شمامہ آنٹی نے گیٹ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تھا، وہ بھی گیٹ کی جانب متوجہ ہو گئی جہاں کھلے گیٹ سے ایک گاڑی اندر داخل ہو رہی تھی۔ گاڑی پورچ میں جا کر رکی تھی۔ پھر اس نے گاڑی میں سے اپنے پاپا اور ان کی بیوی کو اترتے دیکھا تھا۔ پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر اس کے چھوٹے دونوں بھائی گاڑی سے اتر رہے تھے۔
پاپا نے اپنی بیوی سے کوئی بات کی تھی اور وہ لان کی طرف متوجہ ہو گئی تھیں پھر علیزہ نے پاپا کے ساتھ انہیں اپنی جانب آتے دیکھا۔ ان کے قریب آنے پر علیزہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہو ئی تھی۔
پچھلی کئی بار کی طرح اس بار بھی انہوں نے اسے گلے لگا کر اس کا گال چوما تھا اور ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علیزہ کو ان کے انداز میں گرم جوشی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ سب بالکل فارمل تھا۔
”حسن ۔ احسن ! ادھر آؤ بھئی۔ علیزہ سے آکر ملو۔”
اس کی دوسری ممی اب اپنے بیٹوں کو آواز دے کر بلا رہی تھیں۔ وہ دونوں قریب آگئے تھے اور ان کے پیچھے موجود وجود نے علیزہ کو حیران کر دیا تھا۔ حسن اور احسن نے پاس آکر علیزہ سے ہاتھ ملائے تھے مگر اس کی نظریں اسی وجود پر مرکوز رہی تھیں۔ اس نے پاپا کو اس ننھی سی ساڑھے تین سالہ بچی کو اٹھاتے اور پھر اس کا گال چومتے دیکھا تھا۔
”علیزہ! یہ مریم ہے تمہاری چھوٹی بہن اور مریم! یہ تمہاری آپی ہیں۔”
پاپا نے اس سے کہا تھا۔ وہ دم سادھے مریم کے بجائے پاپا کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ساری خالی جگہیں اس کے وجود کے بغیر ہی پر کر لی گئی تھیں۔
”شاید اسی لئے پاپا نے مجھے مس نہیں کیا کیونکہ اب صرف میں ہی نہیں ان کی ایک اور بیٹی بھی ہے جو ہر وقت ان کے پاس ان کے سامنے رہتی ہے اور جسے وہ گود میں بھی اٹھاتے ہیں اور اس کا چہرہ بھی چومتے ہیں۔”
وہ کوشش کے باوجود چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں لا سکی صرف خاموشی سے پاپا اور مریم کو دیکھتی رہی جو ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش نظر آرہے تھے۔
”میرا خیال ہے۔ اب اندر چلنا چاہئے، یہاں تو بہت اندھیرا ہو گیا ہے۔” پاپا نے اچانک کہا تھا۔
‘ہاں ٹھیک ہے اندر چلتے ہیں۔” شمامہ آنٹی نے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔
وہ خاموشی سے ان سب کی پیروی کرنے لگی تھی۔
”پاپا کو اب کبھی میری ضرورت پڑے گی نہ ہی میں یاد آؤں گی کیونکہ اب ان کی فیملی مکمل ہو گئی ہے۔ میرے لئے اب ان کے پاس بھی کوئی جگہ نہیں ہے اور اہمیت تو شاید مریم کی آمد کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھی۔ وہ ایک مکمل فیملی ہے علیزہ کے بغیر بھی۔”
اس نے اپنے آگے چلتے ہوئے پاپا، اپنی دوسری ممی، حسن، احسن اور مریم کو دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔
