کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا — عمیرہ احمد

”میں وہاں دوبارہ کبھی نہیں جاؤں گی کبھی نہیں۔” اسے یاد آیا تھا۔ ڈیڑھ سال پہلے اس گھر سے جانے کے بعد اس نے خود سے وعدہ کیا تھا اور اب اس نے ایک گہرا سانس لیا تھا۔ گاڑی گیٹ کے اندر داخل ہو گئی تھی۔
”تو تمہیں آخر کار یاد آہی گئی ہے ہماری۔ دو فون کیے تھے اور تم پھر بھی تب آئی جب پاپا لینے گئے ہیں۔”
فری نے اسے دیکھتے ہی گلے لگا لیا تھا اور پھر شکوے شروع کر دیے تھے۔ وہ بالکل ویسی ہی تھی۔ کندھے پر جھولتے ہوئے سیاہ سلکی بال اب قدرے لمبے ہو گئے تھے۔
مومی دھیرے سے مسکرائی تھی۔ فری اب اس کی بہنوں اور امی سے ملنے لگی تھی مایوں کے کپڑوں میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ اسے ساتھ لے کر وہ اوپر اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ کمرہ اس کی دوستوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے مومی کا تعارف کروایا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ثمین بھی آگئی تھی وہ بھی اس سے گلے ملی تھی۔ فری کی دوستیں ڈھولک بجانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ وہ بھی ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ گھر میں مہمانوں کی چہل پہل بڑھتی جارہی تھی۔ شام سات بجے نیچے ہال میں آگئے تھے۔ ڈھولک بجنی شروع ہو گئی تھی۔ وہ کافی دیر تک تالیاں بجاتی رہی پھر وہ تھک گئی تھی تو اُٹھ کر باہر لان میں آگئی۔ لان میں موجود لائٹس آن تھیں کچھ لوگ وہاں بھی موجود تھے مگر وہاں اندر جیسا شور نہیں تھا۔ اسے سکون محسوس ہوا تھا۔
ڈیڑھ سال پہلے جب اس نے یہاں ایک سال گزارا تھا تب بھی وہ اس طرح اکثر لان میں آکر بیٹھا کرتی تھی خاموشی میں تنہائی میں، ہر چیز پہلے ہی کی طرح تھی۔ وہاں کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ لان میں موجود پھولوں اور پودوں کی تعداد میں کچھ اضافہ ہو گیا تھا اور درخت پہلے سے کچھ بڑے ہو گئے تھے۔ ہاں اور بیلیں بھی تو زیادہ پھیل گئی ہیں اس نے عمارت کے اوپر چڑھتی ہوئی بیلوں کو دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔ پھر اس نے داہنی جانب والی عمارت پر نظر دوڑائی اور بہت دیر تک وہ اسے دیکھتی رہی تھی۔ ہاں یہ بھی ویسی ہی ہے جیسی ہمیشہ نظر آتی تھی۔ اس عمارت میں بھی لائٹس آن تھیں اور چہل پہل نظر آرہی تھی۔
”واقعی سب کچھ ویسا ہی تو ہے، بدلا کیا ہے اور میں کس چیز کو بدلا ہوا دیکھنا چاہتی تھی۔”
وہ ایک نسبتاً تاریک کونے میں آکر بیٹھ گئی۔ یہاں سے جانے کے بعد پچھلے ڈیڑھ سال میں اس نے دن میں کئی بار اس جگہ کو یاد کیا تھا۔ اس جگہ کا ایک نقش بھی اس کے ذہن سے محو نہیں ہوا تھا۔ وہ ابھی بھی آنکھیں بند کرکے بتا سکتی تھی کہ کس جگہ پر کون سی چیز موجود ہے۔





