چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر3)”


رانیہ گھر آکر بھی زوار کی باتوں کی وجہ سے بہت ڈسٹر ب رہی۔
وہ جانتا تھا کہ وہ منگنی شدہ ہے پھر وہ اُس سے ایسی باتیں کیوں کرتا تھا۔
آخر اُس کا مقصد کیا تھا۔
تھیٹر ڈرامہ، ملکہ، تاج…… اُس کی سب باتیں عجیب وغریب تھیں مگر ان سب باتوں کا آپس میں گہرا ربط تھا۔
وہ اپنے بیڈ پر الجھی بیٹھی تھی جب اُس ے موبائل پر ایک میسج آیا۔
”ہیلو کوئین؟“
میسج بھیجنے والے نے اپنا نام نہیں لکھا تھا۔ مگر وہ جانتی تھی کہ یہ میسج زوار آفندی نے ہی بھیجا ہے۔
”اُف۔“ اس نے تنگ آکر موبائل ہی آف کردیا۔ وہ اُسے کوئی جواب ہیں دینا چاہتی تھی۔
آخر یہ شخص اُس سے چاہتا کیا ہے۔ کیا وہ اس سے فلرٹ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
اُسے اس پر بہت غصہ آیا۔
”اگر وہ ایسی کوشش کررہا ہے تو ناکام ہی ہوگا۔“
وہ غصے سے بڑبڑائی۔
”ہوتے ہیں ایسے کچھ لوگ جو لڑکیوں سے فلرٹ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔“
وہ سوچنے لگی کہ اب اُسے کیا کرنا چاہیے۔ اُسے زوار کو بڑی احتیاط سے ڈیل کرنا تھا۔
وہ اُس کے تھیٹر ڈرامے کا اسپانسر تھا۔ اس کے ساتھی اداکار اس ڈرامے کے لئے بہت ایکسائیٹڈ تھے۔ انہیں اس ڈرامے سے بڑی امیدیں تھیں۔
وہ اپنی وجہ سے اتنے لوگوں کا کیرئیر داؤ پر نہیں لگانا چاہتی تھی۔
اپنے ساتھیوں کی ہمدردی آڑے آگئی۔
اس نے سوچا کہ اگر زوار اس کے ساتھ فلرٹ کرنے کی کوشش بھی کررہا ہے تو وہ اُسے نظر انداز کرتی رہے گی اور وہ تھک ہار کر خود ہی پیچھے ہٹ جائے گا۔
اس کے گھر والے بھی زوار آفندی کو بہت پسند کرتے تھے۔ وہ اپنے گھر والوں کو بھی اچھی طرح جانتی تھی۔
انہوں نے تو کبھی اس کی بات پر یقین ہی نہیں کرنا تھا بلکہ انہوں نے تو اسے ہی بے وقوف احمق اور پاگل ہی سمجھنا تھا۔
وہ ایک منگنی شدہ لڑکی تھی سب کو پتا تھا کہ اس کی شادی فارس کے ساتھ ہونے والی ہے۔ وہ خود کو زوار کے ساتھ scandalizeنہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس نے سوچا کہ بہتری اس ہی میں ہے کہ وہ خاموش رہے،رہی بات زوار کی تو اس کو اس کے رویے سے خود ہی سمجھ آجائے گی اور وہ خود ہی اس کا پیچھا چھوڑ دے گا۔
وہ اپنے گھر والوں کو اس کی دعوت کرنے سے بھی روکنا چاہتی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔گھر میں اب اس کی بات کی کوئی اہمیت نہیں رہی تھی۔ گھر والے فارس کی وجہ سے اس سے ناراض رہتے تھے۔
فارس بھی اُس سے خفا تھا اور اتنے دنوں سے نجانے کہاں غائب تھا۔نہ اُسے فون کرتا، نہ اُس کا فون اٹھاتا۔
اس کے گھر والوں نے بھی فارس کے یوں غائب ہوجانے پر کسی قسم کی تشویش کااظہار نہیں کیا۔ بلکہ انہیں تو فارس کی کوئی پروا ہی نہیں تھی۔ وہ تو بس ہر وقت زوار آفندی کا ہی ذکر کرتے رہتے۔
اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ آئندہ ایسے کسی ڈرامے میں کام نہیں کرے گی جسے زوار نے اسپانسر کیا ہوگا۔ بلکہ وہ کچھ عرصہ کے لئے تھیٹر کی دنیا سے ہی غائب ہوجائے گی۔
٭……٭……٭
