امربیل — قسط نمبر ۲

عمر اچانک بہت ریزرو ہو گیا تھا۔ باقی سب کی طرح یہ تبدیلی علیزہ نے بھی نوٹ کی تھی۔ وہ زیادہ تر اپنے کمرے میں ہی رہتا اور جب کھانے کے لئے باہر آتا بھی تو خاموش ہی رہتا۔ نانو اور نانا کے ساتھ پہلے کی طرح ہنسی مذاق نہیں کرتا تھا۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں تو پہلے کی طرح ہی ہوں۔ بس ذرا پیپرز کی وجہ سے زیادہ مصروف ہو گیا ہوں۔”
اس دن رات کے کھانے پر نانو نے اس سے کہہ ہی دیا، اور جواب میں اس نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ وضاحت کر دی۔
”خاموشی تم پر سوٹ نہیں کرتی عمر !”
نانانے سویٹ ڈش لیتے ہوئے گفتگو میں حصہ لیاتھا۔




”اچھا تو پھر کیا سوٹ کر تا ہے؟”
عمر نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا تھا۔
”تم ویسے ہی اچھے لگتے ہو ، جیسے پہلے تھے، ہنگامہ کرتے ہوئے ، قہقہے لگا تے ہوئے، شور مچاتے ہوئے۔”
نانو نے کہا تھا۔
”رہنے دیں گرینی! میں اب چوبیس سال کا ہوں ، آپ میری جو باتیں بیان کر رہی ہیں اس سے تو میں چھ سال کابچہ لگتا ہوں۔”
عمر نے ایک شرمندہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا، وہ اب سلاد کھا رہا تھا۔
”ہم لوگو ں کے لئے تم کبھی بھی چوبیس سال کے نہیں ہو گے، ہمیشہ چھ سال کے ہی رہو گے، اور ہم لوگ چاہیں گے کہ تم بھی خود کو چھ سال کا ہی سمجھو۔”
علیزہ نے بڑی سنجیدگی سے نظریں اٹھا کر نانو کو دیکھا ، وہ اپنے ساتھ کرسی پر بیٹھے ہوئے عمر کا گال چومتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھیں۔ عمر نے نانو کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہاتھا، صرف خاموشی سے سلاد کھا رہا تھا۔
“نانو اور نانا کے بھی ڈبل اسٹینڈرڈز ہیں ، مجھے وہ کسی اور طرح سے ٹریٹ کرتے ہیں۔ عمر کو کسی اور طرح سے ۔ مجھے وہ کچھ اور طرح کا دیکھنا چاہتے ہیں اور عمر کو کسی اور طرح کا، اور پھر بھی نانو کہتی ہیں کہ ان کے لئے سب ایک جیسے ہیں۔ وہ سب سے ایک جتنا پیار کرتی ہیں۔ حالانکہ ایسا تو نہیں ہے۔ اب کیا عمر سے وہ میرے جتنا ہی پیار کرتی ہیں……بالکل بھی نہیں……میں ان کے پاس اتنے سالوں سے رہ رہی ہوں اور عمر……عمر کو آئے ہوئے تو چند ہفتے ہوئے ہیں اور …اور نانو نے کتنی آسانی سے اسے میری جگہ دے دی……حالانکہ عمرکو……عمر کو تو اس جگہ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اسے نانا یا نانو کی محبت کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے۔ اس کے پاس تو پہلے ہی سب کچھ ہے۔”
علیزہ کو نانو سے شکایت ہونے لگی تھی اور نانو سے بہت سی شکایتیں ہوتی رہتی تھیں، اور وہ کبھی بھی ان کا اظہار نہیں کرتی تھی۔ صرف اس کے دل میں ایک اور گرہ کا اضافہ ہو جاتا تھا۔
اس دن دوپہر سے کچھ پہلے وہ کرسٹی کو نہلا رہی تھی جب نانو نے ملازم کے ذریعے اسے لاؤنج میں بلوایا تھا۔
”علیزہ تمہارے پاپا کا فون ہے، وہ تم سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔”
اسے دیکھتے ہی نانو نے جو فون پر بات کر رہی تھیں ، ریسیور اس کی طرف بڑ ھادیا تھا۔
وہ بے اختیار خوش ہوئی تھی۔
”پاپا کا فو ن ہے؟”
اس نے کچھ بے یقینی سے کہا۔
عام طور پروہ دو یا تین ماہ بعد ایک بار اسے کال کرتے تھے،اور وہ بھی رات کے وقت، مگر اس بار ڈیڑھ ماہ کے بعد ہی دوسری کال کر لی تھی۔
”ہیلو ! علیزہ! کیسی ہو تم؟”
فون پر اس کی آواز سنتے ہی پاپا نے کہا تھا۔
” میں ٹھیک ہوں پاپا! آپ کیسے ہیں؟”
اس نے جواباً پوچھاتھا۔
”میں بالکل ٹھیک ہوں، تم آسٹریلیا گئی ہوئی تھیں ؟”
انہوں نے پوچھاتھا۔
”ہاں پاپا! ایک ماہ رہ کر آئی ہوں ممی نے بلایا تھا۔”
اس نے کہاتھا۔
”سب لوگ ٹھیک ہیں وہاں؟”
”ہاں ! سب ٹھیک ہیں۔”
”انجوائے کیا وہاں؟”
”ہاں بس تھوڑا بہت۔”
”کتنی چھٹیاں رہ گئی ہیں باقی؟”
انہوں نے پوچھا۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!