فری نے تین ہفتے پہلے فون کرکے اسے اپنی شادی کی تاریخ طے ہونے کی اطلاع دینے کے ساتھ آنے کی دعوت دی تھی۔ اس کے چند دنوں بعد اس نے ایک بار پھر فون کیا تھا۔ مگر وہ پھر بہانہ بنا کر ٹال گئی تھی مگر صبح تایا کے جانے کے بعد اس کے پاس کوئی بہانا نہیں رہا تھا۔ وہ آنا نہیں چاہتی تھی مگر امی او رباقی بہنیں آنے کے لیے تیار ہو گئی تھیں اور پھر وہ کسی صورت گھر پر نہیں رہ سکتی تھی۔ وہ لوگ تایا کے ساتھ ہی آگئے تھے اور اب وہ یہاں بیٹھی ہوئی تھی اپنے اس عہد کے باوجود۔
رات دیر تک سب لوگ ڈھولک بجاتے رہے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ سارے مہمان رخصت ہو گئے وہ بھی اوپر آکر سو گئی تھی۔ صبح اس کی آنکھ دیر سے کھلی تھی۔ وہ منہ ہاتھ دھو کر نیچے آگئی تھی۔ لاؤنج میں نبیلہ آنٹی بیٹھی ہوئی تھیں۔ وہ انہیں دیکھ کر ٹھٹک گئی تھی۔ وہ امی اور تائی کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں۔ وہ واپس اوپر بھاگ جانا چاہتی تھی۔ مگر انہوں نے اسے دیکھ لیا تھا۔
”آؤ مومی! کیسی ہو؟ میں ابھی تمہاری امی سے تمہارا ہی پوچھ رہی تھی۔” ان کے لہجے میں وہی نرمی تھی۔
وہ ان کے پاس چلی آئی۔ انہوں نے اسے گلے لگا کر اس کا ماتھا چوما تھا۔ وہ ان کے پاس بیٹھی ہوئی تھی جب فراز اندر آیا تھا۔
”ولید کا کیا بنا، اسے سیٹ مل گئی؟” اس نے آتے ہی نبیلہ آنٹی سے پوچھا تھا۔
مومی کا دل یک دم جیسے ٹھہر گیا۔ ”نہیں سیٹ کہاں ملی ہے کہہ رہا ہے اب پرسوں آؤں گا۔ صبح فون آیا تھا اچھی بھلی اس نے بکنگ کروائی ہوئی تھی ایک ہفتے پہلے کی فلائٹ میں، مگر تمہارے ماموں نے کسی کلائنٹ سے ملنے کے لیے کینیڈا بھجوا دیا ورنہ وہ کئی دن پہلے آجاتا۔ اب میں تو دعا کر رہی ہوں کہ کم از کم پرسوں والی فلائٹ کو کچھ نہ ہو۔” انہوں نے فراز سے کہا تھا۔
”تو وہ یہاں نہیں ہے، اچھا ہے وہ نہ ہی آئے، اس کی فلائٹ مس ہو جائے یا اس کی سیٹ کینسل ہو جائے۔ کاش میرا دوبارہ اس سے سامنا نہ ہو۔” اس کے دل میں شدت سے خواہش ابھری تھی، وہ وہاں سے اٹھ گئی۔
وہ دو دن اس نے بڑے سکون سے گزارے۔ اس کا سامنا کرنے کا خوف اس کے دل سے ختم ہو گیا تھا۔ تیسرے دن صبح نو بجے وہ ناشتہ کرنے کے بعد کچن سے چائے کا کپ لے کر نکل رہی تھی۔ جب لاؤنج میں سے آنے والی ایک آواز نے اس کے قدموں کو روک دیا تھا۔ وہ کچن کے دروازے سے واپس کچن میں آگئی تھی۔
”فلائٹ کچھ لیٹ ہو گئی تھی۔ اس لیے سات بجے یہاں پہنچا۔ ناشتہ کرنے کے بعد سویا نہیں، سیدھا یہیں آیا ہوں۔”
