الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۲

ماموں کی آواز میں وہ چہک اور وہ کھنک تھی کہ آج تک کبھی نہ سنی تھی۔ چہک کر بولے:‘‘میں اپنے گھر میں ہوں، امی۔’’
دادی نے حیرت سے کہا:‘‘کون سا گھر، بیٹے؟ تیرا گھر تو یہ ہے۔’’
ماموں نے قہقہہ لگا کر کہا:‘‘اب میرا اصلی گھر یہی ہے امی، ایک پورشن لیا ہے کرائے پر، ٹاؤن شپ میں۔اب میں یہیں رہوں گا۔’’
نانی نے گھبرا کر کہا:‘‘یہاں نہیں آئے گا کیا؟’’
ماموں نے بڑے پن سے تسلی دیتے ہوئے کہا:‘‘آؤں گا۔ آپ سے اور بچوں سے ملنے تو آیا کروں گا۔’’ یہ سن کر زلیخا نے غصے سے سر جھٹکا۔ نانی پیارسے بولیں۔‘‘وہ سب تو ٹھیک ہے بیٹے لیکن یہ بتا یہ تجھے سوجھی کیا؟’’
ماموں خوشی سے بے حال ہوتے ہوئے بولے:‘‘مجھے کہاں سوجھی؟ یہ رستہ تو مجھے حسن نے دکھایا۔ اصل شکریہ تو اس کا ادا کرنا بنتا ہے۔’’
زلیخا اور نانی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ بے یقین نظریں حسن پر جم گئیں۔
حسن بے حد گھبرایا۔ ہکلا کر بولا:‘‘میں…… میں نے کب……؟’’
ماموں ہنستے ہوئے بولے:‘‘ یاد کرو، جب پروین نے مجھے زدوکوب کیا تھا اور تم مجھے اس کے کمرے میں لائے تھے، تب تم نے کہا تھا کہ ماموں کو چاہیے کہ دوسری شادی کرلیں تاکہ گھر کا سکھ پا سکیں۔’’
اس انوکھی بات کا وہاں پر موجود تینوں لوگوں پر مختلف اثر ہوا۔ نانی نے نظریں چرائیں اور دزدیدہ نگاہوں سے زلیخا کو تکنے لگیں۔ زلیخا دانت پیستی تھی اور ایسی نگاہوں سے حسن کو دیکھتی تھی کہ گویا کچا ہی تو کھا جائے گی اور حسن کا یہ حال کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ ہکلا کر بولا:‘‘وہ تو میں یونہی غصے میں نانی سے کہتا تھا۔ آپ سے تھوڑی کہا تھا میں نے؟ آپ تو بے ہوش تھے۔’’
ماموں قہقہہ لگا کر بولے:‘‘ ہاہاہا ۔۔۔اس وقت ہوش میں آچکا تھا۔ بس یونہی آنکھیں بند کیے پڑا تھا ۔۔۔ہاہاہا……’’
نانی نے شکوہ کرتے ہوئے کہا:‘‘تو ُمجھے تو بتا دیتا، بیٹے۔ تیرے غائب ہونے سے میں اتنی پریشان رہی۔’’
ماموں ے شوخی سے کہا: یہ ایڈونچر بھی مجھے حسن کی بدولت سوجھا۔’’
نانی نے گھبرا کر حسن کو دیکھا۔ زلیخا نے دانت اس زور سے پیسے کہ گویا حسن کی ہڈیاں چباتی ہو۔ ماموں مزے سے بولے:‘‘حسن کا ڈرامہ دیکھنے کے بعد مجھے ڈرامے دیکھنے کا شوق ہوگیا اور ڈراموں میں ایسے ہی تو ہوتا ہے کہ لڑکیاں گھر سے بھاگ جاتی ہیں اور اگلے دن نکاح نامہ بھیج دیتی ہیں۔’’
نانی خفا ہوکر بولیں:‘‘خدا کا خوف کر زاہد، توُ لڑکی تو نہیں۔’’
ماموں نے شوخی و شرارت سے کہا:‘‘لیکن گھر سے تو بھاگ گیا نا۔۔۔ ہاہاہا۔’’
یہ کہا اور فون بند کردیا۔ نانی فون ہاتھ میں لیے بیٹھی رہ گئی اور دزدیدہ نگاہوں سے کبھی حسن اور کبھی زلیخا کو دیکھنے لگی۔ زلیخا کڑی نظروں سے حسن کو گھورتی تھی اور حسن کا یہ عالم تھا کہ بس نہ چلتا تھا کہ زمین پھٹے اور اس میں سما جائے۔ کبھی آسمان کو دیکھتا تھا کہ اے فلک کج رفتار تو ہی اٹھا لے کہ بندہ اس ذلت سے نجات پائے۔
