چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر3)”

اُس کی آواز مدھم مگر گہری تھی یوں جیسے وہ اُسے بہت ہی خاص بات بتانا چاہتی ہو۔ پھر وہ اُس کے قریب آکر بیٹھ گئی۔
”میں آپ کو ایک secretبتانا چاہتی ہوں۔آپ وعدہ کریں کہ اس بات کو راز ہی رکھیں گی۔ کیا میں آپ پر trust کرسکتی ہوں؟“
اُس کا انداز غیر معمولی تھا۔ رانیہ پوری توجہ سے اُس کی بات سن رہی تھی۔
”ہاں کیوں عشنا……“
رانیہ نے اُس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”میری ایک دوست ہے وہ کینیڈا میں اپنی ممی کے ساتھ رہتی ہے۔ اُس کا نام سارہ ہے۔“
اُس نے مدھم آواز میں کہا۔
”اچھا؟ پھر؟“
”وہ اپنےrelatives سے ملنے پاکستان آنا چاہتی ہے۔“
”تو آجائے۔“
”میں اُس کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔“
”پھر میں کیا کرسکتی ہوں عشنا؟“
”آپ ایک مجبور اور مظلوم لڑکی کی مدد کرسکتی ہیں۔“
عشنا کی آواز پر اسرار ہوگئی۔ رانیہ بری طرح ٹھٹک گئی۔
”مجبور اور مظلوم لڑکی؟“
وہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔ بھلا کینیڈا میں رہنے والی لڑکی مجبور اور مظلوم کیسے ہوسکتی ہے۔
عشنا نے اپنی بات جاری رکھی۔
”جی…… میری دوست سارہ…… جب میں نے اُسے پہلی بار دیکھا تھا تو وہ مجھے بہت ہی sad اورdepressed سی لگی تھی۔ اُس کی ممی دن رات کام کرتی ہیں اور سارہ میرے ساتھ سکول میں پڑھتی ہے۔ وہ اپنے گھر کے سارے کام کرتی ہے، صفائی کرتی ہے، کھانا پکاتی ہے، کپڑے اور برتن دھوتی ہے۔ وہ بہت مشکل زندگی گزار رہی ہے۔ اُس کے فادر کی death ہوچکی ہے۔ اُس کی ممی نے دوسری شادی کی تھی مگر وہ آدمی بھی انہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ سارہ اپنےrelativesکے پاس پاکستان آنا چاہتی ہے۔“
عشنا نے مدھم مگر سنجیدہ آواز میں کہا۔ اس کے انداز سے یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنی دوست کے لئے بے حدحساس ہے۔
”تو وہ آجائے پاکستان…… کیا مسئلہ ہے؟“
رانیہ نے کہا۔
”اس کےrelatives اس کی ممی کی دوسری شادی کےfavor میں نہیں تھے۔ سارہ کی ممی نے اپنے خاندان والوں کی مرضی کے خلاف جاکر دوسری شادی کی تھی پھر وہ سارہ اور اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ یہ ملک چھوڑ کر کینیڈا چلی گئیں مگر ان کی فیملی نے انہیں معاف نہیں کیا۔“
عشنا نے دھیمی آواز میں بتایا۔ رانیہ کو کسی حد تک اس کی بات کی سمجھ آگئی تھی۔
”اچھا…… تو یہ بات ہے۔“
رانیہ کو بھی یہ سب سن کر افسوس ہوا اور سارہ سے ہمدردی محسوس ہوئی۔
عشنا کے چہرے کے تاثرات سے لگتا تھا جیسے ابھی اُس کے پا س معلومات اور انکشافات کا مزید ذخیرہ موجود تھا۔
”رانیہ باجی…… جب میں یہاں آئی تو سوچتی تھی کہ سارہ کے رشتہ دار تک پہنچنا بہت مشکل ہوگا مگر اب مجھے لگتا ہے کہ یہ اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے۔ سارہ کے رشتہ داروں تک آپ کے ذریعے ہی پہنچا جاسکتا ہے۔“
عشنا کا لہجہ پراسرار ہوگیا۔ رانیہ اس کی بات نہیں سمجھ سکی۔
”عشنا مجھے بھلا تمہاری دوست کے رشتہ داروں کا کیاپتا؟“
رانیہ نے اُلجھ کر کہا۔ عشنا کی آنکھوں میں چمک سی بھری۔