عقیل ماموں کی فیملی پاکستان آگئی تھی۔ سب لوگ ان کے آنے سے بہت خوش تھے۔
فردوسی خالہ کے روز و شب بھی بے حد مصروف ہوگئے تھے اور انہوں نے اپنے سوشل ورک کو بھی کچھ دنوں کے لئے ملتوی کردیا تھا۔
رانیہ اپنی ریہرسل میں مصروف تھی۔ وہ باقی گھر والوں کے ساتھ عقیل ماموں سے ملنے نہیں جاسکی تھی۔ اس کی ساری توجہ اپنے ڈرامے پر تھی۔
ثمن تو عشنا کے آنے کا سن کر بہت خوش تھی۔ کافی سال پہلے وہ اُس سے ملی تھی اور اب برسوں بعد اُسے دیکھ رہی تھی۔
امی نے عقیل ماموں کے لئے شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔
عنایا صبح سے امی کے ساتھ کچن میں مصروف تھی۔ ثمن نے بھی اپنے اصول توڑ دیئے تھے اور کاموں میں ہاتھ بٹایا۔
امی نے رانیہ کو بھی گھر پر روک لیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے گھر والے زوار آفندی کو بھی مدعو کرچکے ہیں۔ رانیہ کوبھی گھر پر رکنا پڑا اور کاموں میں ہاتھ بٹانا پڑا۔ سارے گھر والے صبح سے ہی بڑے جوش وخروش کے ساتھ کاموں میں مصروف تھے۔
دعوت پر سب سے پہلے آنے والا مہمان زوار آفندی تھا، جو پھولوں کے خوبصورت بکے اور کیک کے ساتھ وقت سے کافی پہلے آگیا تھا۔
جیمو ماموں اس کی خاطر تواضع میں بچھے جارہے تھے۔
عنایا، ٹیپو اور ثمن اپنے کام چھوڑ کر ڈرائننگ روم میں اس کے ساتھ جڑے بیٹھے تھے۔ جیسے وہ کوئی وی آئی پی ہو۔
رانیہ نہ ڈرائننگ روم میں گئی اور نہ ہی اسے زوار آفندی سے ملنے کا کوئی اشتیاق تھا۔
وہ کچن میں ہی مصرو ف رہی۔
بریانی کو دم لگاتے ہوئے اسے بے اختیار ہی یہ خیال آیا کہ کیا ہوتا اگر اس دعوت پر بی جان (فارس کی امی) اور فارس کو بھی مدعو کرلیا جاتا مگر اس کے گھر والوں کو تو احساس ہی نہیں، جہاں اتنے لوگ آرہے ہیں وہاں وہ دونوں بھی آجاتے…… اُسے اپنے گھر والوں سے گلہ ہوا۔
زوار آفندی ایک غیر شخص کو بلا لیا اور اس کے منگیتر کو کسی نے پوچھا بھی نہیں۔ وہ سوچتے ہوئے اداس ہوگئی۔
”زوار آفندی کو تو دیکھو! کیسے میرے گھر والوں کے ساتھ مل کر گپیں لگا رہا ہے، قہقہے لگا رہا ہے۔ کسی نے ایک بار بھی مجھے نہیں بلایا۔“
وہ ملول سی ہوگئی۔
ڈرائننگ روم سے ہنسنے بولنے اور قہقہوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس کا دل ہی نہیں چاہا کہ وہ ڈرائننگ روم میں جائے۔ وہ کچن میں اپنا کام کرتی رہی۔
اُس کے سارے گھر والے اپنے کام بھول کر زوار کے گرد جمع تھے۔ حتیٰ کہ امی بھی وہیں تھیں۔
”یہ آدمی بہت خطرناک ہے یہ میرے گھر والوں کو ہپناٹائز کرنے کی کوشش کررہا ہے۔“
اس نے سلاد کاٹتے ہوئے سوچا۔
اُدھر ڈرائننگ روم میں رانیہ کے سب گھر والے خوشی اور جوش وخروش کے عالم میں زوار کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔
وہ بھی مسکرا کر اُن سے با ت کررہا تھا۔
”عنایا اور جیموماموں سے بڑا ذکر سنا ہے آپ کا!“
امی نے مسکرا کر کہا۔
وہ ذومعنی انداز میں مسکرایا۔
”مس رانیہ نے میرا کوئی ذکر نہیں کیا؟“
”ارے کیوں نہیں …… وہ بھی آپ کا بہت ذکر کرتی ہے آپ اُسی کے کولیگ ہیں نا!“
جواب عنایا نے دیا۔
”نہیں میں اُن کاکولیگ نہیں ہوں، بلکہ اُن کے تھیٹر ڈرامے کا Financerہوں۔ مجھے آرٹس اور تھیٹر میں کافی دلچسپی ہے۔“
