امربیل — قسط نمبر ۳

وہ کچن سے واپس لاؤنج میں آگئی تھی اور وہاں آکر اس نے شہلا کو اس کے موبائل پر کال کیا تھا۔
”ہیلو شہلا ! میں علیزہ ہوں۔” اس نے رابطہ قائم ہوتے ہی کہا تھا۔
”ہاں علیزہ! تم آج یونیورسٹی کیوں نہیں آئیں؟”
”نہیں، آج میں یونیورسٹی نہیں آؤں گی۔”
”کیوں بھئی کیا ہو ا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے ؟”
شہلا کی آواز میں تشویش تھی۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں ، بس دیر سے جاگی ہوں۔ یونیورسٹی کا ٹائم نکل گیا۔”




”رات کو پڑھتی رہی ہو؟”
”نہیں یار! پڑھتی کہاں رہی ہوں ، تمہیں بتایا تو تھا کہ عمر آرہا ہے اور ساری رات میں اور نانواسی کا انتظار کرتی رہیں۔”
”اچھا تو کیا وہ آگیا ہے؟”
”ہاں بہت لیٹ آیا تھا۔”
”کیا حال ہے اس کا؟”
”ابھی تو میری اس سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ میں تو انتظار کرتے ہوئے سو گئی تھی۔ وہ میرے سونے کے بعد ہی آیا اور ابھی میں جاگی ہوں تو وہ سو رہا ہے۔ لنچ سے کچھ دیر پہلے اٹھے گا تو بات ہو گی۔ میں نے تمہیں اس لئے فون کیا تھا تا کہ تمہیں انفارم کر دوں۔ ورنہ تم خوامخواہ پریشان ہوتی رہتیں۔”علیزہ نے وضاحت کی تھی۔
”کل تو یونیورسٹی آؤ گی نا؟”
”ہاں ! کل تو ضرور آؤں گی، خدا حافظ!”
”خدا حافظ۔” شہلا نے دوسری طرف سے موبائل آف کر دیا تھا۔ شہلا کو فون کرنے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی اور اس نے دو دن پہلے ملنے والی ایک اسائمنٹ پر کام کرنا شروع کر دیا تھا مگر بار بار اس کا ذہن عمر کی جانب ہی جا رہا تھا۔ کسی نہ کسی طرح بارہ بجے تک وہ اس اسائنمنٹ کو لکھتی رہی تھی اور پھر اٹھ کر ایک بار پھر کچن میں آگئی۔
نانو شامی کبابوں کے لئے بنایاجانے والا مصالحہ چیک کر رہی تھیں۔ علیزہ نے بہت عرصہ کے بعد انہیں اس جوش و خروش کے ساتھ کچن میں کام کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ مسکراتی ہوئی باہر لان میں آگئی کچھ پھو ل اور شاخیں کاٹنے کے بعد وہ ایک بار پھر ڈائننگ روم میں آگئی تھی اور وہاں اس نے انہیں ڈائننگ ٹیبل پر پڑے ہوئے گل دان میں ارینج کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ ترتیب مکمل کر چکی تھی اور ٹیبل سے فالتو پھول اور شاخیں اکٹھی کر رہی تھی جب اس نے ڈائننگ روم میں وہی مخصوص مردانہ آواز سنی۔
”ہیلوعلیزہ ! ” وہ کچھ گڑ بڑا گئی تھی۔
ڈائننگ ٹیبل کی دوسری طرف ایک کرسی کی پشت پر وہ اپنا کوٹ لٹکا رہا تھا۔ وہ دم سادھے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اب ٹیبل پر اپنا موبائل اور سن گلاسز رکھ رہا تھا۔ گزرے ہوئے چند سالوں نے اس میں کچھ تبدیلیاں کر دی تھیں۔ اس کا ہیئرسٹا ئل بدل گیا تھا۔ سول سرونٹس کے ہیئرکٹ میں وہ بہت سوبر لگ رہاتھا۔ وائٹ شرٹ کے ساتھ نیلی ٹائی لگائے وہ بہت فارمل گیٹ اپ میں تھا۔ علیزہ نے ڈائننگ روم میں پھیلی ہوئی کلون کی مہک کو محسوس کرنے کی کوشش کی تھی۔وہ اپنا کلون تبدیل کر چکا تھا۔
”کیسی ہو تم؟”
وہ ایک بار پھر اس کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔ علیزہ نے اس کے چہرے پر بہت مدھم سی مسکراہٹ دیکھی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں؟”
علیزہ نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس سے پوچھاتھا۔
اور وہ ایک بار پھر جواباً مسکرا یاتھا۔
”Perfectly Alright.، (بالکل ٹھیک)گرینی کہاں ہیں؟”
اس نے اس کے سوال کا جواب دیتے ہی پوچھاتھا۔
”وہ کچن میں ہیں!”
اور وہ کچھ کہے بغیر کچن کی طرف چلا گیا۔
”کیا اسے مجھ سے صرف اتنی ہی بات کرنی تھی۔”
علیزہ نے ٹیبل پرسے شاخیں اٹھاتے ہوئے سوچاتھا۔ کچن میں سے اس کی آواز آ رہی تھی۔ وہ شاخیں اور پھول لے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
جب وہ واپس ڈائننگ میں آئی تو وہ ٹیبل پربیٹھا نیوز پیپر دیکھ رہا تھا۔ اس کے وہاں آنے پر بھی وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا۔ علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے وہاں رکے یا پھر کچن میں چلی جائے۔ چند سیکنڈز وہ اسی شش و پنج میں رہی تھی پھر کچن کی طرف بڑھ گئی تھی۔ نانو کچن سے باہر نکل رہی تھیں۔
”میں نے مرید سے کہہ دیا ہے وہ کھانا لگا دے گا۔ تم آجاؤ!”
انہوں نے اسے دیکھتے ہی کہاتھا۔ وہ ایک بار پھر ان کے ساتھ واپس ڈائننگ میں آ گئی تھی۔ اس بار عمر جہانگیر ان کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ اس نے نیوز پیپر کو بند کر کے ایک طرف ٹیبل پر رکھ دیاتھا اور وہ نانو کے ساتھ ٹیبل پر آکر بیٹھ گئی۔
”علیزہ مجھ سے صبح پوچھ رہی تھی کہ تم کیسے لگ رہے تھے، بدل تونہیں گئے ۔ میں نے اس سے کہا کہ تم خود ہی دیکھ لینا۔ اب بتاؤ علیزہ ! پہلے سے بدل گیا ہے یا ویسا ہی ہے؟”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۲

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۴

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!