پتھر کے صنم

پتھر کے صنم


ماہوش طالب


جب سے اس نے بارہ جماعتیں پاس کی تھیں، اماں ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ گئی تھیں کہ وہ جم کر گھر داری سیکھ لے اور پھر وہ اسے کسی کھونٹے سے باندھیں۔ جیسے بھلا وہ کوئی بکری ہو۔ اس کی آگے پڑھنے کی خواہش کی پرواہ کیے بغیر۔ ابا کا تو ویسے ہی ہٹی کٹی اماں کے سامنے دال دلیہ نہ گلتا تھا، لہٰذا اس کا احتجاج کرنا بے کار ٹھہرا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا، رشتہ والی کے بار بار کے پھیرے کارگر ثابت ہوئے اور اماں کو اس کے لیے مناسب کھونٹی (رشتہ) مل ہی گئی۔ عبدالواثق کھاتے پیتے خاندان کا اکلوتا تو نہیں مگر دوسرا چشم و چراغ تھا، دو بہنیں تھیںجن میں سے ایک شادی شدہ اور دوسری کی منگنی ہوئی تھی۔ ساس جنونی تھی جب کہباپ کریانہ سٹور کے رعب دار مالک…. ذات برادری کے علاوہ یوں بھی جان پہچان نکل آئی کہ اماں کے گاﺅں کے پڑوسیوں کے قریبی رشتہ دار تھے…. خیر اماں نے ابا اور ماموﺅںسے صلاح مشورہ کرکے بات پکی کی، منگنی بھی کردی کیوں کہ لڑکے والوں کو بھی تیکھے نین نقوش والی صدف ایک نظر میں پسند آگئی تھی۔ بارہ اور پندرہ سال کی مقدس اور ندا اس خوشی میں جھوم جھوم کر پاگل ہورہی تھیں کہ گھر میں پہلا فنکشن ہونے جارہا ہے اور وہ بھی ان کی بہن کا۔ نو سالہ مدثر تو ابھی تک ٹیلی ویژن پر لگنے والے کارٹونز سے ہی نہ سیر ہوا تھا، لہٰذا اسے پرواہ نہیں تھی۔ صدف جو ابھی تک شادی سے رضامندنہیںتھی۔ جب اس نے بھی اپنے ہونے والے منگیتر کی تصویر دیکھتی تو دل خود بہ خود مان گیا اور جب رات کو آنکھیں بند کرتے ہی بانکا سجیلا سا عبدالواثق گھڑی باندھے کلائی کو تھوڑی پر ٹکائے اس کے سامنے بڑے دھڑلے سے آجاتا، تو اس کے پیٹ میں چٹکیاں بھرنے لگتیں۔مگر پھر فائزہ کی کہی گئی بات اسے تشویش میں مبتلا کردیتی وہ اس کی کالج کی دوست تھی، صدف کی منگنی کی اطلاع ملنے پر وہ اگلے ہی دن اس کے گھر چلی آئی۔
”تصویر میں تو اچھا خاصا ہے مگر…. تم اس شکل پر مت ریجھ جانا، آج کل تصویری اور اصلی شکل و صورت میں بڑا فرق ہوتا ہے، ایسی ایسی ٹیکنالوجی آگئی ہے کہ کالا شاہ بندہ جی تصویروں میں پیدائشی گورا لگتا ہے۔“ وہ بیٹھک کے صوفے پر بیٹھی پکی عورتوں کی طرح اسے مطلع کررہی تھی۔
”ارے نہیں! اماں اور ابا دیکھ کر آئے ہیں لڑکے کو، پھر وہ مدثر سے بھی میں نے پوچھا تھا۔“ صدف نے اپنے تئیں اس کی غلط فہمی دور کرنی چاہی۔
 ”اچھا تو چھپ چھپ کے ساری معلومات لے لی ہوگی۔“ فائزہ نے بات پکڑ کر اُسے چھیڑا تو صدف بے اختیار جھینپ گئی۔
 ”اور اپنی اماں کی تم رہنے ہی دو جب انہوں نے رشتہ پکا کرنے کی ٹھان ہی لی تو وہ کیوں ہر بات سو فیصد سچ بتا کر تمہارا ذہن بدلنے کی کوشش کریں، ویسے بھی مائیں بیٹیوں کے لیے لڑکوں کی شکل نہیں دیکھتیں، انہیں بس کھاتا پیتا خاندان اور لڑکا چاہیے ہوتا ہے۔ بیٹیوں کے احساسات کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی۔“ وہ یوں کہہ رہی تھی جیسے خود نہ جانے کتنی منگنیاں بھگتا آئی ہو۔
صدف نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں حسد کا تڑکا محسوس کیا، مگر نظر انداز کر گئی۔
”یہ مت سمجھنا میں تمہارا دل خراب کررہی ہوں، مائیں تو ہوتی ہی جذباتی ہیں، مگر تم ذرا اپنی آنکھیں اور دماغ کھول کر دیکھو، یہ سب میں تمہاری بھلائی کو ہی کہہ رہی ہوں۔“صدف کی خاموشی کو خاطر میں لاتے ہوئے اس نے وضاحت کی جو کارگر ثابت ہوئی اور صدف پھر سے اس کے ساتھ مزے سے گپیں لڑانے لگ گئی۔ کچھ دیر بعد امی نے بیٹھک میں آکر اطلاع دی کہ فائزہ کا بھائی آیا ہے اسے لینے۔….
بارش کے بعد موسم کا موڈ سنور گیا تھا۔ گھر کے نچلے پورشن میں سفیدی کا کام شروع کروایا تھا اماں نے، آج تو بارش کی وجہ سے کام رُک گیا مگر سامان اِدھر اُدھر بکھرا ہوا تھا۔ صدف دو دنوں سے بکھراوے سے بے زار چھت پر آگئی،سامنے کھجور کا درخت تھا جس کے پتوں سے پانی ٹپ ٹپ بہ رہا تھا۔ وہ منڈیر پر کہنیاں ٹکائے کھڑی ہوگئی۔ اس کے ہونے والے سسرال نے شادی کی تاریخ بڑھا دی تھی اماں کے مطابق وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ وہ نئی بہو کے لیے اوپری منزل میں ایک پورشن بنوا رہے ہیں جس کے مکمل ہونے پر وہ بارات لے کر آئیں گے۔ اس بات پر بھی اماں نے یہ مصلحت ڈھونڈ لی۔

Read Previous

نامراد

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ دوسرا دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!