من و سلویٰ — قسط نمبر ۵

سعید نواز کے پاس اس دن جانا شیراز کو بہت مہنگا پڑا تھا۔ سعید نواز نے شام کے وقت فون کر کے شینا سے کچھ بات کی تھی اور اس کے دس منٹ بعد شینا غصے میں آگ بگولہ اپنے بیڈ روم سے باہر نکل آئی تھی۔ شیراز اور اس کے گھر والے اس وقت مٹھائی اور پھلوں کے ٹوکرے کھولے ان کے حصے بخرے کرنے میں مصروف تھے جو انہیں اپنے مختلف رشتے داروں کو بھجوانے تھے۔
”تم میرے باپ کے پاس جا کر میری شکایت کر کے آئے ہو؟”
شینا نے لاؤنج کے درمیان میں آکر شیراز سے کہا جس کی ٹانگیں کانپنا شروع ہو گئی تھیں۔ وہاں صرف اس کے ماں باپ اور چھوٹی بہنیں ہی نہیں تھیں، اس وقت دو ملازم بھی تھے اور اس وقت اس کی شادی کا دوسرا دن تھا۔
”نہیں۔ میں نے کوئی شکایت نہیں کی۔۔۔۔” شیراز نے تھوڑا سا کھنکار کر حلق سے آواز نکالی۔
”جھوٹ مت بولو۔ تمہارا خیال تھا کہ مجھے کچھ پتا نہیں چلے گا۔”
شینا نے پہلے سے بھی بلند آواز میں کہا۔ دونوں ملازم خود ہی وہاں سے چلے گئے تھے۔ وہ شینا کے گھر کے ملازم تھے جان گئے تھے، اب آگے کیا ہونے والا تھا۔
اکبر اور نسیم کے ساتھ شیراز کی تینوں بہنیں بھی منہ کھولے بیٹھی تھیں۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کا لائق فائق سرکاری افسر بھائی یوں کسی کے سامنے منمنائے گا اور وہ بھی کسی عورت کے سامنے انہوں نے تو ساری عمر شیراز کے نخرے اٹھائے تھے۔
”میں۔۔۔۔” وہ ہکلایا، شینا نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی ”تم سمجھتے ہو، میرا باپ تمہاری بکواس سن کر تمہارے ساتھ ہمدردی کرے گا؟”
”میں۔۔۔۔” شیراز نے کچھ کہنا چاہا۔
”شٹ اپ، تم میں ہمت تھی تو میرے سامنے کھڑے ہو کر بات کرتے۔ میرے باپ کے پاس کیوں بھاگے گئے؟”
”میں۔۔۔۔” شیراز نے قدرے بے چارگی سے اپنے اہل خانہ پر نظر ڈالتے ہوئے شینا سے ایک بار پھر کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”خبردار۔ آئندہ میرے باپ کے پاس گئے تم… جو بات کرنا ہے۔ مجھ سے کرو ورنہ اپنا منہ بند رکھو اور ابھی اور اسی وقت اس چڑیا گھر کو میرے گھر سے نکالو۔ آئندہ میں شکل نہ دیکھوں ان میں سے کسی کی یہاں پر۔ یہ میرے باپ کا گھر ہے۔ تمہارے باپ کا گھر نہیں ہے کہ تم اپنا پورا خاندان لے کر آگئے ہو یہاں۔”




شیراز نے اس بار منمنانے کی کوشش نہیں کی۔ شینا نے بھی مزید کچھ نہیں کہا تھا۔ وہ پاؤں پٹختی ہوئی تیز قدموں سے لاؤنج سے واپس اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔
شیراز اپنے گھر والوں کے ساتھ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کہ مصداق لاؤنج میں مٹھائی اور پھلوں کے ٹوکروں کے درمیان کھڑا تھا اور ہر ایک اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
