”علیزہ ! میں یہاں سے ناراض ہو کر نہیں گیا۔ اپنی خوشی سے گیا ہوں اور اکثر آتا جاتا رہوں گا۔”
اس نے نرمی سے کہا۔
”پلیز آپ واپس آجائیں……جب تک آپ واپس نہیں آئیں گے نانو کا موڈ ٹھیک نہیں ہوگا۔ آپ سمجھتے نہیں ہیں وہ۔۔۔۔۔”
عمر نے اسے کچھ الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا وہ بے حد پریشان نظر آرہی تھی۔
”میں دوبارہ کوئی ایسی حرکت نہیں کروں گی جس سے آپ کو شکایت ہو۔” وہ اس سے نظریں نہیں ملا رہی تھی۔
”علیزہ ! میں واپس نہیں آسکتا۔” اس نے مایوسی سے عمرکو دیکھاتھا۔
”جہاں تک گرینی کی بات ہے تو وہ تم سے بہت محبت کرتی ہیں۔ وہ تم سے ناراض نہیں ہو سکتیں۔”
”ہاں ! وہ تو مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں، مگر پھر بھی یہ گھر میرا نہیں ہے میرا تواب کوئی گھر ہے ہی نہیں۔”
عمر نے اسے اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھتے ہوئے دیکھا تھا اور وہ جان گیا تھا۔ وہ کیا چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ چند لمحوں تک وہ اسے حیران پریشان آنکھوں پر ہاتھ رکھے سسکیاں بھرتے دیکھتا رہا، پھر وہ اس کے قریب آگیا تھا۔
”علیزہ ! کیا ہوا ،رونے والی کیا بات ہے؟”
اس نے بچوں کی طرح اسے چمکارتے ہوئے اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ مگر چپ ہونے کی بجائے وہ یکدم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ وہ ساکت کھڑا اسے دیکھتا رہاتھا پھر اس نے کندھوں سے پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھا دیاتھا۔
”ٹھیک ہے میں واپس آجاتا ہوں لیکن تم یہ رونا بند کردو۔”
علیزہ نے اسے کہتے سناتھا مگر وہ خود سمجھ نہیں پارہی تھی کہ وہ اپنے آنسوؤں پر قابو کیوں نہیں پا رہی اسے نہیں پتاوہ کتنی دیر روتی رہی تھی۔اس نے دوبارہ عمر کی آواز نہیں سنی تھی۔ کافی دیر کے بعد جب اس کے آنسوتھمے تو اس نے آہستہ سے چہرہ اوپر اٹھایا۔ اس کے بالکل سامنے ہی عمر ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اندازہ کر سکتی تھی کہ اس وقت اس کا چہرہ کیا منظر پیش کر رہا ہو گا۔ سو جی ہو ئی آنکھیں ، گیلا چہرہ، سرخ ناک اور اس میں سے بہتا ہو ا پانی۔
اس سے زیادہ بری وہ اور کسی حالت میں بھی نہیں لگ سکتی تھی۔ اس نے سر نیچے جھکا کر ٹی شرٹ کی آستینوں سے چہرہ صاف کرنے کی کوشش کی پھر نامحسوس انداز میں ٹی شرٹ کے کونے سے ناک سے بہتا ہوا پانی صاف کرنا چاہا تھا، اور اسی وقت ٹشو کا ڈبہ اس کے سامنے آ گیا۔ کچھ جھجک کے بعد اس نے دو ٹشوز نکال لئے تھے۔
”پانی چاہئے ؟”
بہت نرم آواز میں اس سے پوچھا گیا۔
اور اس کا سر اثبات میں ہل گیا۔ جب تک اس نے ٹشو سے اپنے چہرے کو خشک کیا وہ ایک گلاس میں پانی لے کر آگیا۔ اس نے پانی پینے کے بعد اسی خاموشی سے گلا س واپس اسے تھما دیا تھا۔
”رونا کس بات پر آیا تھا؟”وہ اب اس کے پاس بیٹھ کر اس سے پوچھ رہا تھا۔
علیزہ کو اب شرمندگی محسوس ہونے لگی تھی۔ اسے رونا نہیں چاہئے تھاکم از کم عمر کے سامنے تو بالکل بھی نہیں۔
”کراچی میں کوئی بات ہوئی ہے کیا؟”
علیزہ نے خوف کے عالم میں سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ بلا کا قیافہ شناس تھا۔ وہ بڑے غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ علیزہ کا دل چاہا اسے بتا دے کہ اس کے پاپا نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا مگر وہ ایک بار پھر رک گئی۔ اس کی آنکھیں ایک بار پھر دھندلانے لگی تھیں۔اس بار عمر نے بڑی نرمی سے اپنی انگلیوں سے آنسو پونچھ دیے تھے۔
”رونے سے کیا ہو گا علیزہ ! زندگی میں تو بہت کچھ فیس کرنا پڑ تا ہے۔ ہر بار آنسو پرابلم حل نہیں کرتے۔”
اس کا خیا ل تھا۔ عمر اس سے پوچھے گا کہ وہاں ایسا کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ اتنی دل گرفتہ تھی، مگر عمر نے مزید کوئی سوال نہیں کیاتھا۔ اس کے بجائے نرم لہجے میں ایک نصیحت کی گئی تھی۔
”چلو میں تم سے وعدہ کرتا ہوں۔ میرے پاس جب بھی روپے آئے،میں تمہیں ایک گھر ضرور گفٹ کروں گا۔” علیزہ نے حیرانی سے عمر کو دیکھاتھا۔
”آئی ایم سیریس!” وہ علیزہ کی حیرانی کو بھانپ گیاتھا۔
”مجھے گھر نہیں چاہئے۔”
”تو پھر کیا چاہئے ؟”
”کچھ بھی نہیں!”
وہ ابھی بھی اتنی ہی ملول نظر آرہی تھی۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
”آپ پھر یہاں رہیں گے نا!”
اس نے اچا نک سر اٹھا کر عمر سے پوچھاتھا۔
”ہاں ! رہوں گا۔”
عمر کو اس کے چہرے پر کچھ اطمینان نظر آیاتھا۔وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
”پھر یہ چیزیں واپس رکھ دیں۔”
اس نے بیگ کی طرف اشارہ کیا۔
”میں رکھ دوں گا لیکن آج تو مجھے جانا ہی ہو گا کیونکہ میرا باقی سامان تو وہیں ہے۔”
اس نے کہاتھا۔
وہ اٹھ کر دوبارہ اپنے بیگ کی طرف چلا گیاتھا۔ اب وہ بیگ میں سے چیزیں واپس نکال رہا تھا۔ علیزہ نے کچھ مطمئن ہو کر اسے دیکھا تھا اور کمرے سے نکلنے کے لئے مڑ گئی۔ دروازہ کے ہینڈل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کی نظر کمرے کے کونے میں پڑی ہوئی ایک چیز پر پڑی تھی اور وہ ٹھٹھک کر رہ گئی۔
***