چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر3)”

رانیہ عشنا سے سارہ کی کہانی سن چکی تھی۔ وہ کتنی ہی دیر بے یقینی کے عالم میں خاموش بیٹھی رہی۔ اس کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ زوار کی زندگی سے جڑے کوئی ایسے راز بھی ہوں گے۔ عشنا نے اُس پر اعتماد کیا تھا اور اب انسانیت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ عشنا اور سارہ کی مدد کرتی۔
عشنا نے اسے یوں گم سم دیکھ کر کچھ دیر بعد کہا۔
”سارہ نے اپنی زندگی کے دکھ میرے ساتھ شیئر کئے تھے۔ مجھے اس سے ہمدردی تھی اور میں نے اس کی مدد کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ پہلے مجھے یہ سب ایک ایڈونچر کی طرح لگتا تھا مگر آہستہ آہستہ میری سارہ کے ساتھ دوستی گہری ہوتی چلی گئی اور اب میں دل سے اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔“
رانیہ نے گہرا سانس بھرکر حامی بھرلی۔
”اچھا! میں زوار سے بات کروں گی۔ مگر مجھے تھوڑا وقت دو کہ میں اس تھیٹر ڈرامے سے فارغ ہوجاؤں۔ تم نہیں جانتی کہ زوار آفندی بے حد عجیب و غریب شخص ہے۔ دراصل اس تھیٹر ڈرامے کو وہی Sponsor کررہا ہے۔ اگر وہ میری بات سن کر بگڑ گیا تو کہیں اس ڈرامے پر برا اثر نہ پڑے۔ میرے ساتھ بہت سے اداکار ہیں۔ میرے کولیگز ہیں۔ سب کے کیرئیر کا سوال ہے۔ مجھے تھوڑا وقت دو میں اُس سے ضرور بات کروں گی۔“
رانیہ نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
عشنا کو تسلی ہوئی۔
”ٹھیک ہے رانیہ باجی۔ میں انتظار کرلوں گی۔ پھر میں سارہ کو اُسی وقت بتاؤں گی جب آپ کی اس سے بات ہوجائے گی۔“
عشنا نے کہا۔ اب اُسے اطمینان تھا کہ وہ اپنے دل کا بوجھ رانیہ کے ساتھ بانٹ چکی ہے۔
”ہاں ٹھیک ہے۔ نہ فکر کرو۔“
رانیہ سنجیدگی سے بولی۔ عشنا خوش تھی کہ رانیہ نے اُسے انکار نہیں کیا تھا اور وہ اس کی مدد کرنے کے لئے تیار تھی۔
”مجھے یقین ہے کہ وہ آپ کی بات ضرور سنے گا۔“
عشنا کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھری رانیہ ذرا چونکی۔
”تمہیں کیسے یقین ہے؟“
رانیہ کو اس کی یہ بات بڑی عجیب لگی تھی۔
”بس ایسے لگتا ہے مجھے۔“
وہ مبہم سے انداز میں بولی۔
وہ آج کے زمانے کی لڑکی تھی۔ وہ دعوت والے دن زوار کی نظروں کا ارتکاز نوٹ کرچکی تھی۔
”میں نے کھانے کی میز پر انہیں دیکھا تھا۔ وہ بار بار آپ ہی کی طرف دیکھ رہے تھے۔“
وہ ذرا آگے کو ہوکر رازداری سے بولی۔
رانیہ یہ بات سن کر خفا ہوگئی۔
”کیسی فضول باتیں کررہی ہو عشنا…… وہ صرف ایک مہمان تھا۔“
رانیہ نے اُسے ڈانٹ دیا۔
”اچھا I am sorry۔ آپ میری بات کا مائنڈ نہ کریں۔ میں نے تو یونہی آپ کو اپنی Observationکے بارے میں بتایا ہے۔ یہ میرا وہم بھی ہوسکتا ہے۔“
عشنا نے فوراً اپنی مسکراہٹ چھپالی کہ کہیں رانیہ اس سے ناراض نہ ہوجائے۔
”بتائیں آپ زوار آفندی سے بات کریں گی نا؟“
اس نے پھر زور دے کر پوچھا۔
”ہاں کرلوں گی۔“
رانیہ نے سنجیدہ انداز میں کہا مگر اُس کا موڈ آف ہوچکا تھا۔ اس نے مہمان سمجھ کر عشنا کا لحاظ کرلیا تھا۔
”سوری رانیہ باجی۔“
عشنا نے اس کے چہرے کے خفا سے تاثرات کو دیکھ کر اُسے منانے کی کوشش کی۔
“Its Ok.”
