اس کے باپ نے خوش ہوکر کہا:‘‘ہاں ہاں بیٹا، وہ اوپر اپنے کمرے میں ہے۔ تم اندر چلی جاؤ اور سیڑھیاں چڑھ کر اس کے کمرے میں چلی جانا۔ میں ذرا ٹائیگر کو واک کروا کر لاتا ہوں۔’’
یہ کہہ کر اپنے پلید کتے کی زنجیر نکالی اور سدھارا۔
اس کے جانے کے بعد زلیخا نے حسن کو اشارہ کیا اور حسن درخت کے پیچھے سے نکل کر اندر آیا۔ زلیخا تو کالج کو سدھاری، حسن دو دو تین تین سیڑھیاں پھلانگتا کرن کے کمرے میں جاپہنچا۔
کرن کے کمرے میں پہنچا تو اسے بستر پر بیٹھا پایا ۔ اسکے اردگرد پورے بستر پر کپڑوں، چوڑیوں، زیوروں اور پھولوں کاانبار لگا تھا، ڈھیرپڑا تھا۔ اور ان کے بیچ میں کرن ستاروں کے جھرمٹ میں چاند کی طرح بیٹھی تھی۔
حسن کو آتے دیکھا تو ناز سے مسکرائی اور اٹھلاکر بولی: ‘‘آگئے آپ؟’’
حسن کا جو خیال تھا کہ معشوقہ ء دلبرکا جانے کیا حال ہو، زندگی وبال ہو، رنج وغم میں گرفتارہو، جینے سے بیزار ہو، تو یہاں ایسی کوئی صور ت نہ نظر آئی، الٹا وہ خوب شاد اور دلخوش و باغ باغ نظر آئی۔
حسن کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔
دل میں سوچا، ضرور صدمے سے اس پری رو ُکا دماغ چل گیا ہے۔ اسے ہوش میں لانا چاہیے، پیمانِ الفت یا د کرانا چاہیے۔ یہ سوچ کر قدم بڑھایا اور یہ فقرہ زبان پرلایا: ‘‘اے نازنین ِگل رخسار، قو س ابرو، عنبر موُ۔۔۔آؤ میں تمہیں لینے آیا ہوں۔ چلو کہ اس وحشت کا رنگ بدل جائے ، پریشانی دورہو ، دل بہل جائے۔’’
یہ سن کر وہ نازک بدن، لالہ رخ گلفام کھلکھلائی اور حسن کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور اسے اپنے بستر پر بٹھالیا۔
ہنستے ہوئے بولی :‘‘جیولری کے تین سیٹ لائے ہیں میرے لئے۔ ایک ڈائمنڈ کا اور دو گولڈ کے۔ اور میرا نکاح کا جوڑا ایچ ایس وائے کا تھا۔ میں نے اس کی پرائس تو چیک نہیں کی مگر میرا اندازہ ہے کہ دو لاکھ تک کا تو ضرور ہوگا۔’’
یہ کہہ کر اور بھی لہلائی اور یوں چہچہائی: ‘‘اور یہ دیکھیں، پورے اِکا ون جوڑے لائے ہیں میرے لئے۔ اور سب کے سب ڈیزائنر۔ سوچیں نکاح پر اتنا کچھ دیا ہے تو شادی پر کیا کیا دیں گے؟’’
حسن نے بے قرار ی سے کہا:‘‘اے یار جانی ،یاد کرو کہ ہم دونوں کے دل میں عشق نے رنگِ اثر جمایا تھا۔ تیرِمحبت کا زخم کاری کھایا تھا!میں تمہارے دامِ زلف میں گرفتار تھا، والہ وزار تھا۔ تم ُبھی میری شیدا ہوگئی تھی، دل میں محبت پیدا ہوگئی تھی۔ پھراب یہ کیا ہوا کہ زمانے نے جدائی کا ستم ڈھایا، تمہارے باپ کو تم پر ذرا ترس نہ آیا؟’’