”آپ سارہ کےrelatives کو جانتی ہیں۔ وہ وہی آدمی ہے جو کل رات کھانے پر آیا تھا…… زوار آفندی۔“
”زوار آفندی۔“
رانیہ بے یقینی سے بولی۔ عشنا نے اثبات میں سرہلایا۔
”جی ہاں۔“
اس نے اپنے بیگ سے ایک کاغذ نکال کر اُس کی طرف بڑھایا۔
”زوار آفندی کا تمہاری دوست سارہ سے کیا تعلق ہے؟“
رانیہ کے لئے انکشاف بے حد عجیب وغریب تھا۔
عشنا کی مدھم آواز پراسرا ر ہوگئی۔
”بہت گہرا تعلق ہے رانیہ باجی……مگر زوار آفندی سے یہ بات آپ ہی کرسکتی ہیں …… یہ کاغذ میرے پاس ایک امانت ہے…… یہ امانت میں آ پ کے حوالے کررہی ہوں۔“
رانیہ بے یقینی سے اپنی مٹھی میں موجود اُس کاغذ ک دیکھنے لگی پھر اس نے وہ کاغذ کھولا۔
کاغذ پر لکھی تحریر پڑھتے ہوئے وہ بے حد سنجیدہ تھی۔
”مجھے ساری تفصیل بتاؤ عشنا!“
اس نے سنجیدہ آواز میں کہا۔ عشنا نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔
”یہ ایک بہت لمبی اور بڑی complicated کہانی ہے۔“
عشنا سوچ رہی تھی کہ اس کہانی کو کہاں سے شروع کرے۔
”مجھے یہ کہانی سناؤ…… میں سن رہی ہوں۔“
رانیہ نے سنجیدگی سے کہا۔ وہ زوار آفندی کی زندگی سے جڑے ایک بہت بڑے راز سے واقف ہوگئی تھی۔ اب اُسے تفصیل بھی معلوم کرنی تھی۔ عشنا اُسے یہ کہانی سنارہی تھی۔ رانیہ کو احساس ہوا کہ یہ واقعی ایک عجیب و غریب کہانی تھی۔
٭……٭……٭
یہ سائیکولوجسٹ کے کلینک کا منظر تھا۔ کھڑکی کے شیشوں سے دھوپ کی روشنی اندر آرہی تھی۔
”تو تم کوئین کے گھر بھی پہنچ گئے۔“
سوہا نے زوار کو دیکھتے ہوئے حیران مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”ہاں ……“
وہ مسکرایا۔
”پھر کھانا کھا کر واپس آگئے!“
سوہا نے مسکرا کر پوچھا۔
وہ ہنس پڑا۔
”ہاں …… اچھے لگے مجھے اُس کے گھر والے…… سادہ، زندہ دل اور مہمان نواز…… مجھے ایسے لگا کہ جیسے اس کی بہنیں میری بہنیں ہیں، اس کا بھائی میرا بھائی ہے، اس کے ماموں میرے ماموں ہیں ……“
وہ کہہ رہا تھا۔
”اور اس کی امی تمہاری امی ہیں۔“
سوہا نے اُس کی بات مکمل کی۔
وہ ذرا چونکا
”ہاں ……۔“
اب کی بار اُس کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔
سوہا کو محسوس ہوا کہ زوار صرف رانیہ کا فین ہی نہیں ہے، کچھ اور بات بھی تھی۔ ایک منگنی شدہ لڑکی میں اتنی دلچسپی لینا زوار کے لئے خطرناک ہوسکتا تھا۔ وہ ہر بار اُس کی بات سنتے ہوئے اُسے روکتی اور ٹوکتی تھی مگر وہ زوار ہی کیا جو کسی کی بات سن لے۔
وہ اپنی ہی رو میں بولتا جارہاتھا۔
”میں اُس گھر کا مہمان نہیں، بلکہ اس گھر کا فرد بننا چاہتا ہوں۔“
اس نے بہت واضح انداز میں اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
سوہا کو اسے ٹوکنا پڑا۔
”زوار! اس لڑکی کا منگیتر……“
زوار نے فوراً اس کی بات کاٹ دی۔
”اس کا منگیتر نہیں تھا وہاں ……اسے انوائیٹ نہیں کیا گیا تھا……اس کے منگیتر کی اتنی اہمیت نہیں ہے اُس گھر میں ……“
زوار نے سنجیدگی سے کہا۔
سوہا کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
”یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟ وہ ان کا ہونے والا داما د ہے، اہمیت تو ہوگی ہی۔“
سوہا نے اس کی بات سے اختلاف کیا۔
