چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر3)”

رانیہ نے دھیمی آواز میں کہا۔
”آپ زوار آفندی سے کب بات کریں گی!“
عشنا نے اُسے یاد دلایا۔
”کرلوں گی، ابھی تو اس ڈرامے نے تھیٹر میں پورا ہفتہ چلنا ہے۔“
رانیہ نے اسے تسلی دی۔
”اوکے……“
عشنا کندھے اچکا کر خاموش ہوگئی۔
شزا اور اس کی بہن بھی ان کے پاس آگئیں۔ شزا کی بہن نے رانیہ کا تاج دیکھا تو فوراً کہہ دیا۔
”یہ تو سونے کا تاج ہے…… اور اس میں Real pearlsلگے ہوئے ہیں ……“
وہ بلند آواز میں بڑے یقین کے ساتھ بولی۔ شزا کی آنکھوں میں معنی خیز سا تاثر ابھرا۔
رانیہ کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ عشنا بھی چھو کر اس تاج کو دیکھنے لگی۔ پھر ذرا ایکسائیٹڈ انداز میں اس نے رانیہ کے کان میں سرگوشی کی۔
”رانیہ باجی! زوار آفندی اتنا بھی برا آدمی نہیں ہے۔ جو آدمی کسی کو گولڈ کا تاج یونہی دے دیتا ہے۔ وہ برا کیسے ہوسکتا ہے۔“
رانیہ نے اُسے گھور کر دیکھا۔
وہ ایک امیچور لڑکی تھی۔ اسی قسم کی باتیں سوچ سکتی تھی۔ رانیہ کے لئے یہ انکشاف خطرناک تھا۔
”عشنا! اس بات کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔“
رانیہ نے عشنا کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
”جی ہاں مجھے پتا ہے۔ یہ لڑکیاں بھی بڑے غور سے آپ کے تاج کو دیکھ رہی ہیں۔“
عشنا نے مزیدسرگوشی کی۔
رانیہ بھی شزا اور اس کی بہن کے دیکھنے کے انداز پر گڑبڑا گئی تھی۔ عشنا نے مسکرا کر انہیں دیکھا پھر ذرا بلند آواز میں بولی۔
”زوار آفندی کا ٹیسٹ تو زبردست ہے…… وہ دیکھیں وہ اسی طرف آرہے ہیں۔“
زوار مسکراتے ہوئے ان کی طرف آیا۔
اس نے رانیہ کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔
”کیسی ہیں آپ کوئین آف اسکاٹ لینڈ؟“
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کرمسکرایا۔
رانیہ بمشکل مسکرائی۔
شزا نے سوچا کہ یہ موقع کیوں گنوائے۔ اس نے بظاہر مسکرا کر زوار سے اپنی بہن کا تعارف کروایا۔
”یہ میری بہن ہے او ریہ جیولری ڈیزائنر بھی ہے۔ یہ بتارہی ہے کہ رانیہ کا تاج سونے اور موتیوں سے بنا ہوا ہے…… Gold and Real Pearls۔“
رانیہ نے اسے ٹوکتی ہوئی نظروں سے دیکھا مگر وہ صرف زوار کی طر ف متوجہ تھی۔
زوار بڑے اعتماد سے مسکرایا۔
”کوئین آف اسکاٹ لینڈ کا تاج کیا ایسا ہی نہیں ہونا چاہیے تھا مس شزا؟“
وہ پراعتماد انداز میں بولا۔
شزا لاجواب ہوگئی۔ وہ اور اس کی بہن ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
”بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔“
یہ جواب عشنا نے دیا۔ اسے ہر بات میں فوراً بولنے کی عادت تھی۔ رانیہ نے غیر محسوس انداز میں اُسے ٹوکا دیا۔
”ان سب لوگوں میں مجھے آپ عقلمند لگتی ہیں عشنا۔“
زوار نے مسکرا کر اُسے دیکھا۔ اسے عشناکا نام بھی یا د تھا۔
”تھینک یو۔“

