”قسط نمبر5)”چنبیلی کے پھول )

قسط نمبر5
چنبیلی کے پھول”

سب کچھ آناً فاناً ہوا تھا کہ رانیہ کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ اچانک کیا ہوگیا ۔
برسوں پرانی منگنی ختم ہوگئی۔ اُسے اپنے گھر والوں سے اس انتہائی قدم کی امید نہیں تھی۔ سب لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ اور فارس ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود امی اور جیمو ماموں نے اُس منگنی کو توڑنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگایا اور منگنی توڑنے کے بعد وہ بے حد مطمئن بھی تھے جو کہ بڑی حیر ت انگیز بات تھی۔ پتا نہیں انہوں نے یہ فیصلہ کب اور کیسے کرلیا کہ اسے خبر بھی نہ ہوسکی۔ حالانکہ انہو ں نے تو ہمیشہ فارس اور بی جان کا لحاظ کیا تھا ان کی تلخ و ترش باتیں خاموشی سے برداشت کیں تھیں۔ مگر نہ جانے اب کیا ہوا تھا کہ امی اور ماموں کا مزاج بالکل ہی بدل گیا۔
فارس اور بی جان تو واویلا مچا کر اور خوب لڑائی جھگڑا کرکے جاچکے تھے۔
رانیہ رو رہی تھی مگر اُسے نہ تو کسی نے چپ کروایا اور نہ ہی کسی نے اُسے تسلی دی۔ بلکہ کسی نے بھی اس کے رونے دھونے کو اہمیت ہی نہیں دی۔ اُس کے گھر والے اپنے فیصلے پر قائم تھے۔ ان کے خیال میں یہی فیصلہ رانیہ کے مستقبل کے لئے بہتر تھا۔ وہ دکھی ہونے کے ساتھ ساتھ حیران بھی تھی کہ اس کی تو کوئی بات ہی نہیں سن رہا تھا۔
وہ روئے جارہی تھی۔
”کیوں کیا آپ لوگوں نے ایسا؟ جبکہ میں آپ لوگوں کو منع بھی کررہی تھی۔ میری مرضی کے بغیر…”
اس کا جملہ ادھورا رہ گیا ۔ امی نے خفگی بھرے انداز میں اس کی بات کاٹ دی۔
”تمہاری مرضی کو اہمیت دینے کا نتیجہ ہم دیکھ ہی چکے ہیں۔ اتنا عرصہ ہم فارس کی بدتمیزیاں برداشت کرتے رہے۔ اس کی دھمکیاں سنتے رہے۔ اس کا لحاظ کرتے رہے مگر تمہیں اپنے غلط فیصلے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ نہ تمہیں اپنی بیوہ ماں کا احساس ہے نہ اپنی یتیم بہن کا اور نہ اپنے ریٹائر ماموں کا… کیسی لڑکی ہو تم؟”
امی نے درشت لہجے میں اُسے ڈانٹا۔
وہ رونا بھول کر ٹکر ٹکر انہیں دیکھنے لگی۔
”آپ لوگوں نے فارس کو کبھی دل سے قبول ہی نہیں کیا۔ کبھی اُسے اہمیت نہیں دی۔ کبھی کسی دعوت پر کسی فنکشن پر اُسے نہیں بلایا۔ آپ لوگ شروع سے ہی اُسے پسند نہیں کرتے تھے۔”
رانیہ نے دکھے دل کے ساتھ شکوہ کیا۔
امی نے ماتھے پر بل ڈال کر اُسے دیکھا۔
”کیونکہ وہ ایک لالچی اور خودغرض لڑکا ہے۔ اس کی نظر اس حویلی پر ہے۔”
امی نے سخت لہجے میں کہا۔
”وہ حویلی میری خوشیوں سے زیادہ قیمتی تو نہیں ہے۔ اور جائیدادیں تو بک ہی جاتی ہیں۔ رشتے اہم ہوتے ہیں۔ مجھے نفرت ہے اُس حویلی سے… میرا بس چلتا تو وہ حویلی میں فارس کے نام کردیتی۔”
امی اور ماموں نے بے اختیار ایک دوسرے کو دیکھا۔ ماموں نے شکر کیا کہ حویلی کے کاغذات ان کے پاس رکھے تھے۔
امی نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا۔
