”اس سیٹرڈے کو!”
اس نے باہر سڑک گھورتے ہوئے کہا تھا۔
”ہوں ! تو اس کا مطلب ہے کہ جمعرات کو تمہاری سیٹ بک کروا دینی چاہئے ۔کیونکہ جمعہ کو تم ریسٹ کر سکو گی۔ واپس جاکر اور پھر ہفتہ سے تم کو کالج جوائن کرنا ہو گا۔”
وہ چپ چاپ ان کی سیٹ کی پشت کو دیکھتی رہی تھی۔
”تو پاپا !ہم مری کب جائیں گے، آپ نے تو کہا تھا کہ ہم بدھ کو اسلام آباد چلے جائیں گے۔”
احسن نے سکندر کو یاد دہانی کروائی تھی۔
”ہاں ! بیٹا وہ پروگرام پہلے تھا اب تمہاری آپی آئی ہوئی ہیں، تو ظاہر ہے انہیں اکیلے چھوڑ کر تو نہیں جا سکتے نا۔”سکندر نے احسن سے کہا تھا۔
”تو ہم علیزہ آپی کو بھی اپنے ساتھ مری لے جاتے ہیں پھر تو کوئی بھی پرابلم نہیں ہو گا ۔”
احسن نے ایک ہی سیکنڈ میں حل پیش کر دیا تھا۔
”نہیں تمہاری آپی کی چھٹیاں ختم ہو رہی ہیں، انہیں کالج جانا ہے اور ہمیں تو مری میں کچھ دن لگ جائیں گے۔” غزالہ نے فوراً اپنے بیٹے کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”ایسا کرتے ہیں کہ سکندر آپ ہم لوگوں کو اسلام آباد بھجوادیں پھر آپ بعد میں آجائیں ۔”
”ہاں ! یہ ہو سکتا ہے۔ تو پھر ٹھیک ہے میں تم لوگوں کی سیٹیں بھی بک کروا دیتا ہوں۔”
سکندر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا۔
”پاپا آپ جمعرات کی بجائے میری کل ہی سیٹ بک کروا دیں۔”
اس نے مدھم سی آواز میں سکندر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔
”کیوں کل کی سیٹ کیوں؟”
سکندر نے جواباً اس سے پوچھا۔
”پاپا میں واپس جاکر تھوڑا پڑھنا چاہتی ہوں ، پوری چھٹیاں میں کچھ بھی نہیں پڑھ سکی، اور اب دو تین دن میں کتابوں کو پڑھنے کی کوشش کروں گی۔”
“نہیں علیزہ ! ابھی تم کل ہی تو آئی ہو، اور اتنی جلدی چلی جاؤ گی؟”
غزالہ نے بہت پیار بھرے انداز میں اس سے کہا تھا۔
”نانو اور نانا بھی مجھے بہت مس کر رہے ہوں گے۔ اس بار میں چھٹیوں میں ان کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزار سکی۔” اس نے ایک اور وجہ دی تھی۔
”ٹھیک ہے اگر تم ایسا ہی مناسب سمجھتی ہو تو ایسا ہی کر لیتے ہیں۔”
اس نے پاپا کو کہتے ہوئے سنا تھا ، انہوں نے اسے روکنے کی کوشش بالکل نہیں کی تھی۔ اس نے آنکھوں میں اترنے والی نمی کو ہونٹ بھینچ کر ضبط کیا۔
”پھر کل شام کی سیٹ بک کروا دیتا ہوں۔”
اگلی شام ائیر پورٹ کے لئے روانہ ہوتے ہوئے اس کے پاپا نے ایک بیگ اسے تھما دیا تھا۔ ”اس میں تمہارے لئے کچھ چیزیں ہیں۔ میں نے اور تمہاری آنٹی نے خریدی تھیں۔”
اس نے بجھے دل سے بیگ تھام لیا تھا۔ اس کا دل چاہا تھا، وہ ان سے کہے۔” مجھے صرف چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔”
”لاہور پہنچتے ہی مجھے فون کر دینا۔”
اس نے پاپا کو کہتے ہوئے سنا تھا۔ غزالہ نے آگے بڑھ کر ہمیشہ کی طرح اسے گلے سے لگا کر چوما تھا۔
”ٹیک کئیر!”
انہوں نے اس سے علیحدہ ہوتے ہوئے کہاتھا۔ وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔
ائیر پورٹ پر پہنچ کر اس نے نانو کو فون کیا تھا، اور اپنے آنے کی اطلاع دیتے ہوئے ڈرائیور کو بھیجنے کو کہا تھا، نانو کے کسی سوال سے بچنے کے لئے اس نے جلدی سے فون بند کر دیا۔
٭٭٭
”تمہیں تو ابھی بہت دن وہاں رہنا تھا اور اب دو ہی دن میں واپس آگئیں؟”
نانو نے اس کا استقبال کرتے ہی پہلا سوال کیا تھا۔ وہ کچھ حیران ہوئی تھی۔ نانو نے ہمیشہ کی طرح آتے ہی اسے گلے نہیں لگایا تھا۔
”ہاں ! بس میرا دل ہی نہیں لگا وہاں۔ پاپا تو بہت اصرار کر رہے تھے۔ کہ میں ابھی واپس نہ جاؤں ، وہ تو مجھے کچھ دن کے لئے مری لے جانا چاہ رہے تھے مگر میں وہاں بور ہوتی۔”
””ٹھیک ہے سو جاؤ۔” نانو یک دم اٹھ کر چلی گئی تھیں۔ وہ کچھ اور الجھ گئی تھی۔ نانو نے اس سے کھانے کا پوچھا تھا۔ نہ ہی نانا سے ملنے کے لئے کہا تھا بلکہ صرف ایک جملہ کہہ کر اٹھ گئی تھیں۔
وہ الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ اپنے بیڈ روم میں آگئی تھی۔ کپڑے بدلنے کے بعد وہ بیڈ پر لیٹ گئی تھی۔ اس وقت وہ واقعی سونا چاہتی تھی۔
٭٭٭
اگلے دن صبح جب وہ کچن میں آئی تھی، تو اس وقت دس بج رہے تھے۔ نانو اس وقت خانساماں کو کچھ ہدایات دے رہی تھی۔
”السلام علیکم! نانو !”
اس نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے نانو کو مخاطب کیاتھا۔
”وعلیکم السلام !”
انہوں نے اسے دیکھے بغیر ہی اس کے سلام کا جواب دیا تھا۔
”نانا کہاں ہیں نانو! رات تو میں ان سے مل ہی نہیں سکی۔”