وہ نانو کے پیچھے ان کے بیڈ روم میں داخل ہو گئی تھی۔
”بیٹھو۔”
نانو نے اندر داخل ہوتے ہی اس سے کہا تھا۔ وہ خاموشی سے صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔ نانو خود اپنے بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
”تم نے عمر سے کیا کہا تھا؟”
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد انہوں نے اسی اکھڑے ہوئے لہجے میں اس سے پوچھا تھا۔
”میں نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا ۔یہ سب کچھ عمر ہی کا کیا دھرا ہے۔” اس نے نانو کے سوال پر سوچا تھا۔
”میں سمجھی نہیں نانو!”
”میں نے اتنا مشکل سوال تو نہیں پوچھا۔ صرف یہی پوچھا ہے کہ تم نے عمر کو کیا کہا تھا۔”
”نانو کس بارے میں؟”
”اس گھر سے چلے جانے کے بارے میں !”
علیزہ بالکل ساکت ہو کر رہ گئی۔
”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں نانو ، میں نے اس سے کیا کہا ہے؟”
”تمہاری وجہ سے وہ گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ میں نے اس سے کیا کہا ہے؟”
اس بار نانو کا لہجہ پہلے سے بھی زیادہ تلخ تھا۔
وہ حیرانی سے ان کاچہرہ دیکھتی رہی۔
”نانو میں نے اس سے گھر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا، آئی سوئیر! میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔”
وہ روہانسی ہو گئی تھی۔
”تو پھر وہ کسی وجہ کے بغیر ہی گھر چھوڑ کر چلا گیا ہے۔”
اس با ر نانو کا لہجہ طنزیہ تھا۔
”مجھے نہیں پتہ کہ وہ کیوں گھر چھوڑ گیا ہے۔، بٹ بلیو می نانو! کہ میں نے اسے گھر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا۔ میں آخر اس سے ایسی بات کیوں کہتی۔”
وہ اپنی صفائی دینے کی کوشش کر رہی تھی۔
“تم نے اسے گھر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا مگر تم نے ایسے حالات پیدا کردئیے کہ وہ یہاں نہیں رہے۔”
وہ نانو کے اس الزام پر ہکا بکا رہ گئی۔
”نانو میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا!”
”میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا علیزہ کہ تم اس طرح کی حرکتیں کرو گی۔ تم نے میری ساری عمر کی محنت پر پانی پھیر دیا ہے۔”
”نانو پلیز ! آپ اس طرح مت کہیں۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کی وجہ سے عمر گھر چھوڑ کر چلا گیا ہو۔”
”علیزہ ! میں نے اس سے بات کی تھی ، تمہارا کیا مطلب ہے، میں نے اسے ایسے ہی جانے دیا ہے، اسی نے مجھے بتایا تھا کہ تمہیں اس کا یہاں رہنا پسند نہیں ہے اور وہ یہاں رہ کر خوامخواہ کی ٹینشن کھڑی نہیں کرنا چاہتا، اور میں یہی جاننا چاہتی ہوں کہ تمہیں اس کے یہاں رہنے پر کیا اعتراض ہے؟”
نانو نے تیز آواز میں بات کرتے ہوئے کہا تھا۔علیزہ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”نانو وہ جھوٹ بولتا ہے۔”
”وہ جھوٹا ہے اور تم؟”
”نانو ! اس نے آپ سے ایک بات کہہ دی اور آپ نے سوچے سمجھے بغیر اس کی بات کا یقین کر لیا۔ اب میں جب ایکسپلی نیشن دے رہی ہوں تو آپ میری بات ہی سننے کو تیار نہیں ہیں۔”
وہ بالکل روہانسی ہو رہی تھی۔
”آپ کو عمر کی ہر جھوٹی بات پر یقین آجاتا ہے مگر میری بات پر یقین نہیں ہے۔”
”عمر جھوٹ نہیں بولتا!”
