امربیل — قسط نمبر ۱۰

”ایک دوست سے۔” وہ مسکرایا۔ علیزہ کچھ حیران ہوئی۔ اس سے پہلے عمر نے کبھی اسے اپنے کسی دوست سے ملوانے کی کوشش نہیں کی تھی، اب یک دم ایسا کون سا دوست آگیا ہے جس سے ملوانا وہ ضروری سمجھ رہا تھا۔
”میں کپڑے چینج کر لوں۔” اس نے ٹھٹکتے ہوئے کہا۔
”کوئی ضرورت نہیں۔ ” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر دوبارہ کھینچنے لگا۔
”بالوں میں برش تک نہیں کیا ہے میں نے۔” علیزہ نے احتجاج کیا۔
”یار! تمہیں ضرورت ہی نہیں ہے برش کی، تم اس طرح بھی بہت خوبصورت لگتی ہو۔” وہ اب کمرے سے باہر نکل آئے تھے۔
”یہ دوست کہاں سے لائے ہیں؟” علیزہ نے تجسس کے عالم میں پوچھا۔ عمر کچھ کہنے کے بجائے پر اسرار انداز میں مسکرایا۔
لاؤنج میں داخل ہوتے ہی علیزہ ٹھٹھک گئی۔ اس کے بالکل سامنے صوفہ پر نانو کے ساتھ ایک غیر ملکی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی عمر تیئس چوبیس سال تھی اور اس کے نقوش خاصے تیکھے تھے، بلیک ٹراؤزر اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس وہ اس وقت لاؤنج کی سب سے نمایاں چیز تھی۔
علیزہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکی۔