وہ مسکرا کربولا۔
”اوہ اچھا!“
عنایا نے بے ساختہ کہا۔
اس بات کے بارے میں تو رانیہ نے گھر میں کسی کو بتایا ہی نہیں تھا۔رانیہ کو بھی اصل باتیں چھپانے کی عادت ہے۔
عنایا نے سوچا۔
”آپ کیا کام کرتے ہیں بیٹا؟“
امی نے سوال کیا۔
”ٹیکسٹائل فیکٹری ہے میری……بس وہی چلاتا ہوں۔“
اُس نے سادگی سے بتایا۔
اس کے انداز میں کوئی غرور نہیں تھا۔
”امپورٹ ایکسپورٹ بھی تو کرتے ہیں آپ؟“
عنایا نے فوراً کہا۔ وہ مسکرایا۔
”جی…… وہ کام بھی ہے۔“
اس نے مختصراً بتایا۔
وہ اپنی پروفیشنل لائف کے بارے میں زیادہ بات چیت کرنے کا خواہش مند نہیں لگتا تھا۔
”اور کیا کرتے ہیں آپ؟“
جیمو ماموں بے ساختہ بولے۔
”اور کچھ نہیں۔“
وہ مسکراکر بولا۔
”آپ کیا کرتے ہیں جیمو ماموں؟“
وہ مسکرا کر بولا۔
”ارے انہوں نے کیا کرنا ہے۔ یہ ریڈیو پاکستان سے ریٹائرہوئے ہیں۔ گانے سنتے ہیں، نظمیں پڑھتے ہیں، بانسری بجاتے ہیں۔“
عنایا نے خوشدلی سے کہا۔
ماموں کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
”واہ! آپ تو کمال کے آدمی ہیں۔“
وہ متاثر ہوگیا۔
”جی بس کبھی غرور نہیں کیا۔“
وہ مسکرا کر بولے۔
زوار کو یہاں آکر ان لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی تھیں۔
وہ لوگوں میں ایسی سادگی اور اپنائیت دیکھنے کو ترس گیا تھا۔ پھر وہ عنایا کی طرف متوجہ ہوا۔
”اور آپ این جی او چلاتی ہیں!“

”جی ہاں۔ مجھے سوشل ورک کا شوق ہے۔“
وہ مسکرا کربولی۔
”اچھی با ت ہے۔ انسان کو کچھ نہ کچھ کرتے رہنا چاہیے۔“
زوار نے مسکرا کر کہا۔
”آپ کی طرح بزنس نہیں کرتے ہم۔“
ماموں ہنس کر بولے۔ محفل گل و گلزار ہوگئی۔
”مس رانیہ نظر نہیں آرہیں۔“
دل کی خواہش زبان پر آگئی۔
”وہ کچن میں آپ کے لئے کھانے بنارہی ہیں۔“
ثمن بے ساختہ بولی۔ زوار کو یہ جملہ بے حد اچھا لگا۔
”تو پھر انہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہیے۔“
وہ بے اختیار مسکرایا۔ باتوں کے دوران اس کی نظر بار بار سامنے دیوار پر لگی بڑی سی فریم شدہ تصویر سے ٹکراتی پھر واپس پلٹ آتی۔ وہ رانیہ کی منگنی کی تصویر تھی جس میں وہ دلہن بنی بیٹھی تھی۔ اُس کا لباس لائٹ پرپل کلر کا تھا اور اُس نے بہت ہلکی جیولری پہنی تھی اور اُس کا میک اپ بھی ہلکا تھا۔
رانیہ کے ساتھ اُس کی ساری فیملی بیٹھی تھی۔ اُس کی امی، جیمو ماموں، عنایا، ثمن اور ٹیپو…… مگر اُس کا منگیتر اُس کے ساتھ نہیں بیٹھا تھا۔
زوار اُس تصویر کو دیکھ کر کچھ سوچتے ہوئے زیر لب مسکرایا۔
اس تصویر کو دیکھ کر وہ سمجھ گیا تھا کہ اس گھر کے لوگوں کے لئے صرف رانیہ ہی اہم تھی، اس کا منگیتر نہیں ……
”یہ رانیہ کی منگنی کی تصویر ہے غالباً!“
اُس نے کہا۔
”جی ہاں۔“
ماموں نے جواب دیا۔
زوار نے ایک بار پھر اس تصویر کو بغور دیکھا۔
”اس تصویر میں اُن کے منگیتر نہیں ہیں ساتھ۔“
زوار نے سوال کیا۔
سب لوگ اس بات پر چونک سے گئے۔
”جی…… بس، تصویریں تو کافی ہیں۔ البم میں لگی ہیں مگر ہمیں یہ تصویر اچھی لگی اسی لئے ہم نے اسے فریم کروالیا۔“
عنایا نے بات بنادی۔
