حسن نے حیران ہو کرکہا: ‘‘اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ شاہ زادی چار دہ سالہ ہے؟’’
زلیخاتحمل سے بولی: ‘‘ میڈیکل سائنس کے مطابق اٹھارہ سال کی عمر تک کا انسان بچہ ہوتا ہے۔ کسی بھی جسمانی یا سائیکالوجیکل بیماری کی صورت میں اسے ایزآ چائلڈ ٹریٹ کیا جاتا ہے ۔ یہ تمہارا ہیرو ایک نابالغ بچی کو ورغلا کے لے جا رہا تھا۔ اسے شرم نہیں آئی؟’’
حسن نے کہا: ‘‘شرم کی کیا بات؟ اس زمانے میں اسی عمر میں یہ سارے کام ہوتے تھے۔’’
زلیخا نے تجسس سے پوچھا: ‘‘اور اس ہیرو کی اپنی کیا عمر تھی؟’’
حسن نے کہا:
“پندرہ برس یا کہ سولہ کا سن
جوانی کی راتیں مرادوں کے دن”
زلیخا اس قدر ششدر ہوئی کہ کچھ دیر تک تو کچھ بول ہی نہ سکی۔ آخر گہرا سانس لے کر بولی: ‘‘میں سمجھ گئی۔ یہ جو ایک نظر دیکھ کر عشق میں مرر ہے تھے اور غش کھا رہے تھے یہ teenage infatuation تھی ۔ Hormonal rage کا نتیجہ۔’’
حسن کچھ نہ سمجھا۔ لہٰذا سنی ان سنی کر کے کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا: ‘‘تاج الملوک اور درۃ التاج ہندوستان آئے۔ یہاں پہنچ کر تاج الملوک نے بادشاہ کے حضور درخواست کی اور اپنے بھائیوں سے جائیداد واپس لی۔ درۃ التاج سے نکاح کیا اور اپنی زوجہ مطبوعہ کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگا۔
جس طرح انہیں بہم ملایا
معشوق سب ملیں خدایا’’
حسن کی کہانی ختم ہوئی اور بہت دیر تک حسن اور زلیخا اپنی اپنی سوچوں میں گم خاموش بیٹھے رہے۔ حسن اپنی محبوبہ پری وش کرن کی یاد میں محزون و ملول بیٹھا رہا اور زلیخا نہ جانے کیا سوچتی رہی۔
آخر سر اٹھایا اور بولی: ‘‘کچھ بھی ہو، تمہارے دوست کی imagination بڑی تیز تھی۔ بڑی مزے کی کہانی بنائی اس نے۔ آرٹسٹ چور، جن، پریاں، ظالم مجوسی کی نرم دل لڑکی اور پھر وہ ہیروئن چاردہ سالہ۔ لیکن میں یہ سوچ رہی تھی کہ کہانی بے شک نری گپ تھی، لیکن ہیومن سائیکالوجی کی بڑی گہری انڈرسٹیڈنگ ہے اس میں۔ تم ٹھیک کہتے تھے کہ انسان ہر زمانے میں ایک ہی فطرت کے ہوتے ہیں۔ آج بھی دولت جائیداد کے پیچھے سگے بہن بھائی ایک دوسرے کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں، آج بھی بُرے ماں باپ کے گھر اچھی اور شریف ماں باپ کے گھر بُری اولاد پیدا ہو سکتی ہے۔ آج بھی نوجوان لڑکیاں چار دن کی محبت کے پیچھے ماں باپ کو چھوڑ جاتی ہیں اور رہے ٹین ایجرز تو وہ میرا خیال ہے ہمیشہ سے ہی ایسے نتائج سے بے پرواہ اور تھوڑے پاگل ہوتے ہیں۔’’
حسن نے کہا: ‘‘اگر ہر زمانے کے اربوں انسانوں کو خدا نئی فطرت پر پیدا کرتا تو نوعِ انسانی کبھی ترقی نہ کرتی۔ کوئی اپنے پچھلوں کی غلطیوں سے نہ سیکھتا، نہ ہی ان کے کسی کام کو آگے بڑھاتا۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘ہاں ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن بھئی ایک بات سے میں متفق نہیں ہوں۔’’
حسن نے پوچھا: ‘‘کس بات سے؟’’
زلیخا نے کہا: ‘‘یہ بات بات پر غش آنے سے۔ محبت ہو گئی تو غش، گانا سن لیا تو غش، خوشخبری مل گئی تو غش، میں نے تو آج تک کسی کو غش کھاتے نہیں دیکھا۔’’
حسن نے کہا: ‘‘کیوں بھلا؟ اس دن جب ممانی ماموں کو مارتی تھیں، ماموں نے غش کھایا تو تھا۔’’
زلیخا چپ کی چپ رہ گئی۔ ٹوٹے ہوئے لہجے میں آہستہ سے بولی: ‘‘بے ہوش ہو گئے تھے ابا؟’’
حسن نے سوچتے ہوئے کہا: ‘‘ہاں۔ لیکن اس دن ممانی نے بڑے زور زور کے طمانچے مارے تھے ان کے سر پر۔ ہو سکتا ہے انہی چوٹوں کے زیرِ اثر غش کھا گئے ہوں۔’’
زلیخا نے کہا: ‘‘ہاں ہو سکتا ہے۔ ویسے چوٹ سے اور صدمے سے تو انسان غش کھا سکتا ہے، عشق کے مارے کسی کو غش نہیں آسکتا۔’’
حسن نے وثوق سے کہا: ‘‘آسکتا ہے۔’’
زلیخا نے اصرار کیا: ‘‘نہیں آسکتا۔ میں نہیں مانتی۔’’
حسن نے کہا: ‘‘جس دن تمہیں عشق ہو گا، تمہیں بھی غش آئے گا۔’’
زلیخا بھنا کر بولی: ‘‘اوہ فار گاڈ سیک۔ عشق نہ ہوا ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ ایسے عشق سے اللہ بچائے۔’’
ابھی حسن نے جواب دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ پھاٹک کھلا اور نسیمہ باجی افتاں و خیزاں اندر داخل ہوئی۔ حسن اور زلیخا کو تخت پر بیٹھے پایا تو ان کی طرف لپکی اور ہراساں ہو کر بولی: ‘‘غضب ہو گیا۔ منے کے پاپا کو سب کچھ پتا چل گیا۔’’
زلیخا نے گھبرا کر پوچھا: ‘‘کیا ہوا بھابھی؟ کیا پتا چل گیا بنے بھائی کو؟’’
نسیمہ نے گھگھیائی ہوئی آواز میں کہا: ‘‘انہوں نے مجھے ٹریننگ سنٹر جاتے دیکھ لیا۔ چھپ کے میرا پیچھا کیا۔ وہاں دفتر سے ساری معلومات لے لیں کہ میں کون سا کورس کر رہی ہوں اور کتنے عرصے کا اور کتنی فیس۔’’
یہ کہتے کہتے نسیمہ کی آواز بھرآئی اور وہ رونے لگی۔ حسن اور زلیخا بے حد اضطراب کے عالم میں کبھی نسیمہ کو دیکھتے تھے کبھی ایک دوسرے کو۔