پورے ڈیڑھ سال بعد اس نے وہ آواز سنی تھی اور اس نے پہچاننے میں کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ وہ اب قدرے آہستہ آواز میں ٹھہر ٹھہر کر بات کر رہا تھا۔ پہلے کی طرح بلند اور تیز تیز نہیں بول رہا تھا۔ اس نے چائے کا مگ ٹیبل پر رکھ دیا مگ سے اٹھتی ہوئی بھاپ کو اس نے ہاتھ سے محسوس کرنے کی کوشش کی تھی۔ لاؤنج میں سے آنے والی آوازیں اب کم ہو گئی تھیں شاید وہ اوپر گیا تھا۔ فری اور ثمین سے ملنے وہ کرسی کھینچ کر خاموشی سے بیٹھ گئی مہندی والی شام فری اور ثمین کی دوستوں اور کزنز کے ساتھ وہ بھی مہندی کی پلیٹ ہاتھ میں لیے نبیلہ آنٹی کے گھر داخل ہو رہی تھی۔ جب پورچ میں عثمان اور کچھ دوسرے لڑکوں کے ساتھ سفید شلوار قمیص میں ملبوس ولید کو اس نے دیکھا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے عثمان سے باتیں کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ ان لوگوں پر نظر دوڑا رہا تھا۔ اس نے ابھی اسے نہیں دیکھا تھا، وہ باقی لڑکیوں سے پیچھے تھی حواس باختگی کے عالم میں اس نے ادھر ادھر دیکھا۔
”تم کچھ دیر کے لیے میری پلیٹ پکڑو، میں ابھی آتی ہوں۔”
اس نے اپنے ساتھ چلتی ہوئی ایک لڑکی سے کہا اور پھر واپس چلی گئی۔ واپس فری کے گھر آکر وہ لان میں گئی اور دونوں گھروں کے درمیان باؤنڈری وال میں موجود چھوٹے سے لکڑی کے دروازے کا ہک اتار کر وہ نبیلہ آنٹی کے لان میں داخل ہو گئی۔ سامنے جانے کے بجائے وہ گھر کی عقبی سمت گئی اور پھر کچن کا عقبی دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی تھی۔ کچن میں چند ملازم موجود تھے انہوں نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا۔ مگر کچھ کہا نہیں تھا۔ وہ وہاں سے نکل کر ہال کی طرف آگئی تھی۔ ہال سے ڈھولک اور گانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس نے ہال میں داخل ہونے سے پہلے دروازے میں رک کر ایک نظر اندر ڈالی تھی۔ ہال میں موجود لڑکوں میں وہ نہیں تھا۔ وہ اطمینان کی سانس لے کر اندر داخل ہو گئی۔ ثمین نے اسے دیکھتے ہی اشارہ کیا تھا۔ وہ اس کے پاس چلی گئی۔ ”تم کہاں چلی گئی تھی۔ میں تمہیں ہی تلاش کر رہی تھی۔”
”مجھے ایک کام یاد آگیا تھا میں گھر گئی تھی۔” ثمین نے کام کی نوعیت نہیں پوچھی تھی وہ بھی سب لڑکیوں کے ساتھ تالیاں بجانے لگی۔
”لڑکے کے بھائیوں کو بلاؤ۔ وہ کہاں فرار ہو گئے ہیں۔” فری کی ایک دوست نے ایک گانا شروع کرنے سے پہلے کہا تھا۔ وہ تالیاں بجاتے بجاتے رُک گئی۔ وہ ایک بار پھر حواس باختہ ہو گئی تھی۔ پھر کوئی عثمان اور ولید کو اندر بلا لایا۔ ان کے اندر آتے ہی سیٹیوں اور نعروں سے ان کا استقبال ہوا تھا۔ اس نے سرجھکا لیا۔ لڑکیوں نے ایک بار پھر گیت گانے شروع کر دیے تھے۔ وہ باری باری لڑکے کے پورے خاندان کی مٹی پلید کر رہی تھیں۔ وہ سر جھکائے خاموشی سے تالیاں بجاتی رہی تھی۔ اس نے دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کہاں کھڑا تھا اور اس نے اسے دیکھا تھا یا نہیں آدھ گھنٹہ تک گانے گانے کے بعد کھانا کھانے کا اعلان ہوا۔ آہستہ آہستہ سب ہال سے نکلنے لگے تھے۔ پچھلے لان میں باربی کیو کا انتظام تھا اور اب باہر سے اسٹیریو پر گانوں کی آوازیں آنے لگیں۔