وہ عورت اس کا انتخاب تھی۔ یہ شادی اس کا فیصلہ تھی اور یہ بے عزتی اس کا مقدر۔ وہ اس سے بھاگ کر کہاں جا سکتا تھا۔ لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ وہ ان سب کو لے کر کہاں جاتا۔ شینا کے پاس جا کر بھیک مانگنے یا منت کرنے میں اسے کوئی عار نہ ہوتا اگر اسے یقین ہوتا کہ شینا اس کی بات مان جائے گی لیکن اس کے ساتھ شادی کو صرف چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود اسے یقین تھا کہ شینا سے جا کر اس معاملے کے بارے میں بات کرنے کا مطلب مزید بے عزتی تھی اور سعید نواز سے بات کرنے کامطلب اپنے ماں باپ کے ساتھ خود بھی اس گھر کو الوداع کہنا تھا۔ وہ ایک ہی حماقت دن میں دو بار نہیں کر سکتا تھا۔
”آپ لوگ اپنا تھوڑا بہت سامان پیک کر لیں۔ میں آپ کے لیے کسی جگہ کا انتظام کر کے آتا ہوں۔” شیراز نے سب سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
”لیکن بیٹا! بہو کو ہم سے کیا شکایت ہوئی ہے؟” نسیم نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ پوچھا۔ کسی اور نے یہ سوال نہیں پوچھا۔
شیراز نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہ وہ سوال تھا جس کا جواب فی الحال اس کے پاس بھی نہیں تھا شینا اس طرح کیوں کر رہی تھی؟ اور اسے یہی سب کچھ کرنا تھا تو اسے شیراز سے شادی کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
لیکن فی الحال شیراز کے پاس گتھیاں سلجھانے کا وقت نہیں تھا۔ مٹھائی اور پھلوں کے اس ڈھیر کو وہیں چھوڑ کر وہ سب لوگ افسردگی اور رنجیدگی کے عالم میں اپنا اپنا سامان اٹھانے لگے۔ شیراز نے ایک ہوٹل میں چند دن کے لیے بکنگ کروا لی تھی۔ فی الحال وہ یہی کر سکتا تھا۔
ہوٹل کے کمرے میں ان لوگوں کو چھوڑ کر رات گیارہ بجے وہاں سے واپس آتے ہوئے شیراز بے حد افسردہ تھا اور اکبر اور نسیم دل گرفتہ۔ انہوں نے کبھی خواب میں بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی کی دوسری رات بے گھر اور بے در گزاریں گے۔ وہ پہلی رات تھی جو ان پانچوں نے ہوٹل کے اس کمرے میں جاگ کر گزاری تھی کچھ کھائے پیے بغیر۔ اس رات ان پانچوں کو زینی بہت یاد آئی تھی۔
٭٭٭
”دفتر والے کہہ رہے ہیں، ابو کے پراویڈنٹ فنڈ میں زیادہ رقم نہیں ہے… ابو وقتاً فوقتاً قرضہ لیتے رہے ہیں… اور پنشن جاری ہونے میں بھی دیر لگے گی… اتنی جلدی پنشن نہیں ملے گی۔”
سلمان نے بے حد مایوسی سے نفیسہ کو بتایا۔ وہ آج ضیاء کے دفتر ان کے واجبات کے حصول کے لیے گیا تھا۔
”کتنی دیر؟” نفیسہ نے بے حد بے چینی سے پوچھا۔ ضیاء کی وفات کو یہ دوسرا مہینہ ہونے والا تھا اور جو جمع پونجی تھی وہ اب قریب الختم تھی۔
”کوئی سفارش ہوئی تو جلدی ملنے لگے گی ورنہ کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔”
نفیسہ کا دل ڈوبنے لگا۔ کئی مہینے کا کیا مطلب تھا۔ وہ اچھی طرح سمجھ سکتی تھیں۔
اس گھر میں آمدنی کا واحد ذریعہ ضیا کی تنخواہ تھی اور اب… وہ نہیں تھے تو نفیسہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا، گھر کیسے چلے گا… پہلے ضیاء کے جانے کا غم تھا جس نے انہیں بے حال کر دیا تھا۔ اب بھوک کا خوف تھا جو انہیں ادھ موا کر رہا تھا۔