رانیہ نے بس اتنا ہی کہا۔
اب وہ زوار اور سارہ کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اسے زوار سے کب اور کیسے بات کرنی چاہیے۔
٭……٭……٭
رانیہ اور اس کی فیملی کے درمیان بہت میل ملاقاتیں ہونے لگی تھی۔ اس کے گھر والے عقیل ماموں کی فیملی کے ساتھ گھومتے پھرتے، کبھی دریا پر پکنک منانے چلے جاتے، کبھی ڈنر پر، کبھی بازاروں میں چاٹ کھانے، کبھی میوزیم چلے جاتے۔ وہ رانیہ سے رسماً پوچھ لیتے مگر وہ اپنے تھیٹر میں ہی مصروف رہتی۔ عشنا اپنا سامان لے کر رانیہ کے گھر رہنے کے لئے آگئی تھی۔
ثمن اور ٹیپو ہر چیز میں عشنا کا نام لے دیتے۔ عشنا نے پتنگ اڑانی ہے۔ عشنا نے بازار جانا ہے، عشنا نے یہ کرنا ہے، عشنا نے وہ کرنا ہے۔ عشنا کا نام لے کر سارے پروگرام سیٹ کئے جاتے کہ کینیڈا سے مہمان آئے ہیں، کیا کریں، مجبوری ہے۔
اس دن بھی وہ لوگ لاؤنج میں بیٹھے تھے جب ثمن نے امی سے ذرا بلند آواز میں کہا۔
”پھپھو! عشنا پتنگ اڑانا چاہتی ہے۔“
کہتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں عشنا کو اشارہ کیا کہ اب وہ بھی کچھ کہے۔
”جی آنٹی!……I love kite flying.……“
عشنا مسکرا کر بولی۔
امی نے بادل نخواستہ اجازت دے دی۔
”اچھا! چلو…… ٹیپو پتنگیں لے آتا ہے۔“
ٹیپو یہ سنتے ہی باہر بھاگا اور ڈھیر ساری پتنگیں لے آیا اور وہ سب لوگ جوش و خروش کے عالم میں چھت پر چلے آئے۔
ثمن اور ٹیپو عشنا کو پتنگ اڑانا سکھا رہے تھے۔ عنایا موبائل سے ان کی تصویریں بنارہی تھی۔
سرخ اور نیلی پتنگ اڑتے اڑتے دور ہوتی نظر آرہی تھی۔
”رانیہ باجی بھی ہمارے ساتھ آجاتیں تو اچھا ہوتا۔“
عشنا نے کہا۔ وہ محسوس کررہی تھی کہ رانیہ بہت کم ان کے کسی پروگرام میں شامل ہوتی ہے۔
”وہ اپنے تھیٹر میں ہی مصروف رہتی ہیں۔“
ثمن نے پتنگ اڑاتے ہوئے جواب دیا۔
عشنا آسمان پر اڑتی پتنگ کو اشتیاق سے دیکھ رہی تھی۔
پھر وہ ثمن کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئی۔
”اچھا! یہ بتاؤ، اس دن جو بندہ آیا تھا…… زوار آفندی…… وہ رانیہ باجی کا کولیگ ہے۔“
عشنا نے کہا۔
”ہاں …… کوئی جاننے والا ہے ان کا۔“
ثمن نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
”وہ کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟“
عشنا نے پوچھا۔
”امیر کبیر آدمی ہے۔ بزنس مین ہے۔“
ثمن کو تو بس زوار کے بارے میں اتنا ہی معلوم تھا۔
”اچھا! اس کی فیملی وغیرہ کہاں ہے؟“
عشنا نے بظاہر نارمل سے انداز میں پوچھا۔
ثمن نے نفی میں سرہلایا۔
”معلوم نہیں۔ ہمیں اس کی فیملی کے بارے میں کچھ نہیں پتا۔“
ثمن اڑتی ہوئی پتنگ پر نظریں جمائے ہوئے بولی۔
”تم لوگوں نے پوچھا بھی نہیں؟“
عشنا سنجیدہ ہوگئیں۔
ثمن اس بات پر حیران ہوئی۔
”نہیں …… ہم کیوں پوچھتے۔“
اس نے کندھے اُچکائے۔
”اور اُس نے خود بھی نہیں بتایا؟“
عشنا نے سنجیدگی سے کہا۔
”نہیں۔“
ثمن نے کہا۔
عشنا خاموش ہوگئی۔ ثمن کے پاس زوار کے متعلق بس اتنی ہی معلومات تھیں۔
”رانیہ باجی سے پوچھ لینا اس کے بارے میں۔ یہ سب باتیں انہیں ہی معلوم ہوں گی۔“
ثمن نے لاپرواہی سے کہا۔
