”تھوڑا سا غصہ نہیں ہے، اس میں بہت زیادہ غصہ ہے۔” وہ اس کی بات پر ہنس پڑے۔
”جب اسے تم سے محبت ہو جائے گی تو یہ سارا غصہ ختم ہو جائے گا۔ ابھی تو تم دونوں کو ساتھ زندگی گزارتے بہت عرصہ نہیں ہوا۔”
وہ ان کے پاس سے واپس آنے کے بعد بہت پرُسکون تھا۔ ایک ہفتہ کے بعد وہ راولپنڈی سے اسے لینے گیا تھا اور وہ اس سے بہت نارمل طریقے سے ملی تھی یوں جیسے ان کے درمیان کبھی کوئی جھگڑا ہوا ہی نہیں تھا۔ ایمان نے شکر ادا کیا تھا۔
ان کی زندگی بہت نارمل انداز میں گزر رہی تھی۔ امید کا رویہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا تھا جس پر اسے اعتراض ہوتا مگر بعض اوقات جب وہ اپنے مخصوص ٹرانس میں چلی جاتی تو ایمان کو تکلیف ہوتی کیونکہ اس وقت وہ بہت تلخ اور اکھڑ ہو جاتی تھی۔ مگر ایسے لمحات میں بھی ایمان کو کبھی اس سے شادی پر پچھتاوا نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس سے شادی کر کے اسے اپنی زندگی میں ایک سکون، ایک ٹھہراؤ، محسوس ہوا تھا اس لیے وہ اس کے ان موڈز کو بھی بہت خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتا۔
ایسے ہی موڈ میں ایک دن امید نے بڑی تلخی کے ساتھ اس سے کہا۔
”تمہیں پتا ہے، میں تم سے محبت نہیں کرتی… میں نے تم سے صرف شادی کی ہے۔ صرف زندگی گزار رہی ہوں تمہارے ساتھ… کیونکہ ایک گھر چاہیے ہوتا ہے۔ وہ مجھے تم سے مل گیا۔”
وہ اس کی کڑواہٹ کو سکون کے ساتھ برداشت کر گیا ”میں جانتا ہوں، تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”کیوں ضرورت نہیں ہے۔ مجھے بتانا چاہیے کہ مجھے تم سے…”
ایمان نے اس کی بات کاٹ دی ”محبت نہیں ہے… کوئی بات نہیں، میں نے مطالبہ نہیں کیا کہ تم مجھ سے محبت کرو۔”
وہ بالکل ساکت اسے دیکھتی رہی۔
”تمہیں دراصل محبت مل گئی ہے ناں، اس لیے تمہیں پروا نہیں ہے اگر نہ ملتی پھر تمہیں احساس ہوتا۔”
”مجھے محبت ہی تو نہیں ملی۔” اس نے عجیب سے انداز میں کہا، ایمان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ اس کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔ اپنے غصے پر کنٹرول کرتے ہوئے اس نے کہا۔
”میں تم سے محبت کرتا ہوں۔”
”مت کرو… میں نے تمہیں مجبور نہیں کیا۔” اس کے انداز میں کمال کی لاتعلقی تھی۔
”تم جانتی ہو، میں یہ نہیں کر سکتا میرے لیے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ میں تم سے محبت نہ کروں۔”
وہ اس کے پاس سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔ وہ ایک بار پھر ٹرانس میں چلی گئی۔
وہ ڈاکٹر خورشید کے پاس اب بھی باقاعدگی سے جایا کرتا تھا وہ اس کے لیے ایک عجیب سورس آف انسپریشن تھے ان کے درمیان بہت عجیب سا کمیونیکیشن تھا بعض دفعہ وہ اس کی افسردگی کو بغیر بتائے جان جاتے تھے اور پھر اسے ہلکا کر دیا کرتے تھے ان کے پاس سے آنے کے بعد وہ خاصا پرُسکون رہتا تھا۔
مذہب میں اس کی روز بروز بڑھتی ہوئی دلچسپی کی وجہ بھی وہی تھے۔ وہ اکثر رات کو اسٹڈی میں عشاء کی نماز ادا کرتا اور پھر قرآن پاک کو پڑھتا۔ تمام نمازوں میں صرف یہی ایک نماز تھی جو وہ باقاعدگی سے ادا کیا کرتا تھا کبھی بات کرتے کرتے وہ بے اختیار قرآن پاک کی کسی آیت کا حوالہ دیتا اور اسے احساس ہوتا کہ امید اسے بہت عجیب سی نظروں سے دیکھتی تھی وہ مسکرا دیتا، وہ جانتا تھا امید اس وقت اس کے بارے میں ٹھیک نہیں سوچ رہی ہوگی۔
*…*…*