”آؤ نا علیزہ ! رک کیوں گئی ہو؟”
عمر اب اس سے انگلش میں مخاطب تھا۔ اس لڑکی نے چونک کر ان دونوں کو دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ علیزہ نے کچھ خشمگیں نظروں سے عمر کو دیکھا اور پھر آگے بڑھ آئی۔
”علیزہ ہے، میری کزن اور علیزہ ! یہ جوڈتھ ہے میری بہت اچھی دوست۔ ”
عمر نے ان دونوں کا تعارف کروایا۔ علیزہ نے کسی رسمی مسکراہٹ کے بغیر اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ جوڈتھ نے اس سے ہاتھ نہیں ملایا۔ وہ چند قدم آگے بڑھی اور بڑی بے تکلفی کے ساتھ اس نے علیزہ کے دونوں شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس کا گال چوم لیا۔ علیزہ اس کی اس گرم جوشی پر بے اختیار سٹپٹائی۔
”کیسی ہو علیزہ؟” وہ اب پوچھ رہی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہیں؟” اس نے کہا۔
علیزہ نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ اسے کیسا توقع کر رہی تھی۔ وہ یک دم ہر چیز میں دلچسپی کھو بیٹھی تھی چند لمحے پہلے تک عمر کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ جتنی خوش ہوئی تھی۔ اب اس خوشی کا کہیں نام و نشان بھی باقی نہیں رہا تھا۔
جوڈتھ اب واپس نانو کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ گئی تھی۔ علیزہ کچھ جھجکتے ہوئے ایک دوسرے صوفہ پر بیٹھ گئی۔ عمر اب جوڈتھ کا تفصیلی تعارف کروا رہا تھا۔
”ہماری دوستی دس سال پرانی ہے۔ جو ڈتھ اور میں ایک ہی اسکول میں جاتے رہے ہیں، پھر کیلی فورنیا یونیورسٹی میں بھی یہ میرے ساتھ ہی رہی۔”
علیزہ کو اس کے تعارف میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ عمر کے چہرے پر نظریں جمائے بیٹھی رہی۔ وہ پچھلے کئی ماہ سے وہاں تھا اور اس سارے عرصے کے دوران اس نے ایک بار بھی جوڈتھ کا ذکر نہیں کیا اور اب وہ بتا رہا تھا کہ وہ پچھلے دس سال سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، علیزہ کا دل چاہا وہ یک دم اٹھ کر وہاں سے چلی جائے۔ مگر وہ خود پر ضبط کئے وہاں بیٹھی رہی۔
”عمر تمہارا بہت ذکر کرتا ہے۔ علیزہ ! ابھی بھی تمہارے لئے اسپین سے واپس چلے آئے ہیں۔ وہ بہت پریشان تھا تمہارے لئے۔ ” جوڈتھ اب اس سے کہہ رہی تھی ۔ علیزہ کو کوئی خوشی نہیں ہوئی۔
”تو یہ وہ ضروری کام تھا جس کے لئے عمر بار بار واپس امریکہ جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی دس سال پرانی گرل فرینڈ اور یہی وہ دوست تھے جن کے ساتھ وہ اسپین گیا تھا علیزہ کو یقین تھا جوڈتھ کے علاوہ وہ کسی دوسرے کو اسپین لے کر نہیں گیا ہو گا وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی اسے جوڈتھ پر رشک آرہا تھا یا اس سے حسد ہو رہا تھا یا پھر وہ اس سے نفرت کرنے لگی تھی۔
”مجھے نیند آرہی ہے نانو! میں سونے جا رہی ہوں۔”
جوڈتھ کی لمبی چوڑی گفتگو کے جواب میں علیزہ نے اٹھتے ہوئے صرف یہی کہا ، جوڈتھ نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا، شاید اسے علیزہ سے اتنے سر مہری کی توقع نہیں تھی۔
عمر نے گہری نظروں سے علیزہ کو دیکھا وہ اس کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
”علیزہ! بیٹھو کچھ دیر باتیں کرتے ہیں۔” عمر نے اسے روکنے کی کوشش کی ۔ وہ رکی نہیں۔
”مجھے نیند آرہی ہے مجھے سونا ہے۔” وہ اس بار عمر کا چہرہ دیکھے بغیر لاؤنج سے نکل گئی۔
لاؤنج میں چند لمحوں کے لئے ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی تھی۔
پھر عمر نے اس خاموشی کو تھوڑا ”میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔” اس نے مسکراتے ہوئے جوڈتھ سے کہا وہ جواباً کچھ بولے بغیر مسکرائی۔ عمر کمرے سے نکل گیا۔
علیزہ کے کمرے پر دستک دے کر اس نے کمرے کے اندر جانے کی کوشش کی مگر دروازہ نہیں کھلا۔ وہ لاکڈ تھا۔ وہ رک گیا۔ اس نے ایک بار پھر دروازے پر دستک دی۔ اس بار اس نے علیزہ کا نام پکارا۔
علیزہ نے اپنے دروازے پر ہونے والی دستک سنی اور اس کی آواز بھی پہچان لی مگر وہ اسی طرح خاموشی سے اپنے بیڈ پر لیٹی رہی۔ اسے اس وقت عمر پر بے تحاشا غصہ آرہا تھا۔
عمر نے دوبارہ دروازے پر دستک دی۔
”میں سو رہی ہوں، آپ مجھے ڈسٹرب نہ کریں۔” اس بار عمر نے علیزہ کی آواز سنی۔
”تم اتنی جلدی کیسے سو سکتی ہو؟ وہ بھی کھانا کھائے بغیر۔” عمر نے بلند آواز میں کہا۔
”مجھے کھانا نہیں کھانا۔ مجھے بھوک نہیں ہے، اب آپ جائیں۔”
”میں تمہارے لئے سب کچھ چھوڑ کر اسپین سے آیا ہوں اور تم میرے ساتھ اس طرح Behaveکر رہی ہو۔” عمر نے شکایت کی۔
”آپ کچھ بھی چھوڑ کر نہیں آئے ۔ آپ سب کچھ ساتھ لے آئے ہیں۔”
علیزہ نے بے اختیار کہا اور جواباً اس نے عمر کی بے ساختہ ہنسی سنی۔
”تم جوڈتھ کی بات کر رہی ہو؟” علیزہ کو اب خود پر شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ فوری طور پر اپنی بات کے ازالے کے لئے کیا کہے۔ وہ خاموش رہی۔
”تمہیں اس کا آنا اچھا نہیں لگا؟”
وہ اب بھی چپ رہی۔
”علیزہ ! میں تم سے بات کر رہا ہوں” وہ اب بلند آواز میں کہہ رہا تھا۔
”اسے واپس بھجوا دوں ؟” وہ اب پوچھ رہا تھا۔
”ٹھیک ہے، میں اسے واپس بھجوا دیتا ہوں۔”
اسے اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ دروازے کے باہر اب خاموشی تھی۔
***




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۸

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!