”میں تو ان کے لئے ایک ایکسٹرا چیز ہوں اور پاپا نے مجھے مریم کے بارے میں بتانا ضروری نہیں سمجھا سب لوگوں نے خود ہی مجھے اپنی زندگی سے خارج کر دیا ہے۔ ممی نے، پاپا نے اور شاید… شاید نانا اور نانو نے بھی۔” اس کی افسردگی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا۔
”میرے یہاں آنے سے کسی کو فرق نہیں پڑا۔ سب اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں ۔پھر…پھر پاپا کو مجھے یہاں بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا یہ کافی نہیں تھا کہ وہ فون پر ہی مجھے جانے سے پہلے خدا حافظ کہہ دیتے۔” وہ اب رنجیدہ ہو رہی تھی۔
اس رات وہ بہت دیر تک جاگتی رہی تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ اگلے دن وہ بہت دیر سے اٹھی تھی، لیکن اس کے باوجود جب وہ اپنے کمرے سے باہر آئی تھی تو ابھی تک کوئی بھی بیدار نہیں ہوا تھا۔ وہ لاؤنج میں ٹی وی آن کرکے بیٹھ گئی تھی۔
دوپہر کو لنچ کرتے ہوئے پاپا نے اس سے کہا تھا۔
”علیزہ! آج ہم شام کو تمہیں سیر کروانے کے لئے لے جائیں گے۔ تم کل سے گھر پر ہی ہو۔ آج تمہیں ایک دو جگہوں پر لے کر جائیں گے۔ تم کہاں جانا چاہتی ہو؟”
انہوں نے بات کرتے کرتے اچانک اس سے پوچھا تھا۔
”کہیں بھی۔” اس نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے پھر تم شام کو تیار رہنا۔ ہم سب باہر چلیں گے۔”
انہوں نے کہا۔
اس کا دل چاہا کہ وہ ان سے کہے کہ وہ سب کے ساتھ نہیں صرف اکیلے ان کے ساتھ باہر جانا چاہتی ہے۔ ان کے ساتھ باتیں کرنا چاہتی ہے اور ان سے بہت سے سوال پوچھنا چاہتی ہے۔ مگر اس نے خاموشی سے سر جھکا دیا۔
شام کو پاپا، غزالہ آنٹی، حسن ، احسن اور مریم کے ساتھ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی وہ بے حد ناخوش تھی۔
”ایسا کرتے ہیں کہ پہلے کلفٹن چلتے ہیں۔ پھر کسی ریسٹورنٹ میں ڈنر کریں گے اس کے بعد جہاں علیزہ چاہے گی وہاں جائیں گے۔”
پاپا نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے پروگرام طے کیا تھا۔
”پاپا ! آپ جہاں مرضی لے جائیں۔”
اس نے پھر بات ان کی ہی مرضی پر چھوڑ دی۔
”پاپا ! ایسا کرتے ہیں کہ ڈنر کے بعد آپی کو اپنا گھر دکھانے چلیں گے۔ آپی ! آپ ہمارا گھر دیکھ کر حیران ہو جائیں گی۔”
احسن نے دوسرا جملہ اس سے کہا تھا۔ گاڑی میں یک دم خاموشی چھا گئی تھی۔ شاید پاپا احسن سے اس تجویز کی امید نہیں کر رہے تھے۔
”ٹھیک ہے نا پاپا ! آپی کو گھر دکھانے چلیں گے۔”
احسن نے پاپا کی خاموشی کو رضامندی سمجھتے ہوئے کہا تھا، علیزہ منتظر تھی کہ پاپا احسن کی بات کے جواب میں کچھ نہ کچھ کہیں گے مگر انہوں نے کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ خاموش رہے تھے۔
نوبجے ایک ریسٹورنٹ میں انہوں نے ڈنر کیا اور اس کے بعد جب وہ گاڑی میں بیٹھے تو احسن نے ایک بار پھر شور مچا دیا۔
”پاپا ! اب ہم اپنے گھر جائیں گے۔ آپی کو گھر دکھانا ہے نا۔”
”ہاں ! ٹھیک ہے وہیں جا رہے ہیں ، مجھے یاد ہے۔”
اس نے پاپا کی مدھم سی آواز سنی تھی۔
انہوں نے گاڑی کا رخ موڑتے ہوئے بیک ویو مرر سے علیزہ کو دیکھا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ سکندر اس کے چہرے سے کوئی بھی اندازہ لگانے میں ناکام رہے تھے۔