اس کی شادی کو چند ماہ گزرے تھے جب اسے اپنی فیملی میں ہونے والے متوقع اضافہ کی اطلاع ملی، امید غیر متوقع اور غیر معمولی طور پر خوش تھی اور زندگی میں آنے والی اس تبدیلی کے بعد اس نے امید کے رویے میں بھی حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھیں وہ یک دم بہت پرُسکون اور مطمئن نظر آنے لگی تھی۔ ایمان علی سے اس کا رویہ بھی یکسر تبدیل ہو گیا۔ وہ اس پر زیادہ توجہ دینے لگی، اس کے زیادہ تر کام خود کرتی تھی۔ اکثر وہ ایمان سے بچے کے بارے میں گفتگو کرتی۔ اس کے لیے منصوبے بناتی۔ ایمان حیران ہو جاتا۔ اس میں آنے والی تبدیلیاں کچھ اتنی ہی غیر متوقع تھیں۔ ایمان نے اپنے والدین کو بھی اس بارے میں بتا دیا تھا اور سبل اکثر فون پر اس سے گفتگو کرتی رہتی ایمان کا خیال تھا، وہ اب تبدیل ہو گئی ہے۔ پہلے کی طرح اس کے منگیتر کی یاد اس کے ذہن سے فراموش ہو چکی ہے مگر یہ اس کی غلط فہمی تھی۔
ایک رات وہ اسے ڈنر کرانے کے لیے ایک ہوٹل لے گیا تھا۔ وہ بہت خوشگوار موڈ میں تھی۔ ڈنر کے بعد وہ امید کے ساتھ ہوٹل کے ہال سے نکل رہا تھا جب اس نے ساتھ چلتی امید کو یک دم ساکت ہوتے دیکھا۔ اس نے کچھ حیران ہو کر اسے دیکھا اور اس کے چہرے کی زردی نے اسے خوفزدہ کر دیا۔ وہ بالکل ساکت سامنے دیکھ رہی تھی۔ ایمان نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا۔ ہوٹل کی اینٹرنس کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا ایک نوجوان جوڑا اس کی توجہ کا مرکز تھا وہ دونوں دروازے تک آ گئے اور پھر ایمان نے اس مرد کو بھی اسی طرح ٹھٹکتے دیکھا، پھر بڑی تیز رفتاری کے ساتھ وہ اپنے ساتھ موجود لڑکی کا بازو تھام کر اندر ہال میں چلا گیا۔
امید بے اختیار پلٹ کر اسے دیکھنے لگی ایمان نے بہت عرصے کے بعد اسے ایک بار پھر اسی ٹرانس میں دیکھا۔ وہ دونوں نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے مگر وہ اب بھی وہیں کھڑی تھی۔ ایمان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، وہ یکدم چونک گئی، چند لمحے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے سرد آواز میں جیسے پوچھا۔
”جہاں زیب؟”
امید نے سر ہلا دیا۔ ایمان کو یک دم اپنا خون کھولتا ہوا محسوس ہوا تھا۔ یہ عورت اس کی بیوی تھی۔ یہ عورت اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی اور یہ عورت اپنے سابقہ منگیتر کو دیکھ کر اب بھی اپنے اردگرد کی ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتی تھی وہ مزید کچھ کہے بغیر تیزی سے سیڑھیاں اتر گیا۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے آ گئی تھی۔
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے ایمان بالکل خاموش رہا گھر جا کر اس نے اپنے کپڑے تبدیل کیے۔ ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہو کر وہ اپنے بالوں میں برش کر رہا تھا جب اس نے امید کو اپنے پاس آ کر اپنے بازو پر ہاتھ رکھتے دیکھا۔
”ایمان! میں دراصل…” ایمان نے اپنے بازو سے اس کا ہاتھ ہٹا دیا۔
”مجھے کچھ کام کے لیے اسٹڈی میں جانا ہے۔” اس نے اپنے لہجے کو حتی الامکان نارمل رکھنے کی کوشش کی۔
”مگر میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں۔”
”امید! میں ابھی فی الحال تم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا… اس لیے مجھ سے کچھ بھی کہنے کی کوشش مت کرو۔” وہ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو گیا تھا۔
