امربیل — قسط نمبر ۲

“These are simply fantastic!”
اس دن وہ لاؤنج میں بیٹھی اپنی اسکیچ بک میں کرسٹی کا سکیچ بنا رہی تھی۔ بہت دیر تک اس کام میں مصروف رہنے کے بعد وہ اکتا گئی تھی۔ اسکیچ بک کو صوفہ پر رکھنے کے بعد وہ کچھ دیر تک کرسٹی کو سہلاتی رہی پھر اسے ہاتھ میں لے کر کھانے کی کوئی چیز لینے کچن میں چلی گئی۔ وہاں اسے دس پندرہ منٹ لگ گئے جب وہ دوبارہ لاؤنج میں داخل ہوئی تو نہ صرف عمر وہاں موجود تھا بلکہ وہ صوفہ پر دراز ٹیبل پر اپنی ٹانگیں رکھے، ایک ہاتھ میں چائے کا مگ لئے دوسرے ہاتھ سے اس کی سکیچ بک دیکھنے میں مصروف تھا۔ قدموں کی آہٹ پر اس نے سر اٹھایا تھا علیزہ کو دیکھ کر مسکرایا تھا اور اس کے اسکیچز پر تبصرہ کیا تھا۔علیزہ کو اس کا اس طرح بغیر اجازت اپنی سکیچ بک دیکھنا اچھا نہ لگا تھا، مگر وہ خاموش رہی تھی۔




پلانٹس والے واقعہ کے بعد وہ آج پہلی بار اس سے بات کر رہا تھا۔ وہ چپ چاپ دوسرے صوفہ پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگی تھی۔
”علیزہ پینٹنگز میں دلچسپی ہے؟”
اس نے گفتگو کا سلسلہ شروع کیاتھا۔ علیزہ نے ایک نظر اس کے چہرے پر دوڑائی۔
”اگر اسکیچز بنا لیتی ہو تو ظاہر ہے کہ پینٹنگ سے بھی دلچسپی ہو گی۔”
وہ دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئی ،اور وہ غور سے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھنے لگا۔
”کون سی کلا س میں پڑھتی ہو؟”
”اے۔ لیولز”
جواب انتہائی مختصر تھا۔
”کہاں تک پڑھنے کا ارادہ ہے؟”
”پتہ نہیں!”
”کیوں؟”
وہ جواب میں کچھ نہیں بولی تھی۔
”تم فائن آرٹس میں کچھ کرنا۔”
”کیا؟”
”کچھ بھی مگر آرٹ سے متعلق ہو۔”
”کیوں؟”
”کیونکہ تم بہت اچھی آرٹسٹ بن سکتی ہو!”
”آپ مجھے مشورہ دے رہے ہیں۔ خود آرٹسٹ کیوں نہیں بنے؟”
ٹکڑا توڑ جواب آیاتھا۔ عمر جہانگیر بے اختیار مسکرایا۔ علیزہ کا چہرہ سپاٹ تھا۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا۔
”آرٹسٹ بنتے نہیں ہیں، بنے بنائے ہوتے ہیں۔ آپ ڈاکٹر بن سکتے ہیں انجینئربن سکتے ہیں ، مگر آرٹسٹ بننا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تم سے اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ تم میں ٹیلنٹ ہے۔ تم کچھ کر سکتی ہو اس فیلڈ میں۔”
اس سے بات کرتے ہوئے عمر نے اسکیچ بک بند کر کے علیزہ کی طرف بڑھا دی۔
”مجھے آرٹ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ، چاہے وہ کیسا بھی آرٹ کیوں نہ ہو، نہ ہی میں آرٹ میں کچھ کر نا چاہتی ہوں۔ مجھے میتھس میں دلچسپی ہے، اور میں وہی پڑھوں گی۔”
اس نے اسکیچ بک پکڑتے ہوئے دو ٹوک انداز میں عمر سے کہا تھا۔
”ٹھیک ہے تم میتھس ہی پڑھ لینا، لیکن میرا ایک اسکیچ تو بنا سکتی ہو، کیوں علیزہ! میرا سکیچ بناؤ گی !”
”میں صرف ان ہی لوگوں کے اسکیچ بناتی ہوں جن کے چہرے مجھے اچھے لگتے ہیں۔”
وہ ایک بار پھر ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گئی تھی ۔
”اس کا مطلب ہے۔ میرا چہرہ تمہیں اچھا نہیں لگا؟”
عمر نے اس سے پوچھا لیکن وہ خاموشی سے ٹی وی دیکھتی رہی۔
”میرا خیال تھاکہ میرا چہرہ اچھا خاصا ہے ویسے علیزہ میرے چہرے میں کیا defect ہے ، تم یہ بتا دو۔”
عمر جیسے اس کے ساتھ گفتگو کو انجوائے کر رہا تھا۔
”مجھے کیا پتہ ، بس مجھے آپ کا چہرہ اسکیچنگ کے لئے پسند نہیں ہے ۔”
”اور کرسٹی کا چہرہ پسند ہے؟”
علیزہ نے کچھ ناراضگی سے اس کی طرف دیکھا تھا۔ وہ چائے کا مگ ٹیبل پر رکھ کر اٹھ رہا تھا۔
”مجھے کوئی بھی چہرہ کرسٹی سے زیادہ اچھا نہیں لگتا، آپ اس طرح کرسٹی کی بات مت کریں۔۔۔”
اس نے کچھ بگڑ کر اس سے کہا تھا۔ ”سوری!”
علیزہ نے اس کی معذرت پر کوئی دھیان دیئے بغیر دوبارہ اپنی توجہ ٹی وی کی طرف مبذول کرلی تھی۔ وہ کچھ دیر وہا ں لاؤنج میں کھڑا رہا، اور پھروہاں سے باہر نکل گیا۔
****
علیزہ نے اسکیچ مکمل کر لیا تھا۔ عمر جہانگیر کے اسکیچ کو اسکیچ بک سے نکالنے کے بعد وہ ایک بار پھر اٹھ کر اس کے کمرے میں آگئی تھی۔ لائٹ آن کرنے کے بعد وہ سٹڈی ٹیبل کی طرف گئی اور وہاں اسکیچ رکھنے کے بعد اس نے پیپر ویٹ اس کے اوپر رکھ دیا۔ وہ جانتی تھی عمر جہانگیر کے لئے یہ ایک خوشگوار سرپرائز ہو گا۔
یہ پہلا اسکیچ نہیں تھا جو اس نے عمر جہانگیر کے لئے تیار کیا تھا۔ پچھلے کئی سالوں میں ایسے کئی اسکیچز اس نے تیار کئے تھے۔ اس کا چہرہ ان چند چہروں میں سے تھا جو کسی بھی لمحہ ان کے ذہن سے غائب نہیں ہوتے تھے۔ بعض دفعہ جب وہ عمر کا کوئی بہت اچھا اسکیچ بنا لیتی تو اسے پوسٹ کر دیتی۔ جواب میں بعض دفعہ وہ شکریے کے طور پر کارڈ بھیج دیتا یا پھر فون کر لیتا۔ علیزہ کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا تھا۔ اگر وہ یہ دونوں کام نہ بھی کرتا تو بھی شاید اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔وہ کچھ دیر وہیں کھڑی اسکیچ کو دیکھتی رہی پھر اس نے جھک کر اسکیچ کے نیچے ایک کونے میں کچھ لکھ دیا تھا۔ سیدھی ہو کر وہ مسکرائی تھی اور اس نے پین کو دوبارہ ہولڈر میں رکھ دیا تھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!