”کہاں؟”
”میرے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں ، اب تم اس کو جگا نے مت پہنچ جانا۔”
”نہیں نانو! میں کیوں اسے جگاؤں گی؟”
وہ کچھ شرمندہ ہو ئی تھی۔
”ویسے وہ کب اٹھے گا؟”
کچھ دیر بعد اس نے پوچھا تھا۔
”پتہ نہیں لیکن میرا خیال ہے لنچ تک اٹھ ہی جائے گا۔ اسی لئے میں لنچ پر اس کے لئے خاص طور پر ڈشز تیار کر وا رہی ہوں۔”
نانو نے اسے بتایاتھا۔
”یونیورسٹی کا ٹائم تو نکل گیا ہے، اب تم منہ ہاتھ دھو لو ، کپڑے چینج کرو اور آکر کچھ کھالو۔”
نانو نے اس سے کہاتھا۔ وہ سر ہلاتی ہوئی کچھ مسرور سی اپنے کمرے میں آگئی تھی۔
پندرہ منٹ میں وہ نہا دھو کر وہ دوبارہ کچن میں گئی تھی۔
”نانو! میں اب لنچ ہی کروں گی ، ابھی کچھ کھالیا تو پھربھوک نہیں رہے گی۔”
اس نے آتے ہی اعلان کیا تھا۔
”ٹھیک ہے مت کھاؤ۔”
نانو نے اصرار نہیں کیاتھا۔
”آپ نے عمر کے ساتھ باتیں کی تھیں؟”
اس نے بڑی دلچسپی سے پوچھاتھا۔
”نہیں!”
”کیوں؟”
”بھئی کیا باتیں کرتی ، ساڑھے چار بجے تو وہ بے چارہ آیا تھا اور میں اس وقت اس سے کیا باتیں لے کر بیٹھ جاتی۔”
نانو کسٹرڈ کی گارنشنگ کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
”کیسا لگ رہا تھا؟”
علیزہ نے اشتیاق سے پوچھاتھا۔
” He has always been handsome!”(وہ ہمیشہ سے ہینڈسم ہے ۔)
نانو نے فخریہ انداز میں کہاتھا۔
”نانو میں اس لئے پوچھ رہی تھی کہ وہ پہلے سے کچھ بدلا ہوا ہے یا نہیں۔”
”علیزہ !ابھی اٹھ جائے گا تو دیکھ لینا کہ بدلا ہے یا نہیں!”
نانو نے مسکراتے ہوئے کہاتھا۔
*****