وہ وہاں رکے بغیر اسٹڈی میں آ گیا اس وقت وہ کچھ اتنا ہی دلبرداشتہ تھا نماز پڑھنے کے بعد وہ کمپیوٹر پر اپنا کام کرنے لگا، مگر اس کا ذہن ابھی تک منتشر تھا۔
ایک گھنٹے کے بعد اس نے اسٹڈی کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی، اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی، وہ اس کے پاس دوسری کرسی پر بیٹھ گئی ایمان کمپیوٹر پر اپنا کام کرتا رہا۔
”ایمان! تم ایک چھوٹی سی بات پر ناراض ہو رہے ہو۔”
”میں کسی بات پر ناراض نہیں ہوں۔”
”پھر تم مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہے؟”
”کر رہا ہوں۔”
”اس طرح نہیں۔”
”مجھے کام ہے، مجھے وہ کرنے دو۔” وہ کی بورڈ پر ہاتھ چلاتے ہوئے مانیٹر پر ابھرنے والی عبارت کو دیکھتا رہا۔
”میں تم سے ایکسکیوز کرنا چاہتی ہوں۔”
”ضرورت نہیں ہے۔” وہ اب بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر بولا۔
”تم کیوں کر رہے ہو اس طرح؟” وہ کچھ جھنجھلا گئی۔
”میں کچھ نہیں کر رہا۔ صرف صبر کر رہا ہوں۔”
”کس چیز کے لیے صبر؟”
”تم جانتی ہو۔”
”میں ایکسکیوز کر تو رہی ہوں۔”
”اس کا کیا فائدہ جب تم یہ جانتی ہو کہ تم ایک غلط کام کر رہی ہو تو تم کیوں کر رہی ہو؟ ایک ایسے شخص کے لیے جس نے نو سال تمہیں منگیتر رکھنے کے بعد بھی تم سے شادی نہیں کی، اس کے لیے پریشان کیوں ہو؟ جو شخص تم سے محبت نہیں کرتا، اس کے پیچھے کیوں بھاگتی ہو جس شخص نے تمہیں دھوکا دیا؟”
”اس نے مجھے کوئی دھوکا نہیں دیا، میں نے اسے دھوکا دیا، اس نے مجھے نہیں چھوڑا، میں نے اسے چھوڑا۔” وہ اس کے الفاظ پر ساکت رہ گیا۔
”تم نے کیوں چھوڑا اسے؟” اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”کیونکہ میں اس کی ڈیمانڈز پوری نہیں کر سکتی تھی۔”
”کیا ڈیمانڈز تھیں اس کی؟” اس نے امید کو نظریں چراتے دیکھا ایمان نے اپنا سوال دہرایا۔
زندگی میں کبھی کسی چیز نے اسے اس حد تک حیران کیا تھا نہ اس کا ذہن ماؤف، اس نے آہستہ آہستہ اسے سب کچھ بتا دیا تھا، کس طرح اس نے جہاں زیب کے ساتھ جانے سے انکار کیا تھا، اس کے سارے احسانات، ساری مہربانیاں، ساری محبت کے باوجود کس طرح وہ ذہنی ابتری کا شکار ہو گئی تھی۔ وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اسے بتا رہی تھی اور وہ خالی ذہن کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا۔ سامنے بیٹھی ہوئی یہ عورت اپنی بہت سی کمزوریوں، بہت سی خامیوں کے باوجود صرف ایمان کے لیے صرف دین کے لیے اپنے نفس کے سانپ کو کس طرح مار گئی تھی۔ وہ کسی ترغیب کے نرغے میں نہیں آئی تھی۔ اسے بے اختیار ایک مسلمان عورت کا شوہر ہونے پر فخر ہوا، ایک ایسی عورت جو محبت کو ایمان کے لیے چھوڑ سکتی تھی۔
”تم نے جو کچھ کیا، ٹھیک کیا، تمہیں یہی کرنا چاہیے تھا۔ تمہیں کوئی پچھتاوا نہیں ہونا چاہیے کہ اس نے تم پر احسان کیا ہے اور تم نے اس کا ایک مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔ کسی کی کوئی مہربانی، کوئی احسان اور کوئی محبت اگر بدلے میں گناہ مانگے تو اسے اسی طرح چھوڑ دینا چاہیے جس طرح تم نے چھوڑا، تمہاری دوستوں نے تم سے غلط کہا کہ تم نے سچی محبت کھودی۔ تم نے ایک ایسے خودغرض انسان سے چھٹکارا پایا جو تم کو جہنم میں لے جاتا اور تمہاری دوستیں تمہیں ایک ایسے کام پر اکسا رہی تھیں جس پر اسلام حد نافذ کرتا ہے جس کے کرنے والے کو سنگسار کیا جاتا ہے۔ تم نے محبت اور ایمان میں سے ایمان کا انتخاب کیا ٹھیک کیا۔”