”اگر حویلی تم اس کے نام کردیتی تو وہ اُسے بیچ کر کھا جاتا۔ اور بعد میں دوسری شادی کرلیتا۔”
امی نے اُسے حقیقت کا ایک بھیانک رخ دکھاتے ہوئے کہا۔
”نہیں… وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتا میں اُسے جانتی ہوں۔”
رانیہ نے یقین سے کہا۔
”تم اُسے بالکل نہیں جانتی… اور اگر اُسے موقع ملتا تو وہ ایسا ہی کرتا۔”
ماموں نے سنجیدہ انداز میں کہا۔ رانیہ کو اس بات پر بالکل یقین نہیں تھا۔
”بند کرو یہ رونا دھونا۔ تم بھی فارس کی طرح خود غرض ہو۔”
امی نے اُسے بری طرح جھڑکا۔ رانیہ دم بخود رہ گئی۔ اس کے آنسو خشک ہوگئے۔ اسے اپنے لئے خودغرض لفظ سننے کی امید نہیں تھی۔ اس کی آنکھ میں حیرانی اور غم ایک ساتھ ٹھہر گئے۔
”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں امی۔”
وہ صدمے سے بولی۔
”ٹھیک کہہ رہی ہوں فارس کو تم سے کوئی محبت نہیں ہے۔ اُس نے صرف محبت کا ڈرامہ کیا تھا۔ اس نے تم سے یہ منگنی صرف حویلی کی وجہ سے کی تھی۔ اس نے سوچا کہ تم ایک صاحب جائیداد لڑکی ہو۔ اس وجہ سے اُس نے محبت کا جھانسہ دے کر تمہیں بے وقوف بنایا۔ ارے اس جیسے نکمے نالائق کو بھلا کون رشتہ دیتا۔ یہ تو ہماری ہی عقل پر پتھر پڑگئے تھے ورنہ یہ فیصلہ ہمیں بہت پہلے کرلینا چاہیے تھا۔”
امی نے ناراض آواز میں کہا۔
وہ آنکھوں میں صدمے کی کیفیت کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی۔ جیمو ماموں بھی امی کا ساتھ دینے کے لئے بول پڑے۔
”رانیہ! تمہیں فارس سے اچھا رشتہ مل جائے گا۔ وہ کوئی دنیا کا آخری لڑکا تو ہے نہیں کہ اگر تمہاری زندگی سے چلا گیا تو تمہاری شادی ہی نہیں ہوگی۔”
سب اُسے ہی سمجھا رہے تھے۔
وہ بھی اپنی ضد پر قائم رہی۔ بات محبت کی تھی اور محبت کے معاملے میں لڑکیاں بڑی بے وقوف ہوتی ہیں۔
”میں فارس کے علاوہ کسی سے بھی شادی نہیں کروں گی۔”
اس نے جذباتی انداز میں کہا۔
امی نے پیشانی پر بل ڈالے اس کی بات سنی۔
”ہم فیصلہ کرچکے ہیں۔ اب ہم نے تمہاری ایک نہیں سننی۔ اب ہم وہی کریں گے جو ہمیں مناسب لگے گا۔ تم میں اتنی عقل ہوتی تو کیا ہی بات تھی۔”
امی نے قطعی اور فیصلہ کن انداز میں کہا۔
رانیہ کو دکھ تھا کہ اس کے گھر والوں کو اپنی زیادتی کا احساس ہی نہیں ہے اور سب اسی کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔
وہ خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی آئی۔ کسی نے اُس کا دکھ نہیں بانٹا تھا۔
فارس اور اس کی محبت برسوں پرانی تھی۔ خاندان کا ہر شخص حیران تھا کہ آخر اُسے فارس جیسے لڑکے سے کیسے محبت ہوگئی۔ وہ بدتمیز، بداخلاق، بدمزاج تھا اور پھر نکما اور نالائق بھی۔ پڑھنے لکھنے میں اُسے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہر وقت بس اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ گھومتا پھرتا رہتا۔
جبکہ رانیہ پڑھی لکھی سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ آخر فارس میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ رانیہ نے اُسے اپنا دل دے دیاتھا۔
