*…*




Loading

Read Previous

ایمان، امید اور محبت — قسط نمبر ۱

Read Next

حسنہ اور حسن آرا — عمیرہ احمد

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!