عشنا اس تعریف پر پھولے نہیں سمائی۔
”میں چاہتا تھا کہ اس ڈرامے میں کہیں کوئی کمی نہ رہے۔ ویسے بھی مجھے Originalچیزیں پسند ہیں۔ میں fake چیزوں کو پسند نہیں کرتا ہوں۔“
وہ ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
”آپ دولت مندہونے کے ساتھ ساتھ باذوق بھی ہیں۔“
شزا نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”آپ کے ہاتھ میں جو بریسلیٹ ہے وہ بھی Gold platedہے مس شزا۔“
وہ جتاتے ہوئے انداز میں بولا۔
شزا نے بے ساختہ اپنی کلائی میں چمکتے بریسلیٹ کو دیکھا۔ اس بات پر وہ کچھ بول نہ سکی۔
”مگر گولڈ اور Gold platedجیولری میں بہت فرق ہوتا ہے۔“
شزا کی بہن نے عجیب سے انداز میں کہا۔
زوار کی مسکراہٹ برقرار رہی پھر اس نے پرسکون انداز میں کہا۔
”ملکہ اور ایک عام عورت میں بھی فرق ہوتا ہے۔“
شزا اور اس کی بہن بری طرح چونک گئیں …… اس جملے کا بھلا کیا مطلب تھا؟
رانیہ کو بھی یہ بات بڑی عجیب لگی۔
یہ گفتگو کون سارخ اختیار کرتی جارہی تھی…… رانیہ کو لگا یہ اب اُسے منظر سے ہٹ جانا چاہیے۔
”عشنا …… ہم چلتے ہیں۔ دیر ہورہی ہے۔“
رانیہ نے عشنا کا بازو تھام کر کہا۔
”ہاں چلیں۔“
عشنا فورا ً بولی۔
رانیہ اور عشنا وہاں سے چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد زوار بھی وہاں نہیں رُکا۔
شزا اور اس کی بہن سر جوڑے آپس میں کوئی بات کررہی تھیں۔
دونوں کا ہی موڈ آف ہوچکا تھا۔
٭……٭……٭
گھر آکر عشنا رانیہ کے ساتھ اُ س کے کمرے میں ہی چلی آئی اور ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے تاج کو پہن کر خود کو آئینے میں دیکھنے لگی۔
”رانیہ باجی! یہ سونے کا تاج تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ آج کل بھلا اس طر ح کی چیزیں کہاں نظر آتی ہیں …… میں نے تو کبھی نہیں سنا کہ کسی لڑکے نے کسی لڑکی کو سونے کا تاج دیا ہو اور وہ اُسے ملکہ سمجھتا ہو۔“
وہ آئینے میں خود کو گھوم پھر کر دیکھتے ہوئے بولی۔ آئینے میں کاؤچ پر بیٹھی رانیہ کا عکس بھی واضح نظر آرہا تھا۔
وہ تھک گئی تھی اور کاؤچ پر بیٹھی مسلسل اپنے موبائل کے ساتھ مصروف تھی چہرے پر میک اپ کے مدھم سے نشان تھے۔ بال کیچر میں بندھے تھے۔ وہ پاؤں اوپر کئے آرام سے بیٹھی تھی۔
”میں یہ ڈرامہ ختم ہونے کے بعد اُسے یہ تاج واپس کردوں گی۔“
رانیہ موبائل پر ٹائپ کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولی۔
”واپس کردیں گی تو وہ مائنڈ کرے گا۔“
عشنا کو یہ بات پسند نہیں آئی۔
”تو کرتا رہے مائنڈ۔“
رانیہ خفا سے انداز میں بولی۔
”پھر وہ سارہ کے حوالے سے آپ کی بات بھی نہیں سنے گا۔“
عشنا نے خدشہ بیان کیا۔
”دیکھو عشنا! میں سارہ کے لئے صرف کوشش کرسکتی ہوں۔ بات تو میں اُس سے کرلوں گی مگر وہ کس قسم کے ردعمل کا اظہار کرے گا، اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتی…… میں یہ تاج اُسے ضرور واپس کروں گی کہ میں اتنی قیمتی چیز اپنے پاس نہیں رکھ سکتی۔“
