امربیل — قسط نمبر ۱۰

اگلے چند ہفتے علیزہ کو ایک بار پھر ہاسپٹل کے چکر لگانے میں گزارنے پڑے۔ اسے اچانک اپینڈکس کا پرابلم ہوا اور بہت ایمرجنسی میں آپریشن کروانا پڑا آپریشن ٹھیک ہو گیا مگر گھر آنے کے دوسرے دن باتھ روم جاتے ہوئے گری اور اس کے ٹانکے ٹوٹ گئے۔
دوبارہ ٹانکے لگوانے کے بعد ایک ہفتہ تک وہ بخار میں مبتلا رہی۔ اس کا وزن بہت تیز رفتاری سے کم ہوتا رہا۔ اس تمام عرصہ کے دوران عمر سے ایک بار بھی اس کی بات نہیں ہوئی وہ اسپین جا چکا تھا اور وہاں سیر و تفریح میں مصروف تھا۔ جس شام تقریباً ایک ماہ کے بعد اس نے فون کیا۔ اس دن بھی علیزہ کو بخار تھا۔ نانو نے فون پر عمر کو علیزہ کے آپریشن اور اس کی بیماری کے بارے میں بتایا۔ اس نے علیزہ سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
علیزہ فون پر اس کی آواز سنتے ہی رونے لگی۔ وہ اس کے رونے سے زیادہ اس کی آواز کی نقاہت پر پریشان ہوا تھا۔




”علیزے! علیزے! چپ ہو جاؤ یار کیا ہو گیا۔” وہ اسے کسی بچے کی طرح بہلانے لگا۔ وہ پھر بھی روتی رہی۔
”تمہارا آپریشن تو ٹھیک ہو گیا ہے نا؟” اس نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
”گرینی بتا رہی تھیں۔ تمہیں بخار ہے، زیادہ بخار ہے؟” وہ کسی نہ کسی طرح اسے خاموش کروانا چاہ رہا تھا۔ وہ اب بھی روتی رہی۔
”علیزہ ! مجھے تکلیف ہو رہی ہے تمہارے رونے سے ۔ پلیز چپ ہو جاؤ۔”
وہ چپ نہیں ہوئی۔
”مجھے بتاؤ میں کیا کروں؟”اس نے بالآخر تھک کر کہا۔
”میں نے آپ سے کہا تھا۔ آپ واپس آجائیں۔ آپ نہیں آئے۔ پتا نہیں ہر کوئی میرے ساتھ جھوٹ کیوں بولتا ہے۔” اس نے ہچکیوں اور سسکیوں کے درمیان کہا اور ایک بار پھر رونے لگی۔
”میں نے تم سے بالکل جھوٹ نہیں بولا۔ میں کل نہیں تو پرسوں جو بھی فلائٹ ملتی ہے، اس سے آجاتا ہوں اب تو رونا بند کردو۔” اس بار علیزہ واقعی چپ ہو گئی۔
”آپ سچ کہہ رہے ہیں؟”
”بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ میں بس آجاتا ہوں اگر تمہاری ضد یہی ہے تو ٹھیک ہے۔ میں تمہاری بات مان لیتا ہوں۔ اب مجھے بتاؤ تم کیسی ہو؟”
”میں ٹھیک ہوں۔” رونے سے اس کے سر میں درد ہونے لگا تھا۔
”میڈیسن لے رہی ہو؟”
”ہاں۔”
”اور کھانا”
”وہ بھی۔”
”تمہارے لئے کیا لے کر آؤں یہاں سے؟”
”پتا نہیں۔”
”ٹھیک ہے میں اپنی مرضی سے کچھ بھی لے آؤں گا۔ تم بس یہ کرو کہ میرے آنے تک اپنا بخار ختم کر دو۔ میں کم از کم تمہیں بستر میں دیکھنا نہیں چاہتا۔”
”نانو کہتی ہیں ، میں ہر وقت لیٹی رہوں، آپ کہتے ہیں، میں بستر میں نظر نہ آؤں۔ پھر میں کیا کروں؟” اس نے بے چارگی سے کہا۔
”تم اپنا بخار ختم کر دو تاکہ گرینی کو تم سے یہ کہنا نہ پڑے۔” وہ اب بھی بچوں کی طرح اسے بہلا رہا تھا۔
”آپ کل آجائیں گے؟” وہ اس کی بات کے جواب میں اس سے پوچھنے لگی۔
”کل یا پرسوں مگر آجاؤں گا۔” اس نے یقین دلایا۔
٭٭٭
اور تیسرے دن وہ واقعی اس کے سامنے تھا۔ علیزہ کو اس دن بھی ہلکا ہلکا بخار تھا اور وہ اپنے کمرے میں تھی جب وہ دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہوا۔ وہ اسے دیکھ کر بے اختیار مسکرانے لگی مگر عمر اسے دیکھ کر فکر مند ہو گیا۔ علیزہ اپنے بستر سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ سیدھا اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
”کم آن علیزہ! کیا حال بنایا ہوا ہے تم نے، میں تو پہچان ہی نہیں سکا۔” وہ اس کے کندھے پر بازو پھیلائے کہہ رہا تھا۔ وہ مسکرائی۔
اس کی فکر مندی اسے اچھی لگ رہی تھی۔ اس کے خوش ہونے کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ صرف اس کے لئے اتنی دور سے سب کچھ چھوڑ کر آگیا تھا۔
”تمہارا بخار کیسا ہے؟” عمر کو یک دم یاد آیا علیزہ کے جواب کا انتظار کیے بغیر اس نے علیزہ کے ماتھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
”ابھی بھی بخار ہے؟”
”ہاں لیکن زیادہ نہیں۔”
”ٹھیک ہے اگر زیادہ بخار نہیں تو پھر اٹھو۔” وہ کھڑا ہو گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانے لگا۔
”کہاں جانا ہے؟” وہ کچھ حیران ہوتے ہوئے اٹھ کرکھڑی ہو گئی۔
”کہیں دور نہیں جانا۔ بس لاؤنج تک جانا ہے۔ کسی سے ملوانا ہے تمہیں۔”
وہ اب اس کا ہاتھ پکڑے کمرے کے دروازے کی طرف جا رہا تھا۔
”کس سے ملوانا ہے؟”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۸

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!