”مجھے تو ان کے تھیٹر ڈرامے کا بہت انتظار ہے۔ میں تو وہ دیکھنے ضرور جاؤں گی۔“
عشنا کی تھیٹر سے دلچسپی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔
”ہاں …… چلیں گے…… ویسے تو اس گھر میں رانیہ باجی کے سوا کسی کو بھی تھیٹر سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مگر مجبوری ہے۔ ہمیں ان کا ڈرامہ دیکھنے جانا پڑتا ہے۔“
ثمن نے کہا۔ عنایا ان کی تصویریں بنانے کے بعد اپ لوڈ کررہی تھی اور ان سے ذرا فاصلے پر کھڑی تھی۔
ان کی پتنگ کٹ کے کہیں دور جاگری تھی ٹیپو نے پیلے رنگ کی پتنگ اٹھائی۔
”چلو یہ والی اڑالیتے ہیں۔“
وہ پتنگ کو ڈورے باندھتے ہوئے بولا۔
”ہاں ٹھیک ہے۔“
عشنا دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ ثمن اور ٹیپو دونوں ہی پتنگ بازی میں مشاق تھے۔
اور ابھی اس پتنگ نے اڑان بھری ہی تھی کہ کسی نے پیچا لگا دیا۔
اور وہ پتنگ گر کر ہمسائے کے گھر کے درخت میں اٹک گئی۔
انہوں نے منڈیر سے نیچے جھانک کر دیکھا تو وہی لڑکا صحن کی دیوار کے ساتھ کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھتے ہوئے نظر آیا۔
”اُف …… اس آدمی نے تو ہماری پتنگ واپس بھی نہیں کرنی……“
ثمن نے منہ بناکر کہا۔
”کون ہے یہ؟“
عشنانے حیران ہوکر پوچھا۔
”ہمارا نیا پڑوسی۔ ہمارے پرانے پڑوسی بہت اچھے لوگ تھے مگر وہ اس آدمی کو یہ گھر بیچ کر چلے گئے ہیں …… اس کے گھر ہماری کوئی بھی چیز غلطی سے چلی جائے تو یہ واپس نہیں کرتا!!“
ثمن نے اونچی آواز میں کہا۔
”یہ تو بہت ہی غلط بات ہے۔“
عشناکو بھی یہ بات بری لگی۔ بھلا ایسی بھی کیا بداخلاقی……
”بس کیا کریں …… گزارہ کررہے ہیں …… اب یہ ہماری پتنگ واپس نہیں کرے گا۔“
عنایا بھی ان کے قریب آگئی۔
درخت میں پتنگ اٹکی ضرور تھی مگر سلامت تھی۔ پھٹی نہیں تھی۔
”اب اس پتنگ کو بھول جاؤ۔“
ٹیپو نے ڈور لپیٹتے ہوئے بے دلی سے کہا۔
وہ آدمی صحن میں بیٹھا بلند آواز میں کی گئی یہ ساری باتیں سن رہا تھا مگر اس نے کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
”میں کروں اس سے بات؟“
عشنا نے اپنی خدمات پیش کیں۔
”رہنے دو……یہ آدمی پڑوسیوں کی بے عزتی کردیتا ہے۔ اسے لوگوں سے بات کرنے کا طریقہ بھی نہیں ہے۔“
عنایا نے اسے با ز رکھنے کی کوشش کی۔
”میں کوشش کرتی ہوں۔“
عشنانے اصرار کیا۔
”ناکام ہی ہوگی تمہاری یہ کوشش۔“
ٹیپو نے عشنا کی خوش فہمی پرسرجھٹکا۔
عشنا نے منڈیر پر ذرا جھک کر اوپر ہی سے آواز دی۔
”Excuse me.“
اس آدمی نے اس آواز پر بڑی بے نیازی سے اوپر کی طرف دیکھا۔
دیکھے بھالے چہروں کے درمیان وہ کوئی نیا چہرہ تھی اور وہ درخت میں اٹکی پتنگ کی طرف اشارہ کررہی تھی۔
”اونہہ…… احمقوں کے گروپ میں ایک نیا اضافہ۔“ اس نے سرجھٹکتے ہوئے اخبار تہہ کرکے میز پر رکھا۔ وہ اُس لڑکی کا اشارہ سمجھ چکا تھا۔ پھر وہ کرسی دھکیل کر اپنی جگہ سے اٹھا اور درخت کے پاس گیا۔
”دیکھو! وہ ہماری پتنگ واپس کررہا ہے۔“
عشنا نے خوش ہوکر کہا۔
اس شخص نے احتیاط سے پتنگ درخت میں سے نکالی اور چھت پر منتظر کھڑے لوگوں کو جتاتی ہوئی نظروں سے دیکھا پھر پتنگ لے کر اندر چلا گیا۔
