چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر3)”

تحریر:نوید احمد
قسط نمبر3
”چنبیلی کے پھول“

زوار نے اُس کی طرف دیکھا تو اُس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی مگر وہ مسکرا بھی نہ سکی۔
یہ اتفاق نہیں تھا۔
یہ آدمی بار بار اُس کے راستے میں کیوں آجاتا تھا؟ کل تک وہ محض اُس کا فین تھا اور آج اُس کے ڈرامے کا financer بھی بن گیا، یہ اتفاق کیسے ہوسکتا تھا بھلا!
یہ اُس کا وہم نہیں تھا کہ وہ اُس کے آس پاس رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ جہاں جاتی تھی، وہاں پہنچ جاتا۔ آخر وہ اُس سے کیا چاہتا تھا، کیوں بار بار اُس سے ٹکراتا تھا۔
اُس کی آنکھیں بے حد گہری اور چونکا دینے والی تھیں۔ وہ محسوس کرتی کہ جب بھی وہ اس کی طرف دیکھتا ہے تو اُس کی آنکھوں میں انوکھی سی چمک آجاتی ہے۔ اُس کی شخصیت میں کوئی ایسی بات ضرور تھی کہ سامنے والا اُس کی شخصیت کے رعب میں آجاتا۔ وہ اُسے جتنا اگنور کرتی وہ اُتنا ہی اُس کے قریب آنے کے بہانے ڈھونڈتا۔ اب وہ اس کے تھیٹر ڈرامے کا اسپانسر بھی بن گیا تھا تو بھلا وہ اُسے کیسے نظر انداز کرسکتی تھی اور شاید وہ یہی چاہتا تھا کہ وہ اس انداز میں اُس کے قریب آئے کہ وہ اُسے نظر انداز نہ کرسکے۔
”چلو رانیہ……“
شزا نے اُسے یوں ساکت کھڑے دیکھ کر اُس کا بازو تھام کر کہا۔
اُس کے قدم من من بھر کے ہوگئے۔
وہ اس شخص سے خوفزدہ ہوگئی تھی اور یہ خوف اس کی آنکھوں میں بھی نظر آرہا تھا۔
ڈائریکٹر نے زوار آفندی سے سب لوگوں کا تعارف کروایا۔ وہ غائب دماغی سے سب کی باتیں سنتی رہی۔
رانیہ کے علاوہ سب لوگ بہت خوش نظر آرہے تھے اور خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ایک وہی تھی سنجیدہ، گم سُم اور قدرے خوفزدہ بھی……
اس کے بعد لنچ تھا جو زوار کی طرف سے تھا۔ وہ اُن سے ذرا فاصلے پر کھڑا آرگنائزر کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔
وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھی ایک کونے میں ہی بیٹھی رہی۔
شزا نے اُس کی اس غائب دماغی کو نوٹ کیا۔
”تم کچھ کھا نہیں رہی!“
شزا نے اُسے یوں کونے میں الگ تھلگ بیٹھے دیکھا تو اس کے لئے پلیٹ میں سینڈوچز لے آئی۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔“
اس نے مدھم آواز میں کہا۔
”Financerکو دیکھ کر تمہاری بھو ک کیوں اڑ گئی؟“
پتا نہیں شزا نے اُسے کیوں چھیڑا۔
”یہ آدمی……“
وہ اس سے کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کہتے کہتے رُک گئی وہ یہ باتیں کسی کے ساتھ شیئر بھی نہیں کرسکتی تھی اور وہ شزا کو مشکوک بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ شزا نے اُس کی ادھوری بات پر اتنا دھیان نہیں دیا۔
”میں تو سمجھی تھی کہ کوئی پکی عمر کا، سفید بالوں والا کوئی موٹا بھدا سا بندہ ہوگا مگر یہ تو بڑا ہی ہینڈسم آدمی ہے۔ بالکل ہیرو لگ رہا ہے۔دیکھو! سب سے مسکرا مسکرا کر باتیں کررہا ہے۔ ذرا بھی غرور نہیں ہے اس میں۔“
شزا ذرا فاصلے پرکھڑے زوار کو دیکھ کر کہہ رہی تھی۔رانیہ نے اُس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔
