امربیل — قسط نمبر ۱۰

علیزہ کا پاؤں بے اختیار بریک پر پڑا اور گاڑی رک گئی۔ علیزہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ان میں سے ایک لڑکا گاڑی کا ٹائر بدل رہا تھا اور شاید وہ اسی وجہ سے وہاں رکے تھے۔ ورنہ اس طرح وہاں نہ رکتے۔ علیزہ نے ان لوگوں کے چہرے پر یک دم حیرت دیکھی اور پھر انہوں نے اسے اور اس کی گاڑی کو پہچان لیا۔ جب تک وہ گاڑی کو ریورس کرنے کی کوشش کرتی۔ وہ تینوں بھاگتے ہوئے اس کی گاڑی کے پاس آگئے۔
علیزہ نے تیزی سے دروازے کو لاک کیا۔ کھڑکی کا شیشہ پہلے ہی اوپر تھا۔ وہ تینوں اسی کے دروازے کی طرف آئے تھے۔ سڑک اتنی چوڑی نہیں تھی کہ وہ اس پر گاڑی کو موڑ لیتی۔ اسے گاڑی کو مسلسل ریورس کرنا تھا۔ جب تک کہ وہ اس پچھلی سڑک تک نہ پہنچ جاتی جہاں سے اس نے ٹرن لیا تھا۔
وہ لڑکے اب اس کی گاڑی کے دائیں طرف والے دونوں دروازوں کے ہینڈلز پر ہاتھ رکھے انہیں کھولنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس میں ناکامی پر انہوں نے کھڑکی کے شیشوں پر ہاتھ مارنے کی شروع کر دیئے۔