عشنا کا منہ کھلاکا کھلا ہی رہ گیا۔
ثمن نے بے ساختہ پاؤں پٹخے۔
”کتنا بدتمیز آدمی ہے۔ کہا تھا نا! کہ یہ ہر گز ہماری پتنگ واپس نہیں کرے گا۔“
”کتناrudeہے یہ آدمی۔“
عشنا حیران بھی تھی اور خفا بھی۔
”ایسا ویسا…… صرف rudeہی نہیں بلکہ بدتمیز، بدتہذیب، جنگلی اور اُجڈ بھی ہے۔
عنایا نے بلند آواز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
”کیسا بندہ ہے…… اسے کوئیmannersہی نہیں ہیں۔“ عشنا نے منہ بناکر کہا۔
”پتا نہیں …… کہاں سے آگیا اس گھر میں ……“
ثمن خفا سے انداز میں بولی
”مجھے تو یہ کوئی چور یا ڈاکو لگتا ہے۔“
عنایا نے سوچتے ہوئے کہا۔
”تو پھر آپ لوگ پولیس میں اس کی شکایت کیوں نہیں کرتے؟“
عشنا نے کہا۔
”بس…… کیا کریں …… ہم شریف لوگ ہیں …… پولیس اور تھانوں کے چکر میں پڑنا نہیں چاہتے۔“
ٹیپو گہر ا سانس لے کر بولا۔
”چلو…… دوسری پتنگ اڑالیتے ہیں۔“
ثمن نے دوسر ی پتنگ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”ہاں …… مشکل سے تو ہمیں پتنگ اڑانے کی اجازت ملی ہے۔ ہم کیوں اسstupidآدمی کی وجہ سے اپنا پروگرام خراب کریں۔“
عنایا نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”سب لوگ پتنگ اڑانے میں مصروف ہوگئے مگر ان سب کو ہی اس آدمی پر بہت غصہ تھا۔
٭……٭……٭
رانیہ کا تھیٹر ڈرامہ Macbeth بہت کامیاب ہوا تھا۔ اور بہت سی وجوہات کی بنا پر وہ فنکار تھیٹر گروپ کی تاریخ کا سب سے اہم ڈرامہ سمجھا جانے لگا۔ ایک تو اس کا بجٹ بہت زیادہ تھا۔ Sponsor نے خوب پیسہ لگایا او ریہ ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔
رانیہ کے گھر سے جیمو ماموں کے ساتھ ثمن اور عشنا آئی تھیں۔
ڈرامہ ختم ہوا تو جیمو ماموں اور ثمن ہال میں بیٹھے رانیہ کے فارغ ہونے کا انتظار کررہے تھے۔
اسٹیج کے پاس رانیہ ملکہ کے روپ میں عشنا کے ساتھ کھڑی تھی۔ رانیہ بالکل اصل ملکہ ہی لگ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
عشنا اس کے ساتھ کھڑی اس سے باتیں کئے جارہی تھی۔
”رانیہ باجی! آپ کا تھیٹر ڈرامہ تو زبردست تھا۔ مجھے تو پتا ہی نہیں چلا کہ اتنا وقت کیسے گزر گیا۔ میں تو اسے دیکھتے دیکھتے کہیں کھو ہی گئی۔ پتا ہی نہیں چلا کہ کب ڈرامہ شروع ہوا اور کب ختم ہوگیا۔“
وہ ایک باتونی لڑکی تھی۔
رانیہ اس کی بات پر مسکرائی۔ ملکاؤں جیسا لباس پہنے، گہرے میک اپ اور نفیس سی جیولری کے ساتھ وہ کسی ریاست کی ملکہ ہی لگ رہی تھی۔ بالوں پر بیش قیمت تاج چمک رہا تھا۔
”وہ دیکھیں …… زوار آفندی…… دورکھڑا ہوا ہے۔“
عشنانے ذرا فاصلے پر کھڑ ے زوار کی طرف اشارہ کیا۔ رانیہ نے زوار کی طرف نہیں دیکھا۔
”ہاں تو کھڑا رہنے دو اسے…… ہمیں کیا تم اُس کی طرف نہ دیکھو ورنہ اُسے پتا چل جائے گا کہ ہم لوگ اس کے بارے میں ہی بات کررہے ہیں۔“

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

Read Next

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر4)”

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!