”مومی! واصف بھائی کا کمرہ دیکھنے چلتے ہیں۔” عثمان کہہ رہا تھا۔ کچھ فلورل ارینجمنٹس کروائی ہیں۔ دیکھتے ہیں کیسا ہے کمرہ۔” ثمین نے اچانک اس کے کان میں کہا تھا اس نے سرہلادیا۔
”سائرہ! تم بھی چلو گی؟” اس نے اپنی خالہ کی بیٹی سے پوچھا تھا۔
”ہاں کیوں نہیں”
”تو بس ٹھیک ہے، چلو خاموشی سے چلتے ہیں۔ پتا چل گیا تو سب پہنچ جائیں گے وہاں۔” ثمین نے اٹھتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔ وہ ان کے ساتھ چل پڑی، سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ثمین کو یاد آیا۔
”کمرہ تو لاکڈ ہوگا۔ مومی تم ٹھہرو، میں اور سائرہ واصف بھائی سے چابی لے کر آتے ہیں۔”
ثمین سارہ کو لے کر واپس اتر گئی۔ وہ اوپر چڑھنے لگی۔ واصف کے کمرے کے دروازے تک پہنچنے کے بعد اس نے غیر محسوس طور پر ناب گھمائی۔ دروازہ لاکڈ نہیں تھا۔
”ثمین فضول میں ہی نیچے گئی۔” اس نے سوچا۔ پھر وہ کمرے میں داخل ہو گئی اسے حیرانی کا جھٹکا لگا تھا۔ کمرہ ویل ڈیکوریٹڈ تھا۔ مگر وہاں کوئی فلورل ارینجمنٹ نہیں تھی۔ اس نے کندھے جھٹکے تھے۔ وہ کسی طور پر بھی شادی والا کمرہ نہیں لگ رہا تھا۔ وہ ثمین کا انتظار کرنے لگی۔ پھر وہ اسٹڈی کے دروازے تک آئی تھی اور اس نے اسٹڈی کا دروازہ کھول دیا۔ سب کچھ بالکل پہلے ہی کی طرح تھا۔ کتابیں اسٹڈی ٹیبل اور اس پر موجود کمپیوٹر مگر اب وہاں پڑی ہوئی چیزوں میں پہلے جیسی بے ترتیبی نہیں تھی۔ اس نے ایک گہرا سانس لے کر دروازہ بند کر دیا۔ ثمین ابھی تک نہیں آئی تھی اسے کچھ بے چینی ہونے لگی تھی۔
تب ہی اچانک کوئی دروازہ کھول کر اندر آگیا۔ وہ ساکت ہو گئی۔ وہ ولید تھا اس کے پیچھے اس کا کوئی دوست تھا۔ اس نے اپنے پورے وجود میں ایک سنسنی سی محسوس کی تھی۔ وہ کچھ کہے بغیر اس پر نظریں جمائے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھے ہوا تھا۔
”یہ واصف کا کمرہ نہیں ہے۔” بہت سرد آواز میں اس سے کہا گیا تھا وہ سن ہو گئی تھی۔
”یہ واصف بھائی کا کمرہ ہے۔” اس نے اپنی بات پہ زور دینے کی کوشش کی تھی۔
”نہیں یہ واصف کا نہیں میرا کمرہ ہے۔” اس بار اسے اپنے پیروں تلے سے زمین سرکتی محسوس ہوئی تھی۔
”مگر یہ اسٹڈی تو۔” اس نے بے یقینی سے ہاتھ سے اسٹڈی کی طرف اشارہ کیا تھا۔
”یہ میری اسٹڈی ہے۔ واصف کا کمرہ اگلے کمرے کے ساتھ ہے۔” اس نے ایک نظر اسٹڈی کے دروازے پر ڈالی اور پھر سرجھکا کر غیر متوازن قدموں سے کمرے سے نکل گئی تھی۔ ولید نے کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔ وہ چند لمحے باہر دروازے کو دیکھتی رہی۔ پھر وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ گئی تھی۔ ایک کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا ثمین اور سائرہ اندر کھڑی تھیں۔
