ناول پڑھتے ہوئے اس نے سوچنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اس وقت کہاں ہو گا اور کیا کر رہا ہو گا۔
”وہ جہاں بھی ہو گا ، سو رہا ہو گا۔”
فوراً اس کے ذہن میں ابھراتھا۔
”اور یہاں پر لوگ اس کے انتظار میں جا گ رہے ہیں۔”
اس کی خفگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔ ناول پڑ ھتے ہوئے اسے اپنی آنکھیں بوجھل ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ آنکھوں کو بند کر کے اس نے آنکھوں کو کچھ آ رام پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ دوبارہ آنکھیں کھولنے کی اسے کوشش ہی نہیں کرنی پڑی تھی۔ وہ سو چکی تھی۔
جس وقت دوبارہ اس کی آنکھ کھلی تھی تو کمرے میں سورج کی روشنی پھیل چکی تھی۔ آنکھیں کھول کر وہ کچھ دیر تک وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ ہے کہاں ؟ پھر یک دم وہ جان گئی تھی کہ وہ کہاں ہے۔ اسے حیرانی ہوئی تھی کہ وہ وہاں کیسے سو گئی تھی۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ سونے سے پہلے کیا کر رہی تھی، اسے یاد آ گیا وہ ناول پڑھ رہی تھی۔
”اور پھر مجھے نیند آگئی ہو گی۔”
اس کی نظر سامنے دیوار پر لگے ہوئے وال کلاک پر پڑی تھی، ساڑھے دس بجنے والے تھے اور وہ ہکا بکا رہگئی تھی۔
”میں اتنی دیر تک سوتی رہی۔”
وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔
” نانو نے یہ سوچ کر مجھے اٹھانے کی کوشش نہیں کی ہو گی کہ میں رات کو دیر سے سوئی تھی، اب اپنی نیند پوری کر لوں۔”
اس نے سوچا تھا ، بائیں ہاتھ سے جماہی روکتے ہوئے اس نے اپنی ٹانگوں سے کمبل ہٹانا چاہا ، اور ایک بار پھر رک گئی تھی۔ اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ کیا رات کو اس نے اپنے اوپر کمبل لیا تھا۔ اسے یاد تھا کہ جس وقت وہ ناول پڑھ رہی تھی اس وقت اس نے کمبل نہیں اوڑھا تھا۔
”ہو سکتا ہے نیند میں لے لیا ہو۔”
اس نے سوچاتھا۔ کمبل ہٹانے کے بعد اس نے بیڈ پر ناول دیکھنے کی کوشش کی تھی، ناول بیڈ پر نہیں نظر آیا تھا۔ اس نے نیچے کارپٹ پر دیکھا۔ ناول وہاں بھی گرا نہیں تھا۔ وہ کچھ الجھ گئی تھی۔ ناول کو وہیں ہونا چاہئے تھا۔ اس نے گردن موڑ کر سائیڈ ٹیبل پر دیکھا ، اور کچھ دیر تک وہ اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔ ناول کو وہاں ہونا چاہئے تھا۔ اسے یاد ہی نہیں تھا کہ اس نے ناول وہاں رکھا تھا۔ ، ہو سکتا ہے کہ میرے سونے کے بعد نانو وہاں آئی ہوں اور ناول اٹھا کر یہاں رکھ دیا ہو۔ اسے بالآخر خیال آیا اور وہ کچھ شرمندہ سی ہو گئی۔
”پتہ نہیں میرے یہاں ہونے پر نانو نے کیا سوچا ہو گا؟اور اب مجھے کیا بہانہ کر نا چاہئے ؟”
کمبل تہہ کرتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی۔ کمبل تہہ کرنے کے بعد اس نے سوئچ پینل کو دیکھا۔ سارے سوئچز آف تھے ، سٹیریو بھی آف کر دیا گیا تھا اور اب تو اس بات میں کوئی شک ہی نہیں رہ گیا تھا کہ ، نانو وہاں آئی تھیں اس نے بیڈ کی چادر ٹھیک کی اور اپنا دوپٹہ اٹھا کر کمرے سے نکلنے لگی تھی کہ جب اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی تھی وہ ساکت ہو گئی تھی، وہاں ایک والٹ اور رسٹ واچ پڑی تھی۔ وہ بے یقینی سے ان چیزوں کو دیکھتی رہی تھی پھر اس نے کمرے کا تفصیلی جائزہ لیا کمرے میں اور کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر خیال آنے پر وہ لپک کر ڈریسنگ روم کی طرف گئی اور دروازہ کھولتے ہی اس کے لبوں پر ایک مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔ وہاں دو بھاری بھرکم سوٹ کیس پڑے ہوئے تھے۔
وہ تقریباً بھا گتی ہوئی کمرے سے باہر آئی تھی، نانو کو آوازیں دیتے ہوئے لاؤنج میں آ گئی۔
”ادھر کچن میں ہوں علیزہ! کیا ہو گیا ہے؟”
نانو کی آواز اسے سنائی دی، وہ کچن کی طرف چلی گئی۔
نانو سلاد بنا رہی تھیں۔
”نانو ! عمر آ گیا ہے؟”
نانو نے اپنی مسکراہٹ چھپا لی تھی۔
”نہیں تم سے کس نے کہا ؟”
انہوں نے انجان بنتے ہوئے کہا۔
علیزہ نے ان کی مسکراہٹ دیکھ لی تھی۔
”نانو ! پلیز ،جھوٹ نہ بولیں عمر آگیا ہے۔ مجھے پتہ ہے۔”
وہ کرسی کھینچ کر ان کے پاس بیٹھ گئی۔
”ہاں آ گیا ہے صبح ساڑھے چار بجے آیا ہے!”
”مگر اس کی تو فلائیٹ تو کینسل ہو گئی تھی۔”
”ہاں ! مگر وہ اس فلائیٹ سے نہیں آیا۔ اور تم نے یہ کیا بے وقوفی کی۔ سارا دن کمرہ تیار کرنے کے بعد خود وہاں جا کر سو گئیں۔”
نانو نے اسے ڈانٹنا شروع کر دیا۔
”وہ بے چارہ تھکا ہوا تھا۔ اپنے کمرے میں گیا تو وہاں تم سوئی ہوئی تھیں۔ وہ واپس آگیا، میں تمہیں جگانا چاہتی تھی مگر اس نے منع کر دیا اندر جانے سے۔ اس نے کہا کہ وہ کہیں اور سو جائے گا۔ میں نے اسے ایک کمرہ کھول دیا مگر کمبل وغیرہ سارے اسٹور میں تھے پھر میں نے اسے اپنا کمبل دے دیا اور خود تمہارے کمرے سے کمبل لے آئی۔”
نانو سلاد بناتے ہوئے اسے بتا رہی تھیں۔
”میں ویسے ہی اس کے کمرے میں گئی تھی پھر پتہ نہیں، کب مجھے نیند آگئی۔ مجھے کیا پتہ تھا وہ آج ہی آجائے گا، لیکن وہ آیا کیسے ؟”
“ٹیکسی پر آیا ہے!”
”اب کہاں ہے؟”
”ابھی سویا ہوا ہے!”