زلیخا نے غصے سے دانت پیس کر کہا:‘‘تو یہ سب تمہاری کارستانی ہے۔’’
حسن ہکلا کر بولا:‘‘میری؟ میری کارستانی کس طرح؟’’
زلیخا نے تیزی سے کہا:‘‘کیا ضرورت تھی ابا کو دوسری شادی کا مشورہ دینے کی؟’’
حسن گھبرا کر صوفے میں دبک گیا اور مسکین آواز میں بولا:‘‘ماموں کو مشورہ تھوڑی دیا تھا۔ بس نانی سے ایک بات کی تھی۔’’
‘‘کیوں کی تھی؟’’ زلیخا چلائی۔
حسن نے صفائی دیتے ہوئے کہا:‘‘کیونکہ نانی رو رہی تھیں کہ ماموں نے کبھی گھر کا سکھ نہیں دیکھا اور ماموں تو اس وقت بے ہوش پڑے تھے ،یعنی مجھے یوں لگتا تھا کہ بے ہوش ہیں اب مجھے کیا معلوم تھا……’’
زلیخا نے غصے سے بات کاٹ کر کہا۔‘‘ایسی بات منہ سے ہی کیوں نکالی تم نے؟ تمہیں پتا نہیں ہے ابا کا؟ اپنے ذہن سے آج تک کچھ سوچا ہے انہوں نے؟ بس جو کسی نے کہہ دیا، ابا اس طرف چل پڑے۔’’
نانی نے خفا ہوکر کہا:‘‘پہلے تو تو ُکہتی تھی کہ زاہد بچہ نہیں ہے کہ کوئی بہلا پھسلا کر لے جائے، اب باپ کو بے عقل ثابت کرنے پر تل گئی ہے؟’’
زلیخا نے خفگی سے کہا:‘‘جو بات سچ ہے، وہ ہے۔ ابا کی کبھی ایسی حرکت کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ انہوں نے یہ سب حسن کی شہہ پر کیا ہے۔’’
اب کے حسن بھی ناراض ہوا۔ بولا: ‘‘آج یا کل یہ دن تو آنا ہی تھا۔ جو سلوک ممانی ماموں کے ساتھ کرتی تھیں، اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا۔ ممانی ساری عمر ماموں کے سر پر سوار رہی، نہ جانے کس خبط میں گرفتار رہی؟ ماموں کا گھر کبھی بسا ہی نہیں، کوئی سکھ کا لمحہ ملا ہی نہیں۔ اب گھر بسا لیا تو کیا برا کیا؟’’
زلیخا نے استہزا ء سے کہا:‘‘اوہ! تو تم بھی وہی typical مرد نکلے جو عورت کو قابو کرنے کے لیے ایسے ہتھکنڈوں میں یقین رکھتا ہے۔ بیوی کو یا طلاق کی دھمکی دو یا دوسری شادی کی اور ان دھمکیوں کے زور پر اسے پاؤں کی جوتی بنا کر رکھو۔ میں تمہیں کیا سمجھتی تھی حسن اور تم کیا نکلے۔’’
حسن نے سنجیدگی سے کہا:‘‘جوتی پاؤں میں ہو یا سر پر برستی ہو، ہوتی جوتی ہی ہے اور جوتی بنے رہنے میں کیا عزت اور کیا خیر؟’’
زلیخا غصے سے اچھل کر کھڑی ہوگئی اور چلا کر بولی: ‘‘mind your language حسن بدر الدین! تم میری ماں کے بارے میں بات کررہے ہو۔’’
نانی نے بیچ بچاؤ کرواتے ہوئے کہا: ‘‘آئے ہائے بیٹی، توُ خوامخواہ میں اس بے چارے پر غصہ ہورہی ہے؟ اس نے ہاتھ پکڑ کے نسیمہ کا رشتہ تو پیش نہیں کیا تھا زاہد کو۔’’
زلیخا نے بگڑ کر کہا:‘‘نہیں ۔یہ کام تو نسیمہ بھابھی نے خود کیا ہوگا۔’’
حسن نے آہستہ سے لقمہ دیا۔ ‘‘نسیمہ امی کہو۔’’