”ڈرائننگ روم میں رانیہ کی منگنی کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ بہت خوبصورت تصویر تھی مگر اس کا منگیتر اس کے ساتھ نہیں تھا۔ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
زوار نے کہا۔
”تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ اس کے گھر میں اس کے منگیتر کی تصویر لگی ہوئی ہے یا نہیں …… حقیقت تو یہی ہے کہ she is engaged.“
سوہا نے سنجیدگی سے کہا۔
زوار پراسرار انداز میں مسکرایا۔
”میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ میں چہرے پڑھنا جانتا ہوں۔“
وہ گہری آواز میں بولا۔
”اچھا! تو پھر اپنی کوئین کا چہرہ پڑھ کر تم نے کیا نتیجہ اخذ کیا؟“
سوہا نے معنی خیز انداز میں سوال کیا۔
زوار کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
”یہی کہ وہ مجھ سے خوفزدہ ہے۔“
”کیوں؟ تم سے کیوں خوفزدہ ہے؟“
سوہا بے ساختہ بولی۔
”کیونکہ وہ سمجھ چکی ہے کہ میں اُس کے پیچھے پڑا ہوا ہوں۔“
وہ ہنسا، جیسے اپنی ہی بات سے محظوظ ہوا ہو۔
”ایک لڑکی کو خوفزدہ کیوں کرنا چاہتے ہو زوار؟“
”میں اُسے خوفزدہ نہیں کرنا چاہتا۔“
وہ ذرا سنجیدہ ہوا۔
”ہاں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ وہ میرے بارے میں سوچتی رہے۔ وہ مجھے اگنور کرتی ہے تو مجھے اچھا نہیں لگتا۔“
زوار نے سنجیدگی سے کہا۔
سوہا بے اختیار ذرا آگے کو ہوئی اور اُس نے زوار کی آنکھوں میں جھانکا۔
”اسی لئے تم اس کے تھیٹر ڈرامے کو Sponsor کررہے ہو؟ کتنا پیسہ لگا رہے ہو؟“
سوہا نے اُسے بہت غور سے دیکھا۔
”جتنا لگا سکتا ہوں۔“
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا۔
اس کے جواب نے سوہا کو چند لمحوں کے لئے ساکت کردیا۔ بھلا رانیہ میں ایسی بھی کیا بات تھی کہ وہ اس کے لئے اپنی ساری دولت بھی لٹانے کو تیار تھا۔
”محبت کرنے لگے ہو اس سے؟“
اب کی بار سوہا کو اس سے خوف محسوس ہوا۔
وہ صرف مسکرایا۔ اس نے جواب نہیں دیا۔
”زوار! تمہیں لگتا ہے کہ وہ سچ میں کوئی ملکہ ہے؟تمہیں اس کے کردار سے محبت ہے۔ زوار! وہ ایک آرٹسٹ ہے، کوئی ملکہ نہیں ہے۔ تاج پہن لینے سے کوئی لڑکی ملکہ تو نہیں بن جاتی۔“

اس نے سنجیدگی سے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”جانتا ہوں میں …… مگر وہ مجھے ایک آرٹسٹ کے طور پر ہی اچھی نہیں لگتی میں ویسے بھی اُسے پسند کرتا ہوں۔“
”But she is engaged…… تم کیوں بھول جاتے ہو؟“
سوہا نے زور دیا۔
”وہ آدمی اس کا منگیتر ہے، شوہر تو نہیں ہے۔“
سوہا کو اس کی بات بڑی عجیب لگی۔
”تو بن جائے گا وہ اس کا شوہر۔“
”ضروری تو نہیں ہے۔“
زوار کا لہجہ پراسرار ہوگیا۔ سوہا نے اپنا سرتھام لیا۔
”وہ لڑکی تم میں انٹرسٹڈ نہیں ہے زوار۔“
سوہا نے واضح الفاظ میں کہا۔
”نہیں ہے تو ہوجائے گی۔“
زوار بڑے یقین سے بولا۔
سوہا گہرا سانس لے کر چپ ہوگئی۔ یہ سیشن کرتے ہوئے اس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔
مگر زوار کے چہرے پر ابھی بھی مسکراہٹ تھی۔
٭……٭……٭

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

Read Next

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر4)”

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!