کہاوت کہانی | مسور کی دال | ضیاء اللہ محسن

کہاوت کہانی
مسور کی دال
ضیاء اللہ محسن

پرانے زمانے میں ہندوستان پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ کھانے پینے کا بہت شوقین تھا اسی لیے اُس نے اپنے محل میں بہت وسیع باورچی خانہ بنارکھا تھا۔ اس باورچی خانے میں بہت سے باورچی نت نئے پکوان بنا کر بادشاہ کو خوش کرتے اور اس سے انعام لیتے۔ مسور کی دال اُن دنوں بہت قیمتی ڈش سمجھی جاتی تھی۔ جیسے آج کل گوشت یا مچھلی پسند کی جاتی ہے۔ بادشاہ کو بھی مسور کی دال بہت پسند تھی۔
ایک دن بادشاہ نے اعلان کیا کہ جو باورچی مسور کی دال سب سے اچھی بنائے گا اُسے خاص انعام و کرام سے نوازا جائے گا۔ چناں چہ تمام شاہی باورچیوں نے اچھی سے اچھی دال بنانے کے لیے محنت کی لیکن بادشاہ کو کسی کا ذائقہ پسند نہ آیا۔ انہی دنوں ایران سے ایک باورچی ہندوستان آیا ہوا تھا۔ وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھا۔ چناں چہ اُسے بھی محل میں دعوت دی گئی تاکہ وہ اپنی قسمت آزمائے۔
خدا کا کرنا یہ ہوا کہ بادشاہ کو حاذق نامی اس باورچی کی بنائی گئی دال پسند آگئی۔ چناں چہ اُسے انعام و اکرام دے کر شاہی باورچیوں میں شامل کر لیا گیا۔ رفتہ رفتہ یہ باورچی بادشاہ کا خاص اور لاڈلا بن گیا۔ بادشاہ کو جب بھی مسور کی دال کھانا ہوتی تو حاذق ہی کو کہا جاتا۔
دن یونہی گزرتے گئے۔ ایک دن بادشاہ بیمار پڑگیا۔ اُسے لگا کہ اُس کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ چناں چہ بادشاہ نے شاہی خاندان کے تمام افراد کو ایک دعوت پر مدعو کیا تاکہ نئے بادشاہ کے نام کے لیے سوچ بچار کی جاسکے۔ چوں کہ بادشاہ کی کوئی اولاد نہ تھی چناں چہ نئے بادشاہ کے لیے کسی قریبی عزیز کا نام دے دیا گیا۔ اِس اعلان کے چند روز بعد بادشاہ کا انتقال ہوگیا۔ اب تختِ شاہی پر نیا بادشاہ بیٹھ چکا تھا لیکن اپنی فطرت میں یہ کچھ تنگ دل اور کنجوس تھا۔
کچھ روز بعد نئے بادشاہ نے مسور کی دال کھانے کی فرمائش کی۔ چناں چہ حاذق باورچی نے دال تیار کرکے بادشاہ کے دسترخوان پر پیش کی، جسے کھاتے ہی بادشاہ کا منہ بن گیا۔ اُسے دال پسند نہ آئی۔ بادشاہ حاذق پر بگڑتے ہوئے بولا:
”اے پردیسی باورچی! کیا تمہیں کھانا پکانا نہیں آتا؟ ہونہہ… کیا ہی بد ذائقہ چیز بنائی ہے۔”
یہ بات سنتے ہی ایرانی باورچی حاذق نے جواب دیا: ”بادشاہ سلامت! دال تو وہی ہے جو میں پہلے بنایا کرتا تھا البتہ اب کھانے والا منہ بدل گیا ہے۔ ہونہہ… یہ منہ اور مسور کی دال…” یہ کہتے ہوئے حاذق نے محل سے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور ایران جانے کی تیاری کرنے لگا۔ اُسے معلوم ہوگیا کہ اب یہاں اِس کی قدر نہیں ہوگی۔
پیارے بچو! حاذق تو واپس ایران چلا گیا لیکن اُس کا بولا گیا جملہ اتنا مشہور ہوا کہ رفتہ رفتہ وہ کہاوت بن گئی جو آج بھی مشہور ہے۔ یہ منہ اور مسور کی دال۔ آج بھی اگر کوئی آدمی کسی کام یا کسی خدمت کے لائق نہ ہو تو اس کے لیے یہی کہاوت بولی جاتی ہے۔
٭…٭…٭

Loading

Read Previous

مالی کا گدھا | طاہرہ احمد

Read Next

ننّھا زرّافہ | نور الہدٰی افضل

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!