علیزہ بے حد خوفزدہ تھی، اسے لگ رہا تھا جیسے کھڑکی کا شیشہ ابھی ٹوٹ جائے گا۔ اس کا ہاتھ بری طرح کانپ رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس نے زندگی میں کبھی گاڑی نہیں چلائی۔ وہ بالکل بھول چکی تھی کہ اس کا کون سا پیر کہاں ہونا چاہئے۔ وہ خوف کے عالم میں اپنی کھڑکی کے شیشے پر ان کے ہاتھ دیکھنے لگی۔
تب ہی ان میں سے ایک لڑکے کی نظر اس کی برابر والی سیٹ کے دروازے پر پڑی۔ علیزہ نے اسے کچھ کہتے ہوئے ادھر اشارا کرتے دیکھا اور پھر ان تینوں کو اچانک گاڑی کی دوسری طرف لپکتے دیکھا علیزہ نے بے اختیار دوسری طرف دیکھا اور اس کے منہ سے چیخ نکلی۔ دوسری کھڑکی کا شیشہ کھلا ہوا تھا۔ وہ بجلی کی طرح دوسری سیٹ پر آتے ہوئے تیزی سے شیشہ چڑھانے لگی۔ مگر وہ لوگ وہاں پہنچ چکے تھے۔ علیزہ نے ایک ہاتھ لاک پر رکھ دیا۔ ان میں سے ایک لڑکا کھڑکی کے اندر ہاتھ ڈال کر لاک سے اس کا ہاتھ ہٹانے لگا۔ آدھا شیشہ اوپر جا چکا تھا۔ علیزہ نے لاک سے ہاتھ نہیں اٹھایا۔ وہ پوری قوت سے شیشہ اوپر کرتی رہی۔ اس لڑکے نے اپنے ہاتھوں کے ناخنوں سے اس کے ہاتھ کو بری طرح زخمی کیا۔ علیزہ نے اپنا ہاتھ پھر بھی نہیں ہٹایا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اس کا ہاتھ ہر قیمت پر وہاں سے ہٹا دینا چاہتا تھا۔
گاڑی کا شیشہ اتنا اوپر جا چکا تھا کہ وہ بازو کے علاوہ خود اندر نہیں آسکتا تھا۔ مگر اب علیزہ کھڑکی کا شیشہ پوری طرح بند نہیں کر سکتی تھی۔ اس لڑکے نے یک دم لاک پر رکھے ہوئے اس کے ہاتھ کو چھوڑ دیا اور اس ہاتھ سے اس کے چہرے پر مکا مارا۔ وہ ایک چیخ کے ساتھ پلٹ کر دوسری سیٹ پر گری۔ مگر ایک بار پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ اس لاک پر رکھ دیئے۔ سر نیچے جھکا کر اس نے اس کے مزید کسی حملے سے بچنے کی کوشش کی۔ اس کے چہرے میں شدید تکلیف ہو رہی تھی اور وہ اب روتے ہوئے خوف سے چیخ رہی تھی۔
وہ ان کی آوازیں سن رہی تھی۔ وہ لڑکا اب دوسرے سے کہہ رہا تھا۔
”میں اس کے بال کھینچتے ہوئے اسے لاک سے پیچھے کرتا ہوں۔ تم اپنا ہاتھ اندر ڈال کر لاک کھول دینا۔”
علیزہ نے سر اٹھا کر اس لڑکے کو دیکھا۔ وہ گردن موڑے تیز آواز میں اپنے پیچھے کھڑے دوسرے لڑکے سے مخاطب تھا۔ اس کا بازو کھڑکی کے اندر تھا اور اس وقت وہ بالکل ساکت تھا۔ علیزہ نے بجلی کی تیزی کے ساتھ اس کے بازو پر اپنے دانت جما دیئے۔ وہ جتنے زور سے اسے کاٹ سکتی تھی، اس نے کاٹا تھا۔ اس لڑکے نے ایک چیخ ماری اور تیزی سے اپنا بازو گاڑی سے نکال لیا۔
اس سے پیشتر کہ دوسرا لڑکا آگے بڑھتا۔ علیزہ نے شیشہ بند کر دیا۔ اس نے ان لڑکوں کو گالیاں دیتے سنا ۔ وہ روتے ہوئے اپنی سیٹ پر واپس آئی اور اس نے گاڑی اسٹارٹ کرکے اسے ریورس کرنا شروع کر دیا۔
وہ لڑکے اب اس کی گاڑی کے ساتھ بھاگ رہے تھے۔ علیزہ نے یک دم انہیں رکتے دیکھا۔ وہ گاڑی ریورس کرتی رہی اور پھر اچانک اس نے ایک لڑکے کو جھک کر زمین سے کچھ اٹھاتے دیکھا۔ جب وہ سیدھا ہوا تو علیزہ نے بے اختیار چیخ ماری۔ اس لڑکے کے ہاتھ میں ایک بڑا سا پتھر تھا ا ور وہ جان چکی تھی کہ وہ کیا کرنا چاہتے تھے۔
وہ لڑکا ایک بار پھر دوڑتا ہوا گاڑی کی طرف آیا اور علیزہ نے اسے ونڈ اسکرین پر وہ پتھر اچھالتے دیکھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اسے ایک دھماکے کی آواز سنائی دی اور اپنے چہرے اور لباس پر شیشے کی کرچیاں لگتی محسوس ہوئیں۔ ونڈ اسکرین ٹوٹ چکی تھی مگر خوش قسمتی سے وہ پتھر اسے نہیں لگا تھا۔ وہ گاڑی ریورس کرتی رہی۔ بایاں بازو اٹھا کر اس نے اپنے سامنے کی ٹوٹی ہوئی اسکرین کو آنکھیں کھولے بغیر محسوس کیا۔ اسے خوف تھا کہ آنکھیں کھولنے پر ہوا سے اڑ کر کوئی کرچی اس کی آنکھوں میں جا سکتی ہے مگر اسکرین مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی۔