کم عمری کی محبت بھی عجیب ہوتی ہے۔ اس میں ایسی شدت، دیوانگی اور جنون ہوتا ہے کہ عقل کے فیصلے اہم نہیں رہتے۔
فارس وہ پہلا لڑکا تھا جس نے رانیہ سے اظہار محبت کیا تھا۔ اس نے اس سے کہا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے اور وہ اپنی امی کو رشتے کے لئے اس کے گھر بھیجے گا۔ اس جملے میں بڑی تاثیر تھی۔ ایک جادو تھا جس نے رانیہ کے دل کو اسیر کرلیا تھا۔ ا س جملے کی چابی سے ہر لڑکی کے دل کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ محبت کے اظہار کا ہر انداز انوکھا اور خوبصورت ہوتا ہے۔ ہر لڑکی کے لئے خوش رنگ تجربہ ہوتا ہے۔
محبت کے دعوے دار اور میٹھی میٹھی باتیں کرنے والے تو بڑے مل جاتے ہیں، مگر شادی کی بات کوئی کوئی ہی کرتا ہے۔ رانیہ کے دل میں فارس کی عزت بڑھ گئی۔ اس نے اپنی ماں کو رانیہ کا رشتہ مانگنے بھیجا، جو کہا وہ کردکھایا۔ اور یوں اس نے رانیہ کے دل کی بلندی کو چھولیا۔ عورت اس مرد کی عزت کرتی ہے جو اس سے کیا وعدہ نبھانا جانتا ہے۔
فارس کوئی شہزادہ گلفام نہیں تھا۔ ایک عام سا لڑکا تھا مگر ہر لڑکی کے لئے اس کا محبوب ہی شہزادہ گلفام ہوتا ہے۔
اُسے فارس کی محبت پر یقین تھا اور محبت تو ہر انسان کی کمزوری ہوتی ہے۔ عشق میں لوگ نفع و نقصان کا حساب نہیں رکھتے۔
رانیہ کو برسوں پرانی منگنی ٹوٹنے کا غم تھا۔ وہ شاک کے زیر اثر تھی۔
فارس بھی بہت غصے میں تھا۔

اس نے رانیہ کو فون کیا تو وہ اپنے کمرے میں صدمے سے نڈھال بیٹھی تھی۔
”رانیہ! تمہارے گھر والوں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔ ارے وہ تو یہ منگنی توڑنے کے لئے پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔ یہ فیصلہ اچانک نہیں ہوا۔ یہ فیصلہ تو انہوں نے پہلے ہی کرلیا تھا۔ میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ وہ لوگ تمہاری شادی کرنا ہی نہیں چاہتے۔ تمہاری شادی کی صورت میں وہ حویلی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ مجھے لالچی اور خودغرض کہتے ہیں، لالچی اور خودغرض تو وہ لوگ خود ہیں۔”
فارس کی آواز میں غصہ تھا۔ خلاف توقع وہ جیتی ہوئی بازی ہار گیا تھا۔ اُسے شکست کا احساس بھی تھا اور ذلت کا بھی۔
رانیہ اپنی جگہ مجبور تھی۔
”فارس ! تم نے اتنی جلد بازی سے کیوں کام لیا؟ تم اچھی طرح جانتے تھے کہ میری فیملی حویلی کے موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ پھر بی جان کو ایسی بات کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ باتیں شادی کے بعد میں بھی تو کی جاسکتی تھیں۔”
رانیہ نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
فارس نے درشت انداز میں اُسے ٹوک دیا۔
”وہ حویلی تمہاری ہے۔ اس کی مالک تم ہو… تم وہ حویلی اپنی تحویل میں لے سکتی ہو۔ اُسے بیچ سکتی ہو، اُسے نیلام کرسکتی ہو۔ جو چاہے کرسکتی ہو۔ تمہیں اپنے اختیارات اور اپنی طاقت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ آج تمہاری بزدلی نے مجھے بہت دکھ دیا ہے۔ تمہارے گھر والوں نے سب کے سامنے ہمیں ذلیل کیا اور تم چپ چاپ دیکھتی رہی۔”
