کرن کہہ رہی تھی: ‘‘اور عاصم کا گھر کتنا شاندار ہے۔ ہر روز بتاتے تھے آپ مجھے فون پر کہ کتنی سہولتیں ہیں، کتنے نوکر ہیں، کتنی گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں، فریج ہر وقت بھرے رہتے ہیں۔ یہ آگ تو میرے دل میں آپ ہی نے لگائی۔ اب آپ خود ہی انصاف سے بتائیں جب میں آپ دونوں کو compare کرتی ہوں تو کسی بھی صورت آپ عاصم سے جیت سکتے ہیں؟’’
حسن نے یک ٹک اسے دیکھتے ہوئے کہا: ‘‘تو تم نے صرف دولت کی خاطر محبت کو ٹھکرادیا؟’’
وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔ بولی: ‘‘صرف دولت؟ جسے آپ صرف دولت کہتے ہیں نا، وہ میری پوری زندگی کا فیوچر ہے۔ میری زندگی کیسی گزرے گی، میرا کھانا پینا، میری صحت، میرا رہن سہن کیسا ہوگا۔ میں کتنا ٹریول کروں گی، میری سوشل لائف کیسی ہوگی، کل کو میرے بچے کون سے سکولوں میں پڑھیں گے……یہ سب اِس فیصلے پر ڈیپنڈکرتا ہے کہ میں آج شادی کے لئے کس مرد کو چنتی ہوں۔’’
حسن نے رنج و ملال سے مغلوب ہوکر کہا: ‘‘اسے مرد مت کہو کرن ۔ وہ مر د نہیں ہے۔’’
کرن نے سرجھٹک کر کہا: ‘‘مرد کی definition میری اور آپ کی ڈکشنری میں فرق ہے۔ میرے نزدیک وہ ہی مرد ہے جو عورتِ کو شاندار گھر، گاڑی ، مال و ولت دے سکے ۔ عورت سونے کے لئے شادی کرتی ہے۔ مرد وہی ہے جو عورت کو سونے میں پیلاکردے۔’’
حسن نے رنج سے کہا۔ ‘‘مرد بھی سونے ہی کے لئے شادی کرتا ہے۔ عورت کا سونا الگ، مرد کاالگ ۔ وہ اپنے بستر میں سلانے کے لئے عورت کو سونے میں لادتا ہے۔ عاصم تمہیں کان کا سونا تو دے سکتاہے، بستر کا نہیں۔’’
کرن نے نگاہیں اٹھا کر حسن کو دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں۔
حسن نے کہا۔‘‘عاصم نے تمہیں تمہاری زندگی کا سب سے بڑا دھوکہ دیا ہے۔ وہ مرد نہیں ہے، قومِ لوط کا سپوت ہے۔ اسے عورتوں میں نہیں، مردوں میں دلچسپی ہے۔’’
کرن نے گہری نگاہوں سے حسن کو دیکھا اور بولی: ‘‘انہوں نے مجھے کوئی دھوکہ نہیں دیا۔ یہ بات تو انہوں نے رشتہ بھیجنے سے پہلے ہی صاف صاف مجھے بتادی تھی۔’’
حسن کے سر پر پہاڑ گرپڑا!
بھونچکا ہوکر بولا: ‘‘یہ بات تمہیں معلوم تھی؟ پھر بھی تم نے اس سے نکاح کرلیا؟’’
اس نے لاپروائی سے کہا: ‘‘ہاں۔ جہاں اتنی چیزیں اپنی مرضی کی مل رہی ہوں ، وہاں کسی ایک چیز پر کمپرومائز کرنا بھی پڑے تو کیا ہے؟ رہی بات سونے کی تو جو سونا مجھے وہ دے سکتا ہے، وہ دے اور دوسرا سونا…… ’’
یہ کہہ کر آگے ہوکر حسن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور گہرے لہجے میں بولی: ‘‘اس کے لئے آپ ہیں نا۔ مجھے آپ کی محبت پر پورا بھروسہ ہے کہ صرف شادی ہوجانے سے آپ مجھے چھوڑ نہیں دیں گے۔’’
وقت تھم گیا، کائنات کی سانس رک گئی، ایامِ دہر کی نبض ساکت ہوگئی، زمانہ پتھر کا ہوگیا۔
اور اس قیامت کی گھڑی میں صرف ایک آواز بد روح بن کر حسن کے گرد چکراتی رہی…… ‘‘اس کے لئے آپ ہیں نا، اس کے لئے آپ ہیں نا، آپ ہیں نا……’’
حسن اٹھ کھڑا ہوا۔ چند لمحے کرن کو دیکھتا رہا پھر یکدم ہنس پڑا۔
اس کی ہنسی میں سینکڑوں رنج تھے، ہزاروں نوحے تھے اور لاکھوں پچھتاوے۔ بصد ملال اس نے کہا: ‘‘افسوس کہ اس زندگی میں بھی میں نے اپنے باپ کی نصیحت نہ مانی۔ میرے باپ نے مرتے دم مجھ سے کہا تھا کہ مکا ر اور بے کردار عورت کا کبھی اعتبار نہ کرنا خواہ کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو۔ اب میں نے جانا کہ میرا با پ کیا کہتا تھا۔’’
یہ کہہ کر تیزی سے مڑا اور باہر نکل گیا۔
٭……٭……٭