شزا نے اُس کی خاموشی کو محسوس کیا وہ مسلسل اُس کے بالوں میں چمکتے تاج کو دیکھ رہی تھی۔
”کیا پتا کہ واقعی یہ اتنا امیر آدمی ہو کہ اس کے لئے سونے اور موتیوں کا تاج منگوانا کوئی بڑی بات ہی نہ ہو…… ویسے بندہ بڑے زبردستtaste کا مالک ہے۔“
اُس نے سینڈوچ کھاتے ہوئے کہا۔
رانیہ نے نفی میں سرہلایا۔
”تمہیں تو وہم ہوگیا ہے کہ یہ تاج سونے کا ہے۔ تم خود سوچو کہ ایک تھیٹر ڈرامے کے لئے یہ آدمی سونے اور موتیوں کا تاج کیوں بنوائے گا؟“
”یہی تو میں سوچ رہی ہوں …… مگر خیر تھیٹر پلے والے دن میری بہن آئے گی تو وہ خود ہی اس تاج کے بارے میں بتادے گی۔“
شزا نے پرسوچ انداز میں کہا۔
وہ تاج اتنا ہی قیمتی اور خوبصورت تھا کہ دیکھنے والوں کو چونکا دیتا۔
”ٹھیک ہے۔“
رانیہ نے کہا۔ اُسے اس تاج میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ شزا کو ڈائریکٹر نے کسی کام سے بلایا تو وہ اٹھ کر چلی گئی۔
زوار اپنے ساتھ کھڑے لوگوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔ لوگ اُس سے متاثر ہورہے تھے۔ اس کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے۔
اگر وہ شزا کو بتاتی کہ ایک بار ا س آدمی نے اُس سے آٹوگراف لیا تھا تو شزا بالکل یقین نہ کرتی بلکہ اس کی بات پر بہت ہنستی۔ رانیہ نے زوار آفندی کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اُس کے چہرے پر گہری مسکراہٹ اور آنکھوں میں روشنی سی تھی۔
اب وہ اُسے نظر انداز نہیں کرسکتی تھی۔ اب اُس سے مجبورا ً اُسے بات کرنی ہی تھی۔
وہ اب اُس کے عین سامنے کھڑا تھا۔
”کیسی ہیں آپ کوئین؟“
وہ خوشدلی سے مسکراتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں بولا۔
اس کی بے حد گہری نظریں جیسے اُس پر ٹھہر گئی تھیں۔
”آپ تو بالکل کوئین آف اسکاٹ لینڈ لگ رہی ہیں۔“
اس نے اس کی تعریف کی تھی۔
”تھینک یو۔“
وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
آخر کچھ تو اُسے کہنا ہی تھا۔
”سب سے الگ تھلگ کیوں بیٹھی ہیں آپ؟“
اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
رانیہ نے بے ساختہ نظریں جھکالیں۔ زوار کی آنکھیں بے حد گہری تھیں، اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بات کرنا بہت مشکل کام تھا۔
اسے محسوس ہوتا کہ زوار صرف اس کا فین ہی نہیں ہے بلکہ کوئی اور بات بھی ہے۔
”بس ویسے ہی…… مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ financer بھی ہیں۔“
اُس نے کہا۔
اس کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔
”بن گیا ہوں۔“
وہ بے ساختہ بولا۔
جملہ مختصر مگر واضح تھا۔
وہ خاموش رہی۔ اب اس سے یہ پوچھنا کہ وہ فائنانسر کیوں بن گیا تھا، احمقانہ پن کی انتہا ہی ہوتی۔
”میں تو آپ کے گھر والوں کی دعوت کا انتظار ہی کرتا رہا۔“
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”وہ لوگ کچھ پلان تو کررہے ہیں۔ آپ کو جلد ہی بتادیں گے۔“
اس نے مدھم آواز میں کہا۔ بھلا وہ کیوں اس کے گھر آنے کے لئے اتنا بے تاب تھا۔
”خوش قسمت ہیں آپ! کہ آپ کے گھر والے اتنے اچھے اور سوئیٹ ہیں۔ میں ایسے لوگوں سے بہت متاثر ہوتا ہوں۔“
وہ اس کے گھر والوں کی تعریف کررہا تھا۔ سو اُسے مسکرانا ہی تھا۔ وہ محسوس کررہا تھا کہ وہ اس سے زیادہ بات نہیں کرپارہی۔