وہ خفا سے انداز میں بولا۔ فارس کو رانیہ کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ رانیہ پر بھی غصہ تھا۔
”فارس میں نے انہیں روکنے کی کوشش کی تھی مگر کسی نے میری بات ہی نہیں سنی۔”
اس نے اپنی صفائی پیش کی۔ وہ ملول اور اداس ہوگئی۔ کسی کو اس کے دکھ کا احساس ہی نہیں تھا۔ ہر بندہ اسے ہی ڈانٹ رہا تھا۔ اسی کو باتیں سنا رہا تھا۔
”رہنے دو یہ بے کار کی وضاحتیں۔ اب تمہیں عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا۔ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم ہر حال میں میرا ساتھ دوگی۔ جو میں کہوں گا وہی کروگی۔”
وہ ذرا سنجیدہ ہوا اور رعب سے بولا۔
”اب کیا کرنا ہوگا مجھے۔”
وہ اس کی بات سمجھ نہیں سکی۔
”اس مسئلے کا ایک حل ہے میرے پاس۔”
اب کی بار اُس کا لہجہ اتنا درشت نہیں تھا۔
”کیا؟”
اس نے بے ساختہ پوچھا۔
”ہم کورٹ میرج کرلیتے ہیں۔”
اس نے گویا دھماکہ کیا۔
کورٹ میرج کا نام سنتے ہی رانیہ کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اس کے ہاتھ پائوں کانپنے لگے۔
”نہیں فارس، میں ایسا نہیں کرسکتی۔ اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتی ہوں۔”
وہ خوفزدہ انداز میں بولی۔
”تمہیں اپنے گھر والوں کے بارے میں نہیں، صرف اپنے اور میرے بارے میں سوچنا ہے۔ ایک بار ہمارا نکاح ہوجائے پھر کوئی کچھ نہیں کرسکے گا۔ پھر تمہارے گھر والوں کو ہماری شادی کے لئے ماننا ہی پڑے گا۔”
وہ اسے بہکا رہا تھا۔
وہ اس بات کے لئے کبھی راضی نہیں ہوسکتی تھی۔
”عجلت سے کام نہ لو فارس، مجھے تھوڑا وقت دو۔ میں امی اور جیمو ماموں سے دوبارہ بات کروں گی۔”
اس نے خوفزدہ انداز میں کہا۔فارس نہیں مانا۔
”وہ نہیں مانیںگے۔ تم سمجھ کیوں نہیں رہی؟ کورٹ میرج سے کیوں اتنا گھبرا رہی ہو؟ جب تم ساری دنیا کے سامنے تھیٹر ڈرامے کرسکتی ہو تو کورٹ میرج کرنا تمہارے لئے کون سا مشکل کام ہے!”
اُسے فارس کی بات سن کر صدمہ ہوا تھا۔ اس نے تو کبھی رانیہ کے تھیٹر میں کام کرنے کی مخالفت نہیں کی تھی پھر آج اس نے اسے اس بات کا طعنہ کیوں دے دیا تھا۔رانیہ کو لگا جیسے وہ کسی اجنبی سے بات کررہی ہے۔
”فارس! تھیٹر میرا شو ق ہے۔ کورٹ میرج کرنا کسی بھی لڑکی کا شو ق نہیں ہوسکتا۔ تھیٹر میں پرفارم کرنا ایک آرٹ ہے… ایک فن ہے۔ کیا آرٹ کی فیلڈ سے وابستہ لوگ گھر سے بھاگ کر شادیاں کرتے ہیں؟”
اس کے لہجے میں افسوس تھا۔ اسے فارس کی منطق سمجھ نہیں آئی تھی۔ فارس کے لئے تو جیسے اس کا دکھ اور صدمہ کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا تھا۔
”جب تم اپنی مرضی سے تھیٹر میں کام کرسکتی ہو تو اپنی مرضی سے جاکر شادی بھی کرسکتی ہو۔ تم کون سا گھر میں رہنے والی، ہانڈی چولہا کرنے والی چھوٹی موٹی لڑکی ہو جسے زمانے کی کچھ خبر ہی نہیں ہے۔ اب تمہیں کوئی فیصلہ کرنا ہی پڑے گا۔ کل صبح نو بجے میں تمہارے گھر کے باہر آجائوں گا۔ وہیں سے ہم کورٹ چلے جائیں گے۔ وکیل، گواہ، سب انتظامات میں کرلوں گا۔”
