زلیخا چلا اٹھی: ‘‘ہیں؟ ہیں؟ پری کو بھی غش آیا؟’’
حسن نے تامل سے کہا: ‘‘ہاں۔’’
‘‘عشق کے مارے؟’’
‘‘ہاں۔’’
‘‘کمال ہے۔ اچھا پھر آگے کیا ہوا؟’’
حسن نے کہا: ‘‘پھر یہ ہوا کہ جب وزیر زادہ بیدار ہو اتو پری نے اس کی بلائیں لیں اور اس سے کہا کہ تو آدم زاد میں پری۔ تیرا میرا ملن ممکن نہیں لیکن اتنا ضرور کر سکتی ہوں کہ تجھے اس جنگل سے نکال دوں اور تیری مددگار بنوں۔ اس کے عوض میں یہ تمنا ہے کہ کبھی کبھی آکر تجھے مل جایا کروں اور تیری دید سے آنکھیں ٹھنڈی کروں۔یہ کہہ کر ایک طلسم دیا اور یہ صلاح نیک دی کہ اس طلسم میں میرے سینکڑوں غلام جن بند ہیں۔ اگر اسے آگ دکھاؤ تو کُل جن حاضر ہو جائیں گے۔ سب کے سب معاً دوڑے آئیں گے اور جو حکم دو گے بجا لائیں گے۔ وزیر زادے نے یہی کیا اور جب جن حاضر ہوئے تو کہا مجھے جنگل سے نکال دو۔ خوشی کے مارے یہ کہنا بھول گیا کہ معشوقہء سیمیں بدن کے شہر میں پہنچا دو۔ جنوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور اسے لے کر اڑے اور جنگل کے کنارے ایک شہر میں جا اتارا۔
اب سنیے کہ یہ شہر مجوسیوں کا تھا۔ ایک پیر مرد نے جو وزیر زادے کو دیکھا تو پاس آیا اور حال کا جویا ہوا۔ا وزیر زادے نے اپنی تمام سرگزشت بیان کی، کل حالت عیاں کی۔ وہ نابکار مجوسی ،مسلمانوں کا دشمن تھا، دھوکے سے اپنے گھر لے گیا۔ اس کے مکان میں ایک تہہ خانہ خاص اسی غرض سے تیار ہوا تھا کہ مسلمانوں کو ایذا دیں۔ اس مجوسی کی ایک جوان لڑکی تھی۔ مجوسی نے اپنی لڑکی کو بلایا اور اسے تاج الملوک دکھایا۔ وہ دیکھتے ہی ہزار جان سے عاشق ہو گئی اور۔۔۔’’
زلیخا نے تیزی سے کہا: ‘‘ایک منٹ ایک منٹ، ذرا یہیں رک جاؤ۔ یہ بتاؤ، یہ کہانی جو تم مجھے سنا رہے ہو، تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی؟’’
حسن نے کہا: ‘‘نہیں ،مجھے خود وزیرزادے نے سنائی۔’’
زلیخا نے تیوری چڑھا کر کہا: ‘‘بڑا ہی کوئی جھوٹا لپاٹا تھا تمہارا دوست اور انتہا کا شیخی خورا بھی۔ کیا پری اور کیا مجوسی کی لڑکی سب اس پر عاشق ہو جاتی تھیں۔ ایسا کون سا شہزادہ گلفام تھا یہ؟ یہ سب جھوٹ ہے اور اس کی اپنی fantacies ہیں۔’’
حسن نے سنی ان سنی کر کے کہا: ‘‘مجوسی کی لڑکی نے شایدکبھی ایسا کوئی جوانِ رعنا شمائل، زیبا خصائل نہیں دیکھا تھا۔ اب دیکھا تو ہزار جان سے عاشق ہوئی اور اتنا عشق چرایا کہ۔۔۔ کہ۔۔۔’’
ا تنا کہہ کر حسن ہکلا کر خاموش ہو گیا۔
زلیخا نے ابرو اچکا کر پوچھا: ‘‘کہ کیا؟اس کو بھی غش آیا؟’’
حسن نے خفیف ہو کر کہا: ‘‘ہاں۔’’
زلیخا نے سرہلا کر کہا: ‘‘ظاہر ہے۔ جب سب غش کھاتے پھرتے ہیں تو یہ غریب کیوں پیچھے رہے؟ اچھا آگے کیا ہوا؟’’
حسن نے کہا: ‘‘مجوسی کی لڑکی نے خود کو سنبھالا اور اپنے باپ سے پوچھا کہ خدارا یہ تو بتاؤ کہ اس قوس ابرو، پری روجوانِ رعنا کو کہاں سے لائے ہو؟ کہ لکھو کھا میں ایک، حسن و جمال میں فرد ہے، سارے عالم میں ایسا حسین بھی کوئی مرد ہے؟’’
زلیخا نے بے یقینی سے کہا: ‘‘یہ ساری باتیں اس نے اپنے باپ سے کیں۔’’
‘‘ہاں۔’’
‘‘اور اس سٹوپڈ مجوسی کو ذرا بھی شک نہیں ہوا کہ بیٹی غش کیوں کھا رہی ہے اور ایسے ڈائیلاگ کیوں بول رہی ہے؟’’
حسن نے کہا: ‘‘شک کا تو نہیں پتا مگر مجوسی نے وزیرزادے کے پاؤں میں بھاری زنجیر ڈالی اور تہ خانے میں بند کیا اور اپنی لڑکی کو حکم دیا کہ دن رات اس کو تکلیف پہنچائے، ذرا رحم نہ کھائے تاکہ اس کا کام جلد تمام ہو جائے۔ یہ حکم دے کر وزیرزادے سے اس کا طلسم چھین لیا اور اس کو بہت مارا اور مار پیٹ کر تہ خانے کو بند کر دیا اور کنجیاں اپنی لڑکی کے سپرد کر دیں اور اپنی راہ لی۔ ادھر لڑکی کا یہ حال ہوا تھا کہ تیر ِ نگاہ نے ایسا گھائل کیا کہ جی چاہتا تھا کہ فوراً لپٹ کر بوسے لے لے۔’’
‘‘?What the hell’’ زلیخا چلا اٹھی۔ ‘‘پہلے پری نے یہ حرکت کی اور اب یہ مجوسی کی لڑکی۔ یہ ہو کیا رہا ہے؟’’
حسن نے سادگی سے کہا: ‘‘عشق ہو رہا ہے۔’’
زلیخا نے بھنا کر کہا: ‘‘اف ایک تو تم مردوں کی fantacies۔ لڑکیاں ایسے نہیں سوچتیں کہ ادھر کسی پر دل آیا اور فوراً ایسی بے ہودہ باتیں سوچنے لگیں۔’’
حسن نے حیران ہو کر کہا: ‘‘واقعی؟ مرد تو ایسے ہی سوچتے ہیں۔’’
زلیخا نے دانت پیس کر کہا: ‘‘یہ تمہارا ہیرو مجھے بالکل پسند نہیں آرہا۔’’
حسن نے مزید حیرت سے کہا: ‘‘کیوں بھئی؟ اس بے چارے کا کیا قصور؟’’
زلیخا نے سرجھٹک کر کہا: ‘‘خیر چھوڑو تم اسے۔ آگے بتاؤ کیا ہوا؟’’