زلیخا اور دادی کے پیچھے منا بھی چل دیا اور یوں حسن کے ڈرامے کی پہلی قسط کا اختتام ہوا کہ حسن ملول و محزون اکیلا بیٹھا ٹی وی پر اپنے آپ کو دیکھتا رہا۔ گو کہ ماموں بھی ساتھ تھے لیکن ان کا ہونا نہ ہونا برابر تھا، موجود ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں لگتے تھے۔ بے چارہ حسن یہ عالم دیکھ کر رنج سے دوچار ہوا، زندگی سے بے زار ہوا۔
اگلی صبح اس کی آنکھ چیخوں کی آواز سے کھلی گھبر اکر افتاں و خیزاں حیران و پریشان اپنے کمرے سے نکلا تو دیکھا زلیخا لاؤنج میں کھڑی ہے اور سارا گھر اس کے گرد اکٹھا ہے۔ زلیخا روتی ہے اور ہنستی ہے اور اوہ مائی گاڈ، اوہ مائی گاڈ کہے جاتی ہے۔ حسن کو آتے دیکھا تو بھاگ کر اس کے کندھے سے چمٹ گئی۔ زاروقطار روتے اور ہنستے ہوئے بولی: ‘‘میرا رزلٹ آگیا حسن، یہ دیکھو میرا نام میرٹ لسٹ میں آگیا ہے۔ میں ڈاکٹر بنوں گی حسن، اب میں ڈاکٹر بنوں گی۔’’
حسن جو کہ انتہا کا رفیق القلب نوجوان تھا، آبدیدہ ہوا اور فرطِ مسرت و ہجت سے کچھ بول نہ سکا۔ اس نے دیکھا کہ زلیخا کی طرح دادی، ماموں، ممانی اور منا بھی کبھی ہنستے ہیں کبھی روتے ہیں۔ زلیخا کو کبھی دادی گلے لگا کر پیار کرتی ہے، کبھی ممانی اس کا منہ چومتی ہے، کبھی ماموں اس کے کندھے میں منہ چھپا کر روتے اور زلیخا ہنستے ہوئے ان کا سر تھپکتی۔ حسن ان خوشی کے لمحات کو ایک طرف کھڑا دیکھتا رہا اور مسکراتا رہا۔ پھر اسے کچھ خیال آیا اور ان سب کو وہیں چھوڑ کر باہر نکلا، دس کلو مٹھائی خریدی اور گھر کو آیا۔
زلیخا نے مٹھائی کا ٹکڑا اٹھایا اور حسن کے قریب آئی اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی: ‘‘یہ کامیابی تمہارے نام ہے۔ تم نہ ہوتے تو میں یہ قدم کبھی نہ اٹھاتی۔’’ یہ کہہ کر حسن کے منہ میں مٹھائی ڈالی۔ حسن اس کے گلابی ہوتے چہرے سے نظر نہ ہٹا سکا، اپنے دل میں ہوتی ہلچل کو سنبھالتے ہوئے اس نے زلیخا کی آنکھوں میں لکھی تحریر پڑھنے کی کوشش کی مگر اس نے پلکیں جھکا لیں اور حسن یہ راز نہ پا سکا۔
تمام دن گھر بھر میں جشن بپا رہا۔ محلے میں مٹھائی بانٹی گئی۔ سارا دن محلے والے، رشتہ دار، زلیخا کی سہیلیاں مبارکباد دینے آتے رہے۔ حسن سب مہمانوں کو مٹھائی پیش کرتا رہا اور ان سے خوش گپیاں کرتا رہا۔ باتیں کرتے کرتے اس کی نظر زلیخا پر پڑتی تو اسے اپنی طرف دیکھتا پاتا۔ اس کی نگاہوں میں تشکر کے ساتھ کوئی اور بھی جذبہ جھلکتا نظر آتا مگر وہ اسے کوئی نام نہ دے پاتا۔ کنیزِ بے تمیز کے ہاتھ اس نے محبوبہ نازنین کرن کے لیے بھی مٹھائی بھجوائی جو اس پیغام کے ساتھ واپس آگئی کہ ہونہہ یہ کون سی اتنی بڑی بات ہے کہ جس پر مٹھائی بانٹی جائے شادی طے ہوئی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی۔ زلیخا یہ سن کر ہنس پڑی۔ وہ اتنی خوش تھی کہ آج کے دن کوئی بات اسے رنجیدہ نہ کر سکتی تھی۔
زلیخا کے اس خیال کو غلط ثابت کرنے کے لیے کاتبِ تقدیر نے کچھ زیادہ انتظار نہ کیا۔ رات کو جب آخری مہمان بھی چلا گیا تو دروازہ کھلا اور بنے بھائی اور نسیمہ اندر داخل ہوئے زلیخا نے انہیں آتے دیکھا اور ہنستے ہوئے شکوہ کیا: ‘‘اب آئی ہیں بھابھی؟ میں تو صبح سے آپ کا انتظار کر رہی تھی۔ آئیں مٹھائی کھائیں۔ بنے بھائی آپ کی فیورٹ برفی بچا کر رکھی ہے میں نے آپ کے لیے۔’’