”Macbeth میرا فیورٹ پلے ہے مگر یہ ایک ٹریجک ڈرامہ ہے…… ٹریجک کہانیوں کا اپنا ہی impact ہوتا ہے…… وہ اپنا اثر رکھتی ہیں اور لوگوں کو یاد رہ جاتی ہیں۔“
وہ اسی طرح اُسے دیکھتے ہوئے بولا۔
اس کی باتوں میں فلسفہ تھا۔
”جی ہاں …… یہ تو ہے۔“
رانیہ نے بس اتنا ہی کہا۔
وہ مسلسل اُس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔
”Love stories are always tragicایسا کیوں ہوتا ہے؟“
وہ ذر ا سنجیدہ ہوا۔
اب وہ اس بات کا کیا جواب دیتی۔
”معلوم نہیں …… میری love story تو ٹریجک نہیں ہے۔“
اس نے ایک جملے میں اُسے بہت کچھ جتا دیا۔ اس نے سوچا عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہے۔
وہ اُس کے جملے پر چونکا پھر سرجھٹک کر مسکرا دیا، جیسے اس نے اس کی بات کو سنجیدگی سے ہی نہیں لیا۔
”میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ میری love story ٹریجک نہ ہو۔“
وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔
وہ کچھ بول نہ سکی۔ ایک لمحے کے لئے اُس کا دل زور سے دھڑکا وہ اپنی کس love story کی بات کررہا تھا۔آخر اس نے اُسے کیا جتایا تھا۔
رانیہ کی چھٹی حس اُسے بار بار الارم دیتی کہ کہیں کچھ غلط تھا اور یہ اُس کا وہم نہیں تھا۔
وہ گہری مسکراہٹ کے ساتھ اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اور وہ اس کی آنکھوں کا خوف بھی پڑھ چکا تھا۔ وہ کچھ دیر اُس کے بولنے کا انتظار کرتا رہا پھر اس نے خوبصورتی سے بات بدل دی۔
”آپ کا تاج بہت خوبصورت ہے!“
وہ اس کی بات پر حیران ہوئی۔ یہ سب چیزیں اسی کی تو بھیجی ہوئی تھیں۔
”یہ تاج آپ نے ہی تو بھیجا ہے۔“
اس نے بے ساختہ کہا۔
نجانے وہ کیوں ہنسا۔ وہ ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگی۔ وہ ایک عجیب آدمی تھا۔ اس کی باتیں بھی عجیب تھیں۔
وہ اس سے کیا پوچھتی کہ وہ کیوں ہنس رہا ہے۔ اسے اپنا آپ احمق محسوس ہوا۔
”اس تھیٹر پلے کو میں نے اسی تاج کی وجہ سے اسپانسر کیا ہے۔“
اس نے مدھم مگر خوشگوار لہجے میں کہا۔ یوں جیسے بڑے راز کی بات بتائی ہو۔
”ایسی کیا خاص بات ہے اس میں؟“
وہ الجھ گئی۔
وہ پہیلیوں میں بات کرنے کا عادی تھا۔
”یہ تاج ایک ملکہ کے لئے بنایا گیا ہے۔“
ا س کی آواز گہری ہوگئی۔
”کون ملکہ؟“
اس نے احمقانہ پن سے پوچھا۔زوار کی آنکھوں میں روشنی سی چمکی۔
وہ سادہ تھی یا معصوم…… یا واقعی ایک بے وقوف لڑکی تھی۔
وہ ذرا آگے کو جھکا اور اس کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا۔
”وہی ملکہ جس نے اس تاج کو پہنا ہوا ہے۔“
اس کی آواز میں جذبات کی شدت تھی اور آنکھیں لو دے رہی تھیں۔
وہ چند لمحوں کے لئے ساکت رہ گئی۔
وہ اس پر ایک گہری اور مسکراتی نظر ڈال کر واپس پلٹ گیا۔
وہ گم سم بیٹھی اُسے وہاں سے جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
اُسے احساس ہوا کہ وہ صرف پراسرار آدمی ہی نہیں تھا…… بلکہ خطرناک آدمی بھی تھا۔
٭……٭……٭

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

Read Next

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر4)”

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!