امربیل — قسط نمبر ۲

”کل صبح نو بجے کی فلائٹ ہے، تم سات بجے تک تیا ر ہو جانا۔ میں نے عمر کو کہہ دیاہے وہ تمہیں ائیر پورٹ ڈراپ کر دے گا۔”
انہوں نے اسے اطلاع دیتے ہوئے کہاتھا۔
”عمر ڈراپ کرے گا، مگر عمر کیوں نانو؟ ڈرائیور کو کہیں نا!”
وہ کچھ سٹپٹائی تھی ۔
”ڈرائیور آج نہیں آیا ، مجھے نہیں پتہ کل بھی آتا ہے یا نہیں، ویسے بھی ڈرائیور ساڑھے آٹھ بجے آتا ہے اور تمہیں آٹھ بجے تک ائیر پورٹ پر پہنچ جانا چاہئے آج ڈرائیور آ جاتا تو میں اسے کل جلدی آنے کا کہہ دیتی۔”
”آپ نانا سے کہہ دیں نا مجھے ڈراپ کرنے کے لئے!”




اس نے پھر اصرار کیاتھا۔
”تمہارے نانا کو میں اتنی صبح کہاں اٹھاؤں ، تمہیں عمر کے ساتھ جانے میں کیا پرابلم ہے؟”
”نہیں، بس ویسے ہی!”
”کچھ کہنے کی ضرورت نہیں بس وہی تمہیں صبح چھوڑنے جائے گا۔”
نانو نے حتمی طور پر کہاتھا۔
علیزہ نے ہونٹ بھینچ لئے تھے۔
” وہ تو صبح اٹھتے ہی نہیں ، تو پھر کل ۔۔۔۔۔”
نانو نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”یہ تمہارا نہیں میرا پرابلم ہے، کل وہ اٹھ جائے گا اور نہیں بھی اٹھاتو میں اسے اٹھا دوں گی۔”
نانو کہتے ہوئے کمرے سے نکل گئیں۔
اگلی صبح وہ بہت ایکسائٹیڈ تھی۔ اپنا بیگ لے کر جب وہ لاؤنج میں آئی تو وہاں عمر نہیں تھا۔
”تم بیٹھ کر ناشتہ کر لو۔”
نانو نے اسے دیکھتے ہی کہاتھا۔
”نہیں نانو ! مجھے کچھ بھی نہیں کھانا، بس آپ ملازم سے کہیں ، میرا بیگ گاڑی میں رکھ دے۔”
اس نے بیگ فرش پر رکھتے ہوئے کہاتھا۔
”کچھ کھائے پیئے بغیر گھر سے نکلنا ٹھیک نہیں ہے، ناشتہ کر لو۔”
”نانو ! مجھے بھوک نہیں ہے۔”
”بھوک ہے یا نہیں ، تمہیں کچھ نہ کچھ ضرور کھانا ہے۔”
”میں پلین میں کھا لوں گی۔”
”پلین میں پتہ نہیں کیا ملے اور کیا نہیں، بس تم یہیں کھاؤ۔”
نانو کی ضد برقرار تھی۔
”پلیز نانو ! میرا دل نہیں چاہ رہا بلیو می۔ میرا دل واقعی نہیں چاہ رہا۔ ”
وہ منمنائی تھی۔
”چلو یہ جوس ہی پی لو۔”
علیزہ نے کچھ سوچ کر جوس کا گلاس اٹھا لیاتھا۔
نانو نے ملازم کو آواز دے کر بیگ گاڑی میں رکھنے کے لئے کہا تھا۔
”آپ دیکھ لیں کہ عمر ابھی تک نہیں آیا۔ میں نے آپ سے کہا تھا نا۔”
اس نے جوس کا گلاس خالی کرتے ہی کہا۔
”وہ ابھی تک سو رہا ہو گا۔ آپ نے خواہ مخواہ ہی اسے مجھے چھوڑنے کے لئے کہا۔”
علیزہ نے گھڑی دیکھی۔
”میں پتہ کرواتی ہوں ، سو بھی رہا ہو گا تو ملازم اٹھا دے گا۔ یہ کون سا اتنا بڑا پرابلم ہے۔”
نانو نے اطمینان سے کہاتھا۔ ملازم کو آواز دے کر انہوں نے اسے عمر کے کمرے میں بھیجاتھا۔ ملازم چند منٹوں میں ہی واپس آگیا تھا۔ عمر اس کے پیچھے تھا۔ اس کے حلیے سے لگ رہاتھا کہ وہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے ، وہ نائٹ سوٹ اور سلیپرز میں ہی ملبوس تھا۔ نانو نے مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیاتھا۔
”تمہیں یاد نہیں رہا کہ تمہیں آج علیزہ کو ائیر پورٹ چھوڑنے جانا ہے؟”
نانو نے اس سے پوچھا۔
”مجھے جگانے کے لئے ، ملازم کو بھیجنا پڑا۔”
”نہیں ملازم کے جانے سے پہلے ہی اٹھا ہوا تھا۔ مجھے یاد تھا۔ میں الارم لگا کر سویا تھا۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۱

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!