اتنا کہہ کر عاصم کی آواز بھرآئی۔ وہ خاموش ہوگیا اور کہیں کھو گیا۔
حسن نے جزبز ہوکر کہا۔ ‘‘ان ساری باتوں کاکرن سے کیا تعلق؟’’
عاصم نے سگریٹ مسلی اور کہا۔ ‘‘میں اسی طرف آرہا ہوں۔ کرن سے میں دو تین مرتبہ سرسری طور پر ملا تھا اور اس کے بارے میں میری جو رائے تھی وہ میں نے تمہارے خیال سے کبھی ظاہر نہیں کی۔ جب تم نسیمہ باجی کے جانے کے بعد میرے گھر سے چلے گئے تو کرن میرے گھر پہنچ گئی۔ میں سمجھا تم سے ملنے آئی ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ تم چلے گئے ہو۔ جواب میں اس نے جو بات کہی اس نے میرے ہوش اڑادیئے۔ اس نے کہا کہ وہ تم سے نہیں مجھ سے محبت کرتی ہے اور یہ کہ تم نے اسے جھوٹے وعدوں کے جال میں پھنسایا تھا لیکن اب اس کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور اسے میری شکل میں true love مل گیا ہے اور اب وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اور یہ بھی کہ اگر میں نے انکار کیا تو وہ زہر کھالے گی۔ میں نے اسے ٹالنے کے لئے صاف صاف بتادیا کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں اور یہ بھی کہ میں اسے شادی شدہ زندگی کی کوئی خوشی نہیں دے سکتا۔’’
حسن نے بے ساختہ پوچھا: ‘‘پھر وہ کیا بولی؟’’
عاصم نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ کہتا رہا:‘‘ حسن ،میری زندگی میں میری طرف بہت سی لڑکیاں بڑھی ہیں۔ میری دولت کے لالچ میں یا لُکس سے متاثر ہوکر یا پھر شاید ویسے ہی مجھے پسند کرکے۔ میں سب ہی کو سچ سچ بتادیتا ہوں اور وہ فوراً پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ یہ واحد لڑکی تھی حسن، جسے اس بات سے کوئی فرق نہ پڑا۔ الٹا وہ یوں خوش ہوئی جیسے اس سے اچھی تو بات ہی نہیں ہوسکتی۔ بڑے ڈائیلاگ بولنے لگی کہ میری محبت تو پاک ہے اور میں ہمیشہ آپ کی داسی بن کر رہنا چاہتی ہوں۔ میں بڑا چکرایا اور بڑی مشکل سے ٹال کر اسے گھر بھیجا۔ میں اس بات سے اتنا اپ سیٹ تھا کہ پوری رات سو نہ سکا۔ مجھے باربار تمہارا خیال آتا تھا۔ تم اس پر جان چھڑکتے تھے۔ اور وہ تمہارے ساتھ یہ کھیل کھیل رہی تھی؟ رہ رہ کر مجھے خیال آتا تمہیں سب کچھ بتا دوں ، پھر سوچتا کیا فائدہ؟ تم کبھی یقین نہ کروگے اور اگر کر بھی لیا تو نہ جانے کیا کر بیٹھو۔ ’’
دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، پھر نظریں چرا لیں۔
عاصم نے اپنی داستان جاری رکھی۔‘‘اگلے دن میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ امی اور بڑی بہن گاؤں سے آگئیں۔ اس روز میری ماں نے اپنا دوپٹہ میرے قدموں میں رکھ دیا اور رو رو کر مجھ سے کہا کہ وہ میرا سہرا دیکھے بغیر مرنا نہیں چاہتیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں کسی چوڑی چمارن پہ بھی ہاتھ رکھوں گاتو وہ اس سے بھی میری شادی کرنے کو تیار ہیں۔ بس میں شادی کے لئے راضی ہوجاؤں۔ وہ لمحہ فیصلے کا لمحہ تھا۔ میں نے سوچا میری زندگی تو رائیگاں گئی سوگئی کم از کم میں تمہاری زندگی تو ضائع ہونے سے بچالوں۔ اگر تم نے اس لڑکی سے شادی کرلی تو تمہاری زندگی برباد ہوجائے گی۔ وہ کبھی تم سے وفادار نہیں رہے گی، کبھی تم سے مخلص نہیں رہے گی۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ تمہیں پا نہیں سکتا لیکن تمہارے لئے قربانی تو دے سکتا ہوں۔ محبت کرنے سے زمانہ مجھے روک سکتا ہے لیکن محبت میں ایثارکرنے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا ۔’’
حسن نے بے تاب ہو کر عاصم کو دیکھا۔ وہ اپنی بات کہنے میں مگن تھا۔‘‘ چنانچہ میں نے اس کو کرن کے بارے میں بتایا۔ وہ خوشی سے بے حال ہوگئیں۔ اور جب انہوں نے کرن کو دیکھا تو مارے خوشی کے رونے لگیں۔ حسین بہو ہی تو چاہیے تھی انہیں۔ دولت اپنے گھر میں اتنی ہے کہ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ میری پسند کی ہو ئی لڑکی امیر ہے یا غریب۔ انہیں تو بس ایک حسن پری چاہیے جسے دیکھ دیکھ کے وہ اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرسکیں، اور جسے پوری دنیا کے سامنے فخر سے پیش کر سکیں اور جس سے ان کے ویسے ہی خوبصورت پوتے پوتیاں پیدا ہوسکیں۔’’