وہ اسی انداز میں بولا۔
اس کی باتیں تکلیف دہ تھیں۔
”نہیں، میںنہیں آسکتی فارس۔”
اس نے انکار کردیا ۔فارس نے اس کے انکار کو اہمیت نہیں دی۔
”کورٹ میرج سے کیوں اتنا گھبرا رہی ہو؟ لوگ کورٹ میرج کرتے ہی ہیں۔یہ کوئی انوکھی بات تو نہیں ہے۔ مجبور ہوتی ہے لوگوں کی۔ تمہیں تھوڑی سی ہمت کرنی پڑے گی۔ ایک بار میرا اور تمہارا نکاح ہوجائے پھر میں دیکھوں گا کہ تمہارے گھر والے کیسے حویلی پر قبضہ جمائے رکھتے ہیں۔”
وہ تلخ انداز میں بولا۔ اس کے لہجے میں رانیہ کے گھر والوں کے لئے بڑی نفرت اور حقارت تھی۔
”فارس… میری بات تو سنو۔”
رانیہ کے اوسان خطا ہونے لگے۔
اس نے تو کورٹ میرج کے بارے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
”کل صبح نو بجے۔”
حکیمہ انداز میں کہتے ہوئے اس نے فون بند کردیا۔ اس کے انداز میں کوئی لچک، کوئی گنجائش نہیں تھی۔ رانیہ کی آنکھوں سے چند آنسو بڑی خاموشی کے ساتھ نکلے۔ وہ شدید ذہنی دبائو اور ڈپریشن کا شکار ہورہی تھی۔ فارس نے غصے کے عالم میں اُسے جو طعنے دیئے تھے۔ ان کی تکلیف اتنی جلدی کم ہونے والی نہیں تھی۔ وہ تو فارس کو بہت روشن خیال شخص سمجھتی تھی اور اس کی روشن خیالی کی مثالیں دیا کرتی تھی۔ مگر آج فارس کے دیئے گئے طعنوں نے اُسے بہت دکھ دیا تھا۔
اوپر سے وہ اس سے کورٹ میرج کرنے کا مطالبہ بھی کررہا تھا۔ وہ کسی صورت اس کی یہ بات نہیں مان سکتی تھی۔
وہ کتنی ہی دیر اپنے کمرے میں بیٹھی روتی رہی۔ رات کو ماموں اس کے کمرے میں آئے۔
وہ اُنہیں آتا دیکھ کر اُٹھ کر بیٹھ گئی۔
عنایا خاموشی سے میز پر چائے کے کپ اور سینڈوچ رکھ کر چلی گئی۔ ماموں کرسی پر بیٹھ گئے۔
”میں نے سوچا کہ آج رانیہ کے ساتھ چائے پی جائے۔”
وہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ بولے پھر چائے کے کپ کی طرف اشارہ کیا۔
اس نے ناچاہتے ہوئے بھی چائے کا کپ اٹھالیا۔
بھوک، پیاس سے اس کا برا حال تھا۔
ماموں نے اصرار کرکے اسے سینڈوچ بھی کھلایا۔
اسے ڈھارس ملی کہ گھر والوں کے لئے وہ اتنی بھی غیر اہم نہیں تھی۔ ماموں خود چل کر اس کے کمرے میں آئے تھے۔ احترام کا تقاضا تھا کہ وہ ان کی بات سنتی اور بحث و مباحثہ نہ کرتی۔ اس گھر میں بزرگوں کی عزت و احترام کے کچھ اصول تھے۔
”سینڈوچ تو بہت ہی مزے دار ہیں۔ عنایا کے ہاتھ میں بڑا ذائقہ ہے۔”
وہ مسکرا کر بولے۔

وہ خاموشی سے سینڈوچ کھانے لگی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ یہ باتیں کرنے کے لئے نہیں آئے ہیں۔ یہ تو صرف تمہید ہے۔
پھر کچھ دیر بعد انہوں نے سنجیدگی سے اس بات کا آغاز کیا جس کے لئے وہ اس وقت یہاں آئے تھے۔
”رانیہ بیٹا! زندگی میں بہت سی چیزیں غیر متوقع ہوتی ہیں۔ انسان جن سے محبت کرتا ہے ان سے بچھڑ جاتا ہے۔ جو چاہتا ہے وہ حاصل نہیں کرپاتا۔مقد رکے فیصلوں کو آسانی سے قبول نہیں کرپاتا۔ مگر آسمان والے کے فیصلے زمین والوں کے فیصلوں سے کہیں بہتر ہوتے ہیں۔ اور اس کا احساس انسان کو وقت گزرنے کے ساتھ ہوتا ہے۔”