”تم کہاں تھیں؟ کب سے انتظار کر رہے ہیں تمہارا۔ ذرا دیکھو اچھا ڈیکوریٹ کیا گیا ہے۔”
اس نے مومی پر نظر پڑتے ہی کہا تھا۔ وہ کہیں اور پہنچی ہوئی تھی اسے یاد تھا، وہ ہمیشہ اسی اسٹڈی میں جایا کرتی تھی جہاں وہ کچھ دیر پہلے گئی۔ مگر واصف کا کمرہ اور اسٹڈی یہ تھے وہ کمرے میں کچھ بھی نہیں دیکھ پارہی تھی۔ اس کا ذہن الجھا ہوا تھا۔ ثمین اور سائرہ کمرے میں چل پھر رہی تھیں۔
”چلو اب نیچے چلتے ہیں۔” ثمین نے کچھ دیر بعد کہا۔
”ابھی کھانا بھی کھانا ہے اور تم ایک بات یاد رکھو خبردار تم لوگوں نے اب کوئی گانا ولید کے خلاف گایا یا کسی میں اس کا ذکر کیا۔ میں نے پہلے برداشت کر لیا اب نہیں کروں گی۔ عثمان کو بے شک گھسیٹو مگر ولید کو کچھ مت کہنا۔”
دروزے سے نکلتے ہوئے ثمین نے سائرہ سے کہا تھا۔ اس نے جواباً قہقہہ لگایا۔ ”بڑی پرواہ ہے اپنے منگیتر کی۔ تم یوں بات کر رہی ہو جیسے ہمارا تو کوئی رشتہ ہی نہیں رہ گیا۔ اس سے تمہاری نسبت طے ہونے کے بعد۔” وہ ان دونوں کے پیچھے چل رہی تھی، ایک لمحہ کے لیے وہ ٹھٹک گئی تھی آج انکشافات کا دن تھا۔
”ثمین اور ولید۔” اس نے زیر لب کہا تھا۔
”مگر یہ کیسے ہو سکتاہے، وہ تو؟” ثمین اور سائرہ سیڑھیاں اترتی گئیں تھیں۔ وہ ان سے پیچھے رہ گئی۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ تھکے تھکے قدموں سے وہ سیڑھیاں اترتی گئی۔
…***…
”یار! تمہیں پتا نہیں ممی کتنی پابندیاں لگاتی ہیں اور کیسی کیسی پابندیاں لگاتی ہیں۔ بعض دفعہ مجھے لگتا ہے، میں لڑکا نہیں لڑکی ہوں۔ سوتیلا ہونا بھی بڑا عذاب ہے۔ سوتیلے ہونے سے بہتر مرجانا ہے۔” اندر سے آنیوالی آواز نے اس کے قدم روک دئیے۔
”ہر وقت ہدایات دیتی رہتی ہیں۔ یہ کرو یہ نہ کرو یہاں جاؤ وہاں مت جاؤ، ہر بات میں نکتہ چینی کرتی رہتی ہیں۔ باقی دو میں انہیں کوئی خامی نظر نہیں آتی اور مجھ میں بھولے سے بھی کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ میں تو تنگ آگیا ہوں اس زندگی سے۔”
اس نے ایک گہری سانس لی۔ وہ جو کوئی بھی تھا۔ مسلسل بول رہا تھا اس نے پیر سے دروازے پر ہلکی سی ٹھوکر لگائی پھر اس عمل کو دو تین بار دہرایا۔ اندر یک دم خاموشی چھا گئی۔
”یہ تمہارے گھر میں دستک دے کر اندر آنے والا کون پیدا ہو گیا ہے؟” ٹرے کو دونوں ہاتھوں میں تھامے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے ہینڈل گھما کر اندر داخل ہوتے اس نے پھر وہی حیرت بھری آواز سنی تھی۔ سر اٹھا کر اس نے پہلی بار بولنے والے کو دیکھا۔ بلیک جینز اور شرٹ میں ملبوس وہ جوگرز سمیت صوفے پر لیٹا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گیا تھا فراز گلے میں تولیہ لٹکائے واش روم سے نکلا۔