”رانیہ کے منگیتر آج آئیں گے کیا؟“
زوار نے بظاہر نارمل سے انداز میں پوچھا۔
سب لوگ چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
”نہیں …… انہیں ہم نے آج انوائیٹ نہیں کیا۔“یہ ثمن تھی۔
امی نے گھور کر اُسے دیکھا۔ اسے تو کبھی کسی کے سامنے بات کرنے کا طریقہ ہی نہیں آئے گا۔
زوار ثمن کی بے ساختگی پر چونکا۔
وہ ہر ایک کے تاثرات کو گہری نظر سے دیکھ رہا تھا۔
”تو آپ نے انہیں بھی انوائیٹ کرلینا تھا۔ ان سے بھی گپ شپ ہوجاتی۔“
وہ بظاہر نارمل انداز میں بولا۔
”گپ شپ!“
عنایا ثمن اور ٹیپو کی حیران آواز یں ایک ساتھ سنائی دیں۔
پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے بھی ہوئے۔
”کیوں؟ کیا وہ لوگوں سے گپ شپ نہیں کرتے؟“
فارس کے نام پر سب کے ہنستے مسکراتے چہروں پر بے زاری چھاگئی تھی جو زوار کی زیرک نظروں سے چھپی نہ رہ سکی۔
”دراصل وہ کافی کم گو انسان ہیں۔“
ماموں نے اپنی طرف سے مناسب ترین جملہ کہا۔
وہ مہمان کے سامنے فارس کی برائیاں نہیں کرنا چاہتے تھے۔
”ویسے بھی انہیں انوائیٹ کرنے کی ضرور ت بھی نہیں تھی جب ان کا دل کرتا ہے تو وہ یہاں آجاتے ہیں۔“
ثمن کے لہجے میں ہلکی سی تلخی آگئی۔
”ظاہر ہے وہ اس گھر کے مہمان تو ہیں نہیں …… ویسے کیا کرتے ہیں وہ!“
زوار نے کہا۔
رہی سہی کسر ٹیپو نے پوری کردی۔
”آوارہ گردی۔“
اس کی بڑبڑاہٹ اتنی اونچی ضرور تھی کہ ہر ایک کے کان میں پہنچ گئی۔ اپنی طرف سے تو اُس نے سچ ہی کہا تھا۔
”ارے ان لوگوں کی تو عادت ہے مذاق کرنے کی……“
امی نے گھور کر ڈرانے کی کوشش کی۔ بھلا مہمان کے سامنے ایسی فضول باتیں کرنے کی کیا ضرورت تھی مگر ان لوگوں کو بھی عقل نہیں آئے گی۔
ماموں نے بھی دانستہ موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
”اس گھر کے لوگوں کی یہی تو خوبی ہے کہ مذاق بھی اس انداز سے کرتے ہیں کہ سامنے والے بندے کو سمجھ ہی نہیں آتی۔“
وہ خواہ مخواہ ہی مسکرادیے۔زوار ساری بات سمجھ چکا تھا۔
دفعتاً گیٹ پر بل بجی۔
ماموں فوراً اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
”عقیل بھائی آگئے…… میں ذرا انہیں لے کر آتا ہوں۔“
جیمو ماموں باہر کی طرف بھاگے۔
”اصل میں ہمارے رشتہ دار آئے ہیں باہر سے تو ہم نے انہیں بھی آج دعوت پر بلایاہے۔“
امی بھی کہتے ہوئے باہر نکلیں۔
زوار مسکرا کر رہ گیا۔
اور یونہی اس کی نظر سامنے لگی تصویر پر جارُکی۔
لوگوں کی موجودگی میں وہ اس تصویر کو بار بار اور غور سے دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔
اور جس لڑکی کی تصویر تھی وہ ابھی تک کچن سے باہر ہی نہیں نکلی تھی۔
وہ بے اختیار گہرا سانس لے کر رہ گیا۔
ماموں اور امی نے عقیل ماموں اور ان کی فیملی کا استقبال کیا۔ فردوسی خالہ اور روشنی بھی ان کے ساتھ تھیں۔
عقیل ماموں اندر آتے ساتھ ہی بولے۔
”بھئی باہر مرسیڈیز کس کی کھڑی ہوئی ہے؟“

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

Read Next

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر4)”

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!