نانو نے عمر سے بات کرتے کرتے اسے مخاطب کیاتھا۔ وہ ان کے اس سوال پر کچھ شرمندہ ہو گئی تھی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ نانو عمر کے سامنے ہی یہ بات کہہ دیں گی۔ عمر اب اس کی طرف متوجہ تھا۔
”کیوں علیزہ !کیا میں کچھ بدلا ہوں ؟” اب وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
”پتہ نہیں ،میں اندازہ نہیں کر سکتی۔” اس نے کچھ شرمندہ ہوتے ہوئے کہا تھا۔
”تمہارا ماسٹرز کیسا جارہا ہے ؟
اس بار اس نے ایک اور سوال کیاتھا۔
”ٹھیک جا رہا ہے!”
”کون سا سبجیکٹ ہے تمہارے پاس؟”
”سوشیالوجی!”
”مگر پہلے تو تم اکنامکس میں انٹرسٹڈ تھیں، یہ ایک دم سوشیالوجی کیسے؟”
وہ بہت سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
”میں ایک این جی او کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہوں اور سوشیالوجی پڑھنے سے مجھے بہت سی بنیادی باتوں کا پتہ چل جائے گا اور مجھے اپنے کام میں زیادہ پرابلمز نہیں ہوں گے۔”
اس نے دھیمی آواز میں وضاحت کی۔
ڈائننگ ٹیبل پر اب کھانا لگایا جا رہا تھا۔
”اوہ…! یعنی مس علیزہ سکندر سوشل ورک میں انٹرسٹڈ ہیں۔ این جی او کے ساتھ کام کر نا چاہتی ہیں۔ بیگمات والے کام ، نیوز پیپر میں تصویریں لگوانے کے لئے، سوشل ورک، مختلف مقاصد کے لئے ٹکٹ خریدے بغیر ہی Charity Walks میں شرکت، غریب لڑکیوں کے جہیز کے لئے ہزاروں روپیہ روز خرچ کرنے والوں سے دس دس روپیہ کے ٹکٹ کے ذریعہ فنڈ اکٹھا کرنا لیکن مختلف ڈونر ایجنسیز سے ملنے والے فنڈز سے پلاٹس خرید لینا۔ مختلف مقاصد کے لئے فنڈز اکٹھے کرنے کے لئے علی حیدر اور حدیقہ کیانی کے ساتھ کنسرٹس ارینج کرنا اور وہاں اپنی پوری فیملی کے ساتھ ٹکٹ کے بغیر موجود ہونا۔ تو آپ بھی کچھ اس قسم کے سوشل ورک میں انوالو ہونا چاہ رہی ہیں؟”
وہ اب ایک گلاس میں پانی ڈال رہا تھا۔ علیزہ کچھ بول نہیں سکی۔ اسے عمر جہانگیر سے ایسے تبصرے کی توقع نہیں تھی۔
”عمر ایسی باتیں تو نہیں کرتا تھا اور مجھ سے ……مجھ سے تو کبھی بھی نہیں۔”
وہ ایک شاک کے عالم میں سوچ رہی تھی۔ وہ اب پانی پی رہا تھا۔
نانو شاید علیزہ کے تاثرات سے بہت کچھ سمجھ گئی تھیں اس لئے انہوں نے بات کا موضوع بدل دیاتھا۔
”علیزہ تو اس قسم کے کام نہیں کر سکتی تم بتاؤ تمہیں فارن سروس چھوڑنے کی کیا سوجھی ہے؟”
عمر نے پانی پی کر گلاس ٹیبل پر رکھ دیا تھا ایک بار پھر وہ علیزہ کی طرف متوجہ تھا۔
”ڈونر ایجنسیز اور این جی اوز کے بارے میں بہت سی رپورٹس میری نظروں سے گزرتی ہیں۔ یہ سب بیورو کریٹس اور سیاست دانوں کی بیگمات کے ایڈونچر اور وقت گزاری ہوتی ہے۔ علیزہ ! تم تو کسی بیورو کریٹ یا سیاست دان کی بیوی بننے نہیں جارہی۔ پھر تم ایسی ایکٹیویٹیز میں کیوں انٹرسٹڈ ہورہی ہو؟”
اس بار اس کالہجہ نرم مگر الفاظ ویسے ہی تیکھے تھے۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی تھی۔ عمر اب نانو کے ساتھ بات کر رہا تھا۔
”میں اسلام آباد جارہا ہوں۔ وہاں سے شاید کل واپسی ہو!”
نانو قدرے حیران ہوئی تھیں۔ ”کیوں اب اسلام آباد جانے کا ارادہ کیسے بن گیا ہے۔ ابھی تو صبح تم آئے ہو، آتے ہی اسلام آباد میں کون سی مصروفیت یاد آگئی ہے؟”
”اسلام آباد تو ابھی کافی چکر لگانے پڑیں گے۔ فارن آفس میں کچھ کام نپٹانے ہیں پھر انٹریر منسٹری کا بھی ایک چکر لگانا ہے۔”
اس نے پلیٹ اپنے آگے کرتے ہوئے کہاتھا۔
”میں نے تم سے پوچھا تھا کہ فارن سروس کیوں چھوڑ دی تم نے؟”
نانو کو اچانک یاد آگیا۔
”بس میرا دل نہیں لگا اس میں!”
اس نے سلاد پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہاتھا۔
‘تین چار سال بعد تمہیں پتا چلا کہ تمہارا دل اس میں نہیں لگ رہا ۔ اگر دل نہیں لگ رہا تھا تو تمہیں پہلے ہی فارن سروس میں نہیں جانا چاہئے تھا۔” نانو نے اس سے کہا تھا۔
”فارن سروس کو فارن آفس میں کتی سروس کہتے ہیں۔”
علیزہ اس کے جملے پر ہکا بکا رہ گئی تھی۔ اس نے عمر کے منہ سے پہلی بار اس طرح کا کوئی لفظ سنا تھا۔
”یہ وہ سروس ہے کہ جس میں کام نہ کرکے گالیاں پڑتی ہیں اور کام کرکے زیادہ گالیاں۔”
”بکواس مت کرو تمہارا باپ بھی تو اسی سروس میں ہے۔ اس نے تو کبھی اس طرح کی بات بھی نہیں کی ۔”
نانونے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
”پاپا کی کیا بات ہے وہ جاب تھوڑا ہی کرتے ہیں۔ وہ تو عیش کرتے ہیں۔ میں تو جاب کرنے والوں کی بات کر رہا ہوں۔”
اس کے لہجہ میں طنز تھا۔
نانو نے اسے غور سے دیکھا تھا۔ وہ کھانا کھانے میں مصروف تھا۔
تمہارے اور جہانگیر کے درمیان اب کس بات پر جھگڑا ہوا ہے؟”