”آؤ یہ چائے ٹیبل پر رکھ دو ولید! یہ مومنہ ہے۔ بلال چچا کی بڑی بیٹی یہاں رہنے کے لیے آئی ہوئی ہے اور مومی! یہ ولید ہے ارمغان ماموں کا بیٹا ہے۔ یہ ساتھ والا گھر ان ہی کا ہے یہاں آتا جاتا رہتا ہے۔ یہ جب بھی یہاں آئے چائے لے آیا کرو پوچھے بغیر کیونکہ یہ چائے پیئے بغیر نہیں جاتا اور بہت مائنڈ کرتا ہے اگر اس سے چائے پانی کا نہ پوچھا جائے کیونکہ اس کا خیال ہے۔ مسلمان وہ ہے جو دوسرے مسلمان کو دیکھتے ہی جو کچھ اس کے گھر میں ہے، لا کر رکھ دے اور مجھے تو یہ مسلمان بھی نہیں مومن سمجھتا ہے اور اس کے بقول مومن کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔” فراز تیزی سے اس کا تعارف کروا کر چہرے پر آفٹرشیو لوشن لگاتا ہوا دوبارہ واش روم میں گھس گیا۔ وہ کچھ ہونق سی بنی وہیں کھڑی رہی اسے اس قسم کے تعارف کی امید نہیں تھی۔
”پلیز یہ ٹرے تو رکھ دیں۔ مجھے صبح سے کسی نے کھانے کے لیے کچھ نہیں دیا۔ بہت بھوک لگی ہوئی ہے مجھے۔”
وہ اس کے جملے پر چونکی تھی اور اس نے ٹرے ٹیبل پر اس کے سامنے رکھ دی۔ کمرے میں آنے سے پہلے وہ اس کو جس بے چارگی کی حالت میں دیکھنے کی متوقع تھی وہ ویسا نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر کہیں اس بے چارگی کا اظہار نہیں ہو رہا تھا۔ جیسا اس کی آواز سے ہو رہا تھا۔ اس کی شرٹ پر سلوٹیں پڑی ہوئی تھیں اور اس کے جاگرز بھی خاصی بوسیدہ حالت میں تھے اس نے چند لمحوں میں اس کا جائزہ لے لیا تھا۔ وہ اب ناشتہ کرنے میں مصروف تھا۔ مومی دبے قدموں کمرے سے باہر آگئی۔ اس کا ذہن مسلسل ولید میں الجھا ہوا تھا۔ گھر میں مکمل خاموشی تھی۔ چھٹی کے دن کوئی بھی اتنی جلدی نہیں اٹھتا تھا۔ عام دنوں میں بھی وہاں آٹھ ساڑھے آٹھ سے پہلے کوئی بیدار نہیں ہوتا تھا۔ صرف وہ تھی جو یہاں آنے کے بعد صبح فجر کی نماز پڑھنے کے بعد بلا مقصد گھر میں پھرتی رہتی۔ آج بھی وہ اسی طرح لاؤنج میں آکر بیٹھی ہوئی تھی جب فراز وہاں آیا تھا۔
”مومی! ذرا دو آدمیوں کے لیے ناشتہ تو بنا دو، مجھے میچ کھیلنے جانا ہے۔ پلیز جلدی کرنا اور میرے کمرے میں دے جانا۔” وہ اسے ہدایات دیتا ہوا تیزی سے غائب ہو گیا تھا۔
وہ پہلے تو اسے اتنی صبح دیکھ کر حیران ہوئی تھی۔ وہ عام طور پر آفس جانے سے صرف پندرہ منٹ پہلے اٹھتا تھا اور آج وہ صبح سویرے ہی باہر لان کا ایک چکر لگا آیا تھا۔ تب اسے اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اس کے کمرے میں کوئی اور بھی ہے لیکن شاید وہ صبح اسے لینے کے لیے باہر نکلا تھا۔ اسے یاد آیا تھا۔ گھر کے ارد گرد پھیلا ہوا وسیع لان تائی کے بھائی کے لان سے متصل تھا۔ درمیان میں ایک چھوٹی سی دیوار تھی اور اس دیوار میں لکڑی کا ایک چھوٹا سا دروازہ تھا دونوں گھروں میں زیادہ آنا جانا اسی دروازے سے ہوتا تھا کیونکہ بیرونی گیٹ سے جانے میں زیادہ وقت لگتا تھا۔ تایا کو اس گھر میں شفٹ ہوئے ایک سال ہی ہوا تھا اور جب سے وہ یہاں منتقل ہوئے تھے اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔ مگر فراز کا انداز بتا رہا تھا کہ اس کا وہاں کافی آنا جانا تھا۔ وہ قدرے حیران ہو کر ناشتہ بناتی رہی۔
