اگلے دن یونیورسٹی میں اس کا دل نہیں لگا تھا۔ گھر واپس آتے ہی وہ سیدھا کچن میں گئی۔
”نانو رات کے لئے کیا پکوا رہی ہیں!”
” کوئی خاص چیز کھا نے کو دل چاہ رہا ہے؟”
نانو نے مسکراتے ہوئے پوچھاتھا۔
”نہیں ! میں اپنے لئے نہیں عمر کے لئے پوچھ رہی ہوں۔ اس کے لئے کیا بنوا رہی ہیں۔”
نانو کرسی پر بیٹھی ملازم سے فریزر صاف کروا رہی تھیں۔ انہوں نے کچھ حیرانی سے دیکھاتھا۔
”عمر کے لئے تو کچھ بھی نہیں بنوارہی۔”
”کیوں نانو ؟”
وہ کچھ حیران رہ گئی۔
”آپ کو یاد ہے نا کہ وہ رات کو آ رہا ہے؟”
”ہاں ، مجھے یاد ہے ، وہ دو بجے کی فلائٹ سے یہاں آئے گا۔ پہنچتے پہنچتے اسے تین بج جائیں گے ظاہر ہے کہ اس وقت تو وہ کھانا نہیں کھائے گا، سیدھا سونے کے لئے چلا جائے گا۔”
”پھر بھی نانو! فرض کریں اس نے کھانا نہ کھا یا ہوا تو؟”
”یہ فرض کرنے والی بات ہے ہی نہیں ، وہ رات کا کھانا یقیناً فلائیٹ میں ہی کھائے گا۔ تم جانتی ہو کہ کھانے کے معاملہ میں وہ کتنا باقاعدہ ہے۔”
”پھر بھی نانو! بھوک کا کیا ہے۔ وہ تو کسی بھی وقت لگ سکتی ہے، اگر اس نے کچھ کھا نے کے لئے مانگ لیا؟”
”بعض دفعہ تم حماقت کی حد کر دیتی ہوعلیزہ! اس طرح بات کر رہی ہو جیسے گھر میں کھانے کے لئے کچھ ہو ہی نا۔ تمہیں پتہ ہے ہر وقت فریج میں دو، تین ڈشز ضرور ہوتی ہیں۔ بھوکا نہیں سو ئے گاوہ۔”
علیزہ کچھ شرمندہ سی ہو گئی تھی۔
”البتہ کل کے لئے میں کافی ڈشز بنوا رہی ہوں، تم دیکھ لینا بلکہ خود بھی خانساماں سے کہہ دینا ، اگر کوئی خاص چیز وہ بھو ل جائے تو۔”
وہ اب دوبارہ ملازم کی طرف متوجہ ہو چکی تھیں۔
”میں دیکھ لوں گی ، آپ فکر نہ کریں۔”
وہ کچن سے باہر آگئی تھی، لاؤنج کی گھڑی تین بجا رہی تھی۔
”اور وہ رات کے تین بجے گھر پہنچے گا۔ ابھی پورے بارہ گھنٹے باقی ہیں اور مجھے ان بارہ گھنٹوں میں کیا کرنا چاہئے ؟”
اس نے سوچنے کی کوشش کی تھی۔
اپنے کمرے میں جاکر رات کو پہننے کے لئے کپڑے دیکھنے شروع کر دئیے تھے۔ پھر ایک لباس اس نے منتخب کر ہی لیاتھا ایک خیال آنے پر وہ واپس کچن میں آگئی تھی۔
”نانو ! عمر ڈرائیور کو پہچانے گاکیسے ؟ یہ ڈرائیور تو نیا ہے اور ڈرائیور بھی عمر کو نہیں پہچانتا!”
”میں نے ڈرائیور کو عمر کی تصویر دکھا دی تھی۔ مزید احتیاط کے طور پر میں نے اسے کارڈ پر عمر کا نام لکھ دیا ہے۔ عمر کارڈ اس کے پاس دیکھ کر خود ہی آ جائے گا۔”
”ہاں ! یہ ٹھیک ہے۔”
وہ مطمئن ہو کر واپس اپنے کمرے میں آگئی تھی۔
رات کا کھانا اس نے نانو کے ساتھ آٹھ بجے کھالیا۔ پہلی بار کلاک کو بار بار دیکھتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وقت کو پر نہیں لگتے بلکہ بعض دفعہ وقت بالکل رک بھی جاتا ہے۔ اس کی تیز رفتاری ہی صبر آزما نہیں ہوتی ۔بعض دفعہ اس کی سست رفتاری بھی تکلیف دہ ہوتی ہے۔
”نانو، آپ ڈرائیور کو کتنے بجے بھیجیں گی ؟”
کھانے سے فارغ ہو کر علیزہ نے پوچھاتھا۔
”ایک بجے۔”
”آپ عمر کا انتظار کریں گی؟”
”ظاہر ہے ،مجھے تو ویسے بھی رات کو نیند نہیں آتی مگر تم چاہو تو جا کر سو جاؤ۔”
”نہیں نانو ! میں بھی انتظار کروں گی۔”
”تمہیں صبح یونیورسٹی جانا ہے۔”
نانو نے اسے یاد دلایا۔
”ہاں ! مجھے پتہ ہے لیکن کچھ نہیں ہوگا۔”