اس نے امید کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔
”مگر وہ مجھے یاد کیوں آتا ہے، میں اسے بھول کیوں نہیں جاتی۔” وہ اب بری طرح بلک رہی تھی۔
”تم کوشش کرو گی تو اسے بھول جاؤ گی۔”
”میں کوشش کرتی ہوں مگر میں نہیں جانتی، مجھے کیا ہو جاتا ہے شاید میں نارمل نہیں ہوں ایمان! میں چاہتی ہوں، میں ماضی سے پیچھا چھڑا لوں۔ کم از کم اب تو… میں سب کچھ نئے سرے سے شروع کرنا چاہتی ہوں مگر ایسا نہیں ہو پاتا۔”
وہ بالکل بے بس نظر آ رہی تھی، وہ اسے تسلیاں دینے لگا۔
اس رات اسے سلیپنگ پلز کی مدد سے سلانے کے بعد وہ خود اسٹڈی میں بیٹھا اس کے انکشاف کے بارے میں سوچتا رہا۔
*…*…*
چند دنوں کے بعد ڈاکٹر خورشید نے اس سے کہا کہ وہ اب اپنے مذہب کی تبدیلی کے بارے میں اپنے عزیز و اقارب اور کمپنی کو بتا دے اور اپنے کاغذات میں اپنا نام تبدیل کروا لے۔ اس نے ان کی بات پر سر جھکا دیا۔ وہ خود بھی اب یہی چاہتا تھا، اپنے بچے کی پیدائش سے پہلے وہ چاہتا تھا کہ سب اس کے نئے نام اور مذہب سے واقف ہو جائیں، تاکہ بچے کے لیے کوئی مسئلہ نہ ہو۔
اس نے اپنی کمپنی کے ڈائریکٹر کو تحریری طور پر اپنے طور پر اپنے نام اور مذہب کی تبدیلی سے آگاہ کر دیا اور یہ جیسے سب کے لیے ایک بڑے شاک کے طور پر سامنے آیا تھا اسے ملنے والی پروموشن روک لی گئی تھی اور اسے پہلے ہی اس بات کی توقع تھی۔ مذہب کی تبدیلی ایک ایسا عمل تھا جس سے اس کی کمپنی کی انتظامیہ کو یہ محسوس ہوا کہ اس کی وفاداریاں متاثر ہوں گی۔ ریجنل چیف نے اس سلسلے میں اس سے لمبی چوڑی بات کی اور کمپنی کی انتظامیہ کا مؤقف اس کے سامنے پیش کر دیا۔ وہ اگر اپنا موقف بیان نہ بھی کرتے تو بھی وہ اچھی طرح اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ یہ کمپنی امریکن یہودیوں کے سرمائے سے چل رہی تھی۔ کسی مسلمان کو وہ اتنے بڑے عہدے پر کبھی نہ لاتے۔ ڈاکٹر خورشید سے مشورہ کے بعد اس نے کمپنی میں اسی عہدہ پر کام کرتے رہنے کے بجائے ریزائن کرنے کا فیصلہ کر لیا اور کچھ اور ملٹی نیشنل کمپنیز میں اپلائی کرنا شروع کر دیا۔
امید کو اس نے اس بات سے آگاہ نہیں کیا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ پریشان ہو، اپنی کمپنی سے ریزائن کرنے کے بعد اس نے جرمنی جا کر اپنے ماں باپ کو بھی اپنے اس فیصلے سے آگاہ کرنااور اس کے بعد امریکہ جا کر اسے کچھ کمپنیز میں انٹرویو دینے تھے۔ اس نے امید سے یہی کہا کہ وہ آفس کے کسی کام سے جرمنی جا رہا ہے مگر ان ہی دنوں اتفاقاً اس کے ایک فیملی فرینڈ کی ڈیتھ ہو گئی ایمبیسی سے اس نے امریکہ کا ویزا مذہبی رسومات میں شرکت کا بتا کر لیا کیونکہ اس طرح اسے فوری طور پر ویزا مل گیا تھا، اس سے پہلے اس کا خیال تھا کہ وہ جرمنی میں قیام کے بعد وہیں سے ویزہ لے کر امریکہ چلا جائے گا کیونکہ اس کے پاس جرمنی کی شہریت تھی۔
مگر پھر اپنے والدین سے بات کرنے کے بعد اس نے پہلے جرمنی ہی جانے کا فیصلہ کیا تھا، اس نے سوچا تھا کہ وہ وہاں سے اپنے والدین کے ساتھ امریکہ چلا جائے گا اور امریکہ جانے سے پہلے اسے اپنے والدین کو اپنے مذہب کی تبدیلی کے بارے میں بھی بتانا تھا۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ ایئرپورٹ پر اسے سمانتھا مل گئی۔ وہ اپنی جاب چھوڑ کر پاکستان سے واپس جا رہی تھی۔ فلائٹ میں وہ اس کے ساتھ رہی۔
*…*…*