رانیہ نے موبائل پر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے قطعی انداز میں کہا۔
”مگر مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اُس نے آپ کو سونے کا تاج دیا کیوں؟“
عشنا نے تاج اتار کر ہاتھ میں تھاما اور اسے بہت غور سے دیکھنے لگی۔ وہ تاج ہی ایساتھا جو بھی اُسے دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔
رانیہ نے موبائل اسکرین پر سے نظریں ہٹا کر عشنا کو دیکھا۔
”بتا تو رہا تھا وہ…… وہ ڈرامے میں Orignal چیزیں استعمال کرنا چاہتا ہے۔“
عشنا نے معنی خیز انداز میں نفی میں سرہلایا اور تاج میں جڑے سفید چمکتے موتیوں پر نرمی سے انگلی پھیر کر بولی۔
”یہ بات نہیں ہے…… مجھے لگتا ہے کہ وہ آپ کو پسند کرتا ہے۔“
رانیہ اچھل پڑی، سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔
”عشنا! خبردار…… کسی سے اس بات کا ذکر نہ کرنا۔“
اس نے دھیمی مگر سخت آواز میں اُسے ٹوک دیا۔
”ہاں نہیں کروں گی۔ مجھے پتا ہے کہ یہ بات سیکرٹ ہے۔ مجھے تو یہ سب کسی ایڈونچر کی طرح لگ رہا ہے۔“
وہ ایکسائیٹڈ انداز میں بولی۔
رانیہ نے اپنا سر تھام لیا۔
”اُف …… یہ ایڈونچر کی شوقین ٹین ایجر لڑکیاں!“
”عشنا! تمہیں معلوم ہے کہ میری منگنی ہوچکی ہے۔ اور میرا منگیتر بھی ہے۔ مجھے زوار آفندی جیسے لڑکوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔“
اس نے ذرا سختی سے کہا۔
عشنا نے منہ بسور لیا۔
”مجھے تو زوار آفندی سے بڑی ہمدردی محسوس ہورہی ہے۔“
عشنا کی آواز میں افسوس سا تھا۔
”یہ تم سب لوگ زوار سے اتنا متاثر کیوں ہوگئے ہو…… جس کو دیکھو، اسی کے گن گاتے ہوئے نظر آتا ہے۔“
رانیہ کو غصہ آگیا۔
”رانیہ باجی! He is different“
عشنا نے بے ساختہ کہا اور تاج ڈریسنگ ٹیبل کی دراز میں رکھ کر بیڈ پر آبیٹھی۔
رانیہ سرجھٹک کر دوبارہ موبائل کی طرف متوجہ ہوگئی۔
”خیر…… میں اُس آدمی کے بارے میں اب مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ہوں۔“
وہ قطعی انداز میں بولی۔ زوار کا ذکر سن کر اس کے کان پک گئے تھے۔
”آپ کس کو میسجز کررہی ہیں اتنی دیر سے؟“
عشنا کی نظر اُس کے موبائل پر تھی۔
”اپنے منگیتر کو۔“
اس نے جواب دیا۔
”وہ تو نہ آپ کے میسجز کا جواب دیتے ہیں اور نہ یہاں آتے ہیں ……“
عشنا نے صاف گوئی سے کہا۔
”وہ مجھ سے ناراض ہے ان دنوں۔“
رانیہ سنجیدگی سے بولی۔
”کیوں؟“
عشنا حیران ہوئی۔
”بس…… ناراضگیاں ہوجاتی ہیں لوگوں میں، مگر تمہیں یہ باتیں سمجھ نہیں آئیں گی۔“
رانیہ نے گہرا سانس بھر کر کہا۔
عشنا کہنا چاہتی تھی کہ اس آدمی سے منگنی توڑ دے جو ایک لڑکی کے میسجز کا جواب بھی نہیں دے سکتا۔ مگر وہ کہہ نہ سکی۔
خامو ش رہی۔
ثمن نے دراوازہ کھول کر اندر جھانکا۔
”عشنا! تم یہاں بیٹھی ہو؟“
اس کی آواز پرجوش تھی۔
”ہاں …… میں رانیہ باجی سے شیکسپیئر کے ایک ڈرامے کی کہانی سن رہی ہوں۔“
عشنا نے بہانہ بنایا۔
”اوہ یہ شیکسپیئر کے ڈرامے!“
ثمن نے منہ بنایا۔
”آؤ تم بھی سن لو۔“
عشنا نے مسکرا کر کہا۔
