کچھ بے دلی سے اس نے کہاتھا۔
”تمہاری آنٹی اپنے میکے گئی ہوئی ہیں ، شام کو آ جائیں گی تو تم مل لینا ان سے۔”
انہوں نے اسے بتایا تھا۔ علیزہ نے غور سے باپ کا چہرہ دیکھا وہ بہت مطمئن نظر آ رہے تھے۔
”وہ آپ کے ساتھ آئی ہوئی ہیں۔”
”ہاں ! وہ میرے ساتھ آئی ہوئی ہیں۔”
وہ کچھ چپ سی ہو گئی۔ اس کے باپ نے اس کی خاموشی کو بغور نوٹ کر لیاتھا۔
”تمہارے لئے کچھ چیزیں لے کر آیا ہوں، کچھ چیزیں تمہاری آنٹی نے بھی پسند کی ہیں۔ شام کو جب وہ آئیں گی تو خود ہی تمہیں دیں گی۔”
انہوں نے اسے اطلاع دی تھی۔
”مجھے ایک ضروری کام سے باہر جانا ہے ۔ تم آرام کرو یا پھر اپنی آنٹی وغیرہ سے باتیں کرو، شام کو تم سے دوبارہ ملاقات ہو گی۔”
انہوں نے سویٹ ڈش ختم کرنے کے بعد ٹیبل سے کھڑے ہو تے ہوئے کہاتھا۔ وہ بھی خاموشی سے ان کے ساتھ ہی کھڑی ہو ئی۔
”کیا میں اس طرح ان کے ساتھ ایک ہفتہ گزاروں گی۔”
اپنے کمرے میں جانے کے بعد اس نے کچھ دل گرفتگی سے سوچاتھا۔
”پاپا کو پتہ ہو نا چاہئے تھا کہ میں چار سال کے بعد ان سے مل رہی ہوں کیا ان کے پاس میرے لئے تھوڑا سا وقت بھی نہیں ہے؟”
وہ ایک بار پھر بیڈ پر لیٹ گئی۔
٭٭٭
وہ تین سال کی تھی، جب اس کے والدین کے درمیان طلاق ہو گئی تھی۔ طلاق کی وجوہات پر دونوں میں سے کسی نے بھی روشنی ڈالنا پسند نہیں کیا تھا اس لئے وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے والدین کے درمیان کون سے اختلافات تھے۔ ان دونوں سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت وہ کبھی نہیں کر سکی مگر نانو سے اس نے چند ایک بار یہ سوال پوچھا تھا اور ملنے والا جواب اس کی تسلی نہیں کر سکا تھا۔ وہ ہمیشہ یہی کہہ دیتی تھیں کہ ان دونوں کے درمیان انڈر اسٹینڈنگ نہیں ہوئی۔
طلاق کے بعد علیزہ اپنی ماں کی کسٹڈی میں رہی تھی۔ سکندر نے اس سلسلے میں پورا تعاون کیا تھا۔ طلاق کے ایک سال کے اندر علیزہ کی ممی کی دوسری شادی ہو گئی تھی اور تب یہ طے پایا تھا کہ علیزہ اپنے نانی، نانا کے پاس رہے گی۔
سکندر نے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ وہ خود بھی دوسری شادی کرنا چاہ رہے تھے، اور علیزہ کی ذمہ داری اٹھانے سے کچھ گریزاں تھے، ان کے اپنے گھر میں ایسا کوئی نہیں تھا جو علیزہ کو پال سکتا اور وہ اسے اتنی چھوٹی عمر میں اپنے ساتھ مسقط بھی نہیں لے جا سکتے تھے اور نہ ہی وہ لے جانا چاہتے تھے کیونکہ یہ ایک بہت بڑی ذ مہ داری تھی۔ اس لئے انہوں نے علیزہ کو مستقل طور پراس کے ننھیال کے حوالے کر دیا تھا، ہر ماہ وہ اس کے اخراجات کے لئے ایک اچھی خاصی رقم اس کے بینک اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتے تھے اور ان کی یہ روٹین اب تک جاری تھی۔
طلاق کے دو سال بعد انہوں نے اپنی پسند کی دوسری شادی کر لی تھی ا ور وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ مسقط لے گئے تھے۔ علیزہ سے چند ماہ کے وقفے سے وہ فون پر باتیں کیا کرتے تھے اور پاکستان آنے پر چند دن کے لئے اس کو اپنے پاس بلوا لیا کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ان کی ذمہ داری یہیں پر پوری ہو جاتی تھی۔