بنے بھائی نسیمہ کا ہاتھ پکڑ کر لاؤنج کے وسط میں آکر کھڑے ہوئے اور بہ آواز بلند بولے: ‘‘میں مٹھائی کھانے نہیں آیا۔ اپنا حساب صاف کرنے آیا ہوں۔’’
زلیخا کی مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی۔ اس نے ایک نظر سفید پڑتے چہرے والی نسیمہ بھابھی پر ڈالی اور کہا: ‘‘حساب کی بات پھر کبھی کر لیں گے بنے بھائی، آج خوشی کا موقع ہے۔۔۔’’
بنے بھائی نے بات کاٹ کر کہا: ‘‘بات آج ہو گی اور ابھی اسی وقت ہو گی۔’’
یہ کہہ کر حسن سے مخاطب ہوئے: ‘‘تم نے مجھے پورے بازار میں بے عزت کیا، مجھ سے میرا روزگار چھینا، میرا حق مارا، میری عزت دو کوڑی کی کر دی۔ اب میں سب کچھ سود سمیت تمہیں واپس کرنے آیا ہوں۔’’
حسن نے دھڑکتے دل سے پوچھا: ‘‘کیا مطلب ہے بنے بھائی؟’’
بنے بھائی نے مکارانہ مسکراہٹ سے کہا: ‘‘بھائی بنا پھرتا ہے نا تو اس کا؟ عزت ہے نا یہ تیری؟ تو اب میری بات غور سے سن۔ ابا کی دکان میں مجھے میرا حصہ دے دے ورنہ میں اسے طلاق دے دوں گا۔’’
نانی کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ ممانی بھی گھبرا کر بولی: ‘‘یہ کیا کہہ رہا ہے بنے؟’’
بنے بھائی نے ڈپٹ کر کہا: ‘‘آپ چپ رہیں ماما۔ زندگی بھر آپ نے میرے لیے کیا ہی کیا ہے؟’’
نانی نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا: ‘‘کیسی باتیں کر رہا ہے بیٹے۔ یہ تیرے بچے کی ماں ہے۔’’
بنے بھائی نے شیطانی مسکراہٹ سے کہا: ‘‘طلاق کے کاغذات میں وجہ یہی لکھوں گا کہ مجھے شک ہے کہ بچہ میرا نہیں کسی اور کا ہے۔’’
نسیمہ باجی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ حسن طیش کے مارے تاب نہ لایا۔ مشتعل ہو کر کہا:
‘‘یہ کیا ہرزہ دوائی ہے۔ پاکدامن پر تہمت لگانا گناہ ہے، بھلا بدلہ لینے کی یہ کون سی راہ ہے؟’’
بنے بھائی نے اطمینان سے کہا: ‘‘گناہ ثواب کی باتیں مجھے کیا معلوم؟ مجھے تو بس اتنا پتا ہے کہ گھی سیدھی انگلیوں سے نہ نکلے تو انگلیاں ٹیڑھی کرنی پڑتی ہیں۔’’
نانی نے بصد سماجت کہا: ‘‘غصہ نہ کر بیٹا۔ آبیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ کوئی حل نکالتے ہیں مسئلے کا۔’’
بنے بھائی نے حقارت سے کہا: ‘‘بہت کوششیں کر لیں حل نکالنے کی۔ اس حرام زادے سے کہو دکان میرے حوالے کرے اور خود دفع ہو جائے۔ ورنہ سنبھالے اپنی بہن کو۔ میں نے ٹھیکہ نہیں لیا ہوا اسے پالنے کا۔’’
گالی سن کر حسن غضبناک ہوا۔ ڈانٹ کر بولا: ‘‘بس اب خاموش ہو جائیے۔ بہت بے ادبی نہ دکھائیے۔ ورنہ سخت سزا پائیے گا۔ مفت میں جان گنوائیے گا۔ دکان تو کیا، میں آپ کو دکان سے نکلا ہوا کوڑا بھی نہیں دوں گا۔’’
بنے بھائی کی آنکھوں میں طیش سے شرارے لپکنے لگے۔ مشتعل ہو کر بولے: ‘‘تو لے ،پھر میں نے اپنی بیوی نسیمہ جہاں کو طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی۔’’
شہرزاد نے قصہ اس قدر بیان کیا تھا کہ صبح صادق نمودار و نور بار ہوئی اور شہرزاد خاموش ہو رہی۔ بادشاہ نے کہا کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ بنے بھائی نے اس حرکتِ ناشائستہ کا ارتکاب کیا، بند شرافت کا باب کیا۔ اب انتظار ہے کہ شب کہیں جلد آئے تو اس قصے کا بقیہ حصہ سننے میں آئے۔ وہ بولی، اگر خدا نے چاہا تو رات کو پھر سنائیں گے۔ بادشاہِ جم جاہ کا دل بہلائیں گے۔ نیتِ شب بخیر۔
(باقی آئندہ)