”دو آدمیوں کے لیے ناشتہ؟ کیا فراز بھائی دو آدمیوں کا ناشتہ کرکے میچ کھیلنے جائیں گے؟”
ناشتہ بناتے ہوئے اس کا ذہن اسی سوال میں اٹکا رہا۔ مگر کمرے سے آتی ہوئی آواز سن کر اس کی یہ حیرانی دور ہو گئی تھی۔
”تو فراز بھائی کے کوئی دوست آئے ہیں۔” اس نے سوچا۔ ”پتا نہیں مجھے اندر ان کے سامنے جانا چاہیے یا نہیں مگر فراز بھائی نے کہا تھا کہ میں کمرے میں آجاؤں۔” اسے یاد آیا۔
اسے یہاں آئے دو دن ہوئے تھے اور وہ تایا کے گھر کا ماحول دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ ان کے مقابلے میں تایا کا گھرانا بہت آزاد خیال تھا۔ دو دن سے وہ کئی لوگوں کو یہاں آتے جاتے دیکھ رہی تھی اور ہر ایک اسی طرح یہاں آتا تھا جیسے وہ بہت عرصے سے وہاں آرہا ہو۔ اسے کچھ الجھن ہو رہی تھی مگر وہ جانتی تھی اسے اب وہیں رہنا تھا اور الجھن… وہ سب کچھ ذہن سے جھٹک دینا چاہتی تھی۔ وہ کمرے سے باہر آنے کے بعد دوبارہ لاؤنج میں آگئی۔
”مجھے صبح سے کسی نے کھانے کے لیے کچھ نہیں دیا۔ مجھے بہت بھوک لگی ہے۔” ایک آواز اس کے کانوں میں دوبارہ لہرائی اس کا دل یک دم جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا۔
”سوتیلے ہونے سے مرجانا زیادہ بہتر ہے۔” کسی نے پھر کہا تھا اسے یاد آیا جب وہ اپنے ننھیال سے پہلی بار اپنے گھر آئی تھی تو کئی دنوں تک وہ بھی اپنے اندر اتنی ہمت پیدا نہیں کر پائی تھی کہ اپنی امی سے کھانے کے لیے کچھ مانگ لے۔ وہ کھانے کے وقت بھی خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھی امی کے بلانے کا انتظار کرتی رہتی اور بعض دفعہ وہ انتظار ہی کرتی رہ جاتی۔ امی کو اسے بلانا یاد ہی نہیں رہتا تھا یا پھر شاید اور جب اسے کھانے کی ٹیبل پر بلایا بھی جاتا تھا تو وہ وہاں بہت سہمی ہوئی بہت محتاط رہتی جو امی اس کی پلیٹ میں ڈال دیتیں، وہ اسی سے پیٹ بھر لیتی۔ دوبارہ کوئی چیز مانگنے کا حوصلہ اس میں نہیں ہوتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی جھجک ختم ہونے لگی تھی۔ وہ بھوک لگنے پر امی سے کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ مانگ لیا کرتی تھی۔ امی کچھ کہے بغیر ایک خاموش نظر کے ساتھ اس کی ضرورت پوری کر دیا کرتی تھیں مومی کو وہ خاموش نظر کبھی اچھی نہیں لگی تھی۔ پھر جب بڑی ہوتی گئی تو کھانا پکانے اور سرو کرنے کی ذمہ داری خودبخود ہی اس کے کندھوں پر آگئی۔ تب بھی وہ منتظر ہی رہتی تھی کہ کبھی امی اسے اپنے دوسرے بچوں کی طرح اصرار کرکے کھانا کھلائیں اس سے کہیں کہ وہ فلاں چیز بھی کھائے کیونکہ یہ اس کے لیے اچھا ہو گا مگر ایسا موقع کبھی نہیں آیا تھا۔ امی کے پاس اس کے لیے اتنی فرصت ہی نہیں ہوتی تھی یا پھر شاید۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے کھانے کے بارے میں لاپرواہ ہوتی گئی تھی۔ کیا کھانا، ہے، کس وقت کھانا ہے؟ اس کے بارے میں اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہی کبھی نہیں پڑی اور آج جب ولید نے یہ سب کہا تھا تو اسے بہت کچھ یاد آگیا تھا۔ اسے اس سے بے پناہ ہمدردی محسوس ہورہی تھی۔
”فراز بھائی نے کہا تھا کہ وہ ارمغان ماموں کا بیٹا ہے تو کیا اس کی امی کی بھی ڈیتھ ہو چکی ہے اوراگر امی کی ڈیتھ نہیں ہوئی تو پھر وہ یہاں کیوں ہے اپنی امی کے پاس کیوں نہیں چلا جاتا۔ اس کی باتوں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ خوش نہیں ہے یہاں اپنی سوتیلی امی کے پاس رہ کر، وہ تو مرد ہے۔ وہ تو مجبور نہیں ہے پھر وہ گھر چھوڑ کر کہیں چلا کیوں نہیں جاتا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ کیوں رہ رہا ہے؟”
اس کے ذہن میں بار بار سوال آرہے تھے اور ان سوالوں کے ساتھ ولید کے ابو اور امی کی ہولناک شکلیں بھی نظر آرہی تھیں۔ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے اچانک اس کی نظر وال کلاک پر پڑی اس وقت چھ بج رہے تھے۔
”مجھے صبح سے کسی نے کچھ کھانے کے لیے نہیں دیا بہت بھوک لگی ہے مجھے۔” اسے ایک بار پھر اس کی بات یاد آئی تھی۔
”صبح سے مگر وہ تو شاید یہاں ساڑھے پانچ بجے آگیا تھا پھر صبح سے کسی نے۔” وہ کچھ سمجھ نہیں پائی تھی۔ بہت دیر تک وہ وہیں لاؤنج میں بیٹھی کچھ سوچتی رہی۔
…***…
شام کو وہ فری کے ساتھ لان میں بیٹھی ہوئی تھی جب وہ فراز بھائی کے ساتھ آیا تھا۔ فری کو لان میں دیکھ کر وہ سیدھا وہیں آئے تھے۔ ”یہاں تو عیش ہو رہے ہیں بھئی۔ چائے چل رہی ہے۔” فراز نے پاس آتے ہی کہا تھا۔
”آپ بھی عیش کر لیں۔ میں دو کپ اورمنگوا لیتی ہوں۔” فری نے پودوں کو پانی دیتے ہوئے ملازم کو بلایا تھا۔
”کیا بنا آپ کے میچ کا؟ آج تو صبح ہی چلے گئے تھے۔” ملازم کے جانے کے بعد فری نے پوچھا تھا۔
”کیا بننا تھا۔ بھئی پچھلی دفعہ وہ جیت گئے تھے، اس دفعہ ہم ہار گئے۔” ولید نے پلیٹ سے بسکٹ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”اور پھر بھی تم لوگ ہر ہفتہ میچ کھیلنے جاتے ہو۔” فری نے طنزیہ لہجے میں کہا تھا۔
”ویسے بھی ہم جیتنے تھوڑی جاتے ہیں۔ ہم تو کھیلنے کے لیے جاتے ہیں۔ انجوائے منٹ کے لیے۔” اس بار فراز نے کہا تھا۔




Loading

Read Previous

گھر اور گھاٹا — عمیرہ احمد

Read Next

آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

One Comment

  • This story just blew my mind.still i feel like i am in a dream .Humaira Ma’am you never ever failed in to leave me in emotion of aww

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!