”نہیں شکریہ…… آ پ لوگ جلدی باہر آئیں …… بابا ایک پرانے کباڑیے سے ستارے لے کر آئے ہیں اور ستاربجاتے ہوئے ہمیں غزل بھی سنائیں گے۔“
ثمن نے پرجوش آواز میں کہا۔
”واقعی؟“
عشنا چھلانگ مار کر بیڈ سے اُتری۔
”جیمو ماموں اور ستار…… واہ …… واہ۔“
وہ خوشی خوشی باہر بھاگی۔
رانیہ کو بھی ناچار باہر جانا پڑا۔
جیمو ماموں بڑے طمطراق سے صحن میں پھولوں کے پاس اپنے تخت پر بیٹھے تھے۔
اُن کے قریب ہی ستار پڑا تھا۔ موسم بھی خوبصورت تھا، آسمان پر بادل تھے۔
ان کے اردگرد سارے گھر والے ایکسائیٹڈ انداز میں بیٹھے تھے۔
عنایا تصویریں بنا رہی تھی۔
جیمو ماموں کسی کلاسیکل گلو کار کی طرح مہارت سے ستار بجاتے ہوئے غزل گا رہے تھے۔
؎”رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ
آپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ“
دیوار کے پار بیٹھے ہمسائے نے کانوں پر ہاتھ رکھ لئے۔
یہ گھر اُس نے اس لئے خریدا تھا تاکہ یہاں سکون سے رہ سکے مگر یہاں آکر تو اس کا سکون ہی درہم برہم ہوکر رہ گیا تھا۔
امی صحن میں آئیں اور کرسی پر بیٹھی ثمن سے پوچھا۔
”کہاں سے آیا ہے یہ ستار؟“
”بابا کسی پرانے کباڑیے سے لے کر آئے ہیں، بہت سستا مل گیا ہے۔“
اس نے فوراً معلومات دیں۔
جیمو ماموں اپنی غزل میں گم تھے۔
؎”کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لئے آ“
”چلو…… اب ہر وقت یہاں یہ محفلیں سجا کریں گی۔ اس کی کسر رہ گئی تھی۔ ارے جیمو بھائی! پورے محلے کو کیوں سنا رہے ہو؟“ امی نے خفا سے انداز میں کہا۔
”تاکہ لوگوں کو بھی تو اس عظیم گلو کار کے بارے میں پتا چلے۔“
عنایا نے تصویریں اتارتے ہوئے جواب دیا۔
”ارے…… کیوں ہمسایوں کے صبر کا امتحان لے رہے ہو؟“
امی نے انہیں روکتے ٹوکتے ہوئے باز رکھنے کی کوشش کی۔
دیوار کے پار بیٹھے ہمسائے نے بے اختیار امی کو داد دی۔
”یہ کوئی نیک اور عقلمند خاتون لگتی ہیں۔ ورنہ تو اس گھر میں سب ہی مسخرے رہتے ہیں۔“
اس کے دل کو ڈھارس سی ملی۔
؎”پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو
رسم راہِ دنیا ہی نبھانے کے لئے آ“
جیمو ماموں ایک بلند پائے کے گلور بن چکے تھے۔
“I love classical music.”
عشنا بھی خوش تھی۔

”تو بابا کے گانے ریکارڈ کرکے کینیڈا لے جانا اس طرح ان کی شہرت کو چار چاند لگ جائیں گے۔“
ٹیپو نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ہاں ضرور…… کینیڈا کے لوگوں کو بھی پتا چلنا چاہیے کہ پاکستان کے بزرگوں میں بھی بہت ٹیلنٹ ہے۔“
عشنا کھلکھلاتے ہوئے بولی۔
”جیمو ماموں کے ساتھ بزرگ کا لفظ استعمال کرنا ممنوع ہے۔
عنایا نے یاد دلایا۔
؎”مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت
چپکے سے کسی روز جتانے کے لئے آ۔“
یہاں تو بس یہی کچھ ہوتا رہتا ہے۔ روز نیا تماشا، روز نیا ڈرامہ……
”اور روز نیا ایڈونچر۔“

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

Read Next

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر4)”

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!