گھر میں پہلے ہی بے شمار مسئلے اکٹھے ہو چکے تھے۔ زہرہ، ضیاء کی وفات پر اپنے بچوں سمیت آئی تھی اور اس کے بعد سے واپس نہیں گئی تھی۔ نعیم اور فہمیدہ نے اسے واپس لے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ فہمیدہ نے انہیں بتا دیا تھا کہ وہ کہیں نعیم کی بات طے کر چکی ہیں اور اب اس کی شادی کی تیاری کر رہی ہیں۔ وہ صرف بھائی کی یک دم وفات کی وجہ سے زہرہ کو طلاق بھجوانے سے کچھ جھجک گئی تھیں ورنہ وہ زہرہ کو طلاق بھجوانے کا ہی ارادہ رکھتی تھیں۔ لیکن انہوں نے زہرہ کو صاف طور پر یہ بتا دیا تھا کہ اگر اس نے دوبارہ نعیم کے گھر آنے کی کوشش کی تو وہ اسے طلاق دلوا دیں گی۔ نعیم دو بیویاں رکھ سکتا تھا نہ ہی اس کے گھر میں دو بیویوں کے لیے گنجائش تھی اور جس بیوی کو وہ گھر میں رکھنا چاہتا تھا وہ ابھی آنے والی تھی۔
نفیسہ نے ضیاء کی موت کے غم کے ساتھ زہرہ کی واپسی کو بھی زہر کے گھونٹ کی طرح پی لیا۔ جب مصیبت آتی ہے تو اکیلی نہیں آتی اس کے ساتھ ایک ہزار ایک مصیبتیں ہوتی ہیں۔
ضیا کی وفات کے کچھ دن بعد ہی ربیعہ کی ساس آکر ربیعہ کی منگنی کا سامان واپس کر گئی تھیں۔ انہوں نے منگنی توڑنے کی ایک ہی وجہ دی تھی کہ عمران رشتہ پر تیار نہیں تھا۔ وہ کسی ماڈل کی بہن کو بیوی نہیں بنا سکتا تھا۔
نفیسہ نے آنسو بھری آنکھوں سے منگنی کا سامان دیکھتے ہوئے سوچا تھا کہ ضیا خوش قسمت تھے جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو اس طرح برباد ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ورنہ وہ کیا کرتے۔ ان پر کیا گزرتی، جتنے صبر سے نفیسہ نے منگنی کے ٹوٹنے کو لیا تھا۔ اتنے ہی صبر کے ساتھ ربیعہ نے یہ دکھ برداشت کیا تھا۔ اس نے ایک بار بھی نفیسہ پر اپنے کسی انداز سے یہ ظاہر نہیں کیا کہ اسے دکھ ہوا تھا۔ وہ ماں کی اذیت میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ لیکن باپ کی موت پر زینی کے لیے اس کے دل میں جو نفرت پیدا ہوئی تھی، وہ اپنی منگنی ٹوٹنے پر اور گہری ہو گئی تھی۔
”آپ فکر نہ کریں امی! میں کسی اسکول میں نوکری کر لوں گی۔” ربیعہ نے ماں کو تسلی دی تھی۔
اس وقت وہ سارے ہی سلمان کے گرد اکٹھے ہو کر بیٹھے تھے یوں جیسے وہ گھر کا سربراہ تھا۔
”میں بھی ایک دو لوگوں سے کہہ رہا ہوں۔ کہیں نہ کہیں کوئی سیلز مین کی نوکری تو مل ہی جائے گی۔”
سلمان نے بے چارگی سے کہا۔ اسے اندازہ تھا کہ اس طرح کے کام سے گھر میں موجود سات افراد کے اخراجات نہیں اٹھائے جا سکتے تھے۔
نفیسہ نے ایک لفظ نہیں کہا۔ وہ صرف ان چھوٹے موٹے قرضوں کو ذہن میں دہرا رہی تھیں جو ان کو محلے کے مختلف گھروں میں واپس کرنے تھے۔
زندگی کیا چیز تھی؟ انہیں پہلی بار سمجھ میں آنا شروع ہوئی تھی۔
٭٭٭
”بی بی جی…! بجلی والے میٹر کاٹنے آئے ہیں۔” ملازم نے اسے اطلاع دی۔ وہ بے اختیار چونک گئی۔