نانی نے گھبرا کر حسن کو دیکھا لیکن صد شکر کہ زلیخا کو غصے میں کچھ سنائی نہ دیا۔ وہ بولتی رہی:‘‘ انہیں شرم نہ آئی کہ جس گھر نے انہیں پناہ دی انہوں نے اُسی گھر کی خوشیوں پہ ڈاکہ مارا۔ ابا کو ورغلا لیا۔’’
نانی نے سنجیدگی سے پوچھا:‘‘کون سی خوشیاں، زلیخا؟ ایسی کون سی خوشیاں تھیں اس گھر میں جو نسیمہ چھین کر لے گئی؟ اور کس پناہ کی بات کرتی ہے توُ؟ اس غریب مظلوم بچی کو جس طرح طلاق ہوئی، آسمان بھی کانپ گیا ہوگا، لیکن تیری ماں کو ذرا ترس نہ آیا۔ کیسے دھکے دے کر نکال دیا اسے گھر سے۔ اگر حسن اس کا وارث نہ بنتا تو وہ کہاں جاتی؟ اور حسن بھی کب تک وارث بنتا؟ وہ اس کا سگا بھائی نہیں۔ اس کے ساتھ رہتی تو دنیا میں کس کس کا منہ بند کرتی؟’’
زلیخا لاجواب ہوکر نانی کو دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے پر چھایا غصہ اب ایک شکست کی کیفیت میں بدل رہا تھا۔
نانی نے ملال سے کہا:‘‘کل کو حسن کی شادی ہوئی تو نسیمہ کی جگہ کہاں بنتی اس کے گھر میں؟ آج کل کی لڑکیاں تو سگی ساس کو برداشت نہیں کرتیں تو حسن کی بیوی رشتے کی نند کو کہاں برداشت کرتی؟ نسیمہ نے وہ کیا جس کے علاوہ اس کے پاس چارہ ہی نہیں تھا۔’’
زلیخا کا غصہ اب جھاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا۔ بے بسی سے وہ شکست خوردہ انداز میں سر جھکا کر بیٹھ گئی۔
نانی نے نرمی سے کہا:‘‘انسانوں کو معاف کرنا سیکھو، بیٹی۔ انسان اپنا فائدہ دیکھتے ہیں تو یہ ان کی مجبوری ہے۔ نسیمہ نے اپنا فائدہ دیکھا تو زاہد نے بھی اپنی ہی غرض سے اس سے شادی کی، اللہ واسطے نہیں کی۔ پروین بھی اپنا فائدہ دیکھ رہی ہے اور تم بھی، ورنہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کیا زاہد نے جو کیا وہ غلط کیا؟ ساری عمر کے دکھ سہنے کے بعد کیا اس کا حق نہیں کہ اپنے لیے سکھ ڈھونڈے؟ کیا اس کا حق نہیں کہ وہ خوش رہے، بیوی کی محبت اور عزت کا لطف اٹھائے؟’’
زلیخا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، پلکیں اٹھا کر اس نے ایک نظر نانی کو دیکھا، پھر حسن سے اس کی نظریں ملیں۔ اس کی ڈبڈبائی آنکھیں دیکھ کے حسن کے دل پر گھونسا لگا۔
ناچار، بہ حالتِ زار، لجاجت سے بولا:‘‘زلیخا اگر خاکسار سے نادانستہ یہ خطا ہوئی ہے تو معاف فرماؤ، قلب کو بغض سے صاف فرماؤ۔’’
زلیخا نے ہلکے سے اثبات میں سر ہلایا اور اُٹھ کر چلی گئی۔ نانی نے اطمینان سے چینی دان نکالا اور مزے سے چینی کھانے لگی، زیرِ لب گنگنانے لگی۔
‘‘بلما جلدی آئیو نا امبو تلے……’’

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۱

Read Next

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۳

One Comment

  • Why last episode is incomplete it has only six pages and story is not complete please check it and upload the rest of pages thank you.

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!