نانو کے جملے نے اس کی رنجیدگی میں اضافہ کر دیاتھا۔
”اور میں……آپ سمجھتی ہیں کہ میں جھوٹ بولتی ہوں؟”
”مجھے تم سے فضول بحث نہیں کرنی۔ میں صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ تمہیں عمر کا یہاں رہنا کیوں پسند نہیں ہے؟”
”نانو ! میں نے آپ سے کتنی بار کہا ہے کہ مجھے اس کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اسے ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ، یہاں تو بہت سے لوگ آتے اور رہتے ہیں ، کیا میں نے پہلے کبھی کسی کے رہنے پر اعتراض کیا ہے پھر اب عمر کے رہنے پر کیوں کروں گی۔”
اس نے ایک کے بعد ایک وضاحت دیتے ہوئے کہاتھا۔
”آپ اسے دوبارہ واپس بلا لیں۔”
نانو کچھ دیر اسے دیکھتی رہی تھیں۔
”وہ اب یہاں واپس نہیں آئے گا۔ یہ بات صاف صاف کہہ کر گیا ہے ، کم از کم رہنے کے لئے تو دوبارہ واپس نہیں آئے گا۔”
”آپ بتائیں نانو! اس میں میرا کیا قصور ہے۔ وہ اپنی مرضی سے یہاں ایا۔ اپنی مرضی سے واپس یہاں سے چلا گیا۔ اس میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔”
”اگر تم اس کے ساتھ وہ سلوک نہ کرتیں جو تم نے کیا تو شاید وہ اس طرح سے یہاں سے نہ جاتا۔” نانو ابھی بھی اپنی بات پر جمی ہوئی تھیں۔
”میں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ نانو! میں نے تو اس کے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں کیا۔”
”علیزہ ! تم نے مجھے بہت مایوس کیا ہے، مجھے کم از کم تم سے اس طرح کے رویے کی توقع نہیں تھی۔ اتنے سالوں سے میں اتنی محبت سے تمہاری پرورش کرتی رہی ہوں اور تم نے چند ہفتے میں اس ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ کیا سوچتا ہو گا عمر کہ میں نے تمہیں اس طرح کی تربیت دی ہے اور جب وہ جا کر اپنے باپ سے اس بات کا ذکر کرے گا تو جہانگیر میرے اور تمہارے بارے میں کیا سوچے گا۔ یہ گھر صرف تمہارا نہیں، ان سب کا بھی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ یہاں بہت کم آکر رہتے ہیں مگر نہ رہنے سے اس گھر پر ان کا حق تو ختم نہیں ہو جاتا۔ عمر ہو یا تمہارا کوئی اور کزن، تمہیں کوئی اختیار حاصل نہیں کہ تم ان کے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض کر ویا اپنی ناپسندیدگی کا اظہار اپنے رویے سے کرو۔”
وہ چپ چاپ نانو کی باتیں سنتی رہی تھی۔ نانو بہت دفعہ اسے ڈانٹ دیا کرتی تھیں مگر آج ان کا رویہ بہت زیادہ سخت تھا۔ جس طرح آج وہ اس سے بات کر رہی تھیں۔اس طرح سے انہوں نے پہلے کبھی نہیں کی تھی۔
”عمر کے ساتھ تو خیر جو کچھ تم نے کیا سو کیا مگر آئندہ یہ حرکت پھر کبھی مت کرنا۔ تم اب بچی نہیں ہو جسے ساری باتیں سمجھانا پڑیں۔ بڑی ہو چکی ہو، ہر چیز سمجھ سکتی ہو۔ بہتر ہے کہ اپنے رویے کو ٹھیک کرو۔اب جاؤ یہاں سے۔ مجھے کچھ کام ہے۔”
انہوں نے ایک لمبے چوڑے وعظ کے بعد بات ختم کردی وہ شاک کی حالت میں ان کے بیڈ روم سے نکل کر آئی تھی۔
”سارا قصور صرف میرا ہے اور کسی کا نہیں۔ عمر کا بھی نہیں۔ اس کے یہاں سے چلے جانے کی وجہ سے میری ہر خوبی خامی میں تبدیل ہو گئی ہے۔ نانو کو میں بد تمیز لگنے لگی ہوں۔ عمر کی نانو کو پرواہ ہے ،میری نہیں!”
وہ اپنے بیڈ روم کی طرف جاتے ہوئے کچھ اور ہی دل گرفتہ ہو گئی تھی۔
”میری کسی کو ضرورت ہی نہیں ہے۔ ممی کو نہیں، پاپا کو نہیں، نانو کو بھی نہیں، ضرورت تو عمر جیسے بندے کی ہوتی ہے۔ جس کی دنیا میں کوئی ویلیو ہو۔”
اس کی رنجیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
”کس قدر فراڈ انسان ہے۔ مجھ سے اور طرح کی باتیں کرتا تھا اور میرے جاتے ہی یہاں چکر چلانے شروع کر دئیے مجھے اپنا دوست کہہ کراس نے میرے ساتھ ایسے کیا۔”