علیزہ کی ممی اپنے شوہر کے ساتھ آسٹریلیا میں مقیم تھیں اور علیزہ کے ساتھ ان کا سلوک بھی سکندر سے زیادہ مختلف نہیں تھا۔ وہ چھٹیوں میں علیزہ کو اپنے پاس آسٹریلیا بلوا لیا کرتی تھیں۔ چھٹیاں گزارنے کے بعد علیزہ واپس پاکستان آجایا کرتی تھی۔ پچھلے کئی سالوں سے گرمیوں کی چھٹیوں میں اس کا یہی معمول تھا۔
اس کی ممی اور پاپا بہت پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ شاید ان میں سے کسی کو بھی اپنی سابقہ زندگی کا خیال بھی نہیں آتا تھا۔ وہ ہر بار ان سے ملنے کے بعد سوچا کرتی تھی کہ اس کے بغیر بھی وہ دونوں بہت خوش تھے شاید ان دونوں کو کبھی اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی ہو گی اور وہ صرف فرض نبھانے کے لئے اسے اپنے پاس بلاتے ہوں گے۔ ماں باپ سے ملنے کے لئے وہ جتنی بے تاب رہی تھی۔ ان سے ملنے کے بعد اس کی بے چینی اور مایوسی بھی اتنی بے چین ہو جاتی تھی۔
٭٭٭
وہ جس وقت دوبارہ بیدار ہوئی تھی اس وقت شام ہو رہی تھی۔ اپنا بیگ کھول کر اس نے کپڑے نکالے تھے اور نہانے کے لئے وہ باتھ روم میں چلی گئی تھی۔
آدھ گھنٹہ کے بعد وہ تیار ہو کر لاؤنج میں آئی تھی، وہاں کوئی نہیں تھا۔ کچھ سوچ کر وہ باہر لان میں نکل آئی تو آنٹی شمامہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔ طلحہ سائیکل چلا رہا تھا اور تانیہ آنٹی کے ساتھ بیٹھی ہو ئی تھی۔
وہ آج یہاں آنے کے بعد ابھی تانیہ سے نہیں ملی تھی۔ پچھلی بار چار سال پہلے وہ یہاں آئی تھی تو تانیہ صرف چار سال کی تھی۔ وہ چلتی ہوئی ان کے پاس آگئی۔ آنٹی شمامہ نے تانیہ سے اس کا تعارف کروایاتھا۔ علیزہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تھا اور تانیہ نے کچھ شرماتے ہوئے ہاتھ ملا لیا۔ وہ کرسی کھینچ کر ان کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔ کچھ دیر تک تینوں خاموش رہے تھے پھر علیزہ نے پوچھا
”انکل منان ابھی واپس نہیں آئے؟”
”نہیں، وہ تو نو بجے کے قریب آتے ہیں۔”
ایک با رپھر خاموشی چھا گئی اور علیزہ کی طرح شاید آنٹی شمامہ بھی اسی الجھن میں گرفتار تھیں کہ اس سے کیا بات کی جائے۔ ایک بار پھر علیزہ نے ہی پہل کی تھی۔
”پاپا کب تک آئیں گے؟”
”وہ تمہاری آنٹی کو لینے گئے ہیں اور میرا خیال ہے ۔کچھ دیر تک آ جائیں گے۔”
آنٹی نے اسے بتایا۔
”دادا ابو کہاں گئے ہیں؟”
”پاپا گالف کھیلنے گئے ہوئے ہیں وہ بھی آنے والے ہی ہوں گے !”
علیزہ ایک بار پھر اگلے سوال کی تلاش میں سرگرداں تھی مگر اس بار آنٹی شمامہ نے اس کی یہ مشکل حل کر دی تھی۔
”کراچی کیسا لگا؟”
فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ صبح ائیر پورٹ سے گھر تک دیکھے جانے والے کراچی کے بارے میں وہ کیا تبصرہ کر سکتی تھی ۔