وہ ناطورۂ دلفریب نا ز سے بولی:‘‘اتنے رشتے آتے تھے میرے لئے کہ میں کیابتاؤں۔ وہ پچھلے محلے والا آفتاب تو حق مہر میں ایک فلیٹ دینے کا وعدہ کررہا تھا۔ لیکن ڈیڈی ہمیشہ کہتے تھے کرن تمہارے لئے کوئی شہزادہ آئے گا۔ بالکل ٹھیک کہتے تھے ڈیڈی۔ آگیا نا شہزادہ۔’’
حسن نے بھونچکا ہوکر پوچھا: ‘‘کون شہزادہ؟’’
اس نے شرما کر نظر جھکائی اور مسکرا کر بولی:‘‘ عاصم اور کون؟’’
حسن نے تیوری چڑھا کر کہا: ‘‘عاصم اور شہزادہ؟ وہ شہزادہ نہیں ایک نیچ آدمی ہے۔’’
وہ مسکرائی اور خیالوں میں کھوکربولی۔ ‘‘لینڈ کروزر 2019ء ماڈل ، چار پرسنل گارڈز اور آپ کو پتا ہے مجھے سلامی کتنی اکٹھی ہوئی نکاح پر؟ پورے دس لاکھ روپے۔ چھے نندیں ہیں نا میری۔ لاکھ لاکھ روپیہ تو انہوں نے ہی دیا۔ باقی ان کے امی ابو نے۔’’
حسن نے گھبرا کرکہا۔ ‘‘لو بس اب ہوش میں آؤ، اول جلول تقریر نہ سناؤ۔ تمہارے باپ کو دولت کی چکا چوند نے اندھا کردیا، لالچ بندھا کردیا۔ لیکن تم صاف صاف ان سے کہہ دو کہ……’’
وہ خوشی سے تالی بجاکر بولی:‘‘ہاں ہاں، میں نے تو صاف صاف کہہ دیا ڈیڈی سے۔’’
حسن کو امیدبندھی ۔ آس سے پوچھا: ‘‘کیا کہہ دیا؟’’
وہ جھوم کر بولی: ‘‘یہی کہ شادی کروں گی تو یہیں کروں گی، ورنہ نہیں کروں گی۔ ارے یہ تو شعر ہوگیا……یہیں کروں گی ورنہ نہیں کروں گی ہاہاہا……’’
حسن نے چکر اکر پوچھا: ‘‘یہیں سے کیا مراد ہے؟ کیا عاصم سے نکاح تمہاری مرضی سے ہوا ہے؟’’
کرن نے اٹھلا کر کہا: ‘‘ہاں نا! بھلا مرضی کے بغیر بھی نکاح ہوتا ہے ؟ جونہی وہ لوگ رشتہ لے کر آئے، میں نے ڈیڈی سے کہا ابھی اسی وقت ہاں کریں اور منگنی نہیں سیدھا نکاح کریں۔ ارے یہ تو پھر شعر بن گیا ہاہاہا۔۔۔ لگتا ہے آپ کی صحبت کا اثر ہوگیا ہے مجھ پر۔’’
وہ بتِ طناز تو شوخی کرتی تھی اور یہاں حسن کی جان نکلتی تھی۔ بددماغ ہوکر بولا : ‘‘عاصم کی اتنی ہمت کہ تمہارے لئے رشتہ بھیجا؟ خدا اسے غارت کرے۔ بھلا کیونکر اس نے پیٹ سے پاؤں نکالے اور دوست کی معشوقہ پر ڈورے ڈالے؟’’
کرن نے ناز سے اپنی مٹھی پر تھوڑی ٹکائی اور حسن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی:
‘‘آپ سے کس نے کہا کہ عاصم نے مجھ پر ڈورے ڈالے؟ ہوسکتا ہے مجھے ہی وہ پسند آگیا ہو۔’’
حسن بھونچکا رہ گیا۔ بے یقینی سے بولا:‘‘یہ کیسے ہوسکتا ہے؟’’
اس نے معصومیت سے پوچھا:‘‘ہو کیوں نہیں سکتا؟’’