”میٹر کاٹنے؟ کیوں؟”
”بل نہیں دیا اس لیے۔”
”تو بل کیوں نہیں دیا…؟” وہ مزید حیران ہوئی۔
”جی مجھے نہیں پتا۔ آپ کو پتا ہو گا۔ آپ نے تو مجھے بل جمع کروانے کے لیے نہیں کہا۔”
زینی بیڈ سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
”ان کو جا کر کہو، ہم کل جمع کروا دیں گے۔ وہ کل آکر چیک کر لیں۔” ملازم خاموشی سے باہر نکل گیا۔
اس وقت وہاں بیٹھے زینی کو پہلی بار اپنے گھر کا خیال آیا۔ کس طرح چل رہا ہو گا گھر؟ کون بل دے رہا ہو گا؟… وہ بے چین ہونے لگی۔ ”اتنے دن ہو گئے اور میں نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ابو کے بعد اب۔۔۔۔”
وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ دراز سے رقم نکالنے لگی۔ دراز خالی تھی۔ اس نے چیک بک ڈھونڈنا شروع کی مگر اسے چیک بک کہیں نظر نہیں آئی۔ جس ذہنی حالت میں وہ تھی۔ اس میں تو اسے سامنے پڑی چیزیں نظر نہیں آرہی تھیں اور یہ تو ایک چھوٹی سی چیک بک تھی۔
وہ پورا ایک گھنٹہ چیک بک تلاش کرتی رہی اور پھر آخر چیک بک مل گئی۔ اس نے ایک چیک کاٹ کر ملازم کو دیا۔ ”ڈرائیور سے کہو، یہ کیش کروا لائے۔” اس نے ساتھ ہدایات دیں۔
ملازم چیک لے کر گیا اور چند ہی منٹوں میں واپس آگیا۔
”ڈرائیور کہہ رہا ہے، گاڑی میں پٹرول نہیں ہے۔”
وہ اس کی بات پر بے اختیار جھنجھلائی ”اس سے کہو، اپنے پاس سے ڈلوا لے، چیک کیش ہو جائے پھر میں اسے دے دوں گی۔”
”اور راشن بھی منگوانا ہے جی… کچن میں سب کچھ ختم ہو رہا ہے۔ میں نے اپنی جیب سے بھی پیسے ڈالے ہیں۔” ملازم نے اسے اطلاع دی۔
”اچھا سن لیا ہے میں نے۔” وہ مزید جھنجھلائی اور دوبارہ اوندھے منہ بستر پر گر گئی۔
ڈرائیور آدھ گھنٹے میں bounced چیک کے ساتھ ایک بار پھر گھر پر موجود تھا۔ اس کے اکاؤنٹ میں چند سو روپے تھے اور چیک کی مالیت ہزاروں میں تھی۔ زینی کو شاک لگا۔ اس نے اتنی رقم کہاں خرچ کی تھی؟ پھر اسے یاد آیا کہ وہ پچھلے کچھ عرصے سے صرف رقم خرچ کر رہی تھی۔ کما نہیں رہی تھی۔
گھر کا ایڈوانس، گاڑی کے لیے رقم اس نے فاران سے ادھار لی تھی مگر باقی اخراجات وہ خود ہی کر رہی تھی اور اب اس کا اکاؤنٹ امپرو ہو چکا تھا۔
اسے فاران یاد آیا۔ فون اٹھا کر اس نے فاران کو فون کرنے کی کوشش کی، فون ون وے تھا۔
اس نے وارڈ روب کھول کر بہت دنوں کے بعد وہاں سے اپنے لیے ایک سوٹ نکالا اور باتھ روم میں گھس گئی۔ وہ بھیانک لگ رہی تھی۔ آئینے میں خود پر پہلی نظر ڈالتے ہی اس نے اعتراف کیا۔ بہت دنوں کے بعد وہ آج پہلی بار مکمل طور پر ہوش میں تھی۔ الکحل یا اینٹی ڈیپریسنٹ کو استعمال کیے بغیر۔
اور جب وہ ہوش میں تھی تو اسے احساس ہو رہا تھا ”بے ہوش” رہنا کتنا مشکل تھا۔ دنیا سے کنارہ کش ہونے کے لیے بھی روپیہ چاہیے تھا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۴

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۶

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!