جس وقت اس نے آنکھیں کھولیں۔ اس وقت وہ لڑکے خاصی دور سڑک پر تھے خوش قسمتی سے گاڑی سڑک پر ہی رہی تھی، اور پیچھے کسی چیز سے نہیں ٹکرائی۔ مگر وہ سڑک گزر چکی تھی جس پر وہ مڑنا چاہتی تھی وہ گاڑی ریورس کرتی رہی۔ آگے کی طرف جانا بے کار تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ کسی طرح بھی ان لڑکوں کے قریب جائے۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ اسی طرح گاڑی ریورس کرتی جائے گی اور آگے آنے والی سڑک پر مڑ جائے گی۔
اس کا خوف اب قدرے کم ہو گیا۔ وہ لڑکے اب بہت دور رہ گئے تھے۔ مگر وہ اب بھی انہیں سڑک پر دیکھ سکتی تھی، اور تب ہی اچانک اس نے کھڑے ان لڑکوں کو پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے دیکھا۔ علیزہ کا سانس رکنے لگا۔ ان لڑکوں کی گاڑی اب اس کی طرف آرہی تھی۔ یقیناً اس لڑکے نے ٹائر تبدیل کر لیا تھا اور اب وہ گاڑی کو ان لڑکوں کی طرف لارہا تھا اور اس کے بعد…
وہ جانتی تھی، وہ اس کے بعد کیا کرتے۔ وہ ایک بار پھر اس کے پیچھے آتے اور اس بار وہ ان سے کسی طرح جان نہیں چھڑا سکتی تھی۔
وہ اب گاڑی پر سوار ہو رہے تھے اور علیزہ جانتی تھی کہ چند لمحوں کے بعد وہ اس کے سر پر ہوں گے۔ اس نے دعائیں پڑھتے ہوئے گاڑی کی اسپیڈ کچھ اور بڑ ھا دی۔
اور پھر اچانک اسے سڑک نظر آگئی۔ گیئر بدلتے ہوئے اس نے گاڑی کو اس سڑک پر ڈال دیا۔ وہ بھی ایک ذیلی سڑک تھی۔ مگر اب علیزہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کون سی سڑک ہے ۔ اسے واحد تسلی یہ تھی کہ گاڑی اب ریورس گئیر میں نہیں تھی اور وہ تیز رفتاری سے اسے چلا سکتی تھی مگر سامنے سے آتی ہوئی ہوا اسے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کر رہی تھی۔
تب ہی اس نے سائڈ مرر سے ان لڑکوں کو اس روڈ پر ٹرن لیتے دیکھا۔ اس نے ہونٹ بھنچ لیے۔ وہ گاڑی بہت تیز رفتاری سے اس کے قریب آتی جا رہی تھی۔ علیزہ نے بہت تیزی سے ایک اور ٹرن لیا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا۔ اس کے اعصاب جواب دیتے جا رہے تھے۔ اسے اندازہ ہونے لگا کہ وہ بہت تیز رفتاری سے کار نہیں چلا سکتی کیونکہ ٹوٹی ہوئی ونڈ اسکرین سے آنے والی ہوا کے تھپیڑے اسے سڑک پر کچھ بھی دیکھنے نہیں دے رہے تھے۔ وہ سڑکیں ویران تھیں۔ سامنے سے کوئی ٹریفک نہیں آرہی تھی۔اس لئے وہ کسی نہ کسی طرح ان پر گاڑی چلا رہی تھی۔ مگر وہ جب بھی مین روڈ پر پہنچتی وہ کسی نہ کسی حادثے کا شکار ضرور ہو جاتی۔ وہاں وہ اس طرح آنکھویں کھولتے بند کرتے گاڑی نہیں چلا سکتی تھی۔
وہ پھر بھی مین روڈ پر جانا چاہتی تھی، اس کا خیال تھا وہاں جا کر وہ گاڑی روک کر سڑک پر اتر جائے گی اور مدد لے لے گی۔ وہ جانتی تھی کہ اتنی ٹریفک اور لوگوں کے درمیان وہ لڑکے اس تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اسے اب اپنی اور شہلا کی حماقت کا احساس ہو رہا تھا۔ انہیں ان لڑکوں سے جان چھڑانے کے لئے کسی بھی چوک میں تعینات ٹریفک کانسٹیبل کے پاس گاڑی روک دینی چاہئے تھی۔ وہاں ٹریفک کانسٹیبل اور لوگ کسی نہ کسی طرح ان کی مدد کر سکتے تھے۔ اس کی دوسری حماقت یہ تھی کہ ایک بار شہلا کے گھر پہنچنے کے بعد اس نے دوبارہ اکیلے نکلنے کی غلطی کی۔




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۸

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۹

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!