وہ اسے سمجھا رہے تھے۔ وہ رو رو کر تھک چکی تھی اور اب خاموشی سے چائے پی رہی تھی۔
”مجھے اپنی منگنی کے ٹوٹنے کا بہت دکھ ہے ماموں۔ آپ لوگوں نے میری مرضی، میری رائے کو اہمیت نہیں دی۔”
کچھ دیر بعد اس نے اُداس آواز میں کہا۔
”ہم تمہارے بزرگ ہیں۔ تمہارے لئے کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کریں گے۔ ہم پر اعتبار رکھو۔ فارس جیسا لالچی آدمی تمہیں کبھی خوشیاں نہیں دے سکتا۔ آج اس نے حویلی کا مطالبہ کیا ہے۔ کل کوئی اور مطالبہ کرکے دوبارہ تمہیں بلیک میل کرے گا۔ جن لوگوں کو دوسروں کی چیزوں پر قبضہ کرنے کی عادت پڑجائے وہ آہستہ آہستہ دوسروں کی سب چیزیں چھین لیتے ہیں۔”
ماموں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ رانیہ کے چہرے پر اداسی تھی۔
”مگر میں فارس کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کروں گی۔ یہ میرا فیصلہ ہے۔”
اس نے نظریں جھکائے ہوئے مدھم مگر سنجیدہ آواز میں کہا۔ ماموں کچھ دیر سوچتے رہے۔ آج انہیں رانیہ کی بے وقوفی پر دکھ ہوا تھا۔ فارس نے اسے ہپناٹائز کرلیا تھا اور وہ اس کے اثر سے باہر نہیں آنا چاہتی تھی۔
پھر انہوں نے چائے کا کپ آہستگی سے میز پر رکھا اور تفکر بھری سنجیدگی سے کہنے لگے۔
”رانیہ! کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی بوڑھی ماں کے بارے میں ضرور سوچنا جو پہلے ہی بلڈ پریشر کی مریض ہیں۔ ابھی تمہاری دونوں بہنوں عنایا اور ثمن کی شادی بھی ہونی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کوئی غلط فیصلہ ان دونوں کے مستقبل پر اثر انداز ہوجائے۔ جب تمہاری مامی کا انتقال ہوا تو ثمن اور ٹیپو بہت چھوٹے تھے۔میں نے بہت محنت سے ان کی پرورش کی۔ زندگی کے ساتھی کے بغیر اتنے سال گزار دیے۔ اپنے بچوں کے لئے قربانی دی کہ نجانے سوتیلی ماں آکر ان کے ساتھ کیا سلوک کرے۔ جب تک وہ سمجھدار نہیں ہوجاتے، میرا پورا وقت اور توجہ صرف میرے بچوں کے لئے ہی ہے۔ اپنے دکھ، غم اور تنہائی کے روگ کو زندہ دلی کی آڑ میں چھپا لیا۔ پھر میں نے اپنی بہن کو بیوگی کا دکھ جھیلتے دیکھا۔ وہ دن رات تمہاری اور عنایا کی فکر میں پریشان رہتیں۔ یہی سوچتی رہتیں کہ تم دونوں کی ذمہ داری تنہا کیسے اٹھائیں گی۔ پھر ہم دونوں بہن بھائی نے ایک دوسرے کے دکھ بانٹ لئے۔ ایک دوسرے کا بوجھ بانٹ لیا۔ جانے والوں کا دکھ تو ہمیشہ دل میں موجود رہتا ہے مگر تم لوگوں کے لئے ہم نے ہمیشہ یہی ظاہر کیا کہ ہم اپنے دکھ بھول چکے ہیں۔ اصل بات ہی قربانی دینے کی ہوتی ہے ۔ بیٹا جو لوگ قربانی دینا نہیں جانتے وہ کبھی محبت نہیں کرسکتے تم ایسا کوئی قدم نہ اٹھانا جس سے اس گھر کی عزت پر آنچ آئے۔”

Loading

Read Previous

چنبیلی کے پھول“ (قسط نمبر4)”

Read Next